Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غیر مسلموں کو دلائل سے قائل کرو حضرت قتادۃ وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ یہ آیت تو جہاد کے حکم کے ساتھ منسوخ ہے اب تو یہی ہے کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یالڑائی لڑیں ۔ لیکن اور بزرگ مفسرین کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے جو یہودی یا نصرانی دینی امور کو سجھنا چاہے اور اسے مہذب طریقے پر سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھا دینا چاہئے ۔ کیا عجیب ہے کہ وہ راہ راست اختیار کرے ۔ جیسے اور آیت میں عام حکم موجود ہے آیت ( اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ١٢٥؁ ) 16- النحل:125 ) اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ لوگوں کو دو ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو جب فرعون کے طرف بھیجاجاتا ہے تو فرمان ہوتا ہے کہ آیت ( فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى 44؀ ) 20-طه:44 ) یعنی اس سے نرمی سے گفتگو کرنا کیا عجب کہ وہ نصیحت قبول کرلے اور اس کا دل پگھل جائے ۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے ۔ اور حضرت ابن زید سے یہی مروی ہے ۔ ہاں ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں اور ضد اور تعصب برتیں حق کو قبول کرنے سے انکار کردیں پھر مناظرے مباحثے بےسود ہیں پھر تو جدال وقتال کا حکم ہے ۔ جیسے جناب باری عز اسمہ کا ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ 25۝ۧ ) 57- الحديد:25 ) ہم نے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ہمراہ کتاب ومیزان نازل فرمائی تاکہ لوگوں میں عدل و انصاف کا قیام ہوسکے ۔ اور ہم نے لوہا بھی نازل فرمایا جس میں سخت لڑائی ہے ۔ پس حکم اللہ یہ ہے کہ بھلائی سے اور نرمی سے جو نہ مانے اس پر پھر سختی کی جائے ۔ جو لڑے اسی سے لڑا جائے ہاں یہ اور بات ہے کہ ماتحتی میں رہ کر جزیہ ادا کرے ۔ پھر تصدیق کردیا کرو ممکن ہے کسی امر حق کو تم جھٹلادو اور ممکن ہے کسی باطل کی تم تصدیق کر بیٹھو ۔ پس شرط یہ ہے کہ تصدیق کرو یعنی کہہ دو کہ ہمارا اللہ کی ہر بات پر ایمان ہے اگر تمہاری پیش کردہ چیز اللہ کی نازل کردہ ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تم نے تبدیل وتحریف کردی ہے تو ہم اسے نہیں مانتے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور ہمارے سامنے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ تم انہیں سچا کہو نہ جھوٹا بلکہ تم آیت ( امنا بالذی ) سے آخر آیت تک پڑھ دیاکرو ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کیا یہ جنازے بولتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو علم ہے ۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ یقینا بولتے ہیں اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اہل کتاب جب تم سے کوئی بات بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب بلکہ کہدو ہمارا اللہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے ۔ یہ اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم کسی جھوٹ کو سچا کہہ دو یا کسی سچ کو جھوٹ بتادو ۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ان اہل کتاب کی اکثروبیشتر باتیں تو غلط اور جھوٹ ہی ہوتی ہیں عموما بہتان و افتراء ہوتا ہے ۔ ان میں تحریف و تبدل تغیر وتاویل رواج پاچکی ہے اور صداقت ایسی رہ گئی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں ۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ بالفرض سچ بھی ہو تو ہمیں کیا فائدہ؟ ہمارے پاس تو اللہ کی تازہ اور کامل کتاب موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں اہل کتاب سے تم کچھ بھی نہ پوچھو ۔ وہ خود جبکہ گمراہ ہیں تو تمہاری تصحیح کیا کریں گے؟ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی سچ بات کو تم جھوٹا کہہ دو ۔ یا ان کی کسی جھوٹی بات کو تم سچ کہہ دو ۔ یاد رکھو ہر اہل کتاب کے دل میں اپنے دین کا ایک تعصب ہے ۔ جیسے کہ مال کی خواہش ہے ( ابن جریر ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تم اہل کتاب سے سوالات کیوں کرتے ہو؟ تم پر تو اللہ کی طرف سے ابھی ابھی کتاب نازل ہوئی ہے جو بالکل خالص ہے جس میں باطل نہ ملا نہ مل جل سکے ۔ تم سے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین کو بدل ڈالا ۔ اللہ کی کتاب میں تغیر کردیا اور اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ کی کتاب کہنے لگے اور دنیوی نفع حاصل کرنے لگے ۔ کیوں بھلا تمہارے پاس جو علم اللہ ہے کیا وہ تمہیں کافی نہیں؟ کہ تم ان سے دریافت کرو ۔ دیکھو تو کس قدر ستم ہے کہ ان میں سے تو ایک بھی تم سے کبھی کچھ نہ پوچھے اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو؟ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینے میں قریش کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ دیکھو ان تمام اہل کتاب میں اور ان کی باتیں بیان کرنے والوں میں سب سے اچھے حضرت کعب بن احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے لیکن باوجود اس کے بھی ان کی باتوں میں بھی ہم کبھی کھبی جھوٹ پاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمدا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ جن کتابوں پر انہیں اعتماد ہے وہ خود گیلی سوکھی سب جمع کر لیتے ہیں ان میں خود سچ جھوت صحیح غلط بھرا پڑا ہے ۔ ان میں مضبوط ذی علم حافظوں کی جماعت تھی ہی نہیں ۔ یہ تو اسی امت مرحومہ پر اللہ کا فضل ہے کہ اس میں بہترین دل ودماغ والے اور اعلیٰ فہم وذکا والے اور عمدہ حفظ و اتقان والے لوگ اللہ نے پیدا کردیئے ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھئے کہ کس قدر موضوعات کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے؟ اور کس طرح لوگوں نے باتیں گھڑلی ہیں ۔ محدثین نے اس باطل کو حق سے بالکل جدا کردیا فالحمدللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

461اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔ 462یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دیں۔ 463تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یعنی مشرکوں کا دین تو سراسر باطل ہے۔ مگر اہل کتاب کا دین اپنی اصل کے لحاظ سے سچا تھا۔ لہذا ان سے تمہاری بحث کا انداز مشرکوں سے جداگانہ ہوجانا چاہئے۔ اور ان کے مذاہب میں جتنی سچائی موجود ہے اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ پھر جس مقام سے اختلاف واقع ہوتا ہے وہ نرمی، متانت سے اور خیر خواہی کے جذبے سے انھیں سمجھانا چاہئے۔ بحث کا انداز یہ نہ ہونا چاہئے کہ دورے کو سراسر غلط اور نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا آسان ہوجائے۔- [٧٧] بےانصاف یا ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذہبی تعصب کو ہی سب سے بڑی قدر سمجھتے ہوں۔ اور ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہوں جیسا کہ یہود مدینہ میں کعب بن اشرف اور ابو رافع سلام بن ابی الحقیق اور مشرکین مکہ میں ابو جہل اور اس کے ساتھی تھے۔- [٧٨] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بحث کا انداز بھی خود ہی سمجھا دیا۔ یعنی جن جن باتوں میں فریقین میں موافقت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ پہلے ان کا ذکر کرکے انھیں اپنی طرف مائل کیا جائے۔ یہ نہ ہونا چاہئے کہ ابتداء میں اختلافی امور کو زیر بحث لا کر فریق مخالف کو اپنا مزید مخالف بنالیا جائے۔ یعنی زبان شیریں اور انداز گفتگو ایسے ناصحانہ ہونا چاہئے جس سے وہ چڑ جانے کی بجائے بات کو تسلیم کرلینے پر آمادہ ہوجائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ ۔۔ : یعنی مشرکوں کا دین جڑ سے غلط ہے اور کتاب والوں کا دین اصل میں سچ تھا تو ان سے ان کی طرح نہ جھگڑو کہ جڑ سے ان کی بات کاٹو، بلکہ نرمی سے واجبی بات سمجھاؤ، مگر ان میں جو (صریح) بےانصافی پر (اتر) آئے اس کی سزا وہی ہے (یعنی اس کے ساتھ اس کے جرم کے مطابق سلوک کرو) ۔ (موضح)- 3 کتاب اللہ کی تلاوت کے حکم کے بعد فرمایا کہ اہل کتاب میں سے جو اسے سن کر سمجھنے کے لیے بحث کرے اس کے ساتھ ایسے طریقے ہی سے بحث کرو جو بہتر سے بہتر ہوسکتا ہے۔ کیا عجب ہے کہ وہ راہ راست اختیار کرے۔ دوسری آیت میں یہ حکم عام ہے اور دعوت دین میں ہر ایک کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کرنے کا حکم ہے، فرمایا : (اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ ) [ النحل : ١٢٥ ] ” اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بیشک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ) [ حٰآ السجدۃ : ٣٤ ] ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ “ اور جیسا کہ موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے حکم دیا : ( فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى) [ طٰہٰ : ٤٤ ] ” پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔ “- اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ : یعنی ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں، ضد اور تعصب برتیں اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیں، پھر مناظرے و مباحثے بےسود ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ بات میں سختی جائز ہے اور آگے چل کر ان کے ساتھ جدال کے بجائے قتال ہوگا، اس وقت تک کہ ایمان لے آئیں یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں، جیسا کہ فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ٢٩ ] ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “ مکی سورتوں میں آنے والے وقت میں کفار کے ساتھ قتال کے اشارے کئی جگہ موجود ہیں۔- وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا : اس میں ہمیں حکم ہے کہ بحث مباحثہ میں اہل کتاب جب کوئی ایسی بات بیان کریں جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ صحیح ہے یا غلط، سچ ہے یا جھوٹ، تو ہم نہ اسے جھوٹا کہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے وہ سچ ہو اور نہ سچا کہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹ ہو، بلکہ اس پر مجمل ایمان رکھیں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہو، نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوئی ہو اور نہ کوئی تاویل اور یہ کہیں ” ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : ( کَانَ أَہْلُ الْکِتَابِ یَقْرَءُوْنَ التَّوْرَاۃَ بالْعِبْرَانِیَّۃِ ، وَ یُفَسِّرُوْنَہَا بالْعَرَبِیَّۃِ لِأَہْلِ الإِْسْلاَمِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُصَدِّقُوْا أَہْلَ الْکِتَابِ ، وَلاَ تُکَذِّبُوْہُمْ وَ (وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( قولوا آمنا باللہ ۔۔ ) : ٤٤٨٥ ] ” اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو اور یہ کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا۔ “ واضح رہے کہ پہلی کتابوں کے متعلق اجمالی طور پر یہ تسلیم کرنا تو ضروری ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ہیں، مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے گا۔ اس مضمون کی مزید تفصیل کے لیے اس تفسیر کے مقدمہ میں اسرائیلیات کا عنوان ملاحظہ فرمائیں۔- وَاِلٰـهُنَا وَاِلٰــهُكُمْ وَاحِدٌ ۔۔ : یعنی اہل کتاب کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک مسائل پیش کرکے قائل کرنے کی کوشش کرو، جن میں سب سے اہم چیز اللہ تعالیٰ کی توحید ہے، جو اب بھی تحریف کے باوجود تورات اور انجیل میں جابجا موجود ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران کی آیت (٦٤) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت ثابت ہے تو اے مسلمانوں منکرین رسالت میں سے جو اہل کتاب ہیں ہم ان سے طریقہ گفتگو بتلاتے ہیں اور یہ تخصیص اس لئے کہ اول تو وہ بوجہ اہل علم ہونے کے بات کو سنتے ہیں اور مشرکین تو بات سننے سے پہلے ہی ایذا کے در پے ہوجاتے ہیں، دوسرے اہل علم کے ایمان لے آنے سے عوام کا ایمان زیادہ متوقع ہوجاتا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ) تم اہل کتاب کے ساتھ بجز مہذب طریقے کے مباحثہ مت کرو ہاں جو ان میں زیادتی کریں (تو ان کو جو ترکی بہ ترکی دین کا مضائقہ نہیں، گو افضل جب بھی طریقہ احسن ہے) اور (وہ مہذب طریقہ یہ ہے کہ مثلاً ان سے) یوں کہو کہ ہم اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی اور ان کتابوں پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو تم پر نازل ہوئیں، (کیونکہ مدار ایمان کا منزل من اللہ ہونا ہے، پس جب ہماری کتاب کا منزل من اللہ ہونا تمہاری کتب سے بھی ثابت ہے پھر تم کو قرآن پر بھی ایمان لانا چاہئے) اور (یہ تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ) ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے کقولہ تعالیٰ اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا الخ جب توحید متفق علیہ ہے اور اپنے احبارو رہبان کی اطاعت کی وجہ سے نبی آخر الزماں