Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

481اس لیے کہ ان پڑھ تھے 482اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔ 483یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] آپ کی رسالت کو جھٹلانے یا اسے کم از کم مشکوک بنانے کے لئے قریش نے جو باتیں اختراع کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس شخص نے سابقہ آسمانی کتابوں سے فیض حاصل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ آپ کی پیش کردہ کتاب یعنی قرآن کے بہت سے مضامین تورات سے ملتے جلتے تھے اور بعض منصف اہل کتاب اسی بات کی تصدیق بھی کردیتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ آپ نبوت سے پیشتر نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کو ایسی معلومات حاصل ہوں اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کہ علمائے اہل کتاب سے سن کر اسے نوٹ کرتے جائیں اور بعد میں اپنی طرف سے پیش کردیں۔ ہاں ان میں سے کوئی بھی صورت ہوتی تو ان کافروں کے شک و شبہ کی کچھ نہ کچھ بنیاد بن سکتی تھیں۔ لیکن جب یہ دونوں صورتیں موجود نہیں تو پھر ان لوگوں کا آپ کی رسالت سے انکار، تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔- مِنْ قَبْلِہِ سے بعض مسلمانوں نے اس بات پر استشہاد کیا ہے کہ نبوت سے پیشتر تو آپ فی الواقع لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن نبوت کے بعد آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ اس اختراع کی بنیاد ان مسلمانوں کی آپ سے فرط عقیدت ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جو رسول سارے جہاں کے لئے رسول اور معلم بنا کر بھیجا گیا تھا کیسے ممکن ہے کہ وہ لکھا پڑھا نہ ہو۔ بالفاظ دیگر وہ نبی کی ذات سے لکھا پڑھا نہ ہونے کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے اس دعویٰ میں موجودہ دور کے مخالفین اسلام اور مستشرق محققین بھی شامل ہوگئے۔ کیونکہ یہ دعویٰ ان کے حق میں مفید تھا۔- عقیدت مند مسلمانوں کے اس دعویٰ کے جذبہ کی ہم قدر کرتے ہیں لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان نادان دوستوں کا یہ دعویٰ دانا دشمنوں کے کام آرہا ہے۔ اب ہم اس دعویٰ کی تردید دو طرح سے کریں گے ایک عقلی لحاظ سے اور دوسرے تاریخی لحاظ سے۔ عقلی لحاظ سے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہان کا معلم بنے تو یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا ایک شخص بہت عالم فاضل اور پڑھا لکھا ہو کر معلم بنے ؟ ظاہر ہے کہ پہلی صورت کو ہی معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے وہ تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں جو اس دور کے مخالفین اسلام نے پیغمبر اسلام پر وارد کئے تھے یا اس دور کے مخالفین اسلام کر رہے تھے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن نے دو آیات میں کی مدح کے طور پر امی کے لقب سے نوازا ہے (٧: ١٥٧، ١٥٨) اور سورة جمعہ میں فرمایا : وہی تو ہے جس نے امی لوگوں میں سے ہی ایک فرد کو رسول بنا کر بھیجا (٦٢: ٢) قرآن کے انداز بیان سے بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امی کا لقب آپ کے لئے مایہ صد افتخار ہے۔- اور تاریخی لحاظ سے یہ دعویٰ اس لئے غلط ہے کہ حدیبیہ کا صلح نامہ ٦ ھ میں لکھا گیا تھا۔ لکھنے والے حضرت علی (رض) تھے اور لکھانے والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ جب آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تو قریشیوں کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض کیا کہ اس کے بجائے باسمک اللھم لکھو۔ اس کے بعد آپ نے لکھوایا من محمد رسول اللہ اس پر اس نے یہ اعتراض کیا کہ من محمد بن عبداللہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں تو پھر جھگڑا ہی کا ہے کا ہے ؟ پھر جب سفیر سہیل بن عمرو نے اپنی بات پر اصرار کیا تو آپ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ یہ الفاظ مٹا کر قریش سفیر کی مرضی مطابق لکھ دو ۔ حضرت علی (رض) کہنے لگے کہ میرا تو ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول اللہ کا لفظ اپنے ہاتھوں سے مٹا دوں۔ آپ نے حضرت علی (رض) سے پوچھا اچھا بتلاؤ وہ لفظ کون سا ہے ؟ اور جب حضرت علی (رض) نے بتلایا تو آپ نے خود اسے مٹا دیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ)- یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ کو نبوت عطا ہوئے ١٩ سال گزر چکے تھے اور اس وقت آپ کی عمر ٥٩ سال ہوچکی تھی۔ اور اس واقعہ کے چار پانچ سال بعد آپ کی وفات ہوجاتی ہے پھر آپ نے لکھنا پڑھنا کب سیکھا تھا ؟- اور دوسرا نبوت رسول اللہ کا اپنی زبانی پر اعتراف ہے کہ : ہم امی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے (قمری) مہینہ اتنا بھی ہوتا ہے اور اتنا بھی، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بلند کرکے بتلایا کہ کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی لا تکتب الاتحسب

