Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

661یہ لام کئی ہے جو علت کے لیے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٨] یعنی اس سے زیادہ ناشکری کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی ضروریات زندگی تو سب اللہ تعالیٰ مہیا کرے اور جب جان پر بن جائے تو اس مصیبت سے نجات بھی اللہ ہی دے۔ لیکن جب آسودہ حالی کا وقت آئے تو انسان نہ صرف یہ کہ اللہ کو بھول جائے۔ بلکہ اس کے اختیارات میں دوسروں کو بھی شریک بنانے لگے۔ اس آیت میں دور نبوی کے مشرکوں کا ذکر ہے جو کم از کم آڑے وقتوں میں تو اکیلے اللہ کو پکارتے تھے۔ مگر آج کا مشرک ان مشرکوں سے بازی لے گیا ہے۔ جو عقیدہ ہی یہ رکھتا ہے کہ اس کا بیر اس کے ہر کام اور اس کے سارے احوال سے واقف ہوتا ہے اور مشکل وقت میں اس سے فریاد کرنے پر فوراً وہ مدد کو پہنچ جاتا ہے۔ اور موت سامنے کھڑی دیکھ کر بھی یا بہاء الحق بیڑا بنے دھک جیسے نعرے لگاتا اور اپنے پیر کو فریاد رسی کے لئے پکارتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی وجہ کے لئے سورة یونس کا حاشیہ نمبر ٣٤ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ ۔۔ : یعنی نجات پانے کے بعد شرک کرنے سے انھیں اس کے سوا کچھ حاصل نہیں کہ ہماری عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کرتے رہیں اور صرف دنیا کی لذتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں، جبکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ سو بہت جلد وہ اپنے اس کام کا انجام جان لیں گے۔ (بغوی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِـيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰہُمْ۝ ٠ۚۙ وَلِيَتَمَتَّعُوْا۝ ٠۪ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝ ٦٦- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- آتینا - [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے جع نعمت ان کو دی ہے اس کی قدر نہیں کرتے ہیں اور یہ لوگ اپنے کفر و شرک میں چند دن اور لطف اٹھا لیں پھر قریب ہی نزول عذاب پر ان کو سب خبر ہوجائے گی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلِیَتَمَتَّعُوْاوقفۃ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) ” - اس دنیا میں تو یہ لوگ اللہ کی نافرمانیاں بھی کر رہے ہیں اور مزے بھی اڑا رہے ہیں ‘ لیکن عنقریب جب آنکھ بند ہوگی تو اصل حقیقت ان کے سامنے آجائے گی : - یہی اسلوب اور انداز ہمیں ” سورة التّکاثر “ میں بھی نظر آتا ہے : (اَلْہٰٹکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۔ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) ” تم لوگوں کو غافل رکھا باہم کثرت کی خواہش نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ ہرگز نہیں عنقریب تم جان لوگے۔ پھر ہرگز نہیں عنقریب تم جان لوگے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 104 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورہ انعام حاشیہ نمبر 29 و 41 ، سورہ یونس حاشیہ 29 و 31 ۔ سورہ بنی اسرائیل حاشیہ 84 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani