مقصد کائنات اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قدرت کا بیان ہو رہا ہے کہ وہی آسمانوں کا اور زمینوں کا خالق ہے اس نے انہیں کھیل تماشے کے طور پر یا لغو وبیکار نہیں بنایا بلکہ اس لئے کہ یہاں لوگوں کو بسائے ۔ پھر ان کی نیکیاں بدیاں دیکھے ۔ اور قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق انہیں جزا سزادے ۔ بروں کو ان کی بداعمالیوں پر سزا اور نیکوں کو ان کی نیکیوں پر بہترین بدلہ ۔
4 4 1یعنی بےفائدہ اور بےمقصد نہیں۔ 4 4 2یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔
[٧٠] یعنی زمین و آسمان یا نظام کائنات کو بےفائدہ ہی نہیں بنادیا بلکہ اس نظام سے بیشمار مصالح اور فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ زمین پر بسنے والی ہر طرح کی مخلوق کی زندگی اور زندگی کی بقا کا انحصار اسی نظام کائنات پر ہے۔ اگر اس نظام میں سے بھی ایک بھی کل پرزہ اٹھا لیا جائے تو صرف یہی نہیں کہ جاندار اشیاء کی زندگی کیا خاتمہ ہوجائے گا۔ بلکہ زمین پر نباتات، پودے اور درخت تک بھی نہ اگ سکیں گے۔- [٧١] یعنی ہر صاحب علم و دانش کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کائنات کو پیدا تو اللہ کرے، زمین کی روئیدگی کی قوتیں اللہ عطا کرے، بارش برسائے تو اللہ، تمام مخلوق کی ضروریات زندگی مہیا کرے تو اللہ۔ مگر جب اس کے رزق، اس کے فضل اور اس کی رحمت کی لوگوں میں تقسیم کی باری آئے تو دوسرے معبودان باطل ہزارہا کی تعداد میں میدان میں آموجود ہوں۔ اور انسان یہ سوچنے لگے کہ واقعی سب کچھ کیا کرایا تو اللہ نے ہی ہے مگر اس نے رحمت کی تقسیم کے اختیارات دوسرے حضرات کو سونپ دیئے ہیں اور خود فارغ ہو بیٹھا ہے ؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی بےانصافی اور ظلم کی بات ہوسکتی ہے ؟
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَـقِّ : یعنی کائنات کا یہ نظام حق پر قائم ہے۔ اس نے اسے نہایت حکمت سے بنایا ہے، بےفائدہ اور بےمقصد نہیں بنایا۔ دیکھیے سورة انبیاء (١٦) اور دخان (٣٨) ۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ : زمین و آسمان کی پیدائش میں صرف ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں، کیونکہ وہی ان پر غور کرتے ہیں، دوسرے لوگ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار قدرتوں اور نشانیوں کے پاس سے گزر جاتے ہیں مگر دھیان ہی نہیں کرتے۔ (دیکھیے سورة یوسف : ١٠٦) جو لوگ دل میں جذبۂ ایمان رکھتے ہوئے اس نظام کائنات پر غور کریں گے ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ نظام نہ کسی خالق کے بغیر بنا ہے اور نہ اس کے ایک سے زیادہ خالق ہوسکتے ہیں، بس ایک ہی ذات پاک ہے جس نے اسے پیدا کیا اور وہی اس کی حق دار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ انھی غور و فکر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ” لقوم یعقلون “ قرار دیا ہے۔ ( دیکھیے بقرہ : ١٦٤) اور انھی کو ” لاولی الالباب “ قرار دیا ہے۔ (دیکھیے آل عمران : ١٩٠)
خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ ٤٤ۧ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(٤٤) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مناسب طریقے پر بنایا اور ان مضامین میں اہل ایمان کے لیے بڑی دلیل ہے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 75 یعنی کائنات کا یہ نظام حق پر قائم ہے نہ کہ باطل پر ۔ اس نظام پر جو شخص بھی صاف ذہن کے ساتھ غور کرے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ زمین و آسمان اوہام و تخیلات پر نہیں بلکہ حقیقت و واقعیت پر کھڑے ہیں ۔ یہاں اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ جو کچھ بھی سمجھ بیٹھے اور اپنے وہم و گمان سے جو فلسفہ بھی گھڑے وہ ٹھیک بیٹھ جائے ۔ یہاں تو صرف وہی چیز کامیاب ہوسکتی ہے اور قرار و ثبات پاسکتی ہے جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہے ۔ خلاف واقعہ قیاسات اور مفروضات پر جو عمارت بھی کھڑی کی جائے گی وہ آخر کار حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گی ۔ یہ نظام کائنات صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایک خدا اس کا خالق ہے اور ایک ہی خدا اس کا مالک و مدبر ہے ۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر کوئی شخص اس مفروضے پر کام کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے ، یا یہ فرض کر کے چلتا ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہیں جو نذر و نیاز کا مال کھا کر اپنے عقیدت مندوں کو یہاں سب کچھ کرنے کی آزادی اور بخیریت رہنے کی ضمانت دے دیتے ہیں ، تو حقیقت اس کے ان مفروضات کی بدولت ذرہ برابر بھی تبدیل نہ ہوگی بلکہ وہ خود ہی کسی وقت ایک صدمہ عظیم سے دو چار ہوگا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 76 یعنی زمین و آسمان کی تخلیق میں توحید کی صداقت اور شرک و دہریت کے بطلان پر ایک صاف شہادت موجود ہے ، مگر اس شہادت کو صرف وہی لوگ پاتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی پیش کی ہوئی تعلیمات کو مانتے ہیں ۔ ان کا انکار کردینے والوں کو سب کچھ دیکھنے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔
25: یعنی یہ کائنات اس مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ اِس کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جائے، اور پھر لوگوں کے اعمال کے مطابق اُنہیں جزا یا سزا ملے۔ اگر آخرت کی زندگی آنے والی نہ ہو تو کائنات کو پیدا کرنے کا یہ اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