پر ایمان نہ لانا خلاف توحید ہے، تو تم کو ہمارے نبی پر ایمان لانا چاہئے (کقولہ تعالیٰ وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا الخ) اور (اس گفتگو کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا تنبیہ کے لئے سنا دو کہ) ہم تو اس کی اطاعت کرتے ہیں (اس میں عقائد و اعمال سب آگئے یعنی اسی طرح تم کو بھی چاہئے جب کہ مقتضی موجود ہے کقولہ تعالیٰ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ) اور (جس طرح ہم نے پہلے انبیاء پر کتابیں نازل کیں) اسی طرح ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی (جس کی بناء پر مجادلہ بالاحسن کی تعلیم کی گئی) سو جن لوگوں کو ہم نے کتاب (کی نافع سمجھ) دی ہے وہ اس (آپ والی) کتاب پر ایمان لے آتے ہیں (اور ان سے مجادلہ کی بھی نوبت شاذ و نادر آتی ہے) اور ان (اہل عرب مشرک) لوگوں میں بھی بعض ایسے (منصف) ہیں کہ اس کتاب پر ایمان لے آتے ہیں (خواہ خود سمجھ کر یا اہل علم کے ایمان سے استدلال کر کے) اور (وضوح دلائل کے بعد) ہماری (اس کتاب کی) آیتوں سے بجز (ضدی) کافروں کے اور کوئی منکر نہیں ہوتا (اوپر مجادلہ کی تقریر دلیل نقلی تھی جس سے خاص اہل نقل کو تخاطب تھا آگے دلیل عقلی ہے جس میں ام تخاطب ہے یعنی) اور (جو لوگ آپ کی نبوت کے منکر ہیں، ان کے پاس کوئی منشاء اشتباہ بھی تو نہیں، کیونکہ) آپ اس کتاب (یعنی قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے کہ ایسی حالت میں یہ ناحق شناس لوگ کچھ شبہ نکالتے (کہ یہ لکھے پڑھے آدمی ہیں آسمانی کتابیں دیکھ بھال کر ان کی مدد سے مضامین سوچ کر فرصت میں بیٹھ کر لکھ لئے اور یاد کر کے ہم لوگوں کو سنا دیئے یعنی اگر ایسا ہوتا تو کچھ تو منشاء اشتباہ کا ہوتا، گو جب بھی یہ شبہ کرنے والے مبطل ہوتے، کیونکہ اعجاز قرآنی پھر بھی دلالت علی النبوة کے لئے کافی تھا، لیکن اب تو اتنا منشاء اشتباہ بھی نہیں۔ اس لئے یہ کتاب محل ارتیاب نہیں) بلکہ یہ کتاب (باوجود واحد ہونے کے چونکہ ہر حصہ اس کا معجزہ ہے اور حصص کثیر ہیں، اس لئے وہ تنہا گویا) خود بہت سی واضح دلیلیں ہیں ان لوگوں کے ذہن میں جن کو علم عطا ہوا ہے اور (باوجود ظہور اعجاز کے) ہماری آیتوں سے بس ضدی لوگ انکار کئے جاتے ہیں ( ورنہ منصف کو تو ذرا شبہ نہیں رہنا چاہئے) اور یہ لوگ (باوجود عطاء معجزہ قرآن کے محض براہ تعنت وعناد) یوں کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر) پر ان کے رب کے پاس سے (ہماری فرمائشی) نشانیاں کیوں نہیں نازل ہوئیں، آپ یوں کہہ دیجئے کہ وہ نشانیاں تو خدا کے قبضہ (قدرت) میں ہیں اور (میرے اختیار کی چیزیں نہیں) میں تو صرف ایک صاف صاف (عذاب الہی سے) ڈرانے والا (یعنی رسول) ہوں (اور رسول ہونے پر صحیح دلیلیں رکھتا ہوں جن میں سب سے بڑی دلیل قرآن ہے۔ پھر خاص دلیل کی کیا ضرورت ہے خصوصاً جبکہ اس کے واقع نہ ہونے میں حکمت بھی ہو۔ آگے قرآن کا اعظم فی الدلالتہ ہونا فرماتے ہیں) کیا (دلالت علی النبوة میں) ان لوگوں کو یہ بات کافی نہیں ہوئی کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب (معجز) نازل فرمائی ہے جو ان کو (ہمیشہ) سنائی جاتی رہتی ہے (کہ اگر ایک بار سننے سے اعجاز ظاہر نہ ہو تو دوسری بار میں ہوجائے یا اس کے بعد ہوجائے اور دوسرے معجزات میں تو یہ بات بھی نہ ہوتی، کیونکہ اس کا خارق ہونا دائمی نہ ہوتا جیسا ظاہر ہے اور ایک ترجیح اس معجزہ میں یہ ہے کہ) بلاشبہ اس کتاب میں (معجزہ ہونے کے ساتھ) ایمان لانے والے لوگوں کے لئے بڑی رحمت اور نصیحت ہے (رحمت یہ کہ تعلیم احکام کی ہے جو نفع محض ہے اور نصیحت ترغیب و ترہیب سے ہے اور یہ بات دوسرے معجزات میں کب ہوتی، پس ان ترجیحات سے تو اس کو غنیمت سمجھتے اور ایمان لے آتے اور اگر اس وضوح دلائل کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو آخری جواب کے طور پر) آپ کہہ دیجئے کہ (خیر بھائی مت مانو) اللہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کا) گواہ بس ہے اس کو سب چیز کی خبر ہے جو آسمان میں ہے اور زمین میں ہے اور (جب میری رسالت اور اللہ کا علم محیط ثابت ہوا تو) جو لوگ جھوٹی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ (کی باتوں) کے منکر ہیں (جن میں رسالت بھی داخل ہے) تو وہ لوگ بڑے زیاں کار ہیں (یعنی جب اللہ کے ارشاد سے میری رسالت ثابت ہے تو اس کا انکار کفر باللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم محیط ہے تو اس کو اس انکار و کفر کی بھی خبر ہے اور اللہ تعالیٰ کفر پر سزائے خسارہ دیتے ہیں۔ پس لامحالہ ایسے لوگ خاسر ہوں گے) اور یہ لوگ آپ سے عذاب (واقع ہونے کا) تقاضا کرتے ہیں (اور فوراً عذاب نہ آنے سے آپ کی نبوت و رسالت میں شبہ و انکار کرتے ہیں) اور اگر (علم الٰہی میں عذاب آنے کے لئے) میعاد معین نہ ہوتی تو (ان کے تقاضہ کے ساتھ ہے) ان پر عذاب آچکا ہوتا اور (جب وہ معیاد آ جاوے گی تو) وہ عذاب ان پر دفعۃً آپہونچے گا اور ان کو خبر بھی نہ ہوگی (آگے ان لوگوں کی جہالت کے اظہار کے لئے ان کی جلد بازی کو مکرر ذکر کر کے عذاب کی میعاد معین اور اس میں پیش آنے والے عذاب کا ذکر کرتے ہیں کہ) یہ لوگ آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں اور (عذاب کی صورت یہ ہے کہ) اس میں کچھ شک نہیں کہ جہنم ان کافروں کو (چاروں طرف سے) گھیر لے گا جس دن ان پر عذاب ان کے اوپر سے اور ان کے نیچے سے گھیر لے گا اور (اس وقت ان سے) حق تعالیٰ فرمائے گا کہ جو کچھ (دنیا میں) کرتے رہے ہو (اب اس کا مزہ) چکھو۔ - معارف و مسائل - وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا، یعنی اہل کتاب سے بحث و مباحثہ کی نوبت آوے تو مجادلہ بھی ایسے طریقہ سے کرو جو بہتر ہو مثلاً سخت بات کا جواب نرم الفاظ سے، غصہ کا جواب بردباری سے، جاہلانہ شور و شغب کا جواب باوقار گفتگو سے، اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا، مگر وہ لوگ جنہوں نے تم پر ظلم کیا کہ تمہاری باوقار نرم گفتگو اور دلائل واضحہ کے مقابلہ میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا تو وہ اس احسان کے مستحق نہیں رہے، بلکہ ایسے لوگوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا جائے تو جائز ہے، اگرچہ اولی اور بہتر اس وقت بھی یہی ہے کہ ان کی بدخوئی کا جواب بدخوئی سے اور ظلم کا جواب ظلم سے نہ دیں۔ بلکہ کج خلقی کے جواب میں خوش خلقی کا اور ظلم کے جواب میں انصاف کا مظاہرہ کریں جیسا کہ دوسری آیات قرآن میں اس کی تصریح ہے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ یعنی اگر ظلم وجور کا بدلہ تم ان سے برابر سرابر لے لو تو تمہیں اس کا حق ہے، لیکن صبر کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ “- اس آیت میں اہل کتاب سے مجادلہ میں جو ہدایت طریقہ حسنہ کے ساتھ کرنے کی دی گئی ہے یہی سورة نحل میں مشرکین کے متعلق بھی ہے۔ اس جگہ اہل کتاب کی تخصیص اس کلام کی وجہ سے ہے جو بعد میں آ رہا ہے کہ ہمارے اور تمہارے دین میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں تم غور کرو تو ایمان اور اسلام کے قبول کرنے میں تمہیں کوئی مانع نہ ہونا چائے، جیسا کہ ارشاد فرمایا قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ یعنی تم اہل کتاب سے مجادلہ کے وقت ان کو اپنے قریب کرنے کے لئے یہ کہو کہ ہم مسلمان تو اس وحی پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہماری طرف بواسطہ ہمارے رسول کے بھیجی گئی ہے اور اس وحی پر بھی جو تمہاری طرف تمہارے پیغمبر کے ذریعہ بھیجی گئی ہے، اس لئے ہم سے مخالفت کی کوئی وجہ نہیں۔- کیا اس آیت میں موجودہ تورات و انجیل کے مضامین کی تصدیق کا حکم ہے :- اس آیت میں اہل کتاب کی طرف آنے والی کتابوں تورات و انجیل پر مسلمانوں کے ایمان کا تذکرہ جن عنوان سے کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کتابوں پر اجمالی ایمان رکھتے ہیں بایں معنی کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں نازل فرمایا تھا اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجودہ تورات و انجیل کے سب مضامین پر ہمارا ایمان ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں بھی بہت تحریفات ہوچکی تھیں اور اس وقت سے اب تک ان میں تحریف کا سلسلہ چل ہی رہا ہے۔ ایمان صرف ان مضامین تورات و انجیل پر ہے جو اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل ہوئے تھے، تحریف شدہ مضامین اس سے خارج ہیں۔- موجودہ تورات و انجیل کی مطلقاً تصدیق کی جائے نہ مطلقاً تکذیب :- صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ اہل کتاب تورات و انجیل کو ان کی اصلی زبان عبرانی میں پڑھتے تھے، اور مسلمانوں کو ان کا ترجمہ عربی زبان میں سناتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب کرو، بلکہ یوں کہو اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ ، یعنی ہم اجمالاً اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تمہارے انبیاء پر نازل ہوئی ہے اور جو تفصیلات تم بتلاتے ہو وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد نہیں۔ اس لئے ہم اس کی تصدیق و تکذیب سے اجتناب کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝ ٠ۤۖ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰـہُنَا وَاِلٰــہُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۝ ٤٦- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : (ولا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتیھی احسن۔ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے) قتادہ کا قول ہے کہ یہ آیت قول باری (وقاتلوا المشرکین اور مشرکین سے قتال کرو) کی بنا پر منسوخ ہوچکی ہے۔ کوئی بحث تلوار کے استعمال سے بڑھ کر نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قتادہ کی مراد یہ ہے کہ آیت، زیر بحث کا حکم قتال کے حکم سے پہلے کا ہے۔- قول باری ہے : (الا الذین ظلموا منھم ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں) ۔ یعنی۔ واللہ اعلم۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے بحث وجدال وغیرہ میں تمہارے ساتھ ظلم کیا ہو جو اس امر کا مقتضی ہو کہ تم ان کے ساتھ سخت رویہ رکھو۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : (ولا تقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلو کم فاقتلوھم ۔ اور ان کے ساتھ مسجد حرام کے آس پاس جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ تمہارے ساتھ جنگ نہ کریں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کریں تو انہیں قتل کرو) مجاہد کا قول ہے : (الا الذین ظلموا منھم) سے مراد وہ لوگ ہیں جو جزیہ ادا کرنے سے انکار کرتے ہوں۔ ایک قول کے مطابق وہ لوگ مراد ہیں جو کفر پر ڈٹے رہے حالانکہ ان پر حجت تام ہوچکی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور تم یہود و نصاری کے ساتھ بحث مت کرو مگر قرآن حکیم کے ذریعے سے۔ ہاں جو ان میں زیادتی کریں جیسا کہ وفد بنی نجران۔ اور یوں کہو کہ ہم قرآن حکیم پر بھی اور توریت اور انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا اللہ ایک، وحدی لاشریک (یعنی ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں) ہے اور ہم تو اسی کی اطاعت اور اسی کی توحید کا اقرار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُز) ” - ان کو دعوت دیتے ہوئے اچھے طریقے سے ان سے گفتگو کرو۔ تمہاری گفتگو میں نہ تو ان کی توہین کا انداز ہو اور نہ ہی ان کی عصبیت جاہلی کو بھڑکنے کا موقع ملتا ہو۔ بہر حال اپنا پیغام احسن طریقے سے ان تک پہنچا دو ۔ اس کے بعد وہ اپنے نظریے اور عمل کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔- (اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ ) ” - اس استثناء کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں غیر منصفانہ طرز عمل دکھانے والے افراد سے مجادلہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ‘ اور دوسرے یہ کہ دوران گفتگو ایسے لوگوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ان کے ساتھ کسی حد تک سخت رویہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے۔ بہر حال اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو اس کے ساتھ بحث و تمحیص میں یہ دونوں صورتیں بھی پید اہو سکتی ہیں۔ یعنی اس کا غیر منصفانہ رویہ دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ سخت جملوں کے تبادلے کی نوبت بھی آسکتی ہے اور اس کے بعد مزید گفتگو کرنے سے اعراض بھی برتا جاسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 80 واضح رہے کہ آگے چل کر اسی سورہ میں ہجرت کی تلقین کی جارہی ہے ۔ اس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جاسکتے تھے ۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا ، اس لیے ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 81 یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ ، مہذب و شائستہ زبان میں ، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے ، تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہوسکے ۔ مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے ۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے ۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے ، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہوجائے ۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے ، مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے ۔ مثلا: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۔ ( النحل ، آیت 125 ) دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو ۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ۔ ( حم السجدہ ، آیت 34 ) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں ( مخالفین کے حملوں کی ) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے گرم جوش دوست ہے ۔ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ ۔ ( المومنون ، آیت 96 ) ( تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ ( تمہارے خلاف ) بناتے ہیں ۔ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۔ ( الاعراف ، آیت 199 ۔ 200 ) درگزر کی روش اختیار کرو ، بھلائی کی تلقین کرو ، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو ، اور اگر ( ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے ) شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 82 یعنی جو لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعی حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے ۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی ، شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 83 ان فقروں میں اللہ تعالی نے خود اس عمدہ طریق بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرنی ہو اس کی گمراہی کو بحث کا نقطہ آغاز نہ بناؤ ، بلکہ بات اس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں ، یعنی آغاز کلام نکات اختلاف سے نہیں بلکہ نکات اتفاق سے ہونا چاہیے پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کر کے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور اس کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے ۔ اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل کتاب مشرکین عرب کی طرح وحی و رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح ان سب حقیقتوں کو مانتے تھے ۔ ان بنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑٰ چیز بنیاد اختلاف ہوسکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہوئی کتاب پر ایمان لانے کی انہیں دعوت دیتے اور اس کے نہ ماننے پر انہیں کافر قرار دیتے ۔ یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی ، لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا ۔ وہ تمام ان کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہل کتاب کے پاس موجود تھیں ، اور پھر اس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد یہ بتانا اہل کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو ۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو سای کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں ۔ اس کی طرف سے جو احکام و ہدایات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر تسلیم خم ہے ، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں ۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں ۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں نہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں ۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصا اہل کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ البقرہ آیات 4 ۔ 136 ۔ 177 ۔ 285 ۔ آل عمران آیت 84 ۔ النساء 136 ۔ 150 تا 152 ۔ 162 تا 164 ۔ الشوری 13 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: یوں تو دعوت اسلام میں ہر جگہ یہی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ شائستگی کے ساتھ ہو، لیکن خاص طور پر اہل کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں اس لئے یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ آسمانی کتابوں پر فی الجملہ ایمان رکھتے ہیں، اس لئے بت پرستوں کے مقابلے میں وہ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں، تاہم اگر زیادتی ان کی طرف سے ہو تو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