Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حق تلاوت فرمان ہے کہ جیسے ہم نے اگلے انبیاء پر اپنی کتابیں نازل فرمائی تھیں اسی طرح یہ کتاب یعنی قرآن شریف ہم نے اے ہمارے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر نازل فرمایا ہے ۔ پس اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ہماری کتاب کی قدر کی اور اس کی تلاوت کا حق ادا کیا وہ جہاں اپنی کتابوں پر ایمان لائے اس پاک کتاب کو بھی مانتے ہیں جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ۔ اور ان لوگوں یعنی قریش وغیرہ میں سے بھی بعض لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں ہاں جو لوگ باطل سے حق کو چھپانے والے اور سورج کی روشنی سے آنکھیں بند کرنے والے ہیں وہ تو اسکے بھی منکر ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان میں مدت العمرتک رہ چکے ہو اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ان میں گزار چکے ہو انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے نہیں ، ساری قوم اور سارا ملک بخوبی علم رکھتا ہے کہ آپ محض امی ہیں نہ لکھناجانتے ہیں نہ پڑھنا ۔ پھر آج جو آپ کو انوکھی فصیح وبلیغ اور پر از حکمت کتاب پڑھتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آپ اس حالت میں ایک حرف پڑھے ہوئے نہیں خود تصنیف وتالیف کر نہیں سکتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت اگلی کتابوں میں تھی جیسے قرآن ناقل ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ١٥٧؀ۧ ) 7- الاعراف:157 ) یعنی جو لوگ پیروی کرتے ہیں اس رسول و نبی امی کی جس کی صفات وہ اپنی کتاب توراۃ اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں جو انہیں نیکیوں کا حکم کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے ۔ لطف یہ ہے کہ اللہ کے معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمشہ لکھنے سے دور ہی رکھے گئے ۔ ایک سطر کے معنی ، ایک حرف بھی لکھنا آپ کو نہ آتا تھا ۔ آپ نے کاتب مقرر کرلئے تھے جو وحی اللہ کو لکھ لیتے تھے اور ضروت کے وقت شاہان دنیا سے خط وکتابت بھی وہی کرتے تھے پچھلے فقہاء میں قاضی ابو الولید باجی وغیرہ نے کہا کہ حدیبیہ والے دن خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے یہ جملہ صلح نامے میں لکھا تھا کہ ھذا ماقاضی علیہ محمدا بن عبداللہ یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ۔ لیکن یہ قول درست نہیں یہ وہم قاضی صاحب کو بخاری شریف کی اس روایت سے ہوا ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ ثم اخذ فکتب یعنی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لیکر لکھا ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا ۔ جیسے دوسری روایت میں صاف موجود ہے کہ ثم امر فکتب یعنی آپ نے پھر حکم دیا اور لکھا گیا ۔ مشرق ومغرب کے تمام علماء کا یہی مذہب ہے بلکہ باجی وغیرہ پر انہوں نے اس قول کا بہت سخت رد کیا ہے اور اس سے بیزاری ظاہر کی ہے ۔ اور اس قول کی تردید اپنے اشعار اور خطبوں میں بھی کی ہے ۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ قاضی صاحب وغیرہ کا یہ خیال ہرگز نہیں کہ آپ اچھی طرح لکھنا جانتے تھے بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ آپ کا یہ جملہ صلح نامے پر لکھا جانا معجزہ تھا ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ ک ف ر لکھا ہوا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ لے گا اگرچہ ان پڑھ ہو تب بھی اسے پڑھ لے گا ۔ یہ مومن کی ایک کرامت ہوگی اسی طرح یہ فقرہ لکھ لینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ لکھنا جانتے تھے ۔ یا آپ نے سیکھا تھا ۔ بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہ ہوا جب تک کہ آپ نے لکھنا نہ سیکھ لیا ۔ یہ روایت بالکل ضعیف ہے بلکہ محض بے اصل ہے قرآن کریم کی اس آیت کو دیکھئے کس قدر تاکید کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھا ہونے کا انکار کرتی ہے اور کتنی سختی کے ساتھ پرزور الفاظ میں اس کا بھی انکار کرتی ہے کہ آپ لکھناجانتے ہوں ۔ یہ جو فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے یہ باعتبار غالب کے کہدیا ہے ورنہ لکھا تو دائیں ہاتھ سے ہی جاتا ہے اسی کی طرح آیت ( وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) میں ہے کیونکہ ہر پرند اپنے پروں سے ہی اڑتا ہے ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پڑھ ہونا بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو یہ باطل پرست آپ کی نسبت شکر کرنے کی گنجائش پاتے کہ سابقہ انبیاء کی کتابوں سے پڑھ لکھ کر نقل کرلیتا ہے لیکن یہاں تو ایسانہیں ۔ تعجب ہے کہ باوجود ایسانہ ہونے کے پھر بھی یہ لوگ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ گزرے ہوئے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنہیں اس نے لکھ لیاہے ۔ وہی اس کے سامنے صبح شام پڑھی جاتی ہیں ۔ باوجودیکہ خود جانتے ہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہیں ۔ ان کے اس قول کے جواب میں جناب باری عز اسمہ نے فرمایا انہیں جواب دو کہ اسے اس اللہ نے نازل فرمایا ہے جو زمین وآسمان کی پوشیدگیوں کو جانتا ہے ۔ یہاں فرمایا بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں ۔ خود آیات واضح صاف اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ہیں ۔ پھر علماء پر ان کا سمجھنا یاد کرنا پہنچانا سب آسان ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ 17؀ ) 54- القمر:17 ) یعنی ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے بالکل آسان کردیا ہے پس کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کو ایسی چیز دی گئی جس کے باعث لوگ ان پر ایمان لائے مجھے ایسی چیز وحی اللہ دی گئی ہے جو اللہ نے میری طرف نازل فرمائی ہے تو مجھے ذات اللہ سے امید ہے کہ تمام نبیوں کے تابعداروں سے زیادہ میرے تابعدار ہونگے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اے نبی میں تمہیں آزماؤنگا اور تمہاری وجہ سے لوگوں کی بھی آزمائش کرلونگا ۔ میں تم پر ایسی کتاب نازل فرماؤنگا جسے پانی دھو نہ سکے ۔ تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے حروف پانی سے دھوئے جائیں لیکن وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے اگر قرآن کسی چمڑے میں ہو تو اسے آگ نہیں جلائے گی ۔ اس لئے کہ وہ سینوں میں محفوظ ہے ، زبانوں پر آسان ہے اور دلوں میں موجود ہے ۔ اور اپنے لفظ اور معنی کے اعتبار سے ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ کتابوں میں اس امت کی ایک صفت یہ بھی مروی ہے کہ اناجیلھم فی صدورھم ان کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی ۔ امام ابن جریر اسے پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں بلکہ اس کا علم کہ تو اس کتاب سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتا تھا یہ آیات بینات اہل کتاب کے ذی علم لوگوں کے سینوں میں موجودہیں ۔ قتادۃ اور ابن جریج سے بھی یہی منقول ہے اور پہلا قول حسن بصری کاہے اور یہی بہ روایت عوفی ، ابن عباس سے منقول ہے اور یہ ضحاک نے کہا ہے اور یہی زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہماری آیتوں کا جھٹلانا قبول نہ کرنا یہ حد سے گذرجانے والوں اور ضدی لوگوں کاہی کام ہے جو حق ناحق کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے پاس نشانیاں آجائیں ۔ یہاں تک کہ وہ المناک عذاب کا مشاہدہ کرلیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

471اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انھیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔ 472ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٩] یعنی جس طرح ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی بالکل ویسے بھی آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے۔ اور اہل کتاب میں سے جو منصف مزاج ہیں۔ وہ یہ سمجھ کر ان دونوں کتابوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے، قرآن پر ایمان لے آئے تھے اور اہل مکہ میں بھی کچھ منصف مزاج موجود ہیں جو قرآن کے دلائل سن کر فوراً اس سے متاثر ہوجاتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں۔ گویا ایک انسان کی ہدایت کے لئے اس کتاب میں نہ نقلی دلائل کی کمی ہے اور نہ عقلی دلائل کی۔ اس سے انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے مذہبی تعصبات کو چھوڑ کر حق بات ماننے کو تیار نہیں۔ نہ وہ اپنی خواہش نفس اور بےلگام آزادی پر کسی قسم کی پابندی قبول کرنے کو تیار ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ : یعنی جس طرح ہم نے آپ سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے پیغمبروں پر کتاب نازل کی ایسے ہی آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی۔- فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ : ” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی “ سے مراد تمام اہل کتاب نہیں، کیونکہ جس نے کتاب پڑھی ہی نہیں یا اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی یا اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اس میں تحریف و تبدل سے کام لیا تو وہ درحقیقت ان لوگوں میں شامل ہی نہیں جنھیں کتاب دی گئی، کیونکہ انھوں نے اسے اس طرح لیا ہی نہیں جیسے لینا چاہیے تھا۔ یعنی وہ لوگ جنھیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی اور وہ فی الواقع اس کا اتباع کرتے ہیں وہ اس کتاب (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں، کیونکہ دونوں کا مضمون اصولی طور پر ایک ہے اور پہلی کتابوں کی کوئی خوبی ایسی نہیں جو اس میں موجود نہ ہو، بلکہ یہ کتاب تو پہلی کتابوں پر مہیمن (نگران) ہے اور یہ زندۂ جاوید معجزہ ہے، تو حقیقی اہل کتاب اس پر کیوں ایمان نہیں لائیں گے۔- وَمِنْ هٰٓؤُلَاۗءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ : یعنی ان اہل عرب مشرکین میں سے بھی کئی لوگ اس پر ایمان لا رہے ہیں اور لائیں گے، جو حق واضح ہونے کے بعد اسے قبول کرنے والے ہیں۔ - وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ ” جُحُوْدٌ“ کا معنی کسی بات کا علم ہونے کے باوجود اس کا انکار کردینا ہے۔ (دیکھیے نمل : ١٤) جبکہ ” کُفْرٌ“ کا لفظ ایمان کے مقابلے میں آتا ہے، اس کا معنی ناشکری بھی ہے، انکار بھی اور چھپانا بھی۔ (قاموس) ” آیَاتِنَا “ کا لفظی معنی نشانیاں ہیں، مراد قرآن مجید ہے، کیونکہ اس کی تمام آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں اور معجزہ ہیں، جن کے مقابلے کی آیات پوری کائنات پیش نہیں کرسکتی اور اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان کا انکار ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرے گا جو حق کا علم رکھتے ہوئے اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ۝ ٠ۭ فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۝ ٠ۚ وَمِنْ ہٰٓؤُلَاۗءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِہٖ۝ ٠ۭ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ۝ ٤٧- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - جحد - الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد .- ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد - وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اسی طرح ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی تاکہ اس میں جو اوامرو نواہی اور واقعات ہیں وہ آپ ان کے سامنے پڑھ کر سنائیں۔ سو جن لوگوں کو ہم نے کتاب توریت کا علم دیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ وہ آپ پر اور قرآن کریم پر ایمان لے آئے ہیں اور ان مشرکین مکہ میں سے بھی کچھ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لے آئے ہیں اور ہماری آیات میں سے سوائے کافروں یعنی کعب و ابوجہل وغیرہ کے اور کوئی انکار نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ج) ” - یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہوئے اس پر ایمان لائیں گے۔ جیسا کہ قبل ازیں ہم سورة القصص کے چھٹے رکوع میں حبشہ سے مکہ آنے والے ان مسلمانوں کا ذکر پڑھ چکے ہیں جو پہلے عیسائی تھے ‘ پھر صحابہ کرام (رض) کی تبلیغ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرے اجر کے مستحق ٹھہرے۔- (وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الْکٰفِرُوْنَ ) ” - یہاں سے آگے اب دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف ہے۔ ان لوگوں کے لیے یہاں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی ایک اور دلیل بیان کی جا رہی ہے۔ سورت کے اس حصے میں ساتھ ساتھ چلنے والے دو موضوعات کو قبل ازیں رسی کی دو ڈوریوں سے تشبیہہ دی گئی تھی۔ اس ضمن میں یوں سمجھیں کہ اب کچھ دیر کے لیے دوسری ڈوری نمایاں ہورہی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 84 اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جس طرح پہلے انبیاء پر ہم نے کتابیں نازل کی تھیں اسی طرح اب یہ کتاب تم پر نازل کی ہے ۔ دوسرا یہ کہ ہم نے اسی تعلیم کے ساتھ یہ کتاب نازل کی ہے کہ ہماری پچھلی کتابوں کا انکار کر کے نہیں بلکہ ان سب کا اقرار کرتے ہوئے اسے مانا جائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 85 سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ اس سے مراد تمام اہل کتاب نہیں ہیں بلکہ وہ اہل کتاب ہیں جن کو کتب الہیہ کا صحیح علم و فہم نصیب ہوا تھا ، جو چارپائے بروکتا بے چند کے مصداق محض کتاب بردار قسم کے اہل کتاب نہیں تھے ، بلکہ حقیقی معنی میں اہل کتاب تھے ۔ ان کے سامنے جب اللہ تعالی کی طرف سے اس کی پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہوئی یہ آخری کتاب آئی تو انہوں نے کسی ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے کام نہ لیا اور اسے بھی ویسے ہی اخلاص کے ساتھ تسلیم کرلیا کہ جس طرح پچھلی کتابوں کو تسلیم کرتے تھے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 86 ان لوگوں کا اشارہ اہل عرب کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ حق پسند لوگ ہر جگہ اس پر ایمان لارہے ہیں خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا غیر اہل کتاب میں سے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 87 یہاں کافر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے تعصبات کو چھوڑ کر حق بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، یا وہ جو اپنی خواہشات نفس اور اپنی بے لگام آزادیوں پر پابندیاں قبول کرنے سے جی چراتے ہیں اور اس بنا پر حق کا انکار کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani