Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

371حضرت شعیب (علیہ السلام) کے وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل (علیہ السلام) کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] یعنی شعیب کی نبوت کو، آپ کی دعوت کو اور اس وعدے کو بھی جھٹلا دیا کہ اگر تم اپنی ان بداعمالیوں سے باز نہ آئے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِہِمْ جٰثِمِيْنَ۝ ٣٧ ۡ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- رجف - الرَّجْفُ : الاضطراب الشدید، يقال : رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر، وبحر رَجَّافٌ. قال تعالی: يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات 6] ، يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] ، فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف 78] ، والإِرْجَافُ : إيقاع الرّجفة، إمّا بالفعل، وإمّا بالقول، قال تعالی: وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ويقال : الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن .- ( ر ج ف ) الرجف ( ن ) اضطراب شدید کو کہتے ہیں اور رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر کے معنی زمین یا سمندر میں زلزلہ آنا کے ہیں ۔ بحر رَجَّافٌ : متلاطم سمندر ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] جب کہ زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات 6] جب کہ زمین لرز جائے گی فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف 78] پس ان کو زلزلہ نے پالیا ۔ الارجاف ( افعال ) کوئی جھوٹی افواہ پھیلا کر یا کسی کام کے ذریعہ اضطراب پھیلانا کے ہیں قران میں ہے : ۔ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَة اور جو لوگ مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . کہ جھوٹی افوا ہیں فتنوں کی جڑ ہیں ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - جثم - فَأَصْبَحُوا فِي دارِهِمْ جاثِمِينَ [ الأعراف 78] ، استعارة للمقیمین، من قولهم : جَثَمَ الطائرُ إذا قعد ولطئ بالأرض، والجُثْمَان : شخص الإنسان قاعدا،.- ( ج ث م ) جثم - ( ض ن ) جثما وجثوما ۔ الطائر پرندے کا زمین پر سینہ کے بل بیٹھنا اور اس کے ساتھ چمٹ جانا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر فرمایا : ۔ فَأَصْبَحُوا فِي دارِهِمْ جاثِمِينَ [ الأعراف 78] اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔ الجثمان بیٹھے ہوئے انسان کا شخص ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) سو ان لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا نتیجہ یہ ہوا کہ زلزلے کے عذاب نے ان کو آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ گر کر رہ گئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 63 یعنی اس بات کو تسلیم نہ کیا کہ حضرت شعیب اللہ کے رسول ہیں ، اور یہ تعلیم جو وہ دے رہے ہیں یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، اور اس کو نہ ماننے کا نتیجہ انہیں عذاب الہی کی شکل میں بھگتنا ہوگا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 64 گھر سے مراد وہ پورا علاقہ ہے جس میں یہ قوم رہتی تھی ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک پوری قوم کا ذکر ہورہا ہو تو اس کا گھر اس کا ملک ہی ہوسکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: دیکھئے سورۂ اعراف : 84 اور سورۃ ہود : 83