فساد نہ کرو اللہ کے بندے اور اس کے سچے رسول حضرت شعیب علیہ السلام نے مدین میں اپنی قوم کو وعظ کیا ۔ انہیں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کا حکم دیا ۔ انہیں اللہ کے عذابوں سے اور اس کی سزاؤں سے ڈرایا انہیں قیامت کے ہونے کا یقین دلاکر فرمایا کہ اس دن کے لئے کچھ تیاریاں کرلو اس دن کا خیال رکھو لوگوں پر ظلم وزیادتی نہ کرو اللہ کی زمین میں فساد نہ کرو برائیوں سے الگ رہو ۔ ان میں ایک عیب یہ بھی تھا کہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے لوگوں کے حق مارتے تھے ڈاکے ڈالتے تھے راستے بند کرتے تھے ساتھ ہی اللہ اور اس کے رسول سے کفر کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر کی نصیحتوں پر کان تک نہ دھرا بلکہ انہیں جھوٹا کہا اس بنا پر ان پر عذاب الٰہی برس پڑا سخت بھونچال آیا اور ساتھ ہی اتنی تیز وتند آواز آئی کہ دل اڑ گئے اور روحیں پرواز کر گئیں اور گھڑی کی گھڑی میں سب کا سب ڈھیر ہوگیا ۔ ان کا پورا قصہ سورۃ اعراف سورۃ ہود اور سورۃ شعراء میں گزرچکاہے ۔
3 6 1مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑگیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلے مدین کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط (علیہ السلام) کی بستی کے قریب تھا۔ 3 6 2اللہ کی عبادت کے بعد، انھیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لئے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لئے کہ وہ اسے فراموش کئے ہوئے تھے اور مستیوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فرا موش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔ 3 6۔ 3ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں انھیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔
[٥٤] حضرت شعیب اہل مدین کی طرف بھی مبعوث ہوئے تھے اور اصحاب ایکہ کی طرف بھی۔ اور یہ دونوں علاقے آس پاس تھے۔ شعیب نے پہلی بات یہی کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور شرک ایسا مرض ہے جو تمام انبیاء کی قوموں میں پایا جاتا ہے۔ شیطان ہر دور میں انسان کی شرک کی نئی سے نئی شکلیں سمجھاتا رہتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ خالص اللہ کی عبادت سے برگشتہ کرکے کسی نہ کسی طرح کے شرک میں مبتلا کردے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی دعوت کا بھلا قدم یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو شرک کی نجاستوں سے لوگوں کو مطلع کریں۔ اور انھیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں۔- [٥٥] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آخرت کے دن پر ایمان لاؤ وہ یقیناً آنے والا ہے۔ جس میں تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اگر تم خالصتاً اللہ کی عبادت کرو گے۔ تو تمہیں آخرت کے دن اس کے اچھے اجر کی توقع رکھنا چاہئے۔- [٥٦] اہل مدین کا فساد فی الارض یہ تھا کہ وہ اپنے لین دین کے معاملات دغا بازیاں کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی بیشی کرنے کے فن میں خوب ماہر تھے اور اس طرح دوسرے لوگوں کے حقوق پر ضدبانہ ڈاکے ڈالتے تھے۔
وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۔۔ : ان آیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (رکوع ١١) اور سورة ہود (رکوع ٨) ” وَارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ “ ” رَجَاءٌ“ کا معنی امید ہے، یہ خوف کے معنی میں بھی آتا ہے، کیونکہ امید اور خوف لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی آخرت کے آنے کی امید رکھو، یہ نہ سمجھو کہ زندگی بس دنیا ہی کی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ آخرت کے دن کی امید رکھو کہ اس میں تمہارے نیک اعمال کا پورا بدلا ملے گا۔
خلاصہ تفسیر - اور مدین والوں کے پاس ہم نے ان (کی برادری) کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا سو انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو (اور شرک چھوڑ دو ) اور روز قیامت سے ڈرو (اور اس کے انکار سے باز آؤ) اور سر زمین میں فساد مت پھیلاؤ (یعنی حقوق اللہ و حقوق العباد کو ضائع مت کرو، کیونکہ یہ لوگ کفر و شرک کے ساتھ کم ناپنے کم تولنے کے بھی خوگر تھے، جس سے فساد پھیلنا ظاہر ہے) سو ان لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا پس زلزلہ نے ان کو آپکڑا، پھر وہ اپنے گھروں میں گھر کر رہ گئے۔ اور ہم نے عاد وثمود کو بھی (ان کے عناد و خلاف کی وجہ سے) ہلاک کیا اور یہ ہلاک ہونا تم کو ان کے رہنے کے مقامات سے نظر آ رہا ہے (کہ ان کی ویران بستیوں کے کھنڈرات ملک شام کو جاتے ہوئے تمہارے راستہ پر ملتے ہیں) اور (حالت ان کی یہ تھی کہ) شیطان نے ان کے اعمال (بد) کو ان کی نظر میں مستحسن کر رکھا تھا اور (اس ذریعہ سے) ان کو راہ (حق) سے روک رکھا تھا اور وہ لوگ (ویسے) ہوشیار تھے (مجنون و بیوقوف نہ تھے، مگر اس جگہ انہوں نے اپنی عقل سے کام نہ لیا) اور ہم نے قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (ان کے کفر کے سبب) ہلاک کیا اور ان (تینوں) کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کھلی دلیلیں (حق کی) لے کر آئے تھے، پھر ان لوگوں نے زمین میں سرکشی کی اور ہمارے (عذاب سے) بھاگ نہ سکے تو ہم نے (ان پانچوں میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کی سزا میں پکڑ لیا، سو ان میں بعضوں پر تو ہم نے سخت ہوا بھیجی (مراد اس سے قوم عاد ہے) اور ان میں بعضوں کو ہولناک آواز نے آدبایا (مراد اس سے قوم ثمود ہے، لقولہ تعالیٰ فی سورة ہود، وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ ) اور ان میں بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا (مراد اس سے قارون ہے) اور ان میں بعض کو ہم نے (پانی میں) ڈبو دیا (مراد اس سے فرعون و ہامان ہے) اور (ان لوگوں پر جو عذاب نازل ہوئے تو) اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا (یعنی بلاوجہ سزا دیتا جو ظاہراً مشابہ ظلم کے ہے گو واقع میں بوجہ اپنی ملک میں تصرف کرنے کے یہ بھی ظلم نہ تھا۔ غارت ہوئے تو اپنا ضرر خود کیا) جن لوگوں نے خدا کے سوا اور کار ساز تجویز کر رکھے ہیں ان لوگوں کی مکڑی کی سی مثال ہے جس نے ایک گھر بنایا اور کچھ شک نہیں کہ سب گھروں میں زیادہ بودا مکڑی کا گھر ہوتا ہے، (پس جیسا اس مکڑی نے اپنے زعم میں ایک اپنی جائے پناہ بنائی ہے۔ مگر واقع میں وہ پناہ انتہائی کمزور ہونے کے سبب کالعدم ہے، اسی طرح یہ مشرک لوگ معبودات باطلہ کو اپنے زعم میں اپنی پناہ سمجھتے ہیں مگر واقع میں وہ پناہ کچھ نہیں ہے) اگر وہ (حقیقت حال کو) جانتے تو ایسا نہ کرتے (یعنی شرک نہ کرتے، لیکن وہ نہ جانیں تو کیا ہوا) اللہ تعالیٰ (تو) ان سب چیزوں (کی حقیت اور ضعف) کو جانتا ہے جس جس کو وہ لوگ خدا کے سوا پوج رہے ہیں (پس وہ چیزیں تو نہایت ضعیف ہیں) اور وہ (خود یعنی اللہ تعالی) زبردست حکمت والا ہے (جس کا حاصل قوت علمیہ و عملیہ میں کامل ہونا ہے) اور (چونکہ ہم ان چیزوں کی حقیت کو جانتے ہیں اسی لئے) ہم ان (قرآنی) مثالوں کو (جس میں سے ایک مثال اس مقام پر مذکور ہے) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے بیان کرتے ہیں اور (ان مثالوں سے چاہئے تھا کہ ان لوگوں کا جہل علم سے بدل جاتا مگر) ان مثالوں کو بس علم والے ہی سمجھتے ہیں (خواہ بالفعل عالم ہوں یا انجام کے اعتبار سے، یعنی علم اور حق کے طالب ہوں اور یہ لوگ عالم بھی نہیں طالب بھی نہیں، اس لئے جہل میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیکن ان کے جہل سے حق حق ہی رہے گا جس کو خدا جانتا ہے اور اپنے بیان سے ظاہر فرماتا ہے، پس غیر اللہ کا مستحق عبادت نہ ہونا تو ثابت ہوا۔ آگے اللہ تعالیٰ کے مستحق عبادت ہونے کی دلیل ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مناسب طور پر بنایا ہے، (چنانچہ وہ بھی تسلیم کرتے ہیں) ایمان والوں کے لئے اس میں (اس کے استحقاق عبادت کی) بڑی دلیل ہے۔
وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا ٠ ۙ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ ٣٦- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، - اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) - عثی - العَيْثُ والعِثِيُّ يتقاربان، نحو : جَذَبَ وجَبَذَ ، إلّا أنّ العَيْثَ أكثر ما يقال في الفساد الذي يدرک حسّا، والعِثِيَّ فيما يدرک حکما . يقال : عَثِيَ يَعْثَى عِثِيّاً «4» ، وعلی هذا : وَلا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [ البقرة 60] ، وعَثَا يَعْثُو عُثُوّاً ، والأَعْثَى: لونٌ إلى السّواد، وقیل للأحمق الثّقيل : أَعْثَى.- ( ع ث ی ) العثي - والعثی سخت فساد پیدا کرنا ) بھی جذاب اور جیذ کی طرح تقریبا ہم معنی ہی میں لیکن عیث کا لفظ زیادہ تر فساد حسی کے لئے بولا جاتا ہے اور العثی کا حکمی یعنی ذہنی اور فسکر ی فساد کے لئے آتا ہے کہا جاتا ہے ۔ عثی یعثی عثیا چناچہ اسی سے قرآن میں ہے ولا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [ البقرة 60] اور ملک میں فساد اور انتشار پیدا نہ کرو ۔ اور عثا یعثوا عثوا باب نصر سے ) بھی آتا ہے اور الاعلٰی سیاہی مائل اور سست نیز احمق آدمی کو بھی اعثی کہا جاتا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔
(٣٦) اور ہم نے مدین والوں کے پاس شعیب (علیہ السلام) کو نبی بناکر بھیجا سو انھوں نے فرمایا توحید خداوندی کا اقرار کرو اور قیامت کے دن سے ڈرو اور سر زمین میں فساد اور بدکاریاں مت کرو۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 61 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، رکوع 11 ۔ ہود 8 ۔ الشعراء 10 ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 62 اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ آخرت کے آنے کی توقع رکھو ، یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزا و سزا پانا ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ کام کرو جس سے تم آخرت میں انجام بہتر ہونے کی امید کرسکو ۔