Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احقاف کے لوگ عادی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھے ۔ احقاف میں رہتے تھے جو یمن کے شہروں میں حضرموت کے قریب ہے ۔ ثمودی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے لوگ تھے ۔ یہ حجر میں بستے تھے جو وادی القریٰ کے قریب ہے ۔ عرب کے راستے میں ان کی بستی آتی تھی جسے یہ بخوبی جانتے تھے ۔ قارون ایک دولت مند شخص تھا جس کے بھرپور خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت کی جماعت اٹھاتی تھی ۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور ہامان اسکا وزیر اعظم تھا ۔ اسی کے زمانے میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نبی ہو کر اس کی طرف بھیجے گئے ۔ یہ دونوں قبطی کافر تھے جب ان کی سرکشی حد سے گذر گئی اللہ کی توحید کے منکر ہوگئے رسولوں کو ایذائیں دیں اور ان کی نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا ۔ عادیوں پر ہوائیں بھیجیں ۔ انہیں اپنی قوت وطاقت کا بڑا گھمنڈ تھا کسی کو اپنے مقابلے کا نہ جانتے تھے ۔ ان پر ہوا بھیجی جو بڑی تیز وتند تھی جو ان پر زمین کے پتھر اڑا اڑا کر برسانے لگی ۔ بالآخر زور پکڑتے پکڑتے یہاں تک بڑھ گئی کہ انہیں اچک لے جاتی اور آسمان کے قریب لے جاکر پھر گرا دیتی ۔ سر کے بل گرتے اور سر الگ ہوجاتا دھڑ الگ ہوجاتا اور ایسے ہوجاتے جیسے کجھور کے درخت جس کے تنے الگ ہوں اور شاخیں جدا ہوں ۔ ثمودیوں پر حجت الٰہی پوری ہوئی دلائل دے دئیے گئے ان کی طلب کے موافق پتھر میں سے ان کے دیکھتے ہوئے اونٹنی نکلی لیکن تاہم انہیں ایمان نصیب نہ ہوا بلکہ طغیانی میں بڑھتے رہے ۔ اللہ کے نبی کو دھمکانے اور ڈرانے لگے اور ایمانداروں سے بھی کہنے لگے کہ ہمارے شہر چھوڑ دو ورنہ ہم تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ انہیں ایک چیخ سے پارہ پارہ کردیا ۔ دل ہل گئے کلیجے اڑگئے اور سب کی روحیں نکل گئیں ۔ قارون نے سرکشی اور تکبر کیا ۔ طغیانی اور بڑائی کی رب الاعلیٰ کی نافرمانی کی زمین میں فساد مچا دیا ۔ اکڑ اکڑ کر چلنے لگا اپنے ڈنٹر بل دیکھنے لگا اترانے لگا اور پھولنے لگا ۔ پس اللہ نے اسے مع اس کے محلات کے زمین دوز کردیا جو آج تک دھنستاچلاجارہا ہے ۔ فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو صبح ہی صبح ایک ساتھ ایک ہی ساعت میں دریا برد کر دیا ۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچا جو ان کا نام تو کبھی لیتا ۔ اللہ نے یہ جو کچھ کیا کچھ ان پر ظلم نہ تھا بلکہ ان کے ظلم کا بدلہ تھا ۔ ان کے کرتوت کا پھل تھا ان کی کرنی کی بھرنی تھی ۔ یہ بیان یہاں بطور لف ونشر کے ہے ۔ اولا جھٹلانے والی امتوں کا ذکر ہوا ہے پھر ان میں سے ہر ایک کو عذابوں سے ہلاک کرنیکا ۔ کسی نے کہا کہ سب سے پہلے جن پر پتھروں کا مینہ برسانے کا ذکر ہے ان سے مراد لوطی ہیں اور غرق کی جانے والی قوم قوم نوح ہے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ ابن عباس سے یہ مروی تو ہے لیکن سند میں انقطاع ہے ۔ ان دونوں قوموں کی حالت کا ذکر اسی صورت میں بہ تفصیل بیان ہوچکاہے ۔ پھر بہت سے فاصلے کے بعد یہ بیان ہوا ہے ۔ قتادۃ سے یہ بھی مروی ہے کہ پتھروں کا مینہ جن پر برسایا گیا ان سے مراد لوطی ہیں اور جنہیں چیخ سے ہلاک کیا گیا ان سے مراد قوم شعیب ہے لیکن یہ قول بھی ان آیتوں سے دور دراز ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381قوم عاد کی بستی احقاف، حضرموت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آجکل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لئے یہ بستیاں ان کے لئے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔ 382یعنی تھے وہ عقلمند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لئے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] قوم عاد (اولی) کا وطن پورا جنوبی عرب تھا یعنی یمن، حضرموت اور احقاف کا علاقہ اور ثمود کا علاقہ شمالی عرب تھا۔ ان دونوں علاقوں کی تاریخ سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ پھر وہ ان کی تباہ شدہ بستیاں دیکھتے بھی رہتے تھے۔- [٥٩] یعنی وہ دنیا کے کاموں میں بڑے ہوشیار اور فنکار تھے۔ اپنے اپنے دور کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں تھیں۔ سجھدار تھے۔ طاقتور تھے اور بالخصوص سنگ تراش کے فن یدطولی رکھتے تھے۔ لیکن اللہ کے معاملہ میں شیطان نے ان کی مت مار دی تھی۔ جیسا کہ آج کل عیسائی اقوام کے محققین جب تحقیق و تنقید کے میدان میں اترتے ہیں تو بال کی کھال اتار کے رکھ دیتے ہیں۔ مگر عقیدہ تثلیث کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کا وقت آتا ہے تو بات گول کر جاتے ہیں اور ان کی عقلیں جواب دے جاتی ہیں۔ پھر بھی اسی پر اصرار کرتے جاتے ہیں یا جیسے آج کل کے ماہرین فلکیات اس جو بڑی سے بڑی طاقتور دوربینوں سے اجرام فلکی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان میں بعض علمائے ہیئت کی تو ایسے مت ماری جاتی ہے کہ ایک طرف تو کائنات کے اس مربوط و منظم نظم پر حیرت استعجاب کا اظہار کرتے ہیں جگر دوسری طرف یہ سب کچھ اتفاقات کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ اپنے انہی موہوم قیاسات کو علمی تحقیق کے خوبصورت نام سے دوسروں کے سامنے پیس کرتے ہیں۔ عاد اور ثمود کے محققین بھی کچھ ایسے ہی لوگ تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ ۔۔ :” من “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” ان کے رہنے کی کچھ جگہیں تمہارے سامنے آچکی ہیں “ ظاہر ہے کہ ان کے شہر اور آبادیاں تو اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد ہوچکی تھیں، مگر ان کے آثار اور بچے کھچے کچھ گھر عبرت کے سامان کے طور پر باقی تھے۔ عاد اور ثمود دونوں قومیں جن علاقوں میں آباد تھیں وہ معروف شاہراہوں پر واقع تھے اور عرب کے تمام لوگ ان سے واقف تھے۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اب احقاف، یمن اور حضر موت کے نام سے معروف ہے، قوم عاد کا مسکن تھا اور حجاز کے شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیماء اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے۔ جس زمانے میں قرآن اترا ہے یقیناً اس وقت وہ آثار اور زیادہ نمایاں ہوں گے۔- وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ : ” أَبْصَرَ یُبْصِرُ “ دیکھنا، صاحب بصیرت ہونا۔ ” اِسْتَبْصَرَ یَسْتَبْصِرُ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا، یعنی وہ بہت بصیرت والے، نہایت سمجھ دار تھے، مگر ان کی ساری بصیرت اور ساری سمجھ داری دنیا تک محدود تھی۔ دنیا کے کاموں میں بڑے ہوشیار اور فنکار تھے، اپنے دور کے نہایت ترقی یافتہ اور طاقت ور لوگ تھے۔ لیکن شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے ایسے خوش نما بنائے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کی مت مار دی اور آخرت سے مکمل طور پر بیگانہ کردیا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اکثر لوگوں کا یہی حال بیان فرمایا ہے : (وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ښ وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ) [ الروم : ٦، ٧ ] ” اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ دنیا کی زندگی میں سے ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے، وہی غافل ہیں۔ “ ان آیات کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔- بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ بہت سمجھ دار تھے، بڑے صاحب بصیرت تھے، انھیں خوب علم تھا کہ پیغمبر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے، مگر وہ اپنی لذتوں میں ایسے غرق تھے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال ایسے مزین کردیے تھے کہ وہ جاننے بوجھنے کے باوجود اپنی لذتیں چھوڑ کر راہ حق پر آنے کے لیے تیار نہیں تھے، عناد اور سرکشی کی بنا پر انبیاء کی مخالفت کرتے تھے۔ یہی حال اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کا بیان فرمایا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب معجزات لے کر ان کے پاس آئے تو : (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ) [ النمل : ١٤ ] ” اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کرچکے تھے، پس دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ “ دونوں تفسیریں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔- 3 پہلے پیغمبروں اور ان کی امتوں کے ان واقعات میں کفار قریش کے لیے تنبیہ اور عبرت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کی صورت میں ان کا انجام بھی پہلے جھٹلانے والوں جیسا ہوگا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے تسلی اور حوصلہ ہے کہ آزمائشوں اور مشکلات کے بعد آخر انھی کو کامیابی حاصل ہوگی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - ان آیات میں جن انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے واقعات اجمالاً بیان کئے گئے ہیں وہ پچھلی سورتوں میں مفصل آ چکے ہیں، مثلاً شعیب (علیہ السلام) کا قصہ سورة اعراف اور ہود میں، اسی طرح عاد وثمود کا قصہ بھی اعراف اور ہود میں گذر چکا ہے اور قارون، فرعون، ہامان کا قصہ سورة قصص میں ابھی گذرا ہے۔- وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ ، استبصار سے مشتق ہے، جو بصیرت کے معنی میں ہے اور مستبصر بمعنی مبصر، مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جو کفر و شرک پر اصرار کر کے عذاب میں اور ہلاکت میں مبتلا ہوئے کچھ بیوقوف یا دیوانے نہ تھے، دنیا کے کاموں میں بڑے مبصر اور ہوشیار تھے، مگر ان کی عقل اور ہوشیاری اسی مادی دنیا میں مقید ہو کر رہ گئی یہ نہ پہچانا کہ نیک و بد کی جزا و سزا کا کوئی دن آنا چاہئے جس میں مکمل انصاف ہو۔ کیونکہ دنیا میں تو اکثر مجرم ظالم دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم و مصیبت زدہ مجبور ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی انصاف کے دن کا نام قیامت اور آخرت ہے، اس کے معاملہ میں ان کی عقل ماری گئی۔- یہی مضمون سورة روم میں بھی آگے آنے والا ہے، يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، یعنی یہ لوگ دنیاوی زندگی کے کاموں کو تو خوب جانتے ہیں مگر آخرت سے غافل ہیں۔- اور بعض ائمہ تفسیر نے وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ کے معنی یہ بتلائے کہ یہ لوگ ایمان اور آخرت پر بھی دل میں تو یقین رکھتے تھے اور اس کا حق ہونا خوب سمجھتے تھے، مگر دنیوی اغراض نے ان کو انکار پر مجبور کر رکھا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِہِمْ۝ ٠ۣ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ۝ ٣ ٨ۙ- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، - ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- ( بصر) استبصار - وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت 38] أي : طالبین للبصیرة . ويصحّ أن يستعار الاسْتِبْصَار للإِبْصَار، نحو استعارة الاستجابة للإجابة، وقوله عزّوجلّ : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ تَبْصِرَةً [ ق 7- 8] أي : تبصیرا وتبیانا .- الباصرۃ - مستبصرین کے معنی طالب بصیرت کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتہ ہے کہ بطور استعارہ استبصار ( استفعال ) بمعنی ابصار ( افعال ) ہو جیسا کہ استجابہ بمعنی اجابۃ کے آجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت 38]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) اور ہم نے قوم ہود اور قوم صالح کو بھی ہلاک کیا اور اے مکہ والو ان کی یہ ہلاکت تمہیں کو ان کے ویران مکانات سے نظر آرہی ہے اور شیطان نے ان کے شرک اور ان کی تنگی وفراخی کی حالت کو ان کی نظر میں مستحسن کر رکھا تھا اور اس وجہ سے ان کو رہ حق اور ہدایت سے روک رکھا تھا اور وہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ چیز حق ہے مگر خود حق پر قائم نہ تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَعَادًا وَّثَمُوْدَا وَقَدْ تَّبَیَّنَ لَکُمْ مِّنْ مَّسٰکِنِہِمْوقفۃ) ” - تمہیں سب معلوم ہے کہ یہ قومیں کس کس علاقے میں کہاں کہاں آباد تھیں۔- (وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ ) ” - شیطان کے زیر اثر انہیں اپنے مشرکانہ افعال و اعمال بہت خوش نما لگتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ان ہی میں مگن رہتے تھے۔- (فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَکَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ ) ” - استبصار باب ” استفعال “ سے ہے۔ اس کے معنی بغور دیکھنا کے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ لوگ بڑے باریک بین تھے ‘ ہرچیز کا مشاہدہ بڑی احتیاط سے کرتے تھے ‘ بڑے ہوشیار اور دانشور قسم کے لوگ تھے ‘ مگر اس کے باوجود انہیں راہ راست سجھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ تضاد اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سمجھدار انسان اپنی ناک کے نیچے کے پتھر سے ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں ہی کی مثال لے لیجیے۔ آج یہ لوگ کیسی کیسی ایجادات کر رہے ہیں۔ کائنات کے کیسے کیسے حقائق تک آج ان کی رسائی ہے۔ اربوں ‘ کھربوں نوری سالوں کی دوری پر نئے نئے ستاروں کو دریافت کر رہے ہیں۔ کیسے کیسے آلات کی مدد انہیں حاصل ہے اور ان آلات کے ذریعے کیسے کیسے مشاہدات ان کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کے ذہن خالق کائنات اور مدبر کائنات کی طرف منتقل نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ایک (مادی) آنکھ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ ان کی دوسری (روحانی) آنکھ بالکل اندھی ہے۔ ایسے ہی سائنسدانوں اور دانشوروں کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا : - ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا - اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا - یعنی یہ لوگ کائنات کے بڑے بڑے رازوں کی کھوج میں تو لگے ہوئے ہیں اور تحقیق کے اس میدان میں آئے روز نت نئی کامیابیوں کے جھنڈے بھی گاڑ رہے ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی اپنی ذات کے بارے میں جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے کہاں جانا ہے ؟ میری اس زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ ان کے نزدیک تو زندگی بھی جانوروں کی طرح پیدا ہونے ‘ کھانے پینے ‘ نسل بڑھانے اور مرجانے کا نام ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موت پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر انسانی زندگی ان دانشوروں کے خیال میں یہی کچھ ہے تو پھر یہ واقعی ایک کھیل ہے۔ اور کھیل بھی بقول بہادر شاہ ؔ ظفربس چار دن کا - عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں - اس ” دانشورانہ “ نقطہ نظر کے مطابق جائزہ لیں تو انسانی زندگی کی تہی دامانی اور بےبضاعتی پر ترس آتا ہے۔ ماہ و سال کے اس میزانیہ میں سے کچھ وقت تو بچپنے کے بھولپن میں بیت گیا ‘ کچھ لڑکپن کے کھیل کود اور شرارتوں میں۔ جوانی آئی تو سنجیدہ سوچ کی گویا بساط ہی الٹ گئی۔ جوانی کا خمار اترا اور ہوش سنبھالنے کی فرصت محسوس ہوئی تو بڑھاپے کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اور اگر کوئی زیادہ سخت جان ثابت ہوا تو اسے ” ارذل العمر “ میں لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا کے نوشتہ تقدیر کا سامنا کرنا پڑا ۔۔ تو کیا یہی ہے انسان کی اس ” انمول “ زندگی کی حقیقت ؟ کیا اسی کے بل پر انسان اشرف المخلوقات بنا تھا ؟ اور کیا اسی برتے پر یہ مسجود ملائک ٹھہرا تھا ؟ اور کیا : ع ” اِک ذرا ہوش میں آنے کے خطاکار ہیں ہم ؟ “۔۔ نہیں ‘ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں انسانی زندگی اتنی ارزاں کیونکر ہوسکتی ہے ؟ انسانی زندگی فقط پیدا ہونے ‘ کھانے پینے اور چند سال زندہ رہنے کے دورانیے تک ہرگز محدود نہیں ہوسکتی بلکہ یہ اس تصور سے بہت اعلیٰ اور بہت بالا ایک ابدی حقیقت ہے۔ بقول اقبالؔ : ؂ ُ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی - دراصل جس ” دورانیے “ کو یہ لوگ زندگی سمجھے بیٹھے ہیں وہ تو اصل زندگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ انسانی زندگی کا اصل اور بڑا حصہ تو وہ ہے جس کا آغاز انسان کی موت کے بعد ہونے والا ہے۔ اس دنیا کی زندگی تو انسان کے لیے محض ایک وقفہ امتحان ہے اور بس

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 65 عرب کے جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں آباد تھیں ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا ۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اب احقاف ، یمن اور حضرت موت کے نام سے معروف ہے ، قدیم زمانہ میں عاد کا مسکن تھا اور اہل عرب اس کو جانتے تھے ۔ حجاز کے شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیما اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ آثار موجودہ حالت سے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوں گے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 66 یعنی جاہل و نادان نہ تھے ۔ اپنے اپنے وقت کے بڑے ترقی یافتہ لوگ تھے ۔ اور اپنی دنیا کے معاملات انجام دینے میں پوری ہوشیاری اور دانائی کا ثبوت دیتے تھے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شیطان ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ان کی عقل سلب کر کے انہیں اپنے راستے پر کھینچ لے گیا ۔ نہیں ، انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر آنکھوں دیکھتے شیطان کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو اختیار کیا جس میں انہیں بڑی لذتیں اور منفعتیں نظر آتی تھیں اور انبیاء کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو چھوڑ دیا جو انہیں خشک اور بدمزہ اور اخلاقی پابندیوں کی وجہ سے تکلیف دہ نظر آتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: دیکھئے سورۃ اعراف : 64 تا 72۔ سورۃ ہود : 49، 60 18: یعنی دنیا کے معاملات میں بڑے سمجھ دار اور ہوشیار تھے مگر آخرت سے بالکل غافل اور جاہل