Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں ۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی ۔ اور روایت میں ہے کہ وہ اللہ سے دور ہی ہوتاچلا جائے گا ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جارہی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں ، نماز بےحیائی سے اور بد فعلیوں سے روکتی ہے اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے ۔ حضرت شعیب سے جب ان کی قوم نے کہا کہ شعیب کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو حضرت سفیان نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ہاں اللہ کی قسم نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے ۔ حضرت عبداللہ سے کسی نے کہا فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے آپ نے فرمایا نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے ۔ میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ بزار میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑادے گی ۔ چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے ۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں نماز تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں اخلاص وخلوص خوف اللہ اور ذکر اللہ ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہوجاتا ہے اور خوف اللہ سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتا دیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے ۔ ابن عون انصاری فرماتے ہیں جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے ۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کرہا ہے وہ تیرے لئے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے ۔ حماد کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا ۔ ایک راوی سے ابن عباس کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے ۔ اس نے کہا ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کروگے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ١٥٢؁ۧ ) 2- البقرة:152 ) کہ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا ۔ اسے سن کر آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا یعنی دونوں مطلب درست ہیں ۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود حضرت ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں سبحان للہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر وغیرہ کہنا ہے ۔ آپ نے فرمایا تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابو درداء حضرت سلمان فارسی وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ اور اسی کو امام ابن جریر پسند فرماتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر وثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔ 452کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط وتعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کا اہتمام فرماتے۔ 453یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب ؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ان آداب و شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامسا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعا رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب و شرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بےحیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔ 454یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلٰوۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہوجاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٢] اس آیت میں یہ ظاہر خطاب صرف رسول اللہ کو ہے لیکن مخاطب سارے ہی مومن ہیں۔ جو مکہ میں کافروں کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ ان مصائب کے مداوا کے طور پر انھیں تین باتوں کی تلقین کی گئی ایک قرآن کی تلاوت، دوسرے نماز پر ہمیشگی اور تیسرے ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا۔- تلاوت قرآن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دل میں صبر اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا 32؀) 25 ۔ الفرقان :32) بشرطیکہ قرآن کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کی اقتضات کو اپنی ذات پر نافذ کیا جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت بذات خود باعث اجر وثواب ہے۔ اور اس کے ایک ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ اور میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی من قرء حرفا من القرآن۔۔ )- تیسرا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سوچ سمجھ کر پڑھنے سے اس کے معارف و حقائق پڑھنے والے پر منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سے دوسرے لوگ بھی اس کے مواعظہ اور علوم و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ پانچواں فائدہ یہ ہے کہ دعوت و اصطلاح کے فریضہ کی اصل بنیاد تلاوت قرآن کریم بھی ہے۔ پھر جو لوگ قرآن کی ہدایت کو تسلیم نہ کریں ان پر اللہ کی حجت قائم اور پوری ہوجاتی ہے۔- لیکن ہمارے دور کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب بلا سوچے سمجھے تلاوت قرآن کو ایک بےہودہ فعل قرار دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ :- قرآن ایک کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔ کہئے اس کے الفاظ دہرا دینے سے یہ مقصد حاصل ہوجائے گا ؟ نیز قرآن اپنے مضامین پر بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کیا یہ مقصود بلاسوچے سمجھے پڑھنے سے حاصل ہوسکتا ہے ؟ آپ کسی مصنف سے یہ کہئے کہ میں تمہاری کتاب کے ایک لفظ کو بھی نہیں سمجھتا لیکن اس کے باوجود ہر روز اسے پڑھتا ہوں۔ حتیٰ کہ مجھے وہ زبان بھی نہیں آتی جس میں تم نے یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کے باوجود اس کتاب کو دہراتا رہتا ہوں۔ آپ خود ہی سوچئے کہ وہ مصنف آپ کو کیا جواب دے گا ؟ یہ عقیدہ دراصل مسلمانوں کو قرآن سے الگ رکھنے کے لئے تراشا گیا تھا جو عجمی سازش کا نتیجہ ہے اور یہ عقیدہ یکسر غیر قرآنی ہے جو درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے۔ جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ الفاظ (معانی نہیں) اپنے اندر تاثیر رکھتے ہیں۔ یہ قرآنی اعمال، تعویذ، نقوش، وظائف اور اد، سب اسی عقیدہ کی مستعار شکلیں ہیں (قرآنی فیصلے ص ١٠٣)- پھر یہی خیالات مقام حدیث کے ص ٢٢١ پر دہرائے گئے ہیں اور اس کے بعد قرآن سورتوں یا آیات کی تلاوت کی فضیلت کے متعلق چند احادیث درج کرکے ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا تاثر دیا گیا ہے نیز یہی افکار اسباب زوال امت کے ص ٥٩ پر بھی دیئے گئے ہیں اور دلیل میں یہ آیت بھی پیش کی گئی ہے :- (يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ ۭوَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ ١٦٧؁ۚ ) 3 ۔ آل عمران :167) وہ زبان سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا (اسباب زوال امت، ص ٥٩)- جواب دینے سے پیشتر ہم جناب پرویز کی ہشیاری کی داد ضرور دینا چاہتے ہیں کہ جو آیت منافقوں سے تعلق رکھتی تھی اسے آپ نے اس مقام پر فٹ کر دکھایا ہے۔ یہ آیت ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا) سے شروع ہوتی ہے اور اس آیت کے مندرجہ ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کی سبان پر کوئی اور بات ہوتی ہے جبکہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے یعنی جس بات کا وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں ان کے دل اس سے منکر ہوتے ہیں لیکن بلاسوچے سمجھے یا منعی نہ سمجھنے کے باوجود قرآن پاک کی تلاوت کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے کہ ایسے شخص کے دل میں کچھ ہوتا ہی نہیں یا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف یہ کہ وہ اپنے پروردگار کے کلام کی تلاوت کر رہا ہے۔ اور یہ ایک اچھا باعث برکت وثواب عمل ہے۔- قرآن میں تلاوت قرآن پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ کی سب سے پہلی ذمہ داری تھی کہ آپ امت پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ ان تلاوت شدہ آیات کو زبانی یاد کرلیا کریں۔ اللہ تعالیٰ ازواج النبی سے فرماتے ہیں : ( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا 34؀ ) 33 ۔ الأحزاب :34) اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات و حکمت پڑھی جاتی ہیں، ان کو یاد رکھو - اور یہ تو واضح ہے کہ آیات کو یاد رکھنے اور حفظ کرنے کے لئے ان آیات کو بار بار پڑھنا اور دور کرنا پڑتا ہے اور بار بار تلاوت کرنے کا مقصد غور و تدبر ہی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صحابہ کو قرآنی آیات سکھلاتے بھی تھے، پڑھاتے بھی تھے، یاد بھی کرواتے تھے، پھر ان سے سنتے بھی تھے، انھیں سناتے بھی تھے، تب جاکر صحابہ کو حفظ اور ضبط ہوتا تھا۔ حفظ کرتے وقت جو تکرار، اعادہ یا دور کہا جاتا ہے اس کا مقصد غور و تدبر کرنا نہیں ہوتا بلکہ حفظ ہی ہوتا ہے اب حفظ کرنے کے لئے آیات کی جو بار بار تلاوت کی جاتی ہے، وہ اگرچہ بلاسوچے سمجھے ہوتی ہے تاہم یہ ایک بہت بڑی دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ یعنی قرآن سینوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ ایک مستحسن فعل ہوا۔ خواہ یہ حفظ کرتے وقت طوطے کی طرح رٹنا ہی پڑے۔- نبوت کے ابتدائی ایام میں ہی سورة مزمل نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا :- ( اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا ۝ۭ ) 73 ۔ المزمل :4) اور قرآن کو خوب حسن تناسب سے پڑھا کرو - رتل کا معنی کسی چیز کا حسن تناسب کے ساتھ مرتب اور منظم ہونا ہے۔ (مفردات) پھر اس میں کسی عبارت کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، حسن ادائیگی الفاظ اور خوش آوازی یا خوش الحانی سب شامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم قرآن کو محض ایک قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی تصور کریں تو پھر قانون کی کتاب پڑھنے کے لئے ایسی ہدایات کی کیا ضرورت ہے ؟ قانون کی کتاب میں غور و فکر کرنے کے لئے الفاظ کو بلند آواز سے پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی چہ جائیکہ اسے ترتیل سے پڑھا جائے۔- علاوہ ازیں قرآن میں کچھ ایسی متشابہ آیات بھی ہیں جن کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے یا پھر کچھ راسخون فی العلم جان سکتے ہیں۔ عام لوگ جن کی ہر دور میں اکثریت ہوتی ہے، اس کے مفہوم و معانی اور صحیح تاویل و تعبیر تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اور ایسی آیات کے مفہوم و معافی کے پیچھے پڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ پرور قرار دیا ہے۔ اور صفات الٰہی سے تعلق رکھنے والی تقریباً سب آیات اسی قبیل سے ہیں۔ پھر قرآن میں حروف مقطعات بھی اسی قبیل سے ہیں جن کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں، نہ ہی ان کا صحیح مفہوم معلوم ہوسکا ہے۔ اب اگر قرآن کو صرف قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ایسی آیات کی کیا ضرورت تھی ؟ یا کیا تلاوت قرآن کرتے وقت ایسی آیات کو چھوڑ دینا چاہئے ؟ یہ باتیں اس چیز پر واضح دلیل ہیں کہ قرآن پاک کو سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ صرف تلاوت بھی انتہائی ضروری ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آیا قرآن کے الفاظ میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں ؟ جسے پرویز صاحب عہد سحر سے منسلک فرما رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے بھی قاول ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :- ١۔ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں، بلکہ اس کے الفاظ کی بندش اور فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ فصحاء اور بلغاء عرب بار بار کے چیلنج کے باوجود اس جیسا کلام لانے سے قاصر رہے لہذا اسے عام انسانی تصانیت کے مثل قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ پرویز صاحب نے کسی مصنف کی کتاب کی بلاسوچے سمجھے پڑھنے کی مثال دی ہے۔- ٢۔ کفار مکہ میں سے اکثر فصحائے عرب تھے۔ ان میں شاعر بھی موجود تھے۔ وہ قرآن کی آیات کو سنتے اور خوب سمجھتے تھے کیونکہ ان کی زبان عربی تھے۔ وہ دل سے قرآن کے مخالف بھی تھے۔ پھر بھی قرآں کے الفاظ کی اعجازی حیثیت ان کو مسحور کردیتی تھی۔ آخر یہ کیا بات تھی کہ وہ اپنی لگائی ہوئی پابندیوں کے علی الرغم رات کو پہروں چوری چھپے قرآن سنتے تھے ؟ کیا یہ الفاظ ہی کی تاثیر نہ تھی ؟- ٣۔ الفاظ کی اس اعجازی حیثیت کا پرویز صاحب خود بھی ایک دوسرے مقام پر زیر عنوان مشاعرے بدیں الفاظ اقرار کرتے ہیں :- آپ کسی شاعر سے کہئے کہ جو کچھ آپ نے نظم میں لکھا ہے اسے ذرا نثر میں پڑھ کر سنائیے، پھر دیکھئے اس کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہے۔ غور کیجئے، کتنا بڑا ہے یہ سحر جس کی رو سے محض الفاظ کے ادھر ادھر رکھ دینے سے آپ کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔ (قرآنی فیصلے، ص ٣٠٥)- اب اگر کسی عام شاعر کی نظم میں الفاظ کی بندش میں یہ تاثیر ممکن ہے تو کیا قرآن کے الفاظ کی بندش میں اتنی بھی تاثیر نہیں اور ایسی تاثیر شعر ہی میں نہیں نثر میں بھی ممکن ہے۔ قرآن مجید شاعرانہ بیہودگی سے یکسر پاک ہے تاہم اس کی اعجازی حیثیت مسلمہ ہے اور اس کی تاثیر کی بھی۔- ٤۔ رجز (جنگی گیت) اور حدی کا اثر اونٹ وغیرہ پر بھی ہونا مشاہدات سے ثابت ہے۔ حالانکہ اونٹ نہ وہ زبان جانتا ہے نہ اس کا مطلب سمجھتا ہے تاہم متاثر ضرور ہوجاتا ہے تو کیا اونٹ میں بھی کوئی عجمی سازش کام کررہی ہوتی ہے ؟- اسی مضمون سے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کوئی صاحب قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے قائل نہ تھے اور اسی موضوع پر اپنے ایک دوست سے بحث فرما رہے تھے۔ اس دوست نے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ تم تو نرے گدھے ہو۔ اس بات پر وہ صاحب سیخ پا ہوگئے اور غصہ کی وجہ سے چہرہ تمتا اٹھا اور اپنے دوست کو بدتمیزی کے القابات سے نوازنے لگے۔ دوست نے بڑے آرام سے کہا کہ اگر الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی تو آپ اس قدر برہم کیوں ہوگئے ؟ آپ فی الواقع کوئی گدھا بن تو نہیں گئے۔ یہ جواب سن کر وہ صاحب کچھ گھسیانے سے ہوگئے اور غصہ بھی فرو ہوگیا۔- بلا سوچے سمجھے تلاوت کرنا اگرچہ کوئی بامقصد عمل نہیں کہلاسکتا تاہم اس سے بھی تین فائدے حاصل ہوتے ہیں :- ١۔ تلاوت کرنے والا جب تک تلاوت میں مشغول رہے گا دوسری خرافات سے محفوظ رہے گا۔- ٢۔ جو شخص اس بلاسوچے سمجھے تلاوت کو اپنا معمول بنا لے گا کسی نہ کسی دن ضرور وہ اس کا مفہوم سمجھنے کی بھی کوشش کرے گا۔- ٣۔ کلام الٰہی اگر ترتیل سے کی جائے تو کائنات کی کئی دوسری اشیاء بھی اس سے اثر قبول کرتی اور ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ داؤد جب زبور کی آیات تلاوت فرماتے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کی ان تسبیحات سے مسحور ہو کر ان میں شامل ہوجاتے تھے جیسا کہ ارشاد باری ہے : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10 ۝ ۙ ) 34 ۔ سبأ :10)- اور ہم نے اپنی طرف سے داؤد کو برتری بخشی تھی کہ اے پہاڑو اور پرندو (جب داؤد زبور کی تلاوت کریں تو) تم بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاؤ - بالکل ایسا ہی مضمون سورة انبیاء کی آیت نمبر ٧٩ اور سوہ کی آیت نمبر ١٩ میں بھی مذکور ہے۔- ان آیات میں جبال یا پہاڑ جمادات سے اور پرندے حیوانات سے تعلق رکھتے ہیں گویا یہ سب چیزیں آیات الٰہی کی تلاوت سے اثر پذیر ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ نہ ان کے معنی سمجھ سکتی ہیں اور غور و فکر کرسکتی ہیں۔- ان تمام تصریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ کریم کی تلاوت کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے تاہم قرآن کے الفاظ کی بندش میں بلا کی تاثیر ہے۔ جس سے انکار ناممکن ہے۔ لہذا اگر تلاوت کرنے والا اس کے مفہوم کو نہ جانتا ہو تب بھی اسے اس کی تلاوت سے کئی طرح سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔- رہا مسئلہ قرآنی عملیات، نقوش، تعویذات اور اوراد وغیرہ کا تو ان باتوں کا ثبوت کتاب و سنت میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ لہذا یہ افعال بدعیہ اور شرکیہ ہیں اور ایسی باتوں کا اگر پرویز صاحب عہد سحر سے تعلق قائم کرنا چاہیں تو بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں۔