موت کے بعد کفار کو عذاب اور مومنوں کو جنت مشرکوں کا اپنی جہالت سے عذاب الٰہی طلب کرنا بیان ہو رہا ہے یہ اللہ کے نبی سے بھی یہی کہتے تھے اور خود اللہ تعالیٰ سے بھی یہی دعائیں کرتے تھے کی جناب باری اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں اور کوئی دردناک عذاب کر ۔ یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ رب العلمین یہ بات مقرر کرچکاہے کہ ان کفار کو قیامت کے دن عذاب ہونگے اگر یہ نہ ہوتا تو انکے مانگتے ہی عذاب کے مہیب بادل ان پر برس پڑتے ۔ اب بھی یہ یقین مانیں کہ یہ عذاب آئیں گے اور ضرورآئیں گے بلکہ انکی بےخبری میں اچانک اور یک بہ یک آپڑیں گے ۔ یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور جہنم بھی انہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں یعنی یقینا انہیں عذاب ہوگا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جہنم یہی بحر اخضر ہے ستارے اسی میں جھڑیں گے اور سورج چاند اس میں بےنور کرکے ڈال دئیے جائیں گے اور یہ بھڑک اٹھے گا اور جہنہم بن جائے گا ۔ مسند احمد میں مرفوع حدیث ہے کہ سمندر ہی جہنم ہے راوی حدیث حضرت یعلی سے لوگوں نے کہا کہ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ( نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۭ 29 ) 18- الكهف:29 ) یعنی وہ آگ جسے قناتیں گھیرے ہوئے ہیں تو فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں یعلی کی جان ہے کہ میں اس میں ہرگز داخل نہ ہونگا جب تک اللہ کے سامنے پیش نہ کیا جاؤنگا اور مجھے اس کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچے گا یہاں تک کہ میں اللہ کے سامنے پیش کیا جاؤں ۔ یہ تفسیر بھی بہت غریب ہے اور یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس دن انہیں نیچے سے آگ ڈھانک لے گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( لھم من جھنم مھاد ومن فوقھم غواش ) ان کے لئے جہنم میں اوڑھنا بچھونا ہے اور آیت میں ہے ( لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَــلٌ ۭ ذٰلِكَ يُخَــوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ ۭ يٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ 16 ) 39- الزمر:16 ) یعنی ان کے اوپر نیچے سے آگ ہی کا فرش وسائبان ہوگا ۔ اور مقام پر ارشاد ہے ( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حِيْنَ لَا يَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَلَا هُمْ يُنْــصَرُوْنَ 39 ) 21- الأنبياء:39 ) یعنی کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیں جبکہ نہ یہ اپنے آگے سے آگ کو ہٹاسکیں گے نہ پیچھے سے ان آیتوں سے معلوم ہوگیا کہ ہر طرف سے ان کفار کو آگ کھا رہی ہوگی آگے سے پیچھے سے اوپر سے نیچے سے دائیں سے بائیں سے ۔ اس پر اللہ عالم کی ڈانٹ ڈپٹ اور مصیبت ہوگی ۔ ادھر ہر وقت کہا جائے گا لواب عذاب کے مزے چکھو پس ایک تو وہ ظاہری جسمانی عذاب دوسرا یہ باطنی روحانی عذاب ۔ اسی کا ذکر آیت ( يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ 48 ) 54- القمر:48 ) یعنی جبکہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لواب آگ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ جس دن انہیں دھکے دے دے کر جہنم میں ڈالا جائے گا اور کہا جائے گا یہ وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلاتے رہے اب بتاؤ یہ جادو ہے؟ یاتم اندھے ہو؟ جاؤ اب جہنم میں چلے جاؤ اب تمہارا صبر کرنا یانہ کرنا یکساں ہے ۔ تمہیں اپنے اعمال کا بدلہ ضرور بھگتنا ہے ۔
5 3 1یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔ 5 3 2یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقینا اس لائق ہیں کہ انھیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو ہمارا عذاب آجاتا ہے۔ 5 3 3یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آجائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔
[٨٥] اس آیت میں جس عذاب کی جلدی کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ دنیا کا عذاب ہے۔ اور وہ اللہ کے ضابطہ کے مطابق فتح مکہ کے دن آیا تھا۔ جب کفار مکہ کو یک دم مسلمانوں کی یلغار کی خبر ہوئی اور ان میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے اور آپ کا مذاق اڑانے کی ایک اور صورت ہے جو کفار نے اختیار کی کہ اگر ہم باطل پر ہیں تو ہم پر فوراً عذاب لے آؤ۔ جس عذاب سے تم ڈراتے ہو وہ کب آئے گا ؟ اس عذاب سے ان کی مراد دنیا میں عذاب تھی۔- وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَهُمُ الْعَذَابُ : فرمایا، اگر دنیا میں ان پر آنے والے عذاب کا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر نہ کردیا ہوتا، جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، تو ان کے مطالبے کے وقت ہی عذاب آجاتا۔ - وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : اس امت میں پہلی امتوں کی طرح آسمانی عذاب کے بجائے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب دینا طے کیا گیا، جیسا کہ فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “ فرمایا، دنیا میں ان پر عذاب ضرور آئے گا مگر ان کے مطالبے پر فوراً نہیں، بلکہ مقرر وقت پر آئے گا اور اچانک آئے گا، جب ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بدر اور بعد کی جنگوں حتیٰ کہ فتح مکہ میں پورا ہوگیا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اس امت کا عذاب یہی تھا، مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہونا، پکڑے جانا۔ سو فتح مکہ میں مکہ کے لوگ بیخبر رہے کہ حضرت کا لشکر سر پر آکھڑا ہوا۔ “ (موضح)- ” اَجَلٌ مُّسَمًّى“ ( مقرر مدت) سے مراد موت اور پھر آخرت بھی ہوسکتی ہے، جس کا سلسلہ مرنے کے فوراً بعد شروع ہوجائے گا اور موت کے متعلق کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب آجائے۔ مفسر ابن جزی نے فرمایا، یہ معنی زیادہ ظاہر ہے۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ ٠ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَہُمُ الْعَذَابُ ٠ۭ وَلَيَاْتِيَنَّہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ٥٣- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- بغت - البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107]- ( ب غ ت) البغت - ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔- تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
اور یہ کفار آپ سے وقوع عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر اس کی میعاد مقرر نہ ہوتی تو وقت سے پہلے ہی ان پر عذاب آچکا ہوتا اور وہ عذاب ان پر اچانک آئے گا کہ ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 93 یعنی بار بار چیلنج کے انداز میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر تم رسول ہو اور ہم واقعی حق کو جھٹلا رہے ہیں تو ہم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کے ڈراوے تم ہمیں دیا کرتے ہو ۔