سب سے خراب عادت لوطیوں کی مشہور بدکرداری سے حضرت لوط انہیں روکتے ہیں کہ تم جیسی خباثت تم سے پہلے تو کوئی جانتاہی نہ تھا ۔ کفر ، تکذیب رسول ، اللہ کے حکم کی مخالفت تو خیر اور بھی کرتے رہے مگر مردوں سے حاجت روائی تو کسی نے بھی نہیں کی ۔ دوسری بد خلصت ان میں یہ بھی تھی کہ راستے روکتے تھے ڈاکے ڈالتے تھے قتل وفساد کرتے تھے مال لوٹ لیتے تھے مجلسوں میں علی الاعلان بری باتیں اور لغو حرکتیں کرتے تھے ۔ کوئی کسی کو نہیں روکتا تھا یہاں تک کہ بعض کا قول ہے کہ وہ لواطت بھی علی الاعلان کرتے تھے گویا سوسائٹی کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا ہوائیں نکال کر ہنستے تھے مینڈھے لڑواتے اور بدترین برائیاں کرتے تھے اور علی الاعلان مزے لے لے کر گناہ کرتے تھے ۔ حدیث میں ہے رہ چلتوں پر آوازہ کشی کرتے تھے ۔ اور کنکر پتھر پھینکتے رہتے تھے ۔ سیٹیاں بجاتے تھے کبوتربازی کرتے تھے ننگے ہوجاتے تھے ۔ کفر عنادسرکشی ضد اور ہٹ دھرمی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ نبی کے سمجھانے پر کہنے لگے جاجا پس نصیحت چھوڑ جن عذابوں سے ڈرارہا ہے انہیں تو لے آ ۔ ہم بھی تیری سچائی دیکھیں ۔ عاجز آکر حضرت لوط علیہ السلام نے بھی اللہ کے آگے ہاتھ پھیلادئیے کہ اے اللہ ان مفسدوں پر مجھے غلبہ دے میری مدد کر ۔
2 8 1اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط (علیہ السلام) نے سب سے پہلے کیا جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی لوط (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا، کیونکہ وہ ان پر ایمان لائے اور دونوں نے اکٹھے ہجرت کی۔ لوط (علیہ السلام) کے واقعہ کے لیے دیکھیے سورة اعراف (رکوع ١٠) ، حجر (رکوع ٤، ٥) ، انبیاء (رکوع ٥) ، شعراء (رکوع ٩) ، نمل (رکوع ٤) ، صافات (رکوع ٤) اور قمر (رکوع ٢) اور آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٠) اور نمل (٥٤، ٥٥) ۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں نہیں کیا، کیا تم مردوں سے برا فعل کرتے ہو، (وہ بےحیائی کا کام یہی ہے) اور (اس کے علاوہ دوسری نامعقول حرکتیں بھی کرتے ہو، مثلاً یہ کہ) تم ڈاکہ ڈالتے ہو (کذا فی الدر عن ابن زید) اور (غضب یہ ہے کہ) اپنی بھری مجلس میں نامعقول حرکت کرتے ہو (اور معصیت کا اعلان یہ خود ایک معصیت وقبح عقلی ہے) سو ان کی قوم کا (آخری) جواب بس یہ تھا کہ ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم (اس بات میں) سچے ہو (کہ یہ افعال موجب عذاب ہیں) لوط (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب مجھ کو ان مفسد لوگوں پر غالب اور ان کو عذاب سے ہلاک) کر دے اور (ان کی دعا قبول ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے عذاب کی خبر دینے کے لئے فرشتے معین فرمائے اور دوسرا کام ان فرشتوں کو یہ بتلایا گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کے تولد کی بشارت دیں چنانچہ) ہمارے (وہ) بھیجے ہوئے فرشتے جب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس (ان کے فرزند اسحاق کے تولد کی) بشارت لے کر آئے تو (اثنائے گفتگو میں جس کا مفصل بیان دوسرے موقع پر ہے قال فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ الخ) ان فرشتوں نے (ابراہیم (علیہ السلام) سے) کہا کہ ہم اس بستی والوں کو (جس میں قوم لوط آباد ہے) ہلاک کرنے والے ہیں (کیونکہ) وہاں کے باشندے بڑے شریر ہیں، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہاں تو لوط (علیہ السلام بھی موجود) ہیں (وہاں عذاب نہ بھیجا جائے کہ ان کو گزند پہنچے گا) فرشتوں نے کہا کہ جو جو وہاں (رہتے) ہیں ہم کو سب معلوم ہیں ہم ان کو اور ان کے خاص متعلقین کو (یعنی ان کے خاندان والوں کو اور جو مومن ہوں اس عذاب سے) بچا لیں گے (اس طرح سے کہ نزول عذاب کے قبل ان کو بستی سے باہر نکال لے جائیں گے) بجز ان کی بی بی کے کہ وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں سے ہوگی (جس کا ذکر سورة ہود اور سورة حجر میں گذر چکا ہے، یہ گفتگو تو ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوئی) اور (پھر وہاں سے فارغ ہوکر) جب ہمارے وہ فرستادے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے تو