6 0 1کَاَیِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔ 6 0 2کیونکہ اٹھا کرلے جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کرسکتے، مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو جانے والے صحابہ کرام کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنادیا۔ 6 0 3یعنی کوئی کمزور ہے یا طاقتور، اسباب وسائل سے بہرہ ور ہے یا بےبہرہ اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بےوطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر فاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔ 6 0 4وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال و افعال کو اور تمہارے ظاہر و باطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو اسی کی اطاعت میں سعادت و کمال ہے اور اسی کی معصیت میں بدبختی و نقصان۔
[٩٢] ہجرت کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ اپنے ذریعہ معاش کی فکر ہوتی ہے۔ مہاجر ایک تو اپنے وطن سے اپنا ذریعہ معاش چھوڑ کرجاتا ہے دوسرے اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جہاں وہ ہجرت کرکے جارہا ہے وہاں اس کے ذریعہ معاش کی کیا صورت ہوگی ؟ ایسے خطرات کو اللہ کے وعدہ پر یقین کرتے ہوئے یقین کرلینے کا نام ہی توکل ہے۔ اور بتلایا یہ جارہا ہے کہ بیشمار جاندار ایسے ہیں۔ ہر روز نئی روزی ملتی ہے اور جو اللہ جانوروں تک کو روزی پہنچاتا ہے وہ اپنے فرمانبرداروں کو کیوں نہ پہنچائے گا۔ چناچہ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں (ترمذی۔ ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی قلہن الطعام)
وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ۔۔ : ہجرت کرتے ہوئے جان کی فکر کے بعد ذہن میں آنے والی سب سے پہلی بات یہ ہوتی ہے کہ وطن سے نکلے تو کھائیں گے کہاں سے ؟ اللہ تعالیٰ نے روزی کی طرف سے تسلی دلائی کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں، اللہ تعالیٰ کا رزق ساری مخلوق کے لیے عام ہے، جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو۔ بلکہ جن لوگوں نے ہجرت کی ان کا رزق کثرت، وسعت اور عمدگی میں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگیا، چناچہ وہ تھوڑی مدت ہی میں تمام علاقوں میں شہروں کے حاکم بن گئے۔ اس لیے فرمایا، کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی ساتھ لیے نہیں پھرتے، ان کے گھروں میں کل کی خوراک نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ ان کے ہر نئے دن کے لیے نئی روزی کا بندوبست کرتا ہے اور ہر مخلوق کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، اسے بہم پہنچاتا ہے، حتیٰ کہ زمین کی تہ میں چیونٹیوں کو، ہوا میں پرندوں کو اور پانی میں مچھلیوں کو ان کی ضرورت کی ہر چیز وافر عطا فرماتا ہے۔ (دیکھیے سورة ہود : ٦) ” وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ “ وہ اپنی مخلوق کی ہر بات سنتا بھی ہے جانتا بھی ہے، اس لیے وہ ہر ایک کی روزی اس تک پہنچا دیتا ہے۔ عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَ تَرُوْحُ بِطَانًا ) [ ترمذي، الزھد، باب في التوکل علی اللہ : ٢٣٤٤۔ ابن ماجہ : ٤١٦٤، و صححہ الألباني ] ” اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسا کرو جیسے اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ “
وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْ ، یعنی اس پر غور کرو کہ زمین پر چلنے والے کتنے ہزاروں قسم کے جانور ہیں جو اپنے رزق جمع کرنے اور رکھنے کا کوئی انتظام نہیں کرتے نہ تحصیل رزق کے اسباب جمع کرنے کی کوئی فکر کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو روزانہ اپنے فضل سے رزق مہیا کرتے ہیں، علماء نے فرمایا ہے کہ عام جانور ایسے ہی ہیں ان میں صرف چیونٹی اور چوہا تو ایسے جانور ہیں جو اپنی غذا کے لئے اپنے بلوں میں جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ چیونٹی سردی کے موسم میں باہر نہیں آتی، اس لئے گرمی کے ایام میں کھانے کا سامان اپنی بل میں جمع کرتی ہے اور مشہور ہے کہ پرندہ جانوروں میں سے عقعق (کوا) بھی اپنی غذا اپنے گھونسلہ میں جمع کرتا ہے مگر وہ رکھ کر بھول جاتا ہے۔ بہرحال دنیا کے تمام جانور جن کی انواع و اصناف کا شمار بھی انسان سے مشکل ہے، وہ بیشتر وہی ہیں جو آج اپنی غذا حاصل کرنے کے بعد کل کے لئے نہ غذا مہیا کرتے ہیں نہ اس کے اسباب ان کے پاس ہوتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ یہ پرندے جانور صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس ہوتے ہیں نہ ان کی کوئی کھیتی باڑی ہے نہ کوئی جائیداد و زمین، نہ یہ کسی کارخانے یا دفتر کے ملازم ہیں جہاں سے اپنا رزق حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ کی کھلی زمین میں نکلتے ہیں اور سب کو پیٹ بھرائی رزق ملتا ہے اور یہ ایک دن کا معاملہ نہیں جب تک وہ زندہ ہیں یہی سلسلہ جاری ہے۔
وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا ٠ۖۤ اَللہُ يَرْزُقُہَا وَاِيَّاكُمْ ٠ۡۖ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٦٠- دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو
چناچہ جب ان کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تو فطری طور پر یہ وسوسہ ہوا کہ وہاں انہیں کون ٹھہرائے گا اور کھانے پینے کو کون دے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جان لو بہت سے جانور ایسے ہیں جو کل کے لیے اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے اور یہ کہ چیونٹی تو ایک سال کے لیے غذا جمع کر کے رکھتی ہے۔- اللہ ہی ان کو جو اٹھا کر رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے روزی پہنچاتا ہے اور اے جماعت مومنین تمہیں بھی پہنچاتا ہے وہی تمہاری ان باتوں کا سننے والا اور تمہاری روزیوں کا جاننے والا ہے کہ کس مقام پر سے تمہیں روزی پہنچائے گا۔- شان نزول : وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ (الخ)- عبد بن حمید، ابن ابی حکم بیہقی اور ابن عساکر نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ مدینہ منورہ کے باغوں میں سے کسی باغ میں داخل ہوئے تو آپ کھجور کے درختوں پر سے کھجور توڑ کر کھا رہے تھے آپ نے فرمایا ابن عمر (رض) تم کیوں نہیں کھاتے ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے خواہش نہیں آپ نے فرمایا لیکن میری تو طبیعت چاہ رہی ہے اور یہ چوتھا دن ہے جس دن سے میں نے کھانا نہیں چکھا اور نہ اس کی طلب کی اور اگر میں چاہتا تو اپنے پروردگار سے دعا کرتا وہ مجھے قیصر و کسری کی بادشاہت کے برابر عطا کردیتا تو ابن عمر (رض) تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی جبکہ تمہارا ایسی قوم سے سابقہ پڑے گا جو سال بھر کا رزق جمع کر رکھیں گے اور یقین کمزور ہوجائے گا حضرت ابن عمر فرماتے ہیں تو اللہ کی قسم کہ ہم اس جگہ سے نہیں ہٹے تھے اور نہ ہٹنے کا ارادہ کیا تھا اتنے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی کہ بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنی غذا بچا کر نہیں رکھتے اللہ ہی ان کو روزی پہنچاتا ہے اس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دنیا کے خزانے جمع کرنے اور خواہشات کے پیچھے چلنے کا حکم نہیں دیا جان لو کہ میں نہ دینار جمع کرتا ہوں اور نہ درہم اور نہ کل کے لیے رزق چھپا کر رکھتا ہوں۔
