6 2 1یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو ؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو چاہتا کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضامندی یا غضب سے نہیں ہے۔ 6 2 2اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں ؟
[٩٤] مال کی محبت انسان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مال و دولت ملے۔ لیکن اللہ اتنا ہی دیتا ہے جتنا وہ خود چاہتا ہے۔ کسی کو زیادہ، کسی کو کم۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو کچھ بھی نہ دے، دیتا ضرور ہے۔ اور اس میں بھی اس کی کئی حکمتیں اور بندوں کی مصلحتیں مضمر ہیں۔- [٩٥] وہ یہ بات خوب جانتا ہے کہ فلاں بندے کو اگر رزق زیادہ دیا گیا تو وہ اس سے خیر اور بھلائی ہی کمائے گا اور فلاں کو زیادہ دیا گیا تو وہ میری یاد سے غافل اور سرکش اور متکبر بن جائے گا اور کہیں کسی کو مال کو زیادہ دے کر اسے ابتلاء میں ڈال دیتا ہے۔ غرضیکہ مال سے جتنی انسان کو محبت ہے اتنا ہی وہ مال اس کے حق میں فتنہ بھی بن سکتا ہے۔ چناچہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ میرے لئے مال و دولت کی دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا۔ تھوڑی چیز جس پر تم اللہ کا شکر ادا کرتے رہو اس زیادہ سے بہتر ہے جس سے تم اللہ کے حقوق بھی ادا نہ کرسکو۔ اس نے دوبارہ ایسی دعا پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا : ثعلبہ کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم میرے نقش قدم پر چلو۔ پھر بھی اس کا اصرار بڑھتا گیا اور اس نے وعدہ کیا کہ اگر مجھے اللہ نے مال دیا تو میں اس کے حقوق پوری طرح ادا کروں گا۔ چناچہ آپ نے اس کے حق میں دعا فرما دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی بکریوں میں اتنی برکت ہوئی کہ اسے مدینہ سے باہر ڈیرہ لگانا پڑا۔ پھر اس پر آزمائش کا دور شروع ہوا اور وہ فرض نمازوں سے مسجد میں غیر حاضر رہنے لگا۔ پھر مصروفیت بڑھی تو نماز جمعہ بھی ترک ہونے لگی۔ کچھ دنوں بعد آپ نے زکوٰ ۃ وصول کرنے والا اس کے پاس بھیجا تو کہنے لگا کہ زکوٰ ۃ بھی تو ایک طرح کا جزیہ ہی ہے۔ ایک دو دفعہ تو محصل کو ٹالتا رہا۔ آخر زکوٰ ۃ دینے سے صاف انکار کردیا۔ اس وقت آپ نے تین بار فرمایا : ویح ثعلبہ (ثعلبہ تباہ ہوا) اس بات سے اس کے رشتہ داروں نے اسے مطلع کیا تو وہ زکوٰ ۃ لے کر خود حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری زکوٰ ۃ لینے سے منع فرما دیا ہے۔ اب یہ چیز اس کے لئے بڑی عار کا باعث بن گئی۔ مگر چونکہ دل میں نفاق آگیا تھا اس لئے اللہ کے حضور توبہ نہ کی اور اپنے مال میں ہی مگن رہا۔ آپ کی وفات کے بعد وہ دور صدیقی میں پھر زکوٰ ۃ لے کر آیا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جواب دیا کہ جس مال کو اللہ کے رسول نے اللہ کے حکم کے مطابق قبول نہ کیا تھا میں کیسے کرسکتا ہوں ؟ پھر وہ دور فاروقی میں زکوٰ ۃ لے کر آیا پھر اس کے بعد حضرت عثمان (رض) کے پاس آیا۔ لیکن اب سب کا یہی جواب تھا کہ ہم اللہ کے حکم اور اللہ کے رسول کی منشاء کے خلاف یہ زکوٰ ۃ کیسے قبول کرسکتے ہیں۔ آخر دور عثمانی میں اسی نفاق کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔- اب ایک دوسرا واقعہ ملاحظہ فرمائیے : ایک دفعہ رسول اللہ صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے۔ آپ نے سب کو نہیں دیا، کسی کو دیا اور کسی کو چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے اس تقسیم کی وضاحت فرماتے ہوئے کہا میں اس شخص کو مال دیتا ہوں جس کے دل میں بےچینی اور بوکھلا پن پاتا ہوں۔ حالانکہ جن لوگوں کو نہیں دیتا وہ مجھے ان سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں جنہیں میں یہ مال دیتا ہوں اور جن محبوب لوگوں کو نہیں دیتا تو اس وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں میں سیرچشمی اور بھلائی رکھی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم کہ جو خوشی مجھے آپ کی اس بات سے ہوئی اگر مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری۔ کتاب الجمع۔ باب من قال فیالخطبہ بعد الثناء اما بعد)- ان واقعات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی کو کم یا زیادہ دینے میں اللہ کی کیا کچھ حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔
اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۔۔ : یعنی ہجرت کی وجہ سے کسی کا رزق کم نہیں ہوتا۔ رزق کا فراخ ہونا یا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، وہی جانتا ہے کہ کس کو کتنا رزق دینا چاہیے۔ اور اگر خطاب مشرکین سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ رزق کھول دینا یا بند کردینا تمہارے بنائے ہوئے داتاؤں اور دستگیروں کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا پوری طرح علم رکھنے والا ہے۔- 3” اللہ رزق فراخ کردیتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے اور اس کے لیے تنگ کردیتا ہے “ کا ایک مطلب تو - یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، لیکن ” یقدر “ کے بعد ” لہ “ کی وجہ سے ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور اسی کے لیے کبھی تنگ بھی کردیتا ہے۔ یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے، جب چاہے کسی کا رزق کھول دے اور جب چاہے اس کا رزق تنگ کر دے، اس کا ہجرت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ - 3 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے رزق فراخ کردیتا ہے اور اس کے لیے تنگ کردیتا ہے، مگر بند نہیں کرتا۔- اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : یعنی اللہ کی مشیت اندھے کی لاٹھی کی طرح نہیں کہ بلا وجہ کسی کا رزق فراخ کر دے یا تنگ کر دے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے کہ کس کے حق میں فراخی سے روزی دینا بہتر ہے اور کس کے حق میں تنگی سے روزی دینا، یا ایک ہی بندے کو کب فراخی سے روزی دینا بہتر ہے اور کب تنگی سے۔
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ لَہٗ ٠ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٦٢- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بنوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے جو اس کی جانب سے ایک امتحان ہوتا ہے اور جس پر چاہتا ہے بطور ڈھیل کے تنگ کردیتا ہے، وہ فراخی و تنگی ہر ایک چیز سے واقف ہے۔