Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مہاجرین کے لیے انعامات الٰہی اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے کہ جہاں وہ دین کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہاں سے اس جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین میں انہیں آزادی رہے اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے جہاں وہ فرمان اللہ کے ماتحت اللہ کی عبادت وتوحید بجالاسکیں وہاں چلے جائیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام شہر اللہ کے شہر ہیں اور کل بندے اللہ کے غلام ہیں جہاں تو بھلائی پاسکتا ہو وہیں قیام کر چنانچہ صحابہ اکرام پر جب مکہ شریف کی رہائش مشکل ہوگئی تو وہ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تاکہ امن وامان کے ساتھ اللہ کے دین پر قیام کرسکیں وہاں کے سمجھدار دیندار بادشاہ اصحمہ نجاشی نے ان کی پوری تائید ونصرت کی اور وہاں وہ بہت عزت اور خوشی سے رہے سہے ۔ پھر اس کے بعد بااجازت الٰہی دوسرے صحابہ نے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔ بعد ازاں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرنے والا اور میرے سامنے حاضر ہونے والا ہے ۔ تم خواہ کہیں ہو موت کے نیچے سے نجات نہیں پاسکتے پس تمہیں زندگی بھر اللہ کی اطاعت میں اور اس کے راضی کرنے میں رہنا چاہئے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے ہاں جاکر عذاب میں نہ پھنسو ۔ ایماندار نیک اعمال لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عدن کی بلندی وبالا منزلوں میں پہنچائے گا ۔ جن کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ کہیں صاف شفاف پانی کی کہیں شراب طہور کی کہیں شہد کی کہیں دودھ کی ۔ یہ چشمیں خود بخود جہاں چاہیں بہنے لگیں گے ۔ یہ وہاں رہیں گے نہ وہاں سے نکالیں جائیں نہ ہٹائے جائیں گے نہ وہ نعمتیں ختم ہونگی نہ ان میں گھاٹا آئے گا ۔ مومنوں کے نیک اعمال پر جنتی بالا خانے انہیں مبارک ہوں ۔ جنہوں نے اپنے سچے دین پر صبر کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کی ۔ اس کے دشمنوں کو ترک کیا اپنے اقرباء اور اپنے گھر والوں کو راہ اللہ میں چھوڑا اس کی نعمتوں اور اس کے انعامات کی امید پر دنیا کے عیش وعشرت پر لات ماردی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنائے ہیں جو کھانا کھلائیں خوش کلام نرم گو ہوں ۔ روزے نماز کے پابند ہوں اور راتوں کو جبکہ لوگ سوتے ہوئے ہوں ۔ یہ نمازیں پڑھتے ہوں اور اپنے کل احوال میں دینی ہوں یا دنیوی اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہوں ۔ پھر فرمایا کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقیسم کیا ہوا رزق عام ہے اور ہر جگہ جو جہاں ہو اسے وہ وہیں پہنچ جاتا ہے ۔ مہاجرین کے رزق میں ہجرت کے بعد اللہ نے وہ برکتیں دیں کہ یہ دنیا کے کناروں کے مالک ہوگئے اور بادشاہ بن گئے فرمایا کہ بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق کے جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اللہ کے ذمہ ان کی روزیاں ہیں ۔ پروردگار انہیں ان کے رزق پہنچا دیتا ہے ۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے وہ کسی بھی صورت اپنی مخلوق کو نہیں بھولتا ۔ چینٹیوں کو ان کے سوراخوں میں پرندوں کو آسمان وزمین کے خلا میں مچھلیوں کو پانی میں وہی رزق پہنچاتا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č۝ ) 11-ھود:6 ) یعنی کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو وہی ان کے ٹھہرنے اور رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے یہ سب اس کی روشن کتاب میں موجود ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا آپ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں گئے ۔ اور گری پڑی ردی کھجوریں کھول کھول کر صاف کرکے کھانے لگے ۔ مجھ سے بھی کھانے کو فرمایا ۔ میں نے کہاحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ ردی کجھوریں نہیں کھائی جائیں گی ۔ آپ نے فرمایا لیکن مجھے تو یہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ چوتھے دن کی صبح ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کھانا ملا ہی نہیں ۔ سنو اگر میں چاہتا تو اللہ سے دعا کرتا اور اللہ مجھے قیصر وکسریٰ کاملک دے دیتا ۔ اے ابن عمر تیرا کیا حال ہوگا جبکہ تو ایسے لوگوں میں ہوگا جو سال سال بھرکے غلے وغیرہ جمع کرلیاکریں گے ۔ اور ان کا یقین اور توکل بالکل بودا ہوجائے گا ۔ ہم ابھی تو وہیں اسی حالت میں تھے جو آیت ( وکاین الخ ) ، نازل ہوئی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے کا اور خواہشوں کے پیچھے لگ جانے کا حکم نہیں کیا جو شخص دنیا کے خزانے جمع کرے اور اس سے باقی والی زندگی چاہے وہ سمجھ لے کہ باقی رہنے والی حیات تو اللہ کے ہاتھ ہے ۔ دیکھو میں تو نہ دینار ودرہم جمع کروں نہ کل کے لئے آج روزی کا ذخیرہ جمع کر رکھوں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کاراوی ابو العطوف جزی ضعیف ہے ۔ یہ مشہور ہے کہ کوے کے بچے جب نکلتے ہیں تو ان کے پر وبال سفید ہوتے ہیں یہ دیکھ کر کوا ان سے نفرت کرکے بھاگ جاتا ہے کچھ دنوں کے بعد ان پروں کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے تب ان کے ماں باپ آتے ہیں اور انہیں دانہ وغیرہ کھلاتے ہیں ابتدائی ایام میں جبکہ ماں باپ ان چھوٹے بچوں سے متنفر ہوکر بھاگ جاتے ہیں اور ان کے پاس بھی نہیں آتے اس وقت اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے مچھر ان کے پاس بھیج دیتا ہے وہی ان کی غذا بن جاتے ہیں ۔ عرب کے شعراء نے اسے نظم بھی کیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت اور روزی پاؤ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت وغنیمت ملے ۔ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو نفع اٹھاؤ گے روزے رکھو تندرست رہو گے جہاد کرو غنیمت ملے گی ۔ ایک اور روایت میں ہے جد والوں اور آسانی والوں کے ساتھ سفر کرو ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کی حرکات وسکنات کو جاننے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

561اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] آیت کے الفاظ سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر اس قدر سختیاں روا رکھی تھیں کہ انھیں جینا بھی دو بھر ہوگیا تھا۔ اس کی مشکل کا حل اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس علاقہ سے ہجرت کر جاؤ اور وہاں جاکر رہو جہاں تم آزادی سے میری عبادت کرسکو۔ واضح رہے کہ اپنے وطن اور اپنے اقرباء سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن یہ حب الوطنی، وطن پرستی کی حد تک، اوراقرباء سے محبت قوم پرستی کی حد تک نہیں ہونی چاہئے۔ اصل چیز اللہ کی عبادت اور اپنے دین کی حفاظت ہے اس کے مقابلہ وطن اور قبیلہ کچھ چیز نہیں۔ اور اگر دین کا فقدان کرکے وطن اور قوم کو ترجیح دی جائے تو یہی چیز وطن پرستی اور قوم پرستی بن جائے گی اور یہ کفر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : یہ حقیقت ہے کہ ساری مخلوق ہی اللہ تعالیٰ کے عبد (غلام) ہیں۔ پھر یہ بندے دوقسم کے ہیں، مومن اور کافر۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا، مومن نے اپنی پسند چھوڑ کر رب کی پسند اختیار کی، اس کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دی، چناچہ وہ ہر چیز میں اللہ کا عبد، بندہ اور غلام بن گیا۔ جو مالک نے کہا، کیا، جس سے روک دیا اس سے رک گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ” يٰعِبَادِيَ “ (اے میرے بندو ) کے معزز اور پیار بھرے الفاظ کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ کافر بھی اگرچہ اللہ ہی کا بندہ ہے مگر اس نے اپنے رب کے سامنے سرکشی اختیار کی، اس کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی پر چلا، سو محبت کے خطاب سے محروم رہا۔ ” يٰعِبَادِيَ “ کے بعد ” الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا “ اس بات کے اظہار کے لیے ہے کہ ان لوگوں کو یہ شرف ایمان کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔- اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ : اس سورت کا مضمون ہے اہل ایمان کی آزمائش، یہ آزمائش بعض اوقات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اپنے وطن میں رہنے کی صورت میں مومن کا ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے، کفار کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے دین پر نہ عمل کرسکتا ہے نہ اس کی دعوت دے سکتا ہے۔ سورت کے نزول کے وقت مکہ میں مسلمانوں کا یہی حال تھا۔ ایسی صورت میں انھیں ہجرت کی ترغیب دی کہ اگر مکہ کی سرزمین میں، جہاں تم اب ہو، میری بندگی بجا لانا مشکل ہو رہا ہے تو میری زمین تنگ نہیں، بہت فراخ ہے، تم اپنا وطن چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں تم آزادی سے میری بندگی کرسکو۔ ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کی مثالیں اسی سورت میں اس سے پہلے گزر چکی ہیں۔ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر مدینہ منورہ کی طرف اور اللہ تعالیٰ نے انھیں امن و اطمینان اور آزادی کی نعمت بھی عطا فرمائی اور فراخ رزق کی بھی۔ اب بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جگہ رہتا ہو جہاں برائیوں کا دور دورہ ہو اور اس کے لیے اللہ کے احکام پر عمل ممکن نہ رہے تو لازم ہے کہ اس جگہ سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آزادی سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرسکے۔ سورة نساء کی آیات (٩٧ تا ١٠٠ ) میں ہجرت کی فرضیت، اس کی فضیلت اور ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں وعید بیان ہوئی ہے۔ - فَاعْبُدُوْنِ : اس سے معلوم ہوا کہ ہجرت کا اصل مقصد اکیلے اللہ کی عبادت ہے، روزی کمانے یا کسی اور مقصد کے لیے کسی ملک یا شہر میں چلے جانا اصل ہجرت نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ، فَہِجْرَتُہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ، وَمَنْ ہَاجَرَ إِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا أَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا، فَہِجْرَتُہُ إِلٰی مَا ہَاجَرَ إِلَیْہِ ) [ بخاري، الحیل، باب في ترک الحیل۔۔ : ٦٩٥٣، عن عمر بن الخطاب۔ ] ” تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس نے دنیا کی کسی چیز کی طرف ہجرت کی، جسے وہ حاصل کرے یا کسی عورت کی طرف، جس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے میرے ایمان دار بندو (جب یہ لوگ غایت عداوت وعناد سے تم کو اقامت شرائع (اختیار دین پر ایذاء پہونچاتے ہیں تو یہاں رہنا کیا ضرور) میری زمین فراخ ہے، سو (اگر یہاں رہ کر عبادت نہیں کرسکتے تو اور کہیں چلے جاؤ اور وہاں جا کر) خالص میری ہی عبادت کرو (کیونکہ یہاں اہل شرک کا زور ہے، تو ایسی عبادت جو توحید محض پر مبنی ہو اور شرک سے خالی ہو، یہاں مشکل ہے، البتہ خدا کے ساتھ غیر خدا کی بھی عبادت ہو یہ ممکن ہے مگر وہ عبادت ہی نہیں اور اگر تم کو ہجرت میں احباب و اوطان کی مفارقت شاق معلوم ہو تو یہ سمجھ لو کہ ایک نہ ایک روز یہ تو ہونا ہی ہے، کیونکہ) ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا (ضرور) ہے (آخر اس وقت سب چھوٹیں گے اور) پھر تم سب کو ہمارے پاس آنا ہے (اور نافرمان ہو کر آنے میں خوف سزا کا ہے) اور (یہ مفارقت اگر ہماری رضا کے واسطے ہو تو ہمارے پاس پہنچنے کے بعد اس وعدہ کے مستحق ہوجاؤ اور وہ وعدہ یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے (جن پر عمل کرنا بعض اوقات ہجرت پر موقوف ہوتا ہے تو ایسے وقت میں ہجرت بھی کی) ہم ان کو جنت کے بالاخانوں میں جگہ دیں