آیت ٦٠ (وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاز) ” - تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکلّ کرو اور اس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہوگیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔- متی کی انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا جو وعظ (پہاڑی کا وعظ ) نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ” تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبسّ نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ “ (متی ‘ باب ٦ : ٢٥۔ ٣٤ ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص ٦٠)- اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا ‘ اسی قدر اس کا اس پر توکل بھی مضبوط ہوگا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو پھر توکل بھی کمزور پڑجائے گا۔- (اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْز وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) ” - وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے ‘ اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے ‘ وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے ‘ کیا اسے خبر نہ ہوگی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکلّ کیے بیٹھا ہے ؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہ کی طرف ہے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 99 یعنی ہجرت کرنے میں تمہیں فکر جان کی طرح فکر روزگار سے بھی پریشان نہ ہونا چاہیے ۔ آخر یہ بے شمار چرند و پرند اور آبی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو اور خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں ، ان میں سے کون اپنا رزق اٹھائے پھرتا ہے؟ اللہ ہی تو ان سب کو پال رہا ہے ، جہاں جاتے ہیں اللہ کے فضل سے ان کو کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے ۔ لہذا تم یہ سوچ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے ۔ اللہ جہاں سے اپنی بے شمار مخلوق کو رزق دے رہا ہے ، تمہیں بھی دے گا ۔ ٹھیک یہی بات ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی ۔ انہوں نے فرمایا: کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا ، کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محب ، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا ۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے ۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ۔ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں ، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں ۔ پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے ۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس بڑھتے ہیں ، وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں ، پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند لمبس نہ تھا ۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اسے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا ۔ اس لیے فکر مند نہ ہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ۔ ان سب چیزوں کی تلاش میں تو غیر قومیں رہتی ہیں ۔ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو ۔ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کی تلاش کرو ۔ یہ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی ۔ کل کے لیے فکر نہ کرو ۔ کل کا دن اپنی فکر آپ کرلے گا ۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے ۔ ( متی ۔ باب6 ۔ آیات 24 ۔ 34 ) قرآن اور انجیل کے ان ارشادات کا پس منظر ایک ہی ہے ۔ دعوت حق کی راہ میں ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے جس میں ایک حق پرست آدمی کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ عالم اسباب کے تمام سہاروں سے قطع نظر کر کے محض اللہ کے بھروسے پر جان جوکھوں کی بازی لگا دے ۔ ان حالات میں وہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے جو حساب لگا لگا کر مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور قدم اٹھانے سے پہلے جان کے تحفظ اور رزق کے حصول کی ضمانتیں تلاش کرتے ہیں ، درحقیقت اس طرح کے حالات بدلتے ہی ان لوگوں کی طاقت سے ہیں جو سر ہتھیلی پر لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے بے دھڑک تیار ہوجائیں ۔ انہین کی قربانیاں آخر کار وہ وقت لاتی ہیں جب اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں سارے کلنے پست ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
32: ہجرت کرنے میں ایک خوف ہوسکتا تھا کہ یہاں تو ہمارے روزگار کا ایک نظام موجود ہے، کہیں اور جاکر معلوم نہیں کوئی مناسب روزگار ملے یا نہ ملے، اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں کتنے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق ساتھ لئے نہیں پھرتے، بلکہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں اللہ تعالیٰ وہیں ان کے رزق کا انتظام فرماتا ہے، لہذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں وطن چھوڑیں گے، کیا اللہ تعالیٰ ان کے رزق کا انتظام نہیں فرمائے گا ؟ البتہ رزق کی کمی اور زیادتی تمام تر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر موقوف ہے، لہذا وہی فیصلہ فرماتا ہے کہ کس کو کس وقت کتنا رزق دینا ہے۔