5 4 1پہلا یستعجلونک بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی یہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟ حالاں کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اسے دور کیوں سمجھتے ہیں ؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔
[٨٦] اس آیت میں عذاب سے مراد اخروی عذاب ہے۔ جس میں یہ ابھی سے پڑھ چکے اور جہنم انھیں اپنے گھیرے میں لے چکی ہے۔ یہ لوگ خواہ مخواہ جلدی مچا رہے ہیں ان کے مرنے کی دیر ہے۔ یہ اپنے مطلوبہ عذاب کی آغوش میں جاپہنچیں گے۔
يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ ۭ وَاِنَّ جَهَنَّمَ ۔۔ : تعجب کے لیے دوبارہ فرمایا، یہ لوگ آپ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ جہنم تو ان کافروں کو گھیرے ہوئے ہے، کیونکہ ” کُلُّ آتٍ قَرِیْبٌ“ ” آنے والی ہر چیز قریب ہے۔ “ یقین جانو یہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے اس کے گھیرے میں آچکے ہیں۔
يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ ٠ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِيْطَۃٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ ٥٤ۙ- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
اور یہ دنیا میں نزول عذاب کا تقاضا کرتے ہیں اور اس میں کچھ نہیں کہ جہنم ان سب کو گھیر لے گی۔
آیت ٥٤ (یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ ط) ” - یہ جملہ پھر سے دہرایا گیا ہے ‘ یہ بہت لطیف انداز ہے۔- (وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌم بالْکٰفِرِیْنَ ) ” - جہنم کی آگ ایک غیر مرئی چیز ہے ‘ اس لیے انہیں یہ نظر نہیں آرہی ‘ لیکن حقیقت میں یہ انہیں چاروں طرف سے گھیر چکی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی مخالف فوج کسی شہر کی فصیل کے قریب پہنچ کر شہر کا محاصرہ بھی کرلے لیکن شہر کے باسیوں کو اس کی خبر ہی نہ ہو۔