3 2 1یعنی ہمیں علم ہے کہ ظالم اور مومن کون ہیں اور اشرار کون ؟ 3 2 2یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی۔ اس لئے اسے بھی ہلاک کردیا گیا۔
[ ٤٩] اس خوشخبری کے بعد فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو بتلایا کہ دراصل ایک اور مہم پر بھیجے گئے ہیں۔ وہ جو سامنے بستی نظر آرہی ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسے تباہ و برباد کردیں۔ کیونکہ اس بستی کے باشندے اللہ کے نافرمان سرکش لوگ ہیں۔ فرشتوں نے جس طرف اشارہ کیا وہ وہی سدوم کا علاقہ تھا۔ جہاں خود حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کو تبلیغ کے لئے بھیجا تھا۔ لہذا وہ فوراً بول اٹھے۔ وہاں تو لوط بھی موجود ہیں۔ کیا تم اس کے وہاں ہوتے ہوئے اس بستی کو تباہ و برباد کردو گے۔ اس آیت میں تو اتنی ہی بات مذکور ہے۔ لیکن ایک دوسرے مقام پر (يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ 74ۭ ) 11 ۔ ھود :74) کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم نے فرشتوں سے پوری طرح بحث کی تھی کہ لوط کے علاوہ فلاں ایمان دار بھی وہاں موجود ہے۔ اور فلاں بھی۔ تو ان لوگوں کے ہوتے ہوئے تم کیونکر اس بستی کو ہلاک کردو گے ؟ فرشتوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ وہاں کون کون ایماندار موجود ہے۔ ہم پہلے ان کو بچانے کی صورت بنائیں گے۔ تب ہی اس بستی کو غارت کریں گے۔ البتہ لوط کے گھر والوں میں سے حضرت لوط کی بیوی بھی اس عذاب سے تباہ ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنے خاوند کی وفادار نہیں بلکہ خائن ہے۔ فرشتوں کے اس جواب سے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ اب اس بستی کی شامت آکے ہی رہے گی۔ دراصل وہ اپنی طبیعت کی نرمی کی وجہ سے چاہتے یہ تھے کہ اس ظالم قوم کو سنبھلنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے۔ مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا نزول طے ہوچکا تھا۔
قَالَ اِنَّ فِيْہَا لُوْطًا ٠ ۭ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِيْہَا ٠ ۪ۡ لَنُنَجِّيَنَّہٗ وَاَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ ٠ ۤۡ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ ٣٢- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- غبر - الْغَابِرُ : الماکث بعد مضيّ ما هو معه . قال :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] ، يعني : فيمن طال أعمارهم، وقیل : فيمن بقي ولم يسر مع لوط . وقیل : فيمن بقي بعد في العذاب، وفي آخر : إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] ، وفي آخر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60]- ( غ ب ر ) الغابر - اسے کہتے ہیں جو ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جائے چناچہ آیت کریمہ :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ کی تفسیر میں بعض نے اس سے پیغمبر کے مخالفین لوگ مراد لئے ہیں جو ( سدوم میں ) پیچھے رہ گئے تھے اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں گئے تھے بعض نے عذاب الہی میں گرفتار ہونیوالے لوگ مراد لئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک مقام پر :إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] بجز ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی ۔ اور دوسرے مقام پر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60] ، اس کے لئے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گی ۔
(٣٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا وہاں لوط بھی تو ہیں پھر وہاں والوں کو اے جبریل تم کیسے ہلاک کرو گے ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ہمیں کو سب معلوم ہے ہم ان کو اور ان کے خاص متعلقین جن میں ان کی دونوں صاحبزادیاں زاعورا اور ریثاء بھی ہیں بچالیں گے سوائے ان کی واعلہ نامی منافقہ بیوی کے کہ وہ عذاب میں رہنے والوں میں سے ہوگی۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 55 سورہ ہود میں اس قصے کا ابتدائی حصہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو حضرت ابراہیم فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھ کر ہی گھبرا گئے ، کیونکہ اس شکل میں فرشتوں کا آنا کسی خطرناک مہم کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے ۔ پھر جب انہوں نے آپ کو بشارت دی اور آپ کی گھبراہٹ دور ہوگئی اور آپ کو معلوم ہوا کہ یہ مہم قوم لوط کی طرف جارہی ہے تو آپ اس قوم کے لیے بڑے اصرار کے ساتھ رحم کی درخواست کرنے لگے فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْهُ الْبُشْرٰي يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ ۔ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ ۔ مگر یہ درخواست قبول نہ ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس معاملہ میں اب کچھ نہ کہو ، تمہارے رب کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ عذاب اب ٹلنے والا نہیں ہے ۔ يٰٓـــاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ ۚ وَاِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ ۔ اس جواب سے جب حضرت ابراہیم کو یہ امید باقی نہ رہی کہ قوم لوط کی مہلت میں کوئی اضافہ ہوسکے گا ، تب انہیں حضرت لوط کی فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے وہ بات عرض کی جو یہاں نقل کی گئی ہے کہ وہاں تو لوط موجود ہے ۔ یعنی یہ عذاب اگر لوط کی موجودگی میں نازل ہوا تو وہ اور ان کے اہل و عیال اس سے کیسے محفوظ رہیں گے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 56 اس عورت کے متعلق سورہ تحریم ( آیت 10 ، میں بتایا گیا ہے کہ یہ حضرت لوط کی وفادار نہ تھی ، اسی وجہ سے اس کے حق میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بھی ایک نبی کی بیوی ہونے کے باوجود عذاب میں مبتلا کردی جائے ۔ اغلب یہ ہے کہ حضرت لوط ہجرت کے بعد جب اردن کے علاقے میں آکر آباد ہوئے ہوں گے تو انہوں نے اسی قوم میں شادی کرلی ہوگی ۔ لیکن ان کی صحبت میں ایک عمر گزار دینے کے بعد بھی یہ عورت ایمان نہ لائی اور اس کی ہمدردیاں اور دلچسپیاں اپنی قوم ہی کے ساتھ وابستہ رہیں ۔ چونکہ اللہ تعالی کے ہاں رشتہ داریاں اور برادریاں کوئی چیز نہیں ہیں ، ہر شخص کے ساتھ معاملہ اس کے اپنے ایمان و اخلاق کی بنیاد پر ہوتا ہے ، اس لیے پیغمبر کی بیوی ہونا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوسکا اور اس کا انجام اپنے شوہر کے ساتھ ہونے کے بجائے اپنی اس قوم کے ساتھ ہوا جس کے ساتھ اس نے اپنا دین و اخلاق وابستہ کر رکھا تھا ۔