Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331لوط (علیہ السلام) نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انھیں ہوگیا تو وہ زبردستی بےحیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہوگی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔ 332فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی اور غم ورنج کی کیفیت کو دیکھا تو انھیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٥٠] فرشتے وہاں حضرت ابراہیم سے رخصت ہو کر سیدھے حضرت لوط کے گھر آپہنچے۔ اب صرف انسانی شکل میں نہیں بلکہ بےریش خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ جو قوم لوط کے اوباش لوگوں کے لئے اپنے اندر کشش رکھتے تھے۔ ان کو دیکھ کر حضرت لوط کے دل میں سخت اضطراب پیدا ہوا۔ کہ اب یہ اوباش ان سے بھی وہی سلوک کرے گی جو مسافروں، مہمانوں اور راہ گیروں سے کیا کرتی ہے۔ فرشتوں نے حضرت لوط کے اس خوف اور خطرہ کو فوراً بھانپ لیا اور کہنے لگے۔ تمہارے ڈرنے اور غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔ اس مقام پر کچھ تفصیلات حذف کردی گئی ہیں۔ جو دوسرے مقامات پر ذکر کی گئی ہیں۔- [ ٥١] حضرت لوط اس علاقہ کے قدیمی باشندے نہیں تھے۔ بلکہ حضرت ابراہیم کے ہمراہ بابل سے ہجرت کرکے پہلے فلسطین آئے تھے پھر حضرت ابراہیم کے حکم سے یہاں بھیجے گئے تھے۔ لیکن آپ کی بیوی اسی بدمعاش قوم کی بیٹی تھی۔ نبی کی صحبت بھی اسے اپنی قوم اور بھائی بندوں کی عصبیت سے پاک نہ کرسکی۔ وہ نبی کے بجائے اپنے بھائی بندوں کا ساتھ دیتی تھی اور اگر حضرت لوط کے ہاں کوئی مہمان آتا تو یہ فوراً ان کو مخبری کردیتی تھی۔ وہ اپنے خاوند کے بجائے اپنے بھائی بندوں کی وفادار اور انہی کی ہمراز تھی۔ فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا : آپ کی دعا قبول ہوگئی، ہم آپ کو اس ظالم قوم سے نجات دلانے کے لئے آئے ہیں۔ تم یوں کرو کہ اپنے اہل خانہ اور ایماندار ساتھیوں کو ساتھ لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جاؤ۔ اور دیکھو تمہاری بیوی تمہارے ہمارے نہیں جائے گی۔ اور جب تم لوگ اس بستی سے نکلو تو اس طرح کہ تمہارے سب ہمراہی آگے ہوں اور تم ان کے پیچھے رہو۔ جیسے ہی انھیں چلا کر اس بستی سے اور لے جارہے ہو اور یہ بھی خیال رکھنا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی پلٹ کر پیچھے کی طرف نہ دیکھے۔ مبادا کہ عذاب کا کچھ حصہ اسے بھی پہنچ جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ۝ ٠ ۣ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَہْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۝ ٣٣- ساء - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- مولانا عبد الماجد دریا بادی رقمطراز ہیں :۔ ضاق بھم ذرعا۔ عربی محاورہ میں یہ ایسے موقعہ پر بولتے ہیں۔ جب شدت ناگواری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہو اور انسان عاجز آیا جا رہا ہو۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) چناچہ جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے وہ ان کے آنے کی اس وجہ سے مغموم اور غمزدہ ہوئے، یہ دیکھ کر جبریل امین (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ جو فرشتے تھے وہ حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ آپ ہمارے بارے میں کسی بات کا اندیشہ نہ کریں اور نہ آپ پریشان ہوں ہم آپ کو اور آپ کے خاص متعلقین کو بچا لیں گے سوائے آپ کی بیوی کے وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (وَلَمَّآ اَنْ جَآءَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا) ” - حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی کی اصل وجہ یہ تھی کہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کے روپ میں وارد ہوئے تھے اور حضرت لوط ( علیہ السلام) اپنی قوم کے اخلاق و کردار سے واقف تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 57 اس پریشانی اور دل تنگی کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے بہت خوبصورت نوخیز لڑکوں کی شکل میں آئے تھے ۔ حضرت لوط اپنی قوم کے اخلاق سے واقف تھے ، اس لیے ان کے آتے ہی وہ پریشان ہوگئے کہ میں اپنے ان مہمانوں کو ٹھہراؤں تو اس بدکردار قوم سے ان کو بچانا مشکل ہے اور نہ ٹھہراؤں تو یہ بڑی بے مروتی ہے جسے شرافت گوارا نہیں کرتی ۔ مزید برآں یہ اندیشہ بھی ہے کہ اگر میں ان مسافروں کو اپنی پناہ میں نہ لوں گا تو رات انہیں کہیں اور گزارنی پڑے گی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گویا میں نے خود انہیں بھیڑیوں کے حوالہ کیا ۔ اس کے بعد کا قصہ یہاں بیان نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کی تفصیلات سورہ ہود ، الحجر اور القمر میں بیان ہوئی ہیں کہ ان لڑکوں کی آمد کی خبر سن کر شہر کے بہت سے لوگ حضرت لوط کے مکان پر ہجوم کر کے آگئے اور اصرار کرنے کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بدکاری کے لیے ان کے حوالے کردیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 58 یعنی ہمارے معاملہ میں نہ اس بات سے ڈرو کہ یہ لوگ ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس بات کے لیے فکر مند ہو کہ ہمیں ان سے کیسے بچایا جائے ۔ یہی موقع تھا جب فرشتوں نے حضرت لوط پر یہ راز فاش کیا کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جنہیں اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ سورہ ہود میں اس کی تصریح ہے کہ جب لوگ حضرت لوط کے گھر میں گھسے چلے آرہے تھے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کسی طرح بھی اپنے مہمانوں کو ان سے نہیں بچا سکتے تو آپ پریشان ہوکر چیخ اٹھے کہ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْٓ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ ۔ کاش میرے پاس تمہیں ٹھیک کردینے کی طاقت ہوتی یا کسی زور آور کی حمایت میں پاسکتا ۔ اس وقت فرشتوں نے کہا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ ۔ اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ تم تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani