2 7 1یعنی حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے یعقوب (علیہ السلام) ہوئے، جن سے بنی اسرئیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیاء ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوا۔ 2 7 2اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتی کہ مشرکین بھی) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کے پیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہونگے ؟ 2 7 3یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہونگے۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر بھی بیان کیا گیا ہے
[ ٤٢] حضرت ابراہیم پر جتنے بھی ابتلاء کے دور آئے ان سب میں آپ کامیاب رہے جب ہجرت کی تو اس وقت تک آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ گھر بار اور وطن اور عزیز و اقارب چھوڑنے پر اللہ نے آپ کو اولاد عطا فرما دی کہ دل بہلا رہے۔ مزید یہ انعام فرمایا کہ نبوت آپ ہی خاندان سے مختص فرما دی۔ آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے آپ ہی نسل سے آئے۔ اسی لئے آپ کو ابو الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف آخری نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسماعیل کی اولاد سے مبعوث ہوئے باقی سب حضرت اسحاق بلکہ ان کے بیٹے حضرت یعقوب کی اولاد سے تھے۔ جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔- [ ٤٣] دنیا میں ایک تو یہ اجر دیا کہ نبوت کو ان کے خاندان سے مختص کردیا اور دوسرا اجر یہ دیا کہ آپ کو تمام لوگوں کا امام اور پیشوا بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ یہودیوں، عیسائیوں، مسلمانوں بلکہ اور بھی کئی مذاہب کے ہاں یکساں محترم ہیں حتیٰ کہ مکہ کے مشرکین بھی اپنے آپ کو انہی سے منسوب کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر مزید مہربانی یہ تھی کہ رہتی دنیا تک آپ کا ذکر خیر ان میں چھوڑ دیا۔ امت محمدیہ میں اس ذکر خیر کی صورت یہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنی ہر نماز میں آپ پر دورد پڑھے۔ اور آخرت میں آپ کو اعلیٰ درجہ کے صالحین (جو انبیائے اولوالعزم کی جماعت ہے) میں شامل کیا۔
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ : اس آیت میں ایک لطیف فائدہ ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ابراہیم (علیہ السلام) پر آنے والے تمام مشکل حالات کو ایسے بہترین حالات کے ساتھ بدل دیا جو پہلے حالات کے بالکل الٹ تھے، یعنی قوم نے انھیں توحید کی دعوت کی وجہ سے آگ میں پھینکا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سے خیریت و سلامتی کے ساتھ بچا لیا۔ وہ پوری قوم میں تنہا تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں انھیں اتنی اولاد عطا فرمائی جس سے دنیا بھر گئی۔ ان کے رشتے دار خود گمراہ اور مشرک تھے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے اور شرک کی دعوت دینے والے تھے، جن میں ان کا باپ آزر بھی تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان رشتہ داروں کے بدلے میں ایسے رشتہ دار دیے جو خود ہدایت یافتہ اور دوسروں کو ہدایت دینے والے تھے، یہ ان کی وہ اولاد تھی جن میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب رکھ دی۔ وہ اپنے وطن میں بےوطن تھے، تو اللہ تعالیٰ نے بابرکت زمین شام میں انھیں ٹھکانا عطا فرمایا۔ ان کے پاس مال و جاہ نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنا مال عطا فرمایا کہ وہ اچانک آنے والے چند مہمانوں کے لیے تھوڑی دیر میں بھنا ہوا بچھڑا لے آتے ہیں اور جاہ و مرتبہ اتنا عطا فرمایا کہ قیامت تک آخری رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود کے ساتھ ان پر بھی درود بھیجا جاتا رہے گا۔ ایک وقت تھا کہ وہ اپنی قوم میں اس قدر بےحیثیت تھے کہ انھیں ایک بےنام شخص سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ سورة انبیاء میں ہے : (قَالُوْا سَمِعْنَا فَـتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗٓ اِبْرٰهِيْمُ ) [ الأنبیاء : ٦٠ ] ” انھوں نے کہا ہم نے ایک جوان سنا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ “ اور دعوت توحید کی وجہ سے ان کی قوم ان کی دشمن تھی، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیامت تک آنے والوں میں ایسی لسان صدق (سچی شہرت اور ناموری) عطا فرمائی کہ اب کم ہی کوئی شخص ہوگا جو انھیں نہ جانتا ہو۔ یہودی ہوں یا عیسائی یا مسلمان سب ان سے محبت کرتے ہیں، ان کا ذکر اچھے سے اچھے طریقے سے کرتے ہیں اور ان کی طرف نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی اس بات کی بلا ریب شہادت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے کہیں بہتر چیز عطا کرتا ہے۔- وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ : یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد کے سوا کسی کو نبوت اور آسمانی کتاب نہیں دی گئی، جتنے انبیاء ہوئے ان کی اولاد سے ہوئے، اس لیے انھیں ابو الانبیاء کہا جاتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کا ایک سلسلہ اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کا ہے، جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے حضرات کو نبوت ملی۔ دوسرا سلسلہ اسماعیل (علیہ السلام) کا ہے جس میں آخری نبی سید ولد آدم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے۔ زمخشری نے یہاں ایک سوال ذکر کیا ہے کہ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) عطا فرمانے کا ذکر ہے، اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر نہیں، پھر خود ہی جواب دیا کہ یہاں ان کا اور سید الرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بھی ” وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ “ کے ضمن میں موجود ہے۔ بعض مفسرین نے یہاں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر صراحت کے ساتھ نہ کرنے میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس سورت میں شروع سے اہل ایمان کی آزمائش اور امتحان کا ذکر آرہا ہے، جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش کا ذکر بھی ہے، ان کی آزمائش کے ذکر کے بعد ان پر انعامات کا ذکر ہے، جن میں صراحت کے ساتھ اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا، کیونکہ آزمائش کے خاتمے پر بڑھاپے میں ان کا ملنا انعام ہی انعام تھا۔ اسماعیل (علیہ السلام) بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا انعام تھے، مگر ان کے ساتھ شدید قسم کے امتحانات بھی وابستہ تھے، مثلاً وادی غیر ذی زرع میں چھوڑنا، انھیں ذبح کرنے کا حکم دینا وغیرہ۔ اس لیے انعام کے تذکرے میں اس کا نام صراحت کے ساتھ ذکر نہیں فرمایا، اگرچہ نبوت و کتاب عطا کی جانے والی اولاد میں ان کا ذکر بھی فرما دیا۔ (واللہ اعلم)- اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا : اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا ذکر اس آیت کے فائدہ (١) میں گزرا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یعنی دنیا میں حق تعالیٰ نے مال، اولاد، عزت اور ہمیشہ کا نام دیا اور ملک شام ہمیشہ کے لیے ان کی اولاد کو بخشا۔ “ (موضح)- وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ : یعنی دنیا میں دیے جانے والے اجر سے ان کے آخرت کے درجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی، بلکہ انھیں صالحین میں شمولیت کا شرف عطا کیا گیا جس کے حصول کی دعا اللہ کے جلیل القدر پیغمبر بھی کرتے رہے، جیسے سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی : (وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ) [ النمل : ١٩ ] ” اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔ “ اور یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی : (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ ) [ یوسف : ١٠١ ] ” مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ “ اور عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے : ( مَا مِنْ نَبِيٍّ یَمْرَضُ إِلاَّ خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَکَانَ فِيْ شَکْوَاہُ الَّذِيْ قُبِضَ فِیْہِ أَخَذَتْہُ بُحَّۃٌ شَدِیْدَۃٌ فَسَمِعْتُہُ یَقُوْلُ : ( مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ) [ النساء : ٦٩ ] فَعَلِمْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( فاولٓئک مع الذین أنعم اللہ علیھم ۔۔ ) : ٤٥٨٦ ]” جو بھی نبی بیمار ہوتا ہے اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔ “ اور آپ جس بیماری میں فوت ہوئے آپ کو بہت سخت کھانسی ہوئی، تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے : ” ان لوگوں کے ساتھ (ملا دے) جن پر تو نے انعام کیا نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین میں سے۔ “ تو میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دے دیا گیا ہے۔ “ - 3 اس آیت میں دین حق کی خاطر صبر کرنے میں ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کی ترغیب ہے۔
کیونکہ اس کے بعد وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ تو یقینا انہی کا حال ہے اور بعض حضرات مفسرین نے اِنِّىْ مُهَاجِرٌ کو حضرت لوط (علیہ السلام) کا قول قرار دیا ہے، خلاصہ تفسیر کا ترجمہ اسی کے مطابق ہے، مگر سیاق کلام سے پہلی تفسیر راجح معلوم ہوتی ہے اور حضرت لوط (علیہ السلام) بھی اگرچہ اس ہجرت میں شریک ضرور تھے مگر جیسا حضرت سارہ کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تابع تھیں اسی طرح لوط (علیہ السلام) کی ہجرت کا ذکر مستقلاً نہ ہونا کچھ بعید نہیں۔- دنیا میں سب سے پہلی ہجرت :- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جن کو دین کے لئے ترک وطن اور ہجرت اختیار کرنا پڑی، ان کی یہ ہجرت پچھتر سال کی عمر میں ہوئی (یہ سب بیان قرطبی سے لیا گیا ہے۔ )- بعض اعمال کی جزاء دنیا میں بھی مل جاتی ہے :- وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا، یعنی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اللہ کی راہ میں قربانیوں اور دوسرے اعمال صالحہ کی جزاء دنیا میں بھی دے دی کہ ان کو تمام مخلوق میں مقبول و امام بنادیا، یہودی، نصرانی، بت پرست سبھی ان کی عزت کرتے ہیں اور اپنا مقتداء مانتے ہیں اور آخرت میں وہ صالحین اہل جنت میں سے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کی اصل جزاء تو آخرت میں ملے گی مگر اس کا کچھ حصہ دنیا میں بھی نقد دیا جاتا ہے، جیسا کہ احادیث معتبرہ میں بہت سے اچھے اعمال کے دنیوی فوائد اور برے اعمال کے دنیوی مفاسد کا بیان آیا ہے، ایسے اعمال کو سیدی حضرت حکیم الامت نے ایک مستقل رسالہ " جزا اعمال " میں جمع فرما دیا ہے۔