- [٧٣] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں تاثیر ہی یہ رکھ دی ہے کہ اس سے بےحیائی اور برے کاموں کا ارادہ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے پانی میں اللہ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ وہ پیاس کو بجھا دیتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز سے مطلوب یہ ہے کہ نمازی بےحیائی اور برے کاموں سے باز آجائے۔- اور یہ دونوں مطلب درست ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں مطالب کا مفہوم بالآخر ایک ہی بن جاتا ہے تو بھی درست ہے۔ اب آپ نماز کے ارکان پر اور جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے اس پر غور کریں تو از خود بخود یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو شخص نماز بھی پڑھتا رہے اور اس سے بےحیائی اور برائیاں بھی دور نہ ہوں تو وہ محض بےسوچے سمجھے اور عادتاً نماز ادا کرتا ہے۔ بھلا جس کی نماز کی ہر رکعت میں دل کی توبہ سے اللہ کے سامنے شرک سے برات کا اور دوسروں سے استمداد سے برات کا اقرار کیا جائے ایسا شخص بھی شرک میں مبتلا رہ سکتا ہے اور جس نماز کی رکعت میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے وہ نماز سے برے اور بےحیائی کے کاموں سے بچنے کی کوشش نہ کرے گا اور جو انسان اپنی نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی دعا کرتا ہے۔ وہ برے کام اور بےحیائی کے کام کیسے کرسکتا ہے ؟ غرض نماز میں اللہ کے سامنے اقرار اور اس کے حضور دعاؤں پر جتنا بھی غور کیا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ صحیح طریقہ سے نماز کو ادا کرنے والا لازماً برے کاموں سے رک جائے گا اور اگر نہیں رکتا تو اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ وہ نماز ٹھیک طرح ادا نہیں کرتا۔ وہ نماز میں اللہ کی یاد سے غافل اور دوسرے دنیوی خیالات میں منہمک رہتا ہے۔ اور ایسی نماز منافق کی نماز ہوتی ہے۔ مومن کی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے نمازیوں کو بھی برے انجام کی تنبیہ فرمائی ہے۔ جو اپنی نماز میں اللہ کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ (١٠٨: ٤، ٥)- [٧٤] اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ تمام تر عبادتوں کی روح رواں اللہ کی یاد ہی ہے۔ اللہ سے ہی انسان غافل ہو تو انسان عبادت کر کیسے سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام عبادت اسی صورت میں بطریق احسن سرانجام دی جاسکتی ہیں کہ اس عبادت کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ تیسرا مطلب یہ ہے، اللہ کو یاد کرنا، زبان سے اللہ اللہ کہنا اور دل میں ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا بذات خود بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اور اس مطلب کا تائید درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے :- حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کو چکی سے آٹا پیسنے سے بہت تکلیف ہوگئی۔ انھیں خبر ملی کہ آپ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ (غنیمت سے جس کا پانچواں حصہ آپ کے لئے مختص اور اس کی تقسیم آپ کی صوابدید پر منحصر تھی) وہ آپ کے پاس تشریف لائیں تاکہ آپ سے ایک لونڈی یا غلام کا مطالبہ کریں۔ اتفاق سے آپ گھر پر نہ ملے تو انہوں نے یہ بات حضرت عائشہ (رض) سے کہہ دی۔ جب آپ تشریف لائے تو حضرت عائشہ (رض) نے انھیں بتلایا کہ آپ اسی وقت (رات کو ہی) ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنا چاہا مگر آپ نے فرمایا : لیٹے رہو (آپ میرے اور حضرت فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے) میں نے آپ کے پاؤں کے ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو اس سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی ؟ (اور وہ یہ ہے کہ) جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو اللہ اکبر ٣٤ بار، الحمدللہ ٣٣ بار اور سبحان اللہ ٣٣ بار کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیا تھا (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب الخمس لنوائب رسول اللہ )- اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ اگر بندہ اللہ کو یاد کرے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتا ہے (٢: ١٥٢) اور ظاہر ہے کہ اللہ کا بندے کو یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے۔- [٧٥] یعنی اللہ اسے بھی جانتا ہے جو اس کے ذکر سے رطب اللسان رہتا ہے اور اسے بھی جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے۔ پھر ہر ایک سے اس کے عمل کے مطابق سلوک کرے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ ۔۔ : مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا تھا اور انھیں ایمان پر ثابت قدم رہنے میں جو مشکلات پیش آرہی تھیں سورت کے شروع سے یہاں تک انھیں ان مشکلات کو برداشت کرنے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی سنت بیان کی گئی۔ اس کے نمونے کے لیے پہلے اولو العزم پیغمبروں کی آزمائش اور ان کی قوموں کے شدید معاندانہ رویے پر ان کے صبر کو بیان کیا گیا، ساتھ ہی نافرمان اقوام کا عبرت ناک انجام ذکر کیا گیا۔ مقصد مسلمانوں کو تسلی دینا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کی تلقین ہے۔ اب وہ عملی تدبیر بتائی جس سے مومن میں وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ باطل کے مقابلے میں کھڑا رہ سکتا ہے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے احکام پر کار بند رہ سکتا ہے جب ہر طرف بےحیائی اور برائی کا دور دورہ اور اس کی زبردست اشاعت اور ترغیب موجود ہو۔- اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ : اس مقصد کے لیے پہلا حکم کتاب اللہ کی تلاوت ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ دوسرے مقامات پر دوسرے لوگوں کو پڑھ کر سنانے کا حکم ہے، مثلاً سورة مائدہ میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ ) [ المائدۃ : ٢٧ ] ” اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر۔ “ سورة اعراف میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا ) [ الأعراف : ١٧٥ ] ” اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا۔ “ سورة یونس میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نوح) [ یونس : ٧١ ] ” اور ان پر نوح کی خبر پڑھ۔ “ اور سورة شعراء میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابراھیم) [ الشعراء : ٦٩ ] ” اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔ “ مگر اس مقام پر مطلق تلاوت کا حکم ہے، جس میں سب سے پہلے خود تلاوت کا حکم ہے، پھر تمام لوگوں کے لیے تلاوت کا حکم ہے، ایک اور مقام پر بھی اسی طرح مطلق تلاوت کا حکم ہے، فرمایا : (وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ڝ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا) [ الکہف : ٢٧ ] ” اور اس کی تلاوت کر جو تیری طرف تیرے رب کی کتاب میں سے وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا تو کبھی کوئی پناہ کی جگہ پائے گا۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سننے اور اس کی تلاوت سے دل کو سکون و ثبات حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ڔ كَذٰلِكَ ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا) [ الفرقان : ٣٢ ] ” اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کردیا گیا ؟ اسی طرح ( ہم نے اتارا) تاکہ ہم اس کے ساتھ تیرے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا، خوب ٹھہر کر پڑھنا۔ “ - قرآن کی تلاوت ہی سے دل میں ایمان، کردار کی پختگی اور مصائب و مشکلات برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ جس شاعر یا مصنف کا کلام بار بار پڑھا جائے آدمی کو اس سے محبت ہوجاتی ہے، اس لیے قرآن کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، پھر اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی صفات، اس کے احکام و مواعظ اور پہلی امتوں اور پیغمبروں کے واقعات بار بار پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا دین ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتا ہے، جس سے اس پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ رات کے قیام میں اس کی تلاوت کی برکات کا تو شمار ہی نہیں۔ (دیکھیے سورة مزمل) اس طرح کثرت تلاوت کے ساتھ قرآن سینے میں محفوظ ہوجاتا اور محفوظ رہتا ہے، جس پر آدمی خود بھی عمل کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت و تبلیغ کرسکتا ہے اور اس کی تعلیم دے سکتا ہے، اگر اس کی تلاوت میں سستی کی جائے تو یہ بہت جلد سینے سے نکل جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الْإِبِلِ فِيْ عُقُلِہَا ) [ بخاري، فضائل القرآن، باب استذکار القرآن و تعاھدہ : ٥٠٣٣ ] ” قرآن کا دھیان رکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اس سے بھی جلدی چھوٹ کر نکل جاتا ہے جتنی جلدی اونٹ اپنی رسیوں میں سے نکل جاتے ہیں۔ “ بڑے ہی بدنصیب ہیں وہ لوگ جو قرآن کو محض ایک خط قرار دے کر اس کی تلاوت کو بےکار مشغلہ قرار دیتے ہیں۔- 3 اگرچہ قرآن کی تلاوت جس طرح بھی ہو فائدے اور ثواب سے خالی نہیں، مگر اس کا حقیقی فائدہ تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب اسے سمجھ کر پڑھا جائے، کیونکہ اس کے بغیر اس پر تدبر ممکن نہیں، جو اس کا اصل مقصد ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا) [ محمد : ٢٤ ] ” تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے قفل پڑے ہوئے ہیں ؟ “ سمجھ کر پڑھنے ہی سے آدمی اس پر عمل کرسکتا ہے اور اسی سے اس میں باطل سے مقابلے کا جذبہ اور اس کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اکثر اہل کتاب کی بربادی کا باعث یہی ہوا کہ وہ تعلیم اور عمل کے بغیر تورات کے لفظوں کی تلاوت پر قانع ہوگئے۔ دیکھیے سورة بقرہ کی آیت ( ٧٨) کی تفسیر۔ آج کل مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت میں اس کا لوگوں کو سنانا اور دعوت دینا بھی شامل ہے۔ - وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ : دوسرا حکم نماز کی اقامت کا ہے، کیونکہ اس سے آدمی میں اپنے رب کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہوجاتا ہے جو اس کے لیے ہر مصیبت اور مشکل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ٤٥، ٤٦) ” اقامت صلاۃ “ میں صلاۃ سے مراد تمام فرض نمازیں ہیں اور قائم کرنے سے مراد انھیں درست طریقے سے ادا کرنا ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت (٣) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔- اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ : ” اِنَّ “ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی نماز قائم کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ نماز ” الفحشاء “ اور ” والمنکر “ سے روکتی ہے۔ ” الفحشاء “ کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔ (راغب) مثلاً زنا وغیرہ اور ” المنکر “ وہ قول و عمل جس کا انسانی فطرت اور عقل انکار کرتی ہو۔ نماز کے بےحیائی اور برائی سے روکنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ نماز میں یہ تاثیر ہے کہ اس سے انسان بےحیائی اور برائی سے باز آجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز کا نمازی سے تقاضا یہ ہے کہ وہ بےحیائی اور برائی سے باز آجائے۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں اور ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ وہ آدمی جو نماز کو اس کے اوقات پر جماعت کے ساتھ ادا کرے، اس کے ارکان و شروط اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے صحیح طریقے سے ادا کرے، اس میں پڑھی جانے والی فاتحہ اور دوسری دعاؤں کے ذریعے سے دل کی حاضری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرے اور باربار ” رَبِّ اغْفِرْلِيْ “ اور استغفار کی دوسری دعاؤں کے ساتھ بخشش کی درخواست کرے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرے، تو یقیناً نماز اسے بےحیائی اور برائی سے روک دے گی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : ( إِنَّ فُلاَنًا یُصَلِّيْ باللَّیْلِ ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ قَالَ إِنَّہُ سَیَنْہَاہُ مَا تَقُوْلُ ) [ مسند أحمد : ٢؍٤٤٧، ح : ٩٧٩٢، قال المحقق صحیح ] ” فلاں شخص رات نماز پڑھتا ہے، جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عنقریب اس کا یہ عمل اسے اس کام سے روک دے گا جو تو کہہ رہا ہے۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کئی لوگ نماز ادا کرتے ہیں مگر بےحیائی اور برائی سے باز نہیں آتے ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ اگر وہ نماز کو اخلاص اور اس کے ارکان و آداب اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے دل کی حاضری کے ساتھ روزانہ پانچ مرتبہ مسجد میں باجماعت ادا کرتے تو یقیناً ان کی نماز انھیں فحشاء اور منکر سے باز رکھتی۔ اگر اس کا یہ اثر ظاہر نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں خلل ہے، دوا کے اجزا پورے نہیں، تبھی شفا نہیں ہوئی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز تو کہتی ہے کہ جب تو ہر کام چھوڑ کر مسجد میں آگیا، تیرے باوضو ہونے سے اور تیرے ادا کیے جانے والے الفاظ سے تیرے رب کے سوا کوئی واقف نہیں، پھر بھی تو بےوضو نماز نہیں پڑھتا، نماز میں فضول بات نہیں کرتا، تو جس رب کے ڈر سے نماز میں اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتا ہے نماز کے بعد بھی تجھے اس کے خوف سے ہر بےحیائی اور برائی سے اجتناب لازم ہے۔ نماز بہر حال بےحیائی اور برائی سے منع کرتی ہے، کوئی اس کا کہا نہ مانے تو اس کی مرضی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی بےحیائی اور برائی سے منع کرتا ہے، فرمایا : (وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ) [ النحل : ٩٠ ] ” اور اللہ بےحیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “ پھر کوئی اس کا حکم مانتا ہے، کوئی نہیں مانتا۔- 3 اس مقام پر کتب تفسیر میں چند احادیث مروی ہیں جو سنداً ثابت نہیں ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں سے وہ روایات اس کے محقق دکتور حکمت بن بشیر کی تحقیق کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں : 1 ابن ابی حاتم نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ”ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ “ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَّمْ تَنْھَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ ) ” جس شخص کی نماز اسے فحشاء اور منکر سے نہ روکے اس کی کوئی نماز نہیں۔ “ اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابی عثمان مجہول ہے۔ 2 ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَّمْ تَنْھَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ لَمْ یَزْدَدْ بِھَا مِنَ اللّٰہِ إِلَّا بُعْدًا ) ” جس شخص کی نماز اسے بےحیائی اور برائی سے نہ روکے اس نماز کے ساتھ اس کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوری ہی میں اضافہ ہوگا۔ “ یہ روایت لیث بن ابی سلیم راوی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ 3 ابن جریر طبری نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یُطِعِ الصَّلَاۃَ وَطَاعَۃُ الصَّلَاۃِ تَنْھَاہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ ) ” جو شخص نماز کی اطاعت نہ کرے اس کی نماز نہیں اور نماز کی اطاعت اسے فحشاء اور منکر سے روکے گی۔ “ اس کی سند میں دو راوی جویبر اور حسین (بن داؤد) ضعیف ہیں اور ابن مسعود (رض) سے روایت کرنے والے راوی ضحاک کی ان سے ملاقات ثابت نہیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے ان تمام روایات کے متعلق فرمایا : ” زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف (صحابہ کے اقوال) ہیں (مگر صحابہ سے بھی اکثر اقوال کی سند کمزور ہے) ۔ “ یہ روایات جن میں برائی سے نہ روکنے والی نماز کو کالعدم اور اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث بیان کیا گیا ہے، ان کی حقیقت میں نے اس لیے بیان کردی ہے کہ ایسا فتویٰ لگانے والا شخص فتویٰ کی سنگینی پر غور کرے اور اس بات پر بھی کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے ایسی بات لگا رہا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔- وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ : اس کے تین مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور وہ کیوں نہ روکے گی جب کہ وہ اللہ کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : (وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ ) [ طٰہٰ : ١٤ ] ” اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ “ اور یقیناً اللہ کا ذکر اور اس کی یاد برائی اور بےحیائی سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز میں ہو یا اس کے بعد، فحشاء اور منکر سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا دھیان اور ہر وقت اسے پیش نظر رکھنا ہی آدمی کو گناہ سے باز رکھتا ہے اور گناہ اسی وقت سر زد ہوتا ہے جب آدمی اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اوپر کے دونوں مطلب اس وقت ہیں جب لفظ ” ذِکْرٌ“ اپنے مفعول کی طرف مضاف مانا جائے اور ترجمہ یہ کیا جائے کہ (بندے کا) اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ تیسرے مطلب کے مطابق لفظ ” ذِکْرٌ“ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، ترجمہ یہ ہوگا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا (اپنے بندے کو) یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ یعنی نماز میں بندہ اپنے رب کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے تو یہ بڑی بات ہے، لیکن اس کے جواب میں ادھر سے اللہ تعالیٰ جو بندے کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے یہ سب سے بڑی بات ہے۔ یہ تفسیر امام طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل فرمائی ہے۔ اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے : (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ) [ البقرۃ : ١٥٢ ] ” سو تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری مت کرو۔ “- 3 بعض مفسرین نے نماز کے برائی اور بےحیائی سے روکنے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ جتنی دیر آدمی نماز میں رہے گا کم از کم اتنی دیر تو بےحیائی اور برائی سے باز رہے گا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” جتنی دیر نماز میں لگے اتنا تو ہر گناہ سے بچے، امید ہے آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے، یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔ “ (موضح) بعض لوگوں نے اس تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی کئی کام ہیں جن میں مصروف رہنے تک آدمی گناہ سے بچا رہتا ہے، مگر یہ اعتراض بےسود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف نماز ہی بےحیائی سے روکتی ہے۔- وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ : یعنی نیک یا بد جو بھی عمل تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور تمہیں اس کی جزا یا سزا دے گا۔ اس میں بشارت بھی ہے اور نذارت بھی۔ یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ آیت کے شروع میں ” اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ “ کے مخاطب اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مگر مراد آپ کے ساتھ پوری امت بھی ہے، اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ آپ رسول ہیں، اس لئے) جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ (تبلیغ کے واسطے) اس کو (لوگوں کے سامنے) پڑھا کیجئے (اور تبلیغ قولی کے ساتھ تبلیغ عملی بھی کیجئے کہ دین کے کام ان کو عمل کر کے بھی بتلائیے، خصوصاً ) نماز کی پابندی رکھئے (کیونکہ تمام اعمال میں نماز اعظم عبادت بھی ہے اور اس کے اثرات بھی دور رس ہیں کہ) بیشک نماز (اپنی وضع کے اعتبار سے) بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے (یعنی بزبان حال کہتی ہے کہ تو جس معبود کی انتہائی تعظیم کر رہا ہے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر رہا ہے فحشا اور منکر میں مبتلا ہونا اس کی شان میں بےادبی ہے) اور (اسی طرح نماز کے سوا جتنے نیک کام ہیں سب پابندی کے لائق ہیں، کیونکہ وہ سب قولاً یا فعلاً اللہ کی یاد ہی ہیں) اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور (اگر تم اللہ کی یاد میں غفلت کرو تو یہ بھی سن لو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو جانتا ہے (جیسا کرو گے ویسا بدلہ ملے گا۔ )- معارف و مسائل - اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ، سابقہ آیات میں چند انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کا ذکر تھا، جن میں چند بڑے بڑے سرکش کفار اور ان پر طرح طرح کے عذابوں کا بیان تھا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین امت کے لئے تسلی بھی ہے کہ انبیاء سابقین نے مخالفین کی کیسی کیسی ایذاؤں پر صبر کیا اور اس کی تلقین بھی کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں کسی حال میں ہمت نہیں ہارنا چاہئے۔- اصلاح خلق کا مختصر جامع نسخہ :- مذکور الصدر آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت الی اللہ کا ایک مختصر جامع نسخہ بتلایا گیا ہے، جس پر عمل کرنے سے پورے دین پر عمل کرنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور اس کی راہ میں جو رکاوٹیں عادة پیش آتی ہیں وہ دور ہوجاتی ہیں، اس نسخہ اکسیر کے دو جزو ہیں، ایک تلاوت قرآن، دوسرے نماز کی اقامت، اور اس جگہ اصل مقصود تو یہی ہے کہ لوگوں کو ان دونوں چیزوں کا پابند کیا جائے لیکن ترغیب و تاکید کے لئے ان دونوں چیزوں کا حکم اولاً خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے تاکہ امت کو اس پر عمل کرنے کی زیادہ رغبت ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی تعلیم سے ان کو خود عمل کرنا بھی آسان ہوجائے۔- ان میں تلاوت قرآن تو سب کاموں کی روح اور اصل بنیاد ہے، اس کے بعد دوسری چیز اقامت صلوة ہے جس کو تمام دوسرے فرائض اور اعمال سے ممتاز کر کے بیان کرنے کی یہ حکمت بھی بیان فرما دی کہ نماز خود اپنی ذات میں بھی بہت بڑی اہم عبادت اور دین کا عمود ہے اس کے ساتھ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ جو شخص نماز کی اقامت کرلے تو نماز اس کو فحشاء اور منکر سے روک دیتی ہے۔ فحشاء ہر ایسے برے فعل یا قول کو کہا جاتا ہے جس کی برائی کھلی ہوئی اور ایسی واضح ہو کہ ہر عقل والا مومن ہو یا کافر اس کو برا سمجھے، جیسے زنا، قتل ناحق، چوری ڈاکہ وغیرہ اور منکر وہ قول و فعل ہے جس کے حرام و ناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو، اس لئے ائمہ فقہاء کے اجتہادی اختلافات میں کسی جانب کو منکر نہیں کہا جاسکتا۔- فحشاء اور منکر کے دو لفظوں میں تمام جرائم اور ظاہر و باطنی گناہ آگئے، جو خود بھی فساد ہی فساد ہیں اور اعمال صالحہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔- نماز کا تمام گناہوں سے روکنے کا مطلب :- متعدد مستند احادیث کی رو سے یہ مطلب ہے کہ اقامت صلوة میں بالخاصہ تاثیر ہے کہ جو اس کو ادا کرتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں بشرطیکہ صرف نماز پڑھنا نہ ہو، بلکہ الفاظ قرآن کے مطابق اقامت صلوة ہو۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں، جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو۔ اس لئے اقامت صلوة کا مفہوم یہ ہوا کہ نماز کے تمام ظاہری اور باطنی آداب اس طرح ادا کرے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عملی طور پر ادا کر کے بتلایا اور عمر بھر ان کی زبانی تلقین بھی فرماتے رہے کہ بدن اور کپڑے اور جائے نماز کی مکمل طہارت بھی ہو، پھر نماز جماعت کا پورا اہتمام بھی اور نماز کے تمام اعمال کو سنت کے مطابق بنانا بھی، یہ تو ظاہری آداب ہوئے۔ باطنی یہ کہ مکمل خشوع خضوع سے اس طرح اللہ کے سامنے کھڑا ہو کہ گویا وہ حق تعالیٰ سے عرض و معروض کر رہا ہے۔ اس طرح اقامت صلوة کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمال صالحہ کی بھی ہوتی ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی اور جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لے کہ اس کی نماز ہی میں قصور ہے۔ جیسا کہ حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشآء والمنکر فلا صلوة لہ (رواہ ابن ابی حاتم بسندہ عن عمران بن حصین والطبرانی من حدیث ابی معاویة) یعنی جس شخص کو اس کی نماز نے فحشاء اور منکر سے نہ روکا اس کی نماز کچھ نہیں۔- اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا صلوة لمن لم یطع الصلوة (رواہ ابن جریر بسندہ) یعنی اس شخص کی نماز ہی نہیں جس نے اپنی نماز کی اطاعت نہ کی اور نماز کی اطاعت یہی ہے کہ فحشاء اور منکر سے باز آجائے۔- اور حضرت ابن عباس نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ جس شخص کی نماز نے اس کو اعمال صالحہ پر عمل اور منکرات سے پرہیز پر آمادہ نہیں کیا تو ایسی نماز اس کو اللہ سے اور زیادہ دور کردیتی ہے۔- ابن کثیر نے ان تینوں روایتوں کو نقل کر کے ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ احادیث مرفوعہ نہیں، بلکہ عمران بن حصین اور عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس (رض) کے اقوال ہیں جو ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمائے ہیں۔- اور حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تہجد پڑھتا ہے اور جب صبح ہوجاتی ہے تو چوری کرتا ہے، آپ نے فرمایا کہ عنقریب نماز اس کو چوری سے روک دے گی۔ (ابن کثیر) - بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کے بعد وہ اپنے گناہ سے تائب ہوگیا۔- ایک شبہ کا جواب :- یہاں بعض لوگ یہ شبہ کیا کرتے ہیں کہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ نماز کے پابند ہونے کے باوجود بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں جو بظاہر اس آیت کے ارشاد کے خلاف ہے۔- اس کے جواب میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نماز نمازی کو گناہوں سے منع کرتی ہے، لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ جس کو کسی کام سے منع کیا جائے وہ اس سے باز بھی آجائے۔ آخر قرآن و حدیث سب لوگوں کو گناہ سے منع کرتے ہیں، مگر بہت سے لوگ اس منع کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اور گناہ سے باز نہیں آتے۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں یہی توجیہ لی گئی ہے۔- مگر اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ نماز کے منع کرنے کا مفہوم صرف حکم دینا نہیں بلکہ نماز میں بالخاصہ یہ اثر بھی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جس کو توفیق نہ ہو تو غور کرنے سے ثابت ہوجائے گا کہ اس کی نماز میں کوئی خلل تھا اور اقامت صلوة کا حق اس نے ادا نہیں کیا، احادیث مذکورہ سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے۔- وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ، یعنی اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے، اور وہ تمہارے سب اعمال کو خوب جانتا ہے، یہاں ذکر اللہ کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ بندے جب اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے ذاکر بندوں کا ذکر فرشتوں کے مجمع میں کرتے ہیں (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ) اور یہ عبادت گزار بندوں کو اللہ کا یاد کرنا سب سے بڑی نعمت ہے۔ بہت سے صحابہ وتابعین سے اس جگہ ذکر اللہ کا یہی دوسرا مفہوم منقول ہے، ابن جریر اور ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ نماز پڑھنے میں گناہوں سے نجات کا اصل سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کا ذکر فرشتوں میں کرتے ہیں اور اس کی برکت سے اس کو گناہوں سے نجات مل جاتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُتْلُ مَآاُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ۝ ٠ۭ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝ ٠ۭ وَلَذِكْرُ اللہِ اَكْبَرُ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۝ ٤٥- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] ، كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة 79] ، وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت 29] وتَنْكِيرُ الشَّيْءِ من حيثُ المعنی جعْلُه بحیث لا يُعْرَفُ. قال تعالی: نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل 41] وتعریفُه جعْلُه بحیث يُعْرَفُ.- اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔ كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة 79] اور برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے ۔ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت 29] اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو ۔ تنکر الشئی کے معنی کسی چیز بےپہچان کردینے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل 41] اس کے تخت کی صورت بد ل دو ۔ - - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے - قول باری ہے : (ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر۔ یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ) حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) نے روایت کی ہے کہ نماز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتی ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے۔ ” نماز صرف اس شخص کو فائدہ دیتی ہے جو اس کی اطاعت کرتا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے نماز کے موجبات کو قائم رکھنا مراد ہے یعنی نماز کی طرف دل اور اعضاء وجوارح سے توجہ کرنا۔ نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔- یہ اس لئے کہا گیا کہ نماز ایسے مخصوص افعال واذکار پر مشتمل ہوتی ہے جن کے درمیان دنیاوی امور خلل انداز نہیں ہوتے۔ کوئی دوسرا فریضہ اس مرتبے کا نہیں ہے۔ اس لئے یہ منکرات سے روکتی اور معروف کی طرف بایں معنی بلاتی ہے کہ ہر اس شخص کے لئے یہ اس کا مقتضیٰ اور موجب سے جو نماز کا حق ادا کرتا ہے ۔ حسن سے مروی ہے کہ ” جس شخص کی نماز اسے فحش اور برے کاموں سے نہیں روکتی وہ اللہ سے اور زیادہ دور ہوجاتا ہے۔- ایک قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ فلاں شخص رات کے وقت نمازیں پڑھتا اور دن کے وقت چوریاں کرتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” شاید اس کی نماز اسے اس کام سے روک دے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : (حبب الی من دتیا کم الثلاث النساء والطیب وجعلت قرۃ عینی فی الصلوتہ۔ تمہاری دنیا کی تین چیزوں سے مجھے محبت ہے عورتوں سے، خوشبو سے اور نماز سے جو کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے) بعض سلف سے منقول ہے کہ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں تھی البتہ جب آپ نماز میں داخل ہوجاتے تو آپ کو ایسی باتیں نظر آتیں جو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتیں۔- قول باری ہے : (ولذکر اللہ اکبر۔ اور اللہ کا ذکر اس سے بھی بڑی چیز ہے) حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت سلیمان (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کے ساتھ یاد کرتا ہے یہ اس سے بڑھ کر ہے جو تم اسے اس کی فرماں برداری کے ذریعے یاد کرتے ہو۔ “ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے یہ بھی مروی ہے نیز حضرت ام الدرداء (رض) اور مجاہد سے بھی کہ بندے کا اپنے رب کو یاد کرنا اس کے تمام اعمال سے افضل ہے۔ سدی کا قول ہے کہ نماز کے اندر اللہ کی یاد نماز سے بھی بڑی چیز ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر سنایا کریں اور پانچوں نمازوں کی پابندی رکھیے کیونکہ نماز گناہ اور برے کاموں سے روک ٹوک کرتی رہتی ہے یعنی کم از کم جب تک آدمی نماز پڑھتا ہے تو نماز ایسی چیزوں سے روکے رکھتی ہے جن کا شریعت اور سنت میں کہیں تذکرہ نہیں اور تم جو نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہو اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا مغفرت فرمانا اور ثواب عطا کرنا بہت بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم نیکیاں اور برائیاں کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب یہاں سے اس سورت کا آخری حصہ شروع ہو رہا ہے جو تین رکوعات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا ہے ‘ سورت کے اس حصے میں دو مضامین ( مشرکین مکہ اور اہل ایمان سے خطاب) اس انداز میں متوازی چل رہے ہیں جیسے ایک رسی کی دو لڑیاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں پہلے بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ مدنی سورتوں میں اہل ایمان سے خطاب کے لیے عام طور پر یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا کا صیغہ آیا ہے ‘ جبکہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے عموماً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ البتہ اس سورت کی آیت ٥٦ میں یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ میں مسلمانوں سے براہ راست خطاب بھی ہے۔ بہر حال آئندہ آیات میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران ان لوگوں کو بہت اہم ہدایات دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں اور اس راستے میں مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں۔ ان ہدایات کی تعداد دس کے قریب ہے جن میں سے پہلی اور سو ہدایات کے برابر ایک ہدایت یہ ہے :- آیت ٤٥ (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ) ” - سورۃ الکہف کی آیت ٢٧ میں بھی یہی ہدایت دی گئی ہے : (وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے “۔ تقرب الی اللہ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ چناچہ سورة آل عمران کی آیت ١٠٣ میں اہل ایمان کو قرآن سے چمٹ جانے کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے : (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص) ” اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو “ حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت کردہ یہ حدیث اس مضمون کو مزید واضح کرتی ہے :- (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ) (١)- ” کتاب اللہ ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے ۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے مطابق قرآن ہی ” حبل اللہ “ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کی مذکورہ آیت میں مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ قرآن کی تلاوت کرنے اور اس کی تعلیم و تفہیم میں مشغول رہنے سے بندۂ مؤمن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اللہ پر اس کے یقین اور توکل کی کیفیت میں پختگی آتی ہے۔ اسی سے ایک بندۂ مؤمن کو صبر و استقامت کی وہ دولت نصیب ہوتی ہے جو باطل کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے : (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ ) (النحل : ١٢٧) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے “۔ چناچہ راہ حق کے مسافروں کو یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی ہدایت یہی دی گئی ہے کہ قرآن کی تلاوت کو اپنے شبانہ روز کے معمول میں شامل رکھو اس سے تمہارا تعلق مع اللہ مضبوط ہوگا اور پھر اسی تعلق کے سہارے حق و باطل کی کشا کش میں تمہیں استقامت نصیب ہوگی۔- (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط) ” - اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر پہلی وحی میں ہی اس کی تاکید کردی گئی تھی : (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ) ( طٰہٰ ) ” اور نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے ۔ “- (وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط) ” - یہ گویا اوپر دی گئی پہلی ہدایت کے بارے میں مزید وضاحت ہے۔ تلاوت قرآن اور نماز دونوں اللہ کے ذکر ہی کے ذرائع ہیں ‘ بلکہ قرآن کو تو خود اللہ تعالیٰ نے سورة الحجر میں ” الذکر “ کا نام دیا ہے : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ) ” یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “۔ جب کہ سورة طٰہٰ کی مذکورہ بالا آیت (آیت ١٤) میں قیام نماز کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے کہ نماز اللہ کے ذکر کے لیے قائم کرو۔ اس کے علاوہ ادعیہ ماثورہ بھی اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہر عمل اور ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ مثلاً گھر سے نکلنے کی دعا ‘ گھر میں داخل ہونے کی دعا ‘ بیت الخلاء میں جانے کی دعا ‘ باہر آنے کی دعا ‘ شیشہ دیکھنے کی دعا ‘ کپڑے بدلنے کی دعا۔ یعنی ان دعاؤں کو زندگی کا معمول بنا لینے سے ہر لحظہ ‘ ہر قدم اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کے ذہن اور دل کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد تسبیح فاطمہ (٣٣ بار سبحان اللہ ‘ ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر) اور دوسرے اذکار کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ گویا یہ سب اللہ کے ذکر کی مختلف شکلیں ہیں ‘ لیکن سب سے بڑا اور سب سے اعلیٰ ذکر قرآن مجید کی تلاوت ہے۔- (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ) ” - اے مسلمانو یہ یقین اپنے دلوں میں پختہ کرلو کہ اللہ تمہاری ہر حرکت ‘ ہر عمل بلکہ تمہارے خیالات اور تمہاری نیتوں تک سے باخبر ہے ۔۔ اس کے بعد دوسری ہدایت :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر :77 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں ۔ ان پر جو ظلم و ستم اس وقت توڑے جارہے تھے اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا ، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر وثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں ، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے ۔ لیکن تلاوت قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے ، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوت محرکہ بن جائے ، نماز کے وصف مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کررہا ہے ۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی ، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یقران القران ولا یجاوز حناجرھم یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ ۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔ ( بخاری ، مسلم ، مؤطا ) درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کرتا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں ۔ اس کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ ما امن بالقران من استحل محارمہ ۔ قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا ( ترمذی بروایت صہیب رومی رضی اللہ عنہ ) ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیر کٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی ۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایت دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اس پوزیشن کو سرکار رسال مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القران حجۃ لک او علیک ، قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف ( مسلم ) یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے ۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے ، اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضی اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داور محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی ۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو ، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے ، اور پھر تو اس کے خلاف رویہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے ، یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی ، اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گی ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 78 یہ نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مکہ کے اس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی ۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشو و نما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی گئی ۔ ایک تلاوت قرآن ، دوسرے اقامت صلوۃ ، اس کے بعد اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اقامت صلوۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ ان برائیوں سے پاک ہوسکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گردوپیش اہل عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اس وقت مبتلا ہے ۔ غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود ان لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو ، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کو ان سب لوگوں پر زبردست برتری حاصل ہوجاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اس ناپاک نظام کو جو ان برائیوں کی پرورش کرتا ہے ، برقرار رکھنے کے لیے ان پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں ۔ فحشاء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت برا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ ، خواہ وہ عملا کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں ، اصولا ان کو برا ہی سمجھتے رہے ہیں ۔ نزول قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنی نہ تھا ۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے ، بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے ، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخس ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بری نگاہ سے دیکھتا ہو ۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر کسی ایسی تحریک کا اٹھنا جس سے وابستہ ہوتے ہی خود اسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہوجائیں ، لامحالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر ان لوگوں کا ساتھ دیے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہلیت کے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے تھے جو ان برائیوں کو صدیوں سے پرورش کررہا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تاکہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کرلیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دیدے ۔ نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے اس کے دو پہلو ہیں ۔ ایک اس کا وصف لازم ہے یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے ۔ اور دوسرا اس کا وصف مطلوب ہے ، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رک جائے ۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے ، نماز لازما یہ کام کرتی ہے ، جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے ۔ آخر اس سے بڑھ کر موثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی اد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات رازہ کی جائے کہ تو اس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے حتی کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے ، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اس خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنےا عمال کی جواب دہی کرنی ہوگی ۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملا ہر نماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے ۔ نماز کے لیے اٹھنے کے وقت سے لیکر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے ۔ مثلا اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے ۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے ۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانون خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے ، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جارہا ہے ، اسے فرض شناس انسان بنایا جارہا ہے ، اور اس کو عملا اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبہ اطاعت کے زیر اثر خفیہ اور علانیہ ہر حال میں اس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکھنے کے معاملہ میں اس درجہ موثر ہو ۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملا بھی برائیوں سے رکتا ہے یا نہیں ، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاح نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو ۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے ، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخس پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو ، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشو و نما ہے ، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ آدمی اسے جزو بدن بننے دے ، اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فورا ہی قے کر کے ساری غزا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح ایسے شخس کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جارہا ہے ، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے ، ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کردینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا ۔ ٹھیک یہی بات بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے ۔ عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء والمنکر فلا صلاۃ لہ ۔ جسے اس کی نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابن عباس حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشاء والمنکر لم یزدد بھا من اللہ الا بعدا ۔ جس کی نماز نے اسے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دور کردیا ۔ ( ابن ابی حاتم ، طبرانی ) یہی مضمون جناب حسن بصری نے بھی حضور سے مرسلا روایت کیا ہے ۔ ( ابن جریر ، بیہقی ) ابن مسعود سے حضور کا یہ ارشاد مروی ہے لا صلوۃ لمن لم یطع الصلوۃ و طاعۃ الصلوۃ ان تنہی عن الفحشاء والمنکر ۔ اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی ، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رک جائے ۔ ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرات عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، حسن بصری ، قتادہ اور اعمش وغیرہم ( رضی اللہ عنہم ) سے منقول ہیں ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں ، جو شخس یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں ، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا ۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے ۔ ( روح المعانی ) سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 79 اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ اللہ کا ذکر ( یعنی نماز ) اس سے بزرگ تر ہے ، اس کی تاثیر سرف سلبی ہی نہیں ہے کہ برائیوں سے روکے ، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز بھی ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یاد بجائے خود بہت بڑی چیز ہے ۔ خیر الاعمال ہے ، انسان کا کوئی عمل اس سے افضل نہیں ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اس کو یاد کرنے سے زیادہ بڑی چیز ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ( البقرہ ، آیت 152 ) تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا ۔ پس جب بندہ نماز میں اللہ کو یاد کرے گا تو لا محالہ اللہ بھی اس کو یاد کرے گا ۔ اور یہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کو یاد کرے ، اس سے بزرگ تر ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے ۔ ان تین مطالب کے علاوہ ایک اور لطیف مطلب یہ بھی ہے جسے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کی یاد نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے ۔ جب آدمی روزہ رکھتا ہے یا زکوۃ دیتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو لا محالہ اللہ کو یاد ہی کرتا ہے ، تبھی تو اس سے وہ عمل نیک صادر ہوتا ہے ، اسی طرح جب آدمی کسی برائی کے مواقع سامنے آنے پر اس سے پرہیز کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی یاد ہی کا نتیجہ ہوتا ہے ، اس لیے یاد الہی ایک مومن کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: یعنی اگر اِنسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اُسے بے حیائی اور ہر بُرے کام سے روکے گی، اس لئے کہ اِنسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا۔ پھر ہر رکعت میں وہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے اِس بات کا اقرار او رعہد کرتا ہے کہ یا اللہ میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ لہٰذا جب اِس کے بعد کسی گناہ کا خیال اُس کے دل میں آئے تو اگر اُس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہئے، جو یقینا اسے گناہ سے روکے گا، نیز وہ رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت وسکون میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبانِ حال سے اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہئے تو یقینا نماز اسے برائیوں سے روکے گی۔