Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہاجاتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ لوط بن ہارون بن آزر ۔ آپ کی ساری قوم میں سے ایک تو حضرت لوط ایمان لائے تھے اور ایک حضرت سارہ جو آپ کی بیوی تھی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کی بیوی صاحبہ کو اس ظالم بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے ذریعہ اپنے پاس بلوایا تو حضرت ابراہیم نے کہا تھا کہ دیکھو میں نے اپنا رشتہ تم سے بھائی بہن کا بنایا ہے تم بھی یہی کہنا کیونکہ اس وقت دنیا پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے تو ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی میاں بیوی ہمارے سوا ایماندار نہیں ۔ حضرت لوط آپ پر ایمان تو لائے مگر اسی وقت ہجرت کرکے شام چلے گئے تھے پھر اہل سدوم کی طرف نبی بناکر بھیج دئے گئے تھے جیسا کہ بیان گذرا اور آئے گا ۔ ہجرت کا ارادہ یا تو حضرت لوط علیہ السلام نے ظاہر فرمایا کیونکہ ضمیر کا مرجع اقرب تو یہی ہے ۔ یا حضرت ابراہیم نے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ۔ تو گویا حضرت لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنی قوم سے دست برداری کر لی اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ اور کسی جگہ جاؤں شاید وہاں والے اللہ والے بن جائیں ۔ عزت اللہ کی اس کے رسول کی اور مومنوں کی ہے ۔ حکمت والے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت اللہ کی ہے ۔ قتادۃ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کرکے شام کے ملک کی طرف گئے ۔ حدیث میں ہے کہ ہجرت کے بعد کی ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف ہوگی ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں زمین تھوک دے گی اور اللہ ان سے نفرت کرے گا انہیں آگ سورؤں اور بندروں کے ساتھ ہنکاتی پھرے گی ۔ راتوں کو دنوں کو انہی کیساتھ رہے گی ۔ اور ان کی جھڑن کھاتی رہے گی ۔ اور روایت میں ہے جو ان میں سے پیچھے رہ جائے گا اسے یہ آگ کھا جائے گی اور مشرق کی طرف سے کچھ لوگ میری امت میں ایسے نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا ان کے خاتمے کے بعد دوسرا گروہ کھڑا ہوگا ۔ یہاں تک کہ آپ نے بیس سے بھی زیادہ بار اسے دہرایا ۔ یہاں تک کہ انہی کے آخری گروہ میں سے دجال نکلے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کا بیان ہے کہ ایک زمانہ تو ہم پر وہ تھا کہ ہم ایک مسلمان بھائی کے لئے درہم ودینار کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے اپنی دولت اپنے بھائی کی ہی سمجھتے تھے پھر وہ زمانہ آیا کہ دولت ہمیں اپنے مسلم بھائی سے زیادہ عزیز معلوم ہونے لگی ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تم بیلوں کی دموں کے پیچھے لگ جاؤگے اور تجارت میں مشغول ہوجاؤگے اور اللہ کی راہ کاجہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردنوں میں ذلت کے پٹے ڈال دے گا جو اس وقت تک تم سے الگ نہ ہونگے جب تک کہ تم پھر سے وہیں نہ آجاؤ جہاں تھے اور تم توبہ نہ کرلو ۔ پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری اور فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ ہونگے جو قرآں پڑھیں گے اور بدعملیاں کریں گے قرآن ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان کے علم کو دیکھ کر تم اپنے علموں کو حقیر سمجھنے لگوگے ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے پس جب یہ لوگ ظاہر ہوں تو انہیں قتل کر دینا پھر نکلیں پھر مار ڈالنا پھر ظاہر ہوں پھر قتل کردینا ۔ وہ بھی خوش نصیب ہے جو ان کے ہاتھوں قتل کیا جائے اور وہ بھی خوش نصیب ہے جو انکو قتل کریں ۔ جب ان کے گروہ نکلیں گے اللہ انہیں برباد کردے گا پھر نکلیں گے پھر برباد ہوجائیں گے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بیس مرتبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بار یہی فرمایا ۔ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام نامی بیٹا دیا اور اسحاق علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام نامی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جب خلیل اللہ نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ نے آپ کو اسحاق اور یعقوب دیا اور ہر ایک کو نبی بنایا ۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ پوتا بھی آپ کی موجودگی میں ہوجائے گا اسحاق علیہ السلام بیٹے تھے اور یعقوب علیہ السلام پوتے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو اسحق کی اور اسحاق علیہ السلام کے پیچھے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی ۔ اور فرمایا کہ قوم کو چھوڑنے کے بدلے اللہ تمہارے گھر کی بستی یہ دے گا ۔ جس سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ پس ثابت ہوا کی حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ یہی سنت سے بھی ثابت ہے قرآن کی اور آیت میں ہے کہ تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب علیہ السلام موت کا وقت آیا تو وہ اپنے لڑکوں سے کہنے لگے تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے کہا آپ کی اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام کے والد کی جو یکتا ہے اور واحد لاشریک ہے بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام بن ابرہیم ہیں ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جو مروی ہے کہ اسحاق ویعقوب حضرت ابراہیم کے فرزند تھے اس سے مراد فرزند کے فرزند کو فرزند کہہ دینا ۔ یہ نہیں کہ صلبی فرزند دونوں تھے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو کہا ہے کہ ادنی آدمی بھی ایسی ٹھوکر نہیں کھاسکتا ۔ ہم نے انہی کی اولاد میں کتاب ونبوۃ رکھ دی ۔ خلیل کا خطاب انہیں کو ملا انہیں کہا گیا پھر ان کے بعد انہی کی نسل میں نبوت وحکمت رہی بنی اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ تک تو یہ سلسلہ یونوی چلا ۔ بنواسرائیل کے اس آخری پیغمبر نے اپنی امت کو صاف کہہ دیا کہ میں نے تمہیں نبی عربی قریشی ہاشمی خاتم الرسل سید اولاد آدم کی بشارت دیتا ہوں ۔ جنہیں اللہ نے چن لیا ہے آپ حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے ۔ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے آپ کے سوائے اور نبی نہیں ہوا ۔ علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔ ہم نے انہیں دنیا کے ثواب بھی دئیے اور آخرت کی نیکیاں بھی عطا فرمائیں ۔ دنیا میں رزق وسیع ، جگہ پاک ، بیوی نیک ، سیرت جمیل اور ذکر حسن دیا ساری دنیا کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ۔ باوجودیکہ اپنی اطاعت کی توفیق روز بروز اور زیادہ دی ۔ کامل اطاعت گزاری کی توفیق کے ساتھ دنیاکی بھلائیاں بھی عطا فرمائیں ۔ اور آخرت میں بھی صالحین میں رکھا ۔ جیسے فرمان ہے ابراہیم مکمل فرماں بردار تھے موحد تھے مشرکوں میں سے نہ تھے آخرت میں بھلے لوگوں کا ساتھی ہوا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی سدوم کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔ 262یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط (علیہ السلام) نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے لوط (علیہ السلام) کے لئے اپنے علاقے کو ٹی میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے، تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ سارہ تھیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] حضرت لوط حضرت ابراہیم کے چچازادہ بھائی تھے۔ دونوں ہی عراق کے شہر بابل کے رہنے والے تھے۔ جب حضرت ابراہیم آگ کے امتحان سے صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ اس وقت حضرت لوط نے ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت لوط پہلے مشرک تھے۔ کیونکہ نبیوں کی نبوت سے پہلی زندگی بھی اللہ کی مہربانی سے ایسی نجاستوں سے پاک و صاف ہوتی ہے۔ انبیاء کے علاوہ اور بھی کئی ایسے آدمی ہوتے ہیں جو شرک سے بیزار قلب سلیم رکھتے ہیں مگر انھیں صحیح رہنمائی نہیں ملتی۔ دور نبوی میں بھی آپ کی نبوت سے پہلے ایسے چھ آدمی موجود تھے۔- [ ٤١] مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ہجرت حضرت ابراہیم اور حضرت لوط دونوں نے مل کر کی تھی۔ اور یہ سفر ہجرت بابل سے فلسطین کی طرف تھا۔ اللہ کی حکمت اسی میں تھی کہ آپ وہاں چلے جائیں، اسی مقام پر حضرت لوط کو بھی نبوت ملی تو حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کو سدوم کے علاقے کی طرف بھیج دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ : ابراہیم (علیہ السلام) جب آگ سے صحیح سلامت باہر آئے اور انھوں نے یہ نصیحت کی تو لوط (علیہ السلام) فوراً ہی ان پر ایمان لے آئے اور ان کے تابع فرمان ہوگئے، ان کے سوا کوئی اور ان پر ایمان نہیں لایا۔ فوراً کا مفہوم ” فاء “ سے نکل رہا ہے۔- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ عام طور پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ” آمَنَ بِہِ “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ” آمَنَ لَہُ “ کا لفظ کسی کی بات کا اعتبار اور یقین کرنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا تھا : (وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ) [ یوسف : ١٧ ] ” اور تو ہرگز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔ “ تو یہاں ” آمَنَ لَہُ “ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے تو یہ دیا ہے کہ ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ” امَنَ بِہِ “ اور ” آمَنَ لَہُ “ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ جادوگروں کے ایمان لانے پر فرعون کا قول اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ ” امنتم لہ “ نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٧١) اور بعض جگہ ” امنتم بہ “ (دیکھیے اعراف : ١٢٣) ۔ اس لیے ” آمَنَ بِہِ “ اور ” آمَنَ لَہُ “ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ابن جزی صاحب التسہیل نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں ” آمَنَ “ کے ضمن میں ” اِنْقَادَ “ (مطیع ہوگیا) کا مفہوم داخل ہے، اس لیے اس کا صلہ ” لَہُ “ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ” تو اسی وقت لوط اس کے لیے تابع فرمان ہوگیا۔ “ مفسرین میں سے بعض نے لوط (علیہ السلام) کو ابراہیم کا بھانجا اور اکثر نے بھتیجا بیان کیا ہے، قابل یقین دلیل کسی نے بھی ذکر نہیں فرمائی، البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ لوط (علیہ السلام) ان کی قوم اور ان کے شہر کے آدمی تھے۔ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی پوری قوم میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا ہے تو ان سے ناامید ہو کر وہاں سے نکل پڑے، ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور لوط (علیہ السلام) بھی تھے، کچھ خبر نہ تھی کہاں جانا ہے، اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگے، میں تو وطن چھوڑ کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔ وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، وہی میری حفاظت کرے گا، مجھے غلبہ عطا کرے گا اور جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا مجھے لے جائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی قوم سے نجات دلا کر اپنی حفاظت میں خیریت اور سلامتی کے ساتھ سرزمین شام میں پہنچا دیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٧١] ” اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سر زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی ہے۔ “ قرآن مجید میں ارض مبارک سے مراد شام کی زمین ہوتی ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : ١) ان کے ہجرت کر جانے کے بعد قوم پر جو گزری اس کے لیے سورة انبیاء کی آیات (٧٤، ٧٥) کے حواشی دیکھیے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا، اس پر بھی جب یہ لوگ سرکشی سے باز نہ آئے تو ان پر مچھروں کا عذاب نازل ہوا۔ یہ مچھر ان لوگوں کا تو سب خون پی گئے، گوشت اور چربی سب کھا گئے، خالی ہڈیاں زمین پر گرپڑیں، مگر نمرود کے دماغ میں ایک مچھر چڑھ گیا جس کے سبب سے اس کے سر پر ایک مدت تک مار پڑتی رہی، اس ذلت کے بعد پھر وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ طبری نے یہ بات تابعی زید بن اسلم کے قول سے نقل کی ہے، جس کا اسرائیلی روایت ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس پر کسی صورت یقین نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اسے قرآن کی تفسیر میں بیان کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ” لا ریب کتاب “ کی تفسیر بھی ” لا ریب “ ذریعے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ اس حکایت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے کئی واعظ کئی سال تک اس مچھر کی وجہ سے نمرود کے سر پر جوتے مرواتے رہتے ہیں، حالانکہ مچھر بےچارے کی کل عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ مسلمان واعظین کی عجائب پسندی نے اس بات کو ایک مسلّمہ حقیقت بنادیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - ڎفَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ، حضرت لوط (علیہ السلام) ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کے بھانجے تھے، آتش نمرود میں ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر سب سے پہلے انہوں نے تصدیق کی۔ یہ اور آپ کی اہلیہ حضرت سارہ جو آپ کی چچا زاد بہن بھی تھیں اور مسلمان ہوچکی تھیں ان دونوں کو ساتھ لے کر ابراہیم (علیہ السلام) نے وطن سے ہجرت کا ارادہ کیا، ان کا وطن مقام کو ثا تھا، جو کوفہ کی ایک بستی ہے اور فرمایا اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ، یعنی میں وطن کو چھوڑ کر اپنے رب کی طرف جاتا ہوں۔ مراد یہ ہے کہ کسی ایسے مقام کی طرف جاؤں گا جہاں رب کی عبادت میں رکاوٹ نہ ہو۔ - حضرت نخعی اور قتادہ نے اِنِّىْ مُهَاجِرٌ کا قائل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ۝ ٠ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُہَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٢٦- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبدوهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلتا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔- هجر - والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . - ( ھ ج ر ) الھجر - المھاجر ۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عزیز - وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦) چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صرف حضرت لوط (علیہ السلام) نے تصدیق کی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو اپنے پروردگار کی اطاعت کے لیے علیحدہ چلا جاؤں گا چناچہ وہ حران سے فلسطین کی طرف ہجرت کر گئے بیشک وہ ان کو سزا دینے میں زبردست ہے اور حکمت والا ہے کہ اس نے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف دین کی حفاظت کی خاطر ہجرت کرنے کے کا حکم دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ ٧) ” - حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔- (وَقَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْط اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ” - اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ آپ ( علیہ السلام) کے پیچھے آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ اس بارے میں قرآن سے ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ واللہ اعلم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 44 ترتیب کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم آگ سے نکل آئے اور انہوں نے اوپر کے فقرے ارشاد فرمائے اس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوط تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ان کو ماننے اور ان کی پیروی اختیار کرنے کا اعلان کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر دوسرے بہت سے لوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیم کی صداقت کے قائل ہوگئے ہوں ۔ لیکن پوری قوم اور سلطنت کی طرف سے دین ابراہیم کے خلاف جس غضب ناک جذبے کا اظہار اس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا اسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ایسے خطرناک حق کو ماننے اور اس کا ساتھ دینے کی جرات نہ کرسکا ۔ یہ سعادت صرف ایک آدمی کے حصے میں آئی اور وہ حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط تھے جنہوں نے آخر کار ہجرت میں بھی اپنے چچا اور چچی ( حضرت سارہ ) کا ساتھ دیا ۔ یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے جسے رفع کردینا ضروری ہے ۔ ایک شخس سوال کرسکتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے حضرت لوط کافر و مشرک تھے اور آگ سے حضرت ابراہیم کے بسلامت نکل آنے کا معجزہ دیکھنے کے بعد انہیں نعمت ایمان میسر آئی؟ اگر یہ بات ہے تو کیا نبوت کے منصب پر کوئی ایسا شخص بھی سرفراز ہوسکتا ہے جو پہلے مشرک رہ چکا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے یہاں فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے حضرت لوط خداوند عالم کو نہ مانتے ہوں ، یا اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے ہوں ، بلکہ ان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے حضرت ابراہیم کی رسالت کی تصدیق کی اور ان کی پیروی اختیار کرلی ۔ ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو اس کے معنی کسی شخص کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے ہوتے ہیں ، ممکن ہے کہ حضرت لوط اس وقت ایک نو عمر لڑکے ہی ہوں اور اپنے ہوش میں ان کو پہلی مرتبہ اس موقع پر ہی اپنے چچا کی تعلیم سے واقف ہونے اور ان کی شان رسالت سے آگاہ ہونے کا موقع ملا ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 45 یعنی اپنے رب کی خاطر ملک چھوڑ کر نکلتا ہوں ، اب جہاں میرا رب لے جائے گا وہاں چلا جاؤں گا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 46 یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور میرے حق میں اس کا جو فیصلہ بھی ہوگا حکمت پر مبنی ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وطن یعنی عراق میں اُن پر حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی اِیمان نہیں لایا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی، لیکن بعد میں اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بھی پیغمبر بناکر سدوم اور عمورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا تھا۔ 12: مطلب یہ ہے کہ وطن چھوڑ کر اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جارہا ہوں۔