Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

توحید ربویت توحید الوہیت اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ معبود برحق صرف وہی ہے ۔ خود مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا سورج کو مسخر کرنے والا دن رات کو پے درپے لانے والا خالق رازق موت وحیات پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ غنا کے لائق کون ہے اور فقر کے لائق کون ہے؟ اپنے بندوں کی مصلحتیں اس کو پوری طرح معلوم ہیں ۔ پس جبکہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے سب پر قابض صرف وہی ہے پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ اور اس کے سوا دوسروں پر توکل کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ملک کا مالک وہ تنہا ہے تو عبادتوں کے لائق بھی وہ اکیلا ہے ۔ توحید ربوبیت کو مان کر پھر توحید الوہیت سے انحراف عجیب چیز ہے قرآن کریم میں توحید ربوبیت کے ساتھ ہی توحید الوہیت کا ذکر بکثرت سے اس لئے ہے کہ توحید ربویت کے قائل مشرکین مکہ تو تھے ہی انہیں قائل معقول کرکے پھر توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔ مشرکین حج وعمرے میں لبیک پکارتے ہوئے بھی اللہ کے لاشریک ہونے کا اقرار کرتے تھے لبیک لاشریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وماملک یعنی یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک کہ جن کا مالک اور جن کے ملک کا مالک بھی توہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے ؟ تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انھیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے 612 یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] یہ خطاب صرف مہاجرین کو ہی نہیں بلکہ اس خطاب میں سب مشترک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان اور سورج اور چاند، سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھیں ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کرکے جائیں گے۔ یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہوگا اور اللہ تمہیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے لہذا اس پر توکل کرو۔ - اور اس خطاب کا روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہاری زندگی اور زندگی کا بقا کا سارا سامان تو اللہ نے مہیا کیا ہے۔ پھر تم اپنے معبودوں کو اللہ کے شریک اور مدمقابل کیسے ٹھہراتے ہو ؟ یہ کہاں سے تمہیں عقل کا پھیر لگ جاتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : یہاں سے کلام کا رخ پھر اہل مکہ کی طرف ہوگیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے معبود واحد ہونے کی دلیل کے طور پر مشرکین مکہ کے اس اعتراف کا ذکر ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ چناچہ فرمایا، اے رسول یا اے مخاطب اگر تو ان مشرکین سے پوچھے کہ وہ کون ہے جس نے یہ سب آسمان پیدا کیے اور یہ زمین پیدا کی ؟ اور وہ کون ہے جس نے تمہارے فائدے کے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ؟ تو یقیناً وہ کسی تردّد کے بغیر کہیں گے کہ وہ ” اللہ “ ہے۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا آج تک کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ میں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور میں نے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہے۔ اس لیے کتنا بڑے سے بڑا مشرک ہو، اسے یہ حقیقت ماننے کے بغیر چارہ نہیں۔- فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ : یہ ان کی الٹی سوچ پر اور اپنے ہی قول کے خلاف عمل پر تعجب کا اظہار ہے۔ یعنی جب تم مانتے ہو کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اور سورج و چاند کو مسخر کرنے والا ہے، تو عبادت میں کسی اور کو کیوں شریک کرتے ہو اور کسی اور پر بھروسا کیوں کرتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنے اکیلے رب اور مالک ہونے کو اپنے اکیلا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے، کیوں کہ مشرکین اس کا اعتراف کرتے تھے۔ - 3 بعض مفسرین نے پچھلی آیت کے ساتھ اس آیت کی مناسبت یہ بیان کی ہے کہ اس آیت کے مخاطب فکر معاش کی وجہ سے ہجرت میں تردّد کرنے والے حضرات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان، سورج اور چاند سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کی تمام ضروریات زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کر کے جائیں گے یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہوگا اور اللہ عزوجل انھیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے، تو یہ لوگ کہاں بہکائے جارہے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد کی آیات میں رزق کا اصلی ذریعہ بتلایا ہے جو حق تعالیٰ کی عطاء ہے اور فرمایا ہے کہ خود ان منکروں کافروں سے سوال کرو کہ آسمان زمین کس نے پیدا کئے ؟ اور شمس و قمر کس کے تابع فرمان چل رہے ہیں ؟ بارش کون برساتا ہے ؟ پھر اس بارش کے ذریعہ زمین سے نباتات کون اگاتا ہے ؟ تو مشرکین بھی اس کا اقرار کریں گے کہ یہ سب کام ایک ذات حق تعالیٰ ہی کا ہے۔ تو ان سے کہئے کہ پھر تم اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا پاٹ اور ان کو اپنا کار ساز کیسے سمجھتے ہو۔ اگلی آیات وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ سے آخر رکوع تک اسی کا بیان ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت سے روکنے والی دوسری فکر معاش کی ہے، وہ بھی انسان کی بھول ہے۔ معاش کا مہیا کرنا اس کے یا اس کے جمع کردہ اسباب و سامان کے قبضہ میں نہیں، وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کی عطاء ہے۔ اسی نے اس وطن میں یہ سامان جمع فرما دیئے تھے وہ دوسری جگہ بھی سامان معاش دے سکتا ہے اور بغیر کسی سامان کے بھی ضروریات معاش فراہم کرسکتا ہے۔ اس لئے یہ دوسرا خطرہ بھی ہجرت سے مانع نہ ہونا چاہئے۔- ہجرت کب فرض یا واجب ہوتی ہے :- ہجرت کے معنی اور تعریف اور اس کے فضائل و برکات سورة نساء کی آیت نمبر 97 تا 100 میں اور شرعی احکام میں تبدیلی اسی سورت کی آیت نمبر 89 کے تحت میں معارف القرآن کی جلد دوم صفحہ 525 تا 529 اور کچھ صفحہ 510 میں بیان ہوچکے ہیں ایک مضمون وہاں بیان کرنے سے رہ گیا تھا وہ یہاں لکھا جاتا ہے۔- جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بامر الہی مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی اور سب مسلمانوں کو بشرط قدرت ہجرت کا حکم فرمایا اس وقت مکہ معظمہ سے ہجرت کرنا فرض عین تھا جس سے کوئی مرد و عورت مستثنی نہیں تھا، بجز ان لوگوں کے جو ہجرت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ - اور اس زمانے میں ہجرت صرف فرض ہی نہیں، بلکہ مسلمان ہونے کی علامت اور شرط بھی سمجھی جاتی تھی، جو باوجود قدرت کے ہجرت نہ کرے، اس کو مسلمان نہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا تھا جو کفار کے ساتھ ہوتا ہے، جس کا بیان سورة نساء کی آیت نمبر 89 میں ہے، حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اس وقت ہجرت کا مقام اسلام میں وہ تھا جو کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ کا ہے، کہ یہ شہادت خود بھی فرض ہے اور مسلمان ہونے کی شرط اور علامت بھی کہ جو شخص باوجود قدرت کے زبان سے ایمان کا اقرار اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دے اگرچہ دل میں یقین اور تصدیق رکھتا ہو وہ مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ عاجز جس کو اس کلمہ کے بولنے پر قدرت نہ ہو وہ مستثنی ہے اسی طرح جن لوگوں کو ہجرت پر قدرت نہ تھی وہ مستثنی سمجھے گئے جس کا ذکر سورة نساء کی آیت نمبر 98 اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ میں آیا ہے اور جو لوگ باوجود ہجرت پر قادر ہونے کے مکہ میں مقیم رہے، ان کے لئے جہنم کی سخت و عید آیت نمبر 97 اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ (الی) ۭفَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ میں مذکور ہے۔- جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو ہجرت کا یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا کیونکہ اس وقت مکہ خود دار السلام بن گیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت حکم جاری فرما دیا۔ لا ھجرة بعد الفتح، یعنی فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں، مکہ مکرمہ سے ہجرت کا فرض ہونا پھر منسوخ ہونا قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت ہوگیا، جو ایک واقعہ جزئیہ تھا، فقہاء امت نے اس واقعہ سے یہ مسائل مستنبط کئے :۔- مسئلہ : جس شہر یا ملک میں انسان کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزدای نہ ہو، وہ کفر و شرک یا احکام شرعیہ کی خلاف ورزی پر مجبور ہو وہاں سے ہجرت کرکے کسی دوسرے شہر یا ملک میں جہاں دین پر عمل کی آزادی ہو چلا جانا بشرطیکہ قدرت ہو واجب ہے، البتہ جس کو سفر پر قدرت نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو جہاں آزادی سے دین پر عمل کرسکے وہ شرعاً معذور ہے۔- مسئلہ : جس دار الکفر میں عام احکام دینیہ پر عمل کرنے کی آزادی ہو وہاں سے ہجرت فرض و واجب تو نہیں، مگر مستحب بہرحال ہے اور اس میں دار الکفر ہونا بھی ضروری نہیں، دار الفسق جہاں احکام الہیہ کی خلاف ورزی اعلاناً ہوتی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اگرچہ وہاں کے حکمران کے مسلمان ہونے کی بناء پر اس کو دار الاسلام کہا جاتا ہو۔ - یہ تفصیل حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر فرمائی ہے اور قواعد حنفیہ میں کوئی چیز اس کے منافی نہیں اور مسند احمد کی ایک روایت جو حضرت ابو یحییٰ مولی زبیر ابن عوام سے منقول ہے وہ بھی اس پر شاہد ہے، حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- البلاد بلاد اللہ والعباد عباد اللہ حیثما اصبت خیرا فاقم (ابن کثیر)- " یعنی سب شہر اللہ کے شہر ہیں اور سب بندے اللہ کے بندے ہیں، اس لئے جس جگہ تمہارے لئے اسباب خیر جمع ہوں وہاں اقامت کرو۔ "- اور ابن جریر نے اپنی مسند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شہر میں معاصی اور فواحش عام ہوں اس کو چھوڑ دو اور امام تفسیر حضرت عطاء نے فرمایا کہ جب تمہیں کسی شہر میں معاصی کے لئے مجبور کیا جائے تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہو۔ (ابن جریر طبری فی التفسیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۝ ٠ۚ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝ ٦١- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] - ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اگر آپ ان کفار مکہ سے دریافت کریں کہ بھلا وہ کون ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے تو کفار مکہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے اور اسی نے ان کو کام میں لگا رکھا ہے پھر کیوں اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 100 یہاں سے پھر کلام کا رخ کفار مکہ کی طرف مڑتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: یعنی اس حقیقت کا اعتراف کرنے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ وہ اسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے، کسی اور کی نہیں، لیکن اس کے بعد انہیں کیا ہوجاتا ہے کہ اس منطقی تقاضے پر عمل کرنے کے بجائے شرک شروع کردیتے ہیں۔