5 9 1یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل و عیال اور عزیز و اقربا سے دوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔ 5 9 2دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔
[٩١] نیک اعمال میں سرفہرست صبر ہے۔ اور صبر کا لفظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں یہ پیش آنے والی مشکلات کو اللہ کی رضا کے لئے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی صبر ہے۔ اور احکام شریعت سے استقلال کے ساتھ کاربند رہنا بھی صبر ہے۔ اور مالی مفادات کے ضیاع کو درخور اعتناء نہ سمجھنا بھی صبر ہے۔ اور نیک اعمال میں سے دوسرے نمبر پر اللہ پر توکل کا ذکر فرمایا۔ اللہ پر توکل کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے ان وعدوں پر یقین کیا جائے جو اس نے اپنے فرمانبردار بندوں سے کر رکھے ہیں۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ان وعدوں کے پورا ہونے کے ظاہری اسباب بھی مفقود نظر آرہے ہوں۔
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا : یعنی جنت کے بالا خانوں پر سرفراز ہونے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے دین اسلام اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر، گناہوں سے اجتناب پر، مشرکین کی ایذاؤں پر، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی تکالیف پر صبر کیا، خویش و اقارب اور وطن کو چھوڑا اور دشمنوں سے پنجہ آزما ہوئے۔- وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ : اور وہ ہمیشہ اپنے ہر کام میں صرف اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ وہ اپنے وطن، جائداد، کاروبار، دوست احباب، خویش و اقارب، غرض کسی چیز پر بھروسا نہیں کرتے، بلکہ صرف اپنے رب پر بھروسا کرتے ہوئے اس کے راستے میں ہجرت اور جہاد کے لیے نکل جاتے ہیں۔
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ٥٩- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
جنہوں نے احکام الہی کی بجا آوری کی اور سختیوں پر صبر اور اپنے رب توکل کیا کرتے تھے اس کے علاوہ اور کسی پر بھروسا نہیں رکھتے ہیں۔
آیت ٥٩ (الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ) ” - اگر تم لوگوں نے اپنے لیے حق کے راستے کا انتخاب کیا ہے تو اس پر چلتے ہوئے باطل سے پنجہ آزمائی کرنے کا مرحلہ بھی آئے گا اور قدم قدم پر مصائب و مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس سب کچھ کے مقابلے میں تمہارے پاس دو انتہائی مؤثر ہتھیار ہمہ وقت موجود و دستیاب رہنے چاہئیں ‘ یعنی صبر اور توکلّ علی اللہ بس اس راستے میں جو مشکل اور جو مصیبت بھی آئے اسے جھیلنے اور برداشت کرنے کا عزم اپنے اندر ہر دم تازہ اور بلند رکھو اور بھروسہ رکھو تو صرف اللہ کی ذات پر اس کٹھن سفر میں نہ تو تم مادی اسباب وو سائل پر نظر رکھو اور نہ ہی اپنی ذہانت و فطانت اور قوت و شجاعت کو لائق اعتناء سمجھو ۔۔ اب ساتویں نصیحت ملاحظہ ہو :
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 97 یعنی جو ہر طرح کی مشکلات اور مصائب اور نقصانات اور اذیتوں کے مقابلے میں ایمان پر قائم رہے ہیں ۔ جنہوں نے ایمان لانے کے خطرات کو اپنی جان پر جھیلا ہے اور منہ نہیں موڑا ہے ۔ ترک ایمان کے فائدوں اور منفعتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ان کی طرف ذرہ برابر التفات نہیں کیا ہے ۔ کفار و فساق کو اپنے سامنے پھولتے دیکھا ہے اور ان کی دولت و حشمت پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالی ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 98 یعنی جنہوں نے بھروسہ اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار اپنے کنبے قبیلے پر نہیں بلکہ اپنے رب پر کیا ۔ جو اسباب دنیوی سے قطع نظر کر کے محض اپنے رب کے بھروسے پر ایمان کی خاطر ہر خطرہ سہنے اور ہر طاقت سے ٹکرا جانے کے لیے تیار ہوگئے ، اور وقت آیا تو گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ۔ جنہوں نے اپنے رب پر یہ اعتماد کیا کہ ایمان اور نیکی پر قائم رہنے کا اجر اس کے ہاں کبھی ضائع نہ ہوگا اور یقین رکھا کہ وہ اپنے مومن و صالح بندوں کی اس دنیا میں بھی دستگیری فرمائے گا اور آخرت میں بھی ان کے عمل کا بہترین بدلہ دے گا ۔