3 5 1یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبودار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں مگر کن کے لئے ؟ دانش مندوں کے لئے۔ 3 5 2اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب و عوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج و آثار کو دیکھتے ہیں کہ لیکن جو لوگ عقل و شعور سے بےبہرہ ہوتے ہیں، انھیں ان چیزوں سے کیا تعلق ؟ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبح کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انھیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل و دانش سے بےبہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔
[ ٥٣] اس بدبخت قوم پر سب قوموں سے سخت عذاب آیا تھا۔ پہلے فرشتوں نے اس پورے خطہ زمین کو اپنے پروں پر اٹھایا۔ پھر بلند پر لے جاکر اسے الٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔ اور اس زور سے زمین پردے مارا کہ سارا خطہ زمین کی سطح سے کافی نیچے دھنس گیا۔ پھر اس بدبخت قوم پر پتھر برسائے گئے۔ اور اب یہ سارا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ اور اس سمندر کا نام بحرسست یا بحیرہ مردار ہے۔ جس کی گہرائیوں میں یہ بدمعاشی قوم دفن کردی گئی تھی۔ اور یہ واقعہ نشانی اس لحاظ سے ہے کہ یہ علاقہ اس تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جو مکہ سے شام کو جاتی ہے اور کفار مکہ اسے اپنے تجارتی سفروں میں آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے کہ اس نافرمان اور بدمعاش اور سرکش قوم کا کیا حشر ہوا تھا۔
وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَآ اٰيَةًۢ بَيِّنَةً ۔۔ : کھلی نشانی سے مراد اس بستی کے وہ آثار ہیں جو اب تک باقی ہیں۔ یہ اس طرح ہوا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کی بستیوں کو زمین کی تہ سے اکھاڑا اور آسمان کے بادلوں تک اٹھا کر ان پر الٹا کر دے مارا ( جس سے وہ سارا خطہ زمین کی سطح سے کافی نیچے دھنس گیا) اور ان پر تہ بہ تہ کھنگر والے پتھروں کی بارش برسائی، جو رب تعالیٰ کی طرف سے نشان والے تھے۔ یہ واقعہ نشانی اس لحاظ سے ہے کہ یہ علاقہ اس تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جو مکہ سے شام کو جاتی ہے اور کفار مکہ اسے تجارتی سفروں میں آتے وقت اور جاتے وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے کہ اس حد سے گزرنے والی قوم کا انجام کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا تذکرہ سورة حجر (٧٦) اور سورة صافات (١٣٧) میں فرمایا ہے۔
وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْہَآ اٰيَۃًۢ بَيِّنَۃً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ٣٥- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(٣٥) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کے کچھ ظاہر نشان اب تک رہنے دیے ہیں ان لوگوں کی عبرت کے لیے جو اس چیز کو جانتے اور تصدیق کرتے ہیں کہ ان بدکاریوں کی وجہ سے ان لوگوں کیا انجام ہوا اور ایسے لوگوں کی وہ پیروی نہیں کرتے۔
آیت ٣٥ (وَلَقَدْ تَّرَکْنَا مِنْہَآ اٰیَۃًَم بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) ” - قوم لوط کی بستی کے کھنڈرات قریش کی تجارتی شاہراہ پر موجود تھے ‘ لہٰذا قرآن میں اہل مکہ کو بار بار مخاطب کر کے یاد دلایا گیا ہے کہ تم لوگ ان عذاب زدہ بستیوں کے کھنڈرات پر سے گزرتے ہو اور پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ہو اس کے علاوہ بحیرۂ مردار (جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے) بھی قوم لوط کی بربادی کی کھلی نشانی ہے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 59 اس کھلی نشانی سے مراد ہے بحیرہ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے ، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اس ظالم قوم پر اس کے کرتوتوں کی بدولت جو عذاب آیا تھا اس کی ایک نشانی آج بھی شاہراہ عام پر موجود ہے جسے تم شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں جاتے ہوئے شب و روز دیکھتے ہو ۔ وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ ( الحجر ) اور وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْهِمْ مُّصْبِحِيْنَ ۔ وَبِالَّيْلِ ۔ ( الصافات ) موجودہ زمانے میں یہ بات قریب قریب یقین کے ساتھ تسلیم کی جارہی ہے کہ بحیرہ مردار کا جنوبی حصہ ایک ہولناک زلزلہ کی وجہ سے زمین میں دھنس جانے کی بدولت وجود میں آیا ہے اور اسی دھنسے ہوئے حصے میں قوم لوط کا مرکزی شہر سدوم ( ) واقع تھا ۔ اس حصے میں پانی کے نیچے کچھ ڈوبی ہوئی بستیوں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں ۔ حال میں جدید آلات غوطہ زنی کی مدد سے یہ کوشش شروع ہوئی ہے کہ کچھ لوگ نیچے جاکر ان آثار کی جستجو کریں ۔ لیکن ابھی تک ان کوششوں کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ شعراء حاشیہ 114 ) سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 60 عمل قوم لوط کی شرعی سزا کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلدو دوم الاعراف ، حاشیہ 68 ۔
15: یعنی ان کی بستیوں کے کھنڈر آج بھی موجود ہیں، اور نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