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰہُ اَجْرَہٗ فِي الدُّنْيَا ٠ ۚ وَاِنَّہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ٢٧- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
(٢٧) اور پھر ہم نے ان کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) (بیٹا) اور یعقوب (علیہ السلام) (پوتا) عنایت فرمایا اور ہم نے ان کی نسل کو نبوت و کتاب اور اولاد صالح کے ساتھ معزز فرمایا کہ ان کی نسل میں انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی ہوئے اور کتابیں بھی نازل ہوئیں اور ہم نے ان کا صلہ دنیا میں بھی اس طریقہ پر دیا اور آخرت میں بھی وہ بڑے درجے کے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ ہوں گے۔
(وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ ) ” - نبوت اور کتاب کی یہ وراثت ایک طویل عرصے تک حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل میں رہی اور پھر آخری نبوت اور آخری کتاب کی سعادت حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی اولاد کے حصے میں آئی۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد دنیا میں کوئی نبی یا رسول آپ ( علیہ السلام) کی نسل سے باہر نہیں آیا۔ لیکن آپ ( علیہ السلام) کی نسل دنیا میں کہاں کہاں پھیلی ؟ اس بارے میں ہمیں قطعی معلومات حاصل نہیں ہیں۔ تورات نے تو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے صرف ایک بیٹے یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسل (بنی اسرائیل) کے بارے میں معلومات کو محفوظ کیا ہے۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے ایک جڑواں بھائی ” عیسو “ کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے لیکن ان کی نسل کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں کہاں آباد ہوئی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی ” قطورہ “ سے بھی آپ ( علیہ السلام) کے بہت سے بیٹے تھے۔ ان میں سے آپ ( علیہ السلام) کے صرف ایک بیٹے کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے کہ وہ مدین میں آباد ہوئے تھے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کا تعلق ان ہی کی نسل سے تھا۔ لیکن ” بنی قطورہ “ میں سے باقی لوگ کدھر گئے کچھ معلوم نہیں۔- اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے عیسو کی اولاد میں سے کچھ لوگ ہندوستان میں آکر آباد ہوئے اور برہمن کہلوائے۔ میرے خیال میں یہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ نسلی تعلق کی بنا پر خود کو ” براہم “ یا ” براہما “ کہلواتے تھے۔ بعد میں اسی براہم یا براہما کا لفظ ” برہمن “ بن گیا۔ واللہ اعلم بہر حال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل دنیا میں کہاں کہاں پھیلی اور کس کس علاقے میں آباد ہوئی ‘ یہ انسانی تاریخ کا ایک اہم لیکن گمنام باب ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اعلیٰ پائے کا کوئی سکالر تحقیق کرکے اس موضوع کے گمنام گوشوں کو بےنقاب کرے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 47 حضرت اسحاق بیٹے تھے اور حضرت یعقوب پوتے ۔ یہاں حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ اولاد ابراہیم کی مدیانی شاخ میں صرف حضرت شعیب مبعوث ہوئے اور اسماعیلی شاخ میں سرکار رسالت مآب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ڈھائی ہزار سال کی مدت میں کوئی نبی نہیں آیا ۔ اس کے برعکس نبوت اور کتاب کی نعمت حضرت عیسی علیہ السلام تک مسلسل اس شاخ کو عطا ہوتی رہی جو حضرت اسحاق علیہ السلام سے چلی تھی ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 48 اس میں وہ تمام انبیاء آگئے جو نسل ابراہیمی کی سب شاخوں میں مبعوث ہوئے ہیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 49 مقصود بیان یہ ہے کہ بابل کے وہ حکمراں اور پنڈت اور پروہت جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو نیچا دکھانا چاہا تھا اور اس کے وہ مشرک باشندے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے ان ظالموں کی پیروی کی تھی ، وہ تو دنیا سے مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج دنیا میں کہیں ان کا نام و نشان تک باقی نہیں ۔ مگر وہ شخص جسے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے جرم میں ان لوگوں نے جلا کر خاک کردینا چاہا تھا اور جسے آخر کار بے سروسامانی کے عالم میں وطن سے نکل جانا پڑا تھا ، اس کو اللہ تعالی نے یہ سرفرازی عطا فرمائی کہ چار ہزار برس سے دنیا میں اس کا نام روشن ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ دنیا کے تمام مسلمان ، عیسائی اور یہودی اس خلیل رب العالمین کو بالاتفاق اپنا پیشوا مانتے ہیں ۔ دنیا کو ان چالیس صدیوں میں جو کچھ بھی ہدایت کی روشنی میسر آئی ہے اسی ایک انسان اور اس کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسر آئی ہے ۔ آخرت میں جو اجر عظیم اس کو ملے گا وہ تو ملے گا ہی ، مگر اس دنیا میں بھی اس نے وہ عزت پائی جو حصول دنیا کے پیچھے جان کھپانے والوں میں سے کسی کو آج تک نصیب نہیں ہوئی ۔