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ ۔۔ : یعنی اے نبی وحی کے ذریعے سے آنے والی جس کتاب کی تلاوت کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کے نزول سے پہلے آپ اپنی قوم میں چالیس سال کا عرصہ رہے ہیں، نہ آپ کسی بھی طرح کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھتے تھے نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، بلکہ محض امیّ تھے۔ وہ سب لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں جن میں آپ کی زندگی گزری، بلکہ بہت تھوڑے آدمی چھوڑ کر ان کا اپنا حال بھی یہی ہے کہ وہ امیّ ہیں، جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا) [ الجمعۃ : ٢ ] ” وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا۔ “ اور پہلی کتابوں میں بھی آپ کی یہی صفت مذکور ہے، فرمایا : ( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) [ الأعراف : ١٥٧ ] ” وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امیّ نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ “ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امیّ ہونے کو آپ کے دعوئ نبوت میں سچا ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے۔ دیکھیے سورة قصص (٨٦) اور یونس (١٦) ابن کثیر فرماتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمیشہ (وفات تک) یہی حال رہا، آپ نہ پڑھ سکتے تھے نہ ہی ایک سطر یا ایک حرف اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے، بلکہ آپ کے کئی کاتب تھے جو وحی اور مختلف علاقوں کی طرف خطوط وغیرہ لکھتے تھے۔ - بعض لوگوں نے ” من قبلہ “ کے لفظ سے دلیل لی ہے کہ نبوت سے پہلے تو آپ فی الواقع لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر نبوت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ان حضرات نے عقیدت میں غلو کی وجہ سے یہ بات کہی ہے، یہ نہیں سوچا کہ ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہاں کا استاذ بن جائے، یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا یہ کہ کوئی عالم فاضل اور پڑھا لکھا شخص کوئی کتاب تصنیف کر کے لے آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری وقت تک امیّ ہونے کی دلیل صلح حدیبیہ کے معاہدے کا واقعہ ہے، جس کا صلح نامہ علی بن ابی طالب (رض) نے تحریر کیا تھا۔ براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں : ( فَکَتَبَ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَقَالُوْا لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَمْ نَمْنَعْکَ وَلَبَایَعْنَاکَ ، وَلٰکِنِ اکْتُبْ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ، فَقَالَ أَنَا وَاللّٰہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَأَنَا وَاللّٰہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ وَکَانَ لاَ یَکْتُبُ قَالَ فَقَالَ لِعَلِيٍّ امْحُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ عَلِيٌّ وَاللّٰہِ لاَ أَمْحَاہُ أَبَدًا قَالَ فَأَرِنِیْہِ قَالَ فَأَرَاہُ إِیَّاہُ ، فَمَحَاہ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ ) [ بخاري، الجزیۃ، باب المصالحۃ علی ثلاثۃ أیام ۔۔ : ٣١٨٤ ] ” علی (رض) نے لکھا : ” یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے معاہدہ کیا ہے۔ “ انھوں نے کہا : ” اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو (خانہ کعبہ سے) نہ روکتے، بلکہ ہم آپ کی بیعت کرلیتے، لیکن لکھو کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے معاہدہ کیا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم میں رسول اللہ ہوں۔ “ براء نے فرمایا : ” اور آپ لکھتے نہیں تھے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) سے کہا : ” رسول اللہ (کا لفظ) مٹا دو ۔ “ علی (رض) نے کہا : ” اللہ کی قسم میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر وہ مجھے دکھاؤ۔ “ انھوں نے وہ لفظ آپ کو دکھایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا۔ “ یہ واقعہ ذوالقعدہ چھ ہجری کا ہے جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار سال اور چند ماہ زندہ رہے، اس میں صراحت ہے ” وَکَانَ لَا یَکْتُبُ “ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھتے نہیں تھے) اب وہ کون سی روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنا سیکھ لیا تھا ؟ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ بخاری کی بعض روایات میں جو آیا ہے : ( ثُمَّ أَخَذَ فَکَتَبَ ) (پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکڑا اور لکھا) یہ دوسری روایت پر محمول ہے جس میں ہے : ( ثُمَّ أَمَرَ فَکَتَبَ ) ” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو انھوں نے لکھا۔ “ ابن کثیر فرماتے ہیں، بعض لوگوں نے جو حدیث بیان کی ہے : ( إِنَّہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی تَعَلَّمَ الْکِتَابَۃَ ) ” کہ آپ فوت نہیں ہوئے حتیٰ کہ آپ نے لکھنا سیکھ لیا “ تو یہ روایت ضعیف ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے امیّ ہونے کا اعتراف فرمایا ہے، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّا أُمَّۃٌ أُمِّیَّۃٌ، لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسُبُ ، الشَّہْرُ ہٰکَذَا وَ ہٰکَذَا یَعْنِيْ مَرَّۃً تِسْعَۃً وَعِشْرِیْنَ ، وَمَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ ) [ بخاري، الصوم، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نکتب و لا نحسب : ١٩١٣ ] ” ہم اُمّی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے، قمری مہینا اتنا ہوتا ہے اور اتنا بھی۔ “ یعنی کبھی انتیس (٢٩) دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس (٣٠) دن کا۔ “ - 3 یہ اللہ کی شان ہے کہ ایک طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ کتاب عطا فرمائی جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل کل عالم بنانے سے عاجز ہے، تو دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پڑھنا سکھایا نہ لکھنا۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ عالم الغیب تھے اور ” مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ “ (جو ہوچکا اور جو ہوگا) سب جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ - اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ : یعنی اگر آپ پڑھتے ہوتے یا ہاتھ سے لکھتے ہوتے تو باطل پرستوں کے لیے شک کا کوئی موقع ہوسکتا تھا کہ آپ نے اگلی کتابیں پڑھ کر یہ باتیں لکھ لی ہیں، انھی کو آہستہ آہستہ اپنے الفاظ میں سنا رہے ہیں۔ گو اس وقت بھی یہ کہنا غلط ہوتا، کیونکہ کتنا بھی پڑھا لکھا انسان ہو بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسان مل کر اور کل مخلوق کو ساتھ ملاکر بھی اس بےمثال کتاب کی ایک سورت جیسی سورت پیش نہیں کرسکتے، پھر بھی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو جھوٹے لوگوں کو بات بنانے کا موقع مل سکتا تھا۔ جب آپ کا اَن پڑھ ہونا سب کے ہاں مسلّم ہے تو اس شبہ کا موقع بھی نہ رہا۔- 3 آپ کے اُمّی ہونے کے باوجود کفار نے یہ بہتان جڑ دیا : (وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) [ الفرقان : ٥ ] ” اور انھوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوا لی ہیں، سو وہ پہلے پہر اور پچھلے پہر اس پر پڑھی جاتی ہیں۔ “ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو باطل پرستوں کے شکوک و شبہات کا اور بہتان باندھنے کا کیا حال ہوتا۔- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ ” ولا تخطه “ (اور نہ تو اسے لکھتا تھا) کے الفاظ ہی کافی تھے، پھر ” بیمینک “ (اپنے دائیں ہاتھ سے) فرمانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات لکھوانے کو بھی لکھنا کہہ دیا جاتا ہے، مثلاً بعض اوقات خط لکھوا کر بھیجنے والا کہہ دیتا ہے، میں نے فلاں کو خط لکھا ہے۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے فرمایا : (وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ ) ” اور نہ تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تفسیروں میں جو عام مفسرین نے اہل کتاب کی روایات نقل کی ہیں ان کا بھی یہی درجہ ہے اور نقل کرنے کا منشاء بھی صرف اس کی تاریخی حیثیت کو واضح کرنا ہے، احکام حلال و حرام کا ان سے استنباط نہیں کیا جاسکتا، مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ، یعنی نزول قرآن سے پہلے نہ آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے، نہ کچھ لکھ سکتے تھے، بلکہ آپ امی تھے، اگر ایسا نہ ہوتا اور آپ لکھے پڑھے ہوتے تو اہل باطل کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نکل آتی کہ یہ الزام لگاتے کہ آپ نے پچھلی کتابیں تورات و انجیل پڑھی ہیں یا نقل کی ہیں۔ آپ جو کچھ قرآن میں فرماتے ہیں وہ انہی پچھلی کتابوں کا اقتباس ہے، کوئی وحی اور نبوت و رسالت نہیں ہے۔- نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونا آپ کی بڑی فضیلت اور بڑا معجزہ ہے :- حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت پر جس طرح بہت سے واضح اور کھلے ہوئے معجزات ظاہر فرمائے انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو پہلے سے امی رکھا، نہ کچھ لکھا ہوا پڑھ سکتے تھے، نہ خود کچھ لکھ سکتے تھے اور عمر کے چالیس سال اسی حال میں تمام اہل مکہ کے سامنے گذرے۔ آپ کا اختلاط اہل کتاب سے بھی کبھی نہیں ہوا کہ ان سے کچھ سن لیتے۔ کیونکہ مکہ میں اہل کتاب تھے ہی نہیں۔ چالیس سال ہونے پر یکایک آپ کی زبان مبارک سے ایسا کلام جاری ہونے لگا جو اپنے مضامین اور معانی کے ا عتبار سے بھی معجزہ تھا اور لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی۔- بعض علماء نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ آپ کا امی ہونا ابتداء میں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا تھا اور اس کی دلیل میں واقعہ حدیبیہ کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں یہ ہے کہ جب معاہدہ صلح لکھا گیا تو اس میں من محمد عبداللہ و رسولہ اول لکھا تھا، اس پر مشرکین مکہ نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسول مانتے تو یہ جھگڑا ہی کیوں ہوتا، اس لئے آپ کے نام کے ساتھ " رسول اللہ " کا لفظ ہم قبول نہیں کریں گے۔ لکھنے والے حضرت علی مرتضی تھے، آپ نے ان کو فرمایا کہ یہ لفظ مٹا دو ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ادب سے مجبور ہو کر ایسا کرنے سے انکار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاغذ خود اپنے ہاتھ میں لیا اور یہ لفظ مٹا کر یہ لکھ دیا، من محمد بن عبداللہ۔- اس روایت میں لکھنے کی نسبت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی گئی ہے جس سے کچھ حضرات نے استدلال کیا ہے کہ آپ لکھنا جانتے تھے، مگر صحیح بات یہی ہے کہ کسی دوسرے سے لکھوانے کو بھی عرف میں یہی کہا جاتا ہے کہ " اس نے لکھا " جیسا کہ محاورات میں عام ہے، اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ اس واقعہ میں بطور معجزہ آپ سے نام مبارک بھی اللہ تعالیٰ نے لکھوا دیا، اس کے علاوہ صرف اپنے نام کے چند حروف لکھ دینے سے کوئی آدمی لکھا پڑھا نہیں کہلا سکتا، اس کو ان پڑھ اور امی ہی کہا جائے گا جب لکھنے کی عادت نہ ہو، اور بلا دلیل کتابت کا آپ کی طرف منسوب کرنا آپ کی فضیلت کا اثبات نہیں، غور کریں تو بڑی فضیلت امی ہونے میں ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۝ ٤٨- خط - الخطّ کالمدّ ، ويقال لما له طول، والخطوط أضرب فيما يذكره أهل الهندسة من مسطوح، ومستدیر، ومقوّس، وممال، ويعبّر عن کلّ أرض فيها طول بالخطّ كخطّ الیمن، وإليه ينسب الرّمح الخطّيّ ، وكلّ مکان يَخُطُّهُ الإنسان لنفسه ويحفره يقال له خَطُّ وخِطَّةٌ. والخَطِيطَة :- أرض لم يصبها مطر بين أرضین ممطورتین کالخطّ المنحرف عنه، ويعبّر عن الکتابة بالخَطِّ ، قال تعالی: وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ [ العنکبوت 48] .- ( خ ط ط ) الخط ( مثل مد ) جس میں طول ہوا ہل ہند سہ کے نزدیک خطوط کئی قسم پر میں ۔ یعنی مسطوح ، مستد پر مقوس اور محال وغیرہ اور ہر مستطیل علاقہ کو خط کہہ دیتے ہیں جیسے خط الیمن جو زمین کے ایک علاقہ کا نام ہے جس کی طرف خطی نیزے منسوب ہیں اور زمین کا وہ حصہ جو انسان اپنے لئے مخصوص کرے اور کھولتے اسے خط اور خطۃ کہا جاتا ہے ۔ الخطیطۃ وہ زمین جس کے ارد گرد بارش ہوئی اور اور وہ درمیان میں خط منحرف کی طرح بےبارش کے رہ گئی ۔ اور الخط کے معنی لکھنا کتابت کرنا بھی ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ [ العنکبوت 48] اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ۔- يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے - ارْتِيابُ- والارْتِيابُ يجري مجری الْإِرَابَةِ ، قال : أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] ، وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] ، ونفی من المؤمنین الِارْتِيَابَ فقال : وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] ، وقال : ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات 15] ، وقیل : «دع ما يُرِيبُكَ إلى ما لا يُرِيبُكَ» ورَيْبُ الدّهر صروفه، وإنما قيل رَيْبٌ لما يتوهّم فيه من المکر، والرِّيبَةُ اسم من الرّيب قال : بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، أي : تدلّ علی دغل وقلّة يقين .- اور ارتیاب ( افتعال ) ارابہ کے ہم معنی ہے جس کے معنی شک و شبہ میں پڑنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] یا شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس بات سے ڈرتے ہیں ۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] اور اس بات کے منتظر رہے ( کہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو ) اور ( اسلام کی طرف سے ) شک میں پڑے رہے ۔ اور مؤمنین سے ارتیاب کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ولا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] اور اہل کتاب اور مسلمان ( ان باتوں میں کسی طرح کا ) شک و شبہ نہ لائیں ۔ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات 15] پھر کسی طرح کا شک وشبہ نہیں کیا ۔ ایک حدیث میں ہے :(161) دع ما یریبک الی ما لا یریبک ۔ کہ شک و شبہ چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک و شبہ نہ ہو ۔ اور گردش زمانہ کو ریب الدحر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں فریب کاری کا وہم ہوتا ہے ( کما مر ) اور ریبۃ ، ریب سے اسم ہے جس کے معنی شک وشبہ کے ہیں ( جمع ریب ) قرآن میں ہے :۔ بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] کہ وہ عمارت ان کے دلوں میں ریبۃ بنی رہے گی ۔ یعنی ہمیشہ ان کے دلی کھوٹ اور خلجان پر دلالت کرتی رہے گی ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور آپ قرآن کریم سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کسی کتاب کو لکھ سکتے تھے اور اگر ایسی حالت ہوتی تو یہ یہود و نصاری اور مشرکین ضرور شکل کرتے اور کہتے کہ ہماری کتابوں میں تو نبی امی کی بشارت ہے بلکہ آپ کی نعت و صفت کے بارے میں خود بہت سی واضح دلیلیں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم توریت دیا گیا ہے یا یہ قرآن کریم ہی آپ کی نبوت کے لیے خود بہت سی واضح دلیلوں والا اور حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو واضح طور پر بیان کرنے والا ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے جن کو قرآن کریم کا علم دیا گیا ہے۔ اور ہماری آیات یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم سے یہ یہود و نصاری اور مشرکین ہی انکار کیے جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) ” - قرآن نازل ہونے سے پہلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو کوئی کتاب پڑھ کر نہیں سناتے تھے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی کتاب خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ‘ بلکہ دنیوی اعتبار سے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کوئی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھنا لکھنا سیکھا ہے۔ ہاں اگر ایسا ہوتا تو قرآن کو باطل قرار دینے والوں کے لیے اس کے بارے میں شک کی کچھ گنجائش پیدا ہوسکتی تھی کہ جی ہاں یہ حضرت تو پرانے لکھاری ہیں ‘ روز روز کی مشق سے قلم میں زور اور تحریر میں نکھار آتا گیا اور رفتہ رفتہ یہ سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ انہوں نے قرآن جیسا بلند پایہ کلام لکھنا شروع کردیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 88 یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ قصص میں گزر چکا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ یونس حاشیہ نمبر 21 و تفسیر سورہ قصس حاشیہ نمبر 64 و 109 ۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ نحل حاشیہ 107 ، بنی اسرائیل حاشیہ 105 ، المومنون حاشیہ 66 ، الفرقان حاشیہ 12 ، اور الشوری حاشیہ 84 کا مطالعہ بھی مفید ہوگا ) اس آیت میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے ۔ آپ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روز پیدائش سے سن کہلوت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی ، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی ، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا ۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات ، انبیاء سابقین کے حالات ، مذاہب و ادیان کے عقائد ، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس امی کی زبان سے ہورہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کی امیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی بناوٹ کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول کیا جاسکتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے امی بنایا، یعنی آپ لکھتے پڑھتے نہیں تھے۔ اس آیت میں اس کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ امی ہونے کے باوجود جب آپ کی زبان مبارک پر قرآن کریم جاری ہوا تو یہ بذات خود ایک عظیم الشان معجزہ تھا کہ جس شخص نے کبھی نہ پڑھنا سیکھا، نہ لکھنا، وہ ایسا فصیح و بلیغ کلام پیش کر رہا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے سارا عرب عاجز ہوگیا۔ قرآن کریم فرما رہا ہے کہ اگر آپ پڑھتے لکھتے ہوتے تو آپ کے مخالفین کو یہ کہنے کا کچھ نہ کچھ موقع مل جاتا کہ آپ نے کہیں سے پڑھ پڑھا کر یہ مضامین اکٹھے کرلیے ہیں۔ اگرچہ اعتراض اس پر بھی فضول ہی ہوتا، لیکن اب تو یہ کہنے کا کوئی موقع ہی باقی نہیں رہا۔