گے، جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان نیک) کام کرنے والوں کا کیا اچھا اجر ہے، جنہوں نے (واقع شدہ سختیوں پر جن میں ہجرت کی سختی بھی داخل ہوگئی) صبر کیا اور (دوسرے ملک یا شہر میں جا کر جو تکالیف کا اور گذارے کی مشکلات کا اندیشہ تھا اس میں) وہ اپنے رب پر توکل کیا کرتے تھے اور (اگر ہجرت میں تم کو یہ وسوسہ ہو کہ پردیس میں کھانے کو کہاں سے ملے گا تو یہ سمجھ لو کہ) بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے (یعنی جمع نہیں کرتے گو بعضے جمع بھی کرتے ہیں، مگر بہت سے نہیں بھی کرتے) اللہ ہی ان کو (مقدر) روزی پہنچاتا ہے اور تم کو بھی (مقدور روزی پہنچاتا ہے خواہ تم کہیں ہو پھر ایسا وسوسہ مت لاؤ، بلکہ دل قوی کر کے اللہ پر بھروسہ رکھو) اور (وہ بھرسہ کے لائق ہے کیونکہ) وہ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (اسی طرح دوسری صفات میں کامل ہے اور جو ایسا کامل الصفات ہو وہ ضرور بھروسہ کے قابل ہے) اور (توحید فی الالوہیت کا جو مبنی ہے یعنی توحید فی التخلیق وہ تو ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم ہے چنانچہ) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ (بھلا) وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے، تو وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہے پھر (جب توحید فی التخلیق کو مانتے ہیں تو توحید فی الالوہیت کے بارے میں) کدھر الٹے چلے جا رہے ہیں (اور جیسا خالق اللہ ہی ہے اسی طرح) اللہ ہی (رازق بھی ہے چنانچہ) وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اللہ ہی سب چیز کے حال سے واقف ہے (جیسی مصلحت دیکھتا ہے ویسی ہی روزی دیتا ہے غرض رازق وہی ٹھہرا، اس لئے رزق کا اندیشہ ہجرت سے مانع نہ ہونا چاہئے) اور (جیسا کہ تخلیق کائنات میں اللہ کی توحید ان کے نزدیک بھی مسلم ہے، اسی طرح کائنات کے باقی رکھنے اور ان کا نظام چلانے میں بھی توحید کو تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو بعد اس کے کہ خشک (ناقابل نبات) پڑی تھی ترو تازہ (قابل نبات) کردیا تو (جواب میں) وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ بھی اللہ ہی ہے آپ کہئے کہ الحمد اللہ (اتنا تو اقرار کیا جس سے توحید فی الالوہیت پر استدلال بھی بدیہی ہے، مگر یہ لوگ مانتے نہیں) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) ان میں اکثر سمجھتے بھی نہیں (نہ اس وجہ سے کہ عقل نہیں، بلکہ عقل سے کام نہیں لیتے اور غور نہیں کرتے، اس لئے بدیہی بھی خفی رہتا ہے۔ )- معارف و مسائل - شروع سورت سے یہاں تک مسلمانوں کے ساتھ کفار کی عداوت اور توحید و رسالت سے مسلسل انکار اور حق اور اہل حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹوں کا بیان تھا، مذکور الصدر آیات میں مسلمانوں کے لئے ان کے شر سے بچنے اور حق کو شائع کرنے اور حق و انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کی ایک تدبیر کا بیان ہے جس کا اصطلاحی نام ہجرت ہے، یعنی وہ وطن اور ملک چھوڑ دینا جس میں انسان خلاف حق بولنے اور کرنے پر مجبور کیا جائے۔- ہجرت کے احکام اور اس کی راہ میں پیش آنے والے شکوک و شبہات کا ازالہ :- اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ ، حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میری زمین بہت وسیع ہے، اس لئے کسی کا یہ عذر قابل سماعت نہیں کہ فلاں شہر یا فلاں ملک میں کفار غالب تھے، اس لئے ہم اللہ کی توحید اور اس کی عبادت سے مجبور ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس سر زمین کو جہاں وہ کفر و معصیت پر مجبور کئے جائیں اللہ کے لئے چھوڑ دیں اور کوئی ایسی جگہ تلاش کریں جہاں آزادی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرسکیں۔ اسی کا نام ہجرت ہے۔- وطن سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ جانے میں دو قسم کے خطرات انسان کو عادة پیش آیا کرتے ہیں، جو اس کو ہجرت سے روکتے ہیں۔ پہلا خطرہ اپنی جان کا ہے کہ جب اس وطن کو چھوڑ کر کہیں جائیں گے تو یہاں کے کفار اور ظالم لوگ راہ میں حائل ہوں گے اور مقابلہ و مقاتلہ کے لئے آمادہ ہوں گے۔ نیز راستہ میں ممکن ہے کہ دوسرے کفار سے بھی مقابلہ کرنا پڑے جس میں جان کا خطرہ ہے۔ اس کا جواب اگلی آت میں یہ دیا گیا کہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَۃٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ۝ ٥٦- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبادت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56]- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراخ ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے میرے ایماندار بندو یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سرزمین مدینہ امن والی ہے وہاں چلے جاؤ اور خالص میری ہی عبادت کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ) ” - قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں ایک نکتہ جو پہلے کئی بار دہرایا جا چکا ہے یہاں پھر ذہن میں تازہ کرلیں کہ مکی دور میں اہل ایمان سے براہ راست بہت کم خطاب کیا گیا ہے ‘ زیادہ تر انہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ہی مخاطب کیا گیا ہے ‘ جبکہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی اصطلاح صرف مدنی قرآن میں ملتی ہے۔- یہاں پر یٰعِبَادِیَ کے طرز تخاطب میں بہت شفقت اور عنایت کا اظہار پایا جاتا ہے کہ اے میرے بندو اگر مجھ پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ کی سرزمین میں تمہارا قافیہ تنگ کردیا گیا ہے ‘ تمہارے لیے اگر یہاں رہنا محال ہوگیا ہے اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید ہمت تم لوگوں میں نہیں رہی تو اپنے اس شہر کو چھوڑ دو ‘ کہیں اور چلے جاؤ ‘ میری زمین بہت وسیع ہے۔ اس آیت میں ہجرت کی طرف راہنمائی ہے اور ہجرت حبشہ اسی حکم کی روشنی میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ اب اگلی آیت میں چوتھی ہدایت کا ذکر ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 94 یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مکے میں خدا کی بندگی کرنی مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ ، خدا کی زمین تنگ نہیں ہے ۔ جہاں بھی تم خدا کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ ۔ تم کو قوم و وطن کی نہیں بلکہ اپنے خدا کی بندگی کرنی چاہیے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز قوم ، وطن اور ملک نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اگر کسی وقت قوم و وطن اور ملک کی محبت کے تقاضے اللہ کی بندگی کے تقاضوں سے ٹکرا جائیں تو وہی وقت مومن کے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے ۔ جو سچا مومن ہے وہ اللہ کی بندگی کرے گا اور قوم وطن اور ملک کو لات مار دے گا ۔ جو جھوٹا مدعی ایمان ہے وہ ایمان کو چھوڑ دے گا اور اپنی قوم اور اپنے ملک و وطن سے چمٹا رہے گا ۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہے کہ ایک سچا خدا پرست انسان محب قوم و وطن تو ہوسکتا ہے مگر قوم پرست نہیں ہوسکتا ۔ اس کے لیے خدا کی بندگی ہر چیز سے عزیز تر ہے جس پر دنیا کی ہر چیز کو وہ قربان کردے گا مگر اسے دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان نہ کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کر رکھی تھی، اور بعض صحابۂ کرام (رض) اس صورت حال سے پریشان تھے، اس سورت کے شروع میں تو انہیں صبر واستقامت کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور اب اس آیت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر مکہ مکرمہ میں دین پر عمل کرنا مشکل ہورہا ہے تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، ہجرت کرکے کسی اور ایسی جگہ چلے جاؤ، جہاں امن وسکون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکو۔