لوط (علیہ السلام) ان (کے آنے) کی وجہ سے ( اس لئے) مغموم ہوئے (کہ وہ بہت حسین جوانوں کی شکل میں آئے تھے اور لوط (علیہ السلام) نے ان کو آدمی سمجھا اور اپنی قوم کی نامعقول حرکت کا خیال آیا) اور (اس وجہ سے) ان (کے آنے) کے سبب تنگ دل ہوئے اور (فرشتوں نے جو یہ حال دیکھا تو) وہ فرشتے کہنے لگے (آپ کسی بات کا) اندیشہ نہ کریں اور نہ مغموم ہوں ( ہم آدمی نہیں ہیں بلکہ عذاب کے فرشتے ہیں، کقولہ تعالیٰ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ اور اس عذاب سے) ہم آپ کو اور آپ کے خاص متعلقین کو بچا لیں گے بجز آپ کی بی بی کے کہ وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں ہوگی (اور آپ کو مع متعلقین کے اس سے بچا کر) ہم اس بستی کے (بقیہ) باشندوں پر ایک آسمانی عذاب (یعنی اسباب طبعیہ غیر ارضیہ سے) ان کی بدکاریوں کی سزا میں نازل کرنے والے ہیں (چنانچہ وہ بستی الٹ دی گئی اور غیبی پتھروں سے سنگباری کی گئی) اور ہم نے اس بستی کے کچھ ظاہر نشان (اب تک) رہنے دیئے ہیں ان لوگوں (کی عبرت) کے لئے جو عقل رکھتے ہیں (چنانچہ اہل مکہ سفر شام میں ان ویران مقامات کو دیکھتے تھے اور جو اہل عقل تھے وہ منتفع بھی ہوتے تھے کہ ڈر کر ایمان لے آتے تھے۔ )- معارف و مسائل - وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ اس جگہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں کے تین سخت گناہوں کا ذکر کیا ہے، اول مرد کی مرد کے ساتھ بدفعلی دوسرے قطع طریق یعنی مسافروں پر ڈاکہ زنی، تیسرے اپنی مجلسوں میں اعلاناً سب کے سامنے گناہ کرنا۔ قرآن کریم نے اس تیسرے گناہ کی تعیین نہیں فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ ہر گناہ جو اپنی ذات میں گناہ ہے اگر اس کو علانیہ بےپروائی سے کیا جائے تو یہ دوسرا مستقل گناہ ہوجاتا ہے وہ کوئی بھی گناہ ہو، بعض ائمہ تفسیر نے اس جگہ ان گناہوں کو شمار کیا ہے جو یہ بےحیا اپنی مجلسوں میں سب کے سامنے کیا کرتے تھے، مثلاً راستہ چلتے لوگوں کو پتھر مارنا اور ان کا استہزاء کرنا جیسا کہ ام ہانی کی ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ جو بےحیائی ان کی مشہور تھی اس کو وہ کہیں چھپ کر نہیں کھلی مجلسوں میں ایک دوسرے کے سامنے کرتے تھے۔ العیاذ باللہ - جن تین گناہوں کا اس آیت میں ذکر ہے ان سب میں اشد پہلا گناہ ہے، جو ان سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا تھا اور جنگل کے جانور بھی اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ باتفاق امت یہ گناہ زنا سے زیاہ شدید ہے (کذا فی الروح)
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ ٠ ۡمَا سَبَقَكُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ٢٨- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔
(٢٨) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھی ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا ناپاک کام یعنی لواطت کرتے ہو کہ تم سے پہلے ایسا کام کسی نے دنیا میں جہان والوں میں نہیں کیا۔
آیت ٢٨ (وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَز مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ) ” - حضرت لوط (علیہ السلام) کو عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ ان شہروں کے لوگ آپ ( علیہ السلام) کی قوم میں سے نہیں تھے ‘ چناچہ آیت زیر نظر میں انہیں مجازاً آپ ( علیہ السلام) کی قوم (قَوْمِہٖ ) کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہی رہا ہے کہ کسی بھی قوم کی طرف رسول ہمیشہ اس قوم کے اندر سے مبعوث کیا جاتا رہا ہے۔ اس قاعدے اور قانون میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے حوالے سے یہ واحد استثناء ہے اور یہ استثناء بھی دراصل اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا حصہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جو کوئی بھی پیغمبر ہوگا وہ آپ ( علیہ السلام) کی قوم سے ہی ہوگا۔ یاد رہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 50 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف رکوع 10 ، ہود 7 ۔ الحجر 4 ۔ 5 ۔ الانبیاء 5 ۔ الشعراء 9 ۔ النمل 4 ۔ الصافات 4 ۔ القمر 2 ۔