5 7 1یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آجائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مروگے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہوگے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔
[٨٩] اس حکم کے مطابق مختلف اوقات میں تراسی افراد مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ انھیں مہاجرین کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اپنی جانوں کی فکر نہ کرو۔ یہ چند روزہ زندگی ہے۔ موت تو بہرحال آکے رہے گی یہ چند دن کی زندگی جہاں میسر آئے کاٹ لو۔ پھر ہمارے پاس آکٹھے ہوجاؤ گے۔ تمہارا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اپنا جان و مال اور گھر بار کیسے بچایا جائے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ اپنا ایمان کیسے بچایا جائے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۔۔ : اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی ترغیب ہے، یعنی ہر جان خواہ اپنے وطن میں رہے یا وہاں سے ہجرت کر جائے، موت کی تلخی کو چکھنے والی ہے۔ یہ چند دن کی زندگی جہاں اور جیسے ہو سکے کاٹ لو، پھر ہمارے پاس آ اکٹھے ہو گے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ، یعنی ہر ایک جان چکھنے والی ہے مزہ موت کا جس سے کسی کو کسی جگہ کسی حال مفر نہیں اس لئے موت سے خوف اور گھبراہٹ مومن کا کام نہیں ہونا چاہئے۔ وہ تو ہر شخص کو ہر حال میں پیش آئے گی اپنی جگہ میں کیسے ہی حفاظت کے سامان کر کے رہے، پھر بھی آئے گی اور مومن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی اس لئے اپنی جگہ رہنے یا ہجرت کر کے دوسری جگہ جانے میں موت کا خوف حائل نہ ہونا چاہئے، خصوصاً جبکہ احکام الہیہ کی اطاعت کرتے ہوئے موت آجانا دائمی راحتوں اور نعمتوں کا ذریعہ ہے جو ان کو آخرت میں ملیں گی جس کا ذکر بعد کی دو آیتوں میں فرمایا ہے
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ٠ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ ٥٧- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
ہر شخص کو لازما موت کا مزہ چکھنا ہے اور پھر مرنے کے بعد تم سب کو ہمارے پاس آنا ہے جہاں تمہیں تمہارے اعمال کا صلہ دیا جائے گا
آیت ٥٧ (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِقف ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) ” - دیکھو موت تو ایک دن آنی ہی ہے۔ اس دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی ہمیشہ رہے گا۔ فرض کرو اگر یاسر اور ان کی اہلیہ سمیہ (رض) ابوجہل کے ہاتھوں شہید نہ بھی ہوتے تو کیا ہوتا ؟ بس یہی نا کہ چند برس اور جی لیتے۔ موت تو پھر بھی انہیں آنی ہی تھی۔ راہ حق کے مسافروں کے لیے یہ بہت قیمتی نصیحت ہے۔ اگر یہ اٹل حقیقت انسان کے دل و دماغ میں مستحضر رہے تو انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں بھی اس کی ہمت قائم رہتی ہے اور وہ زندگی بچانے کے لیے حق کا ساتھ چھوڑنے اور باطل کے ساتھ مصالحت کرلینے کی سوچ جیسے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے ۔۔ اور اب پانچویں نصیحت :
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 95 یعنی جان کی فکر نہ کرو ۔ یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے ۔ ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے ۔ لہذا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے ۔ بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں ۔ آخر کار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے ۔ اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہوگا اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہوگا ۔ پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے ، جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟
31: یعنی اگر ہجرت کرنے سے اس لئے رُکاوٹ محسوس ہو کہ اپنے عزیزوں دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا تو یہ جدائی کبھی نہ کبھی تو ہونی ہی ہے، کیونکہ ہر انسان کو موت آنی ہے، پھر جب سب ہمارے پاس واپس آجاؤگے تو پھر کبھی جدائی نہیں ہوگی۔