Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

391یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔ 392یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر وعناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یعنی نہ تو یہ لوگ اپنی تدبیروں سے اللہ کی تدبیر کو ناکام بناسکتے تھے اور نہ ہی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جاسکتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ۔۔ : پچھلی آیات میں کافر اور متکبر اقوام کا ذکر تھا، اس آیت میں ابوجہل، امیہ ابن خلف، عتبہ، شیبہ، ابولہب اور قریش کے دوسرے بڑے بڑے کافر اور متکبر سرداروں کے لیے بطور مثال گزشتہ چند کافر اور متکبر افراد کا ذکر فرمایا جو اپنے کفر و تکبر کی وجہ سے اپنی اور اپنی قوم کی بربادی کا باعث بنے۔ ان میں قارون دولت کی کثرت کی وجہ سے کفر و تکبر کی مثال ہے، فرعون حکومت کی وجہ سے اور ہامان وزارت کی وجہ سے۔ ان تینوں کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) واضح معجزات لے کر آئے، مگر وہ سرزمین مصر میں بڑے بن بیٹھے اور ایمان لانے سے انکار کردیا، پھر جب اللہ کا عذاب آیا تو ایک بھی ایسا نہ تھا کہ اس کی گرفت سے بچ نکلتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ۝ ٠ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَ۝ ٣٩ۚۖ- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس ہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استفعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔- دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) اور ہم نے قارون اور فرعون اور اس کے وزیر ہامان کو بھی ہلاک کیا اس صورت میں کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس اوامرو نواہی اور حق کی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو انہوں نے ایمان لانے سے انکار کیا اور ان واضح دلیلوں اور نشانیوں پر ایمان نہ لائے مگر وہ ہمارے عذاب سے بھاگ نہ سکے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 67 یعنی بھاگ کر اللہ کی گرفت سے بچ نکلنے والے نہ تھے ۔ اللہ کی تدبیروں کو ناکام کر دینے کی طاقت نہ رکھتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: دیکھئے سورۂ قصص : 37، 75