Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احسان کے بدلے احسان؟ اللہ تعالیٰ قریش کو اپنا احسان جتاتا ہے کہ اس نے اپنے حرم میں انہیں جگہ دی ۔ جو شخص اس میں آجائے امن میں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کے آس پاس جدال وقتال لوٹ مار ہوتی رہتی ہے اور یہاں والے امن وامان سے اپنے دن گزارتے ہیں ۔ جسے سورۃ لایلاف قریش الخ میں بیان فرمایا تو کیا اس اتنی بڑی نعمت کا شکریہ یہی ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کریں؟ بجائے ایمان لانے کے شرک کریں اور خود تباہ ہو کر دوسروں کو بھی اسی ہلاکت والی راہ لے چلیں ۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس اللہ کے ساتھ شرک وکفر کرنا اور نبی کو جھٹلانا اور ایذاء پہنچانا شروع کر رکھا ہے ۔ اپنی سرکشی میں یہاں تک بڑھ گئے کہ اللہ کے پیغمبر کو مکے سے نکال دیا ۔ بالآخر اللہ کی نعمتیں ان سے چھننی شروع ہو گئیں ۔ بدرکے دن ان کے بڑے بری طرح قتل ہوئے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ کو فتح کیا اور انہیں ذلیل وپست کیا ۔ اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھے ۔ وحی آتی نہ ہو اور کہدے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ظال کوئی نہیں جو اللہ کی سچی وحی کو جھٹلائے اور باوجود حق پہنچنے کے تکذیب پر کمربستہ رہے ۔ ایسے مفرتی اور مکذب لوگ کافر ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ راہ اللہ میں مشقت کرنے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب اور آپ کے تابع فرمان لوگ ہیں جو قیامت تک ہونگے ۔ فرماتا ہے کہ ہم ان کوشش اور جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کریں گے دنیا اور دین میں ان کی رہبری کرتے رہیں گے ۔ حضرت ابو عباس ہمدانی فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم پر عمل کرتے ہیں اللہ انہیں ان امور میں بھی ہدایت دیتا ہے جوان کے علم میں نہیں ہوتے ابو سلیمان دارانی سے جب یہ ذکر کیا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں کوئی بات پیدا ہو گو وہ بھلی بات ہو تاہم اسے اس پر عمل نہ کرنا چاہیے جب تک قرآن وحدیث سے وہ ثابت نہ ہو ۔ جب ثابت ہو عمل کریں ۔ اور اللہ کی حمد کریں کہ جو اس کے جی میں آتا تھا ۔ وہی قرآن وحدیث میں بھی نکلا ۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے ساتھ ہے ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم فرماتے ہیں احسان اس کا نام ہے کہ جو تیرے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کے ساتھ نیک سلوک کرے ۔ احسان کرنے والوں سے احسان کرنے کا نام احسان نہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

671اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل و غارت اسیری لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں۔ جب کہ عرب کے دوسرے علاقے اس امن و سکون سے محروم ہیں قتل و غارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔ 672یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر کی تصدیق کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٩] مکہ اور اس کے مضافات کو اللہ تعالیٰ نے ہی حرم بنایا کہ عرصہ اڑھائی ہزار سال سے یہ لوگ اس پرامن حرم کے فوائد سے فائدے اٹھا رہے ہیں اور عربی قبائل کی لوٹ مار سے محفوظ اور پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اسی وجہ سے انھیں عرب بھر میں سیاسی اقتدار حاصل ہے۔ انھیں دور دراز مقامات سے رزق بھی پہنچ جاتا ہے۔ اور بہت سے تجارتی فوائد ہی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے کسی بت، لات، منات، ہبل یا کسی دوسرے بت میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اس خطہ ارضی کو پرامن حرم بنا سکتا۔ اللہ کی اس نعمت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس کے فرمانبردار بن کر رہتے۔ مگر یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے الٹا دوسرے معبودوں کو اللہ کا شریک بنا رہے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا ۔۔ : اہل مکہ کو اس سے پہلے سمندری سفر میں خوف میں مبتلا کرنے کے بعد امن عطا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا تھا، اب خشکی کے اندر کسی خوف میں مبتلا کیے بغیر اس وقت امن عطا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا جب پورا عرب اس نعمت سے محروم تھا۔” اَوَلَمْ يَرَوْا “ میں واؤ عطف اصل میں ہمزہ استفہام سے پہلے ہے، مگر چونکہ ہمزہ استفہام شروع میں آتا ہے، اس لیے واؤ کو بعد میں کردیا۔ اس لیے واؤ کا ترجمہ ہمزہ سے پہلے کیا گیا ہے ” اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا ۔۔ “ یعنی جس وقت ان کے ارد گرد پورے جزیرۂ عرب کی یہ حالت ہے کہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال، کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اسے کب اٹھا لیا جائے گا۔ ان حالات میں اہل مکہ کو حرم کی وجہ سے مکہ میں بھی امن ہے، حتیٰ کہ کوئی حرم میں اپنے باپ کے قاتل کو دیکھ لے تو اسے کچھ نہیں کہتا اور پھر سردی اور گرمی میں دور دراز کے سفروں میں بھی حرم کے با شندے ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ (دیکھیے سورة قریش کی تفسیر) کیا اس کے باوجود وہ باطل معبودوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟ مزید دیکھیے سورة قصص (٥٧) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا الآیة۔ اوپر کی آیات میں مشرکین مکہ کی جاہلانہ حرکتوں کا ذکر تھا کہ سب چیزوں کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو یقین کرنے کے باوجود پتھر کے خود تراشیدہ بتوں کو اس کی خدائی کا شریک بتاتے ہیں اور صرف تخلیق کائنات ہی کا اللہ تعالیٰ کو مالک نہیں سمجھتے بلکہ آڑے وقت میں مصیبت سے نجات دینا بھی اسی کے اختیار میں جانتے ہیں مگر نجات کے بعد پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کے کفر و شرک کا ایک عذر بعض مشرکین مکہ کی طرف سے یہ بھی پیش کیا جاتا تھا کہ ہم آپ کے دین کو تو حق و درست مانتے ہیں لیکن اس کی پیروی کرنے اور مسلمان ہوجانے میں ہم اپنی جانوں کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ سارا عرب اسلام کے خلاف ہے ہم اگر مسلمان ہوگئے تو باقی عرب ہمیں اچک لے جائیں گے اور مار ڈالیں گے۔ (کما روی عن ابن عباس، روح) - اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کا یہ عذر بھی لغو ہے۔ کیونکہ اہل مکہ کو تو حق تعالیٰ نے بیت اللہ کی وجہ سے وہ شرف اور بزرگی دی ہے جو دنیا میں کسی مقام کے لوگوں کو حاصل نہیں ہے۔ ہم نے مکہ کی پوری زمین کو حرم بنادیا ہے۔ عرب کے باشندے مومن ہوں یا کافر سب کے سب حرم کا احترام کرتے ہیں۔ اس میں قتل و قتال کو حرام سمجھتے ہیں حرم میں انسان تو انسان وہاں کے شکار کو قتل کرنا اور وہاں کے درختوں کو کاٹنا بھی کوئی جائز نہیں سمجھتا باہر کا کوئی آدمی حرم میں داخل ہوجائے تو وہ بھی قتل سے مامون ہوجاتا ہے۔ تو مکہ مکرمہ کے باشندوں کو اسلام قبول کرنے سے اپنی جانوں کا خطرہ بتلانا بھی ایک عذر لنگ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ۝ ٠ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ يَكْفُرُوْنَ۝ ٦٧- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- خطف - الخَطْفُ والاختطاف : الاختلاس بالسّرعة، يقال : خَطِفَ يَخْطَفُ ، وخَطَفَ يَخْطِفُ «3» وقرئ بهما جمیعا قال : إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ وذلک وصف للشّياطین المسترقة للسّمع، قال تعالی: فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] ، يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] ، وقال : وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] ، أي : يقتلون ويسلبون، والخُطَّاف : للطائر الذي كأنه يخطف شيئا في طيرانه، ولما يخرج به الدّلو، كأنه يختطفه . وجمعه خَطَاطِيف، وللحدیدة التي تدور عليها البکرة، وباز مُخْطِف : يختطف ما يصيده،- ( خ ط ف ) خطف یخطف خطفا واختطف اختطافا کے معنی کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا کے ہیں ۔ یہ باب ( س ض ) دونوں سے آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ«4» ہاں جو کوئی ( فرشتوں کی ) بات کو ) چوری سے جھپث لینا چاہتا ہے ۔ طا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں اور اس سے مراد وہ شیاطین ہیں جو چوری چھپے ملا اعلیٰ کی گفتگو سنا کرتے تھے ۔ نیز فرمایا :۔ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اڑا کر پھینک دے ۔ يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] قریب ہے کہ بجلی ( کی چمک ) ان کی آنکھوں ( کی بصارت ) کو اچک لے جائے ۔ وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] اور لوگ ان کے گرد نواح سے اچک لئے جاتے ہیں ۔ یعنی ان کے گرد ونواح میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ الخاف ۔ ( 1) ابابیل کی قسم کا ایک پرندہ جو پرواز کرنے میں کسی چیز کو جپٹ لیتا ہے ۔ ( 2) آہن کج جس کے ذریعے کنوئیں سے ڈول نکالا جاتا ہے گویا وہ ڈول کو اچک کر باہر لے آتا ہے ۔ ( 3) وہ لوہا جس پر کنوئیں کی چرغی گھومتی ہے ۔ ج خطاطیف باز مخطف ۔ باز جو اپنے شکار پر جھٹپتا ہے ۔ الخطیف ۔ تیز رفتاری ۔ الخطف الحشاو مختطفتہ ۔ مرد باریک شکم جس کے وبلاپن کی وجہ سے ایسا معلوم ہو کہ اس کی انتٹریاں اچک لی گئی ہیں ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا مکہ والوں کی اس پر نظر نہیں کہ ہم نے ان کے شہر کو دشمنوں کے خوف سے امن والا بنایا اور ان کے گرد و پیش کے مقامات کے لوگوں کو مار دھاڑ کر ان کے گھروں سے نکال دیا جاتا ہے بجائے ان کے کہ حدود حرم میں دشمن بھی ان پر داخل نہیں ہوتا۔- پھر کیا ٹھکانا کہ یہ لوگ شیطان اور جھوٹے معبودوں کی تصدیق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی جو اس نے حرم میں ان کو دی ہیں ناشکری کرتے ہیں کہ سرے سے وحدانیت خداوندی ہی کا انکار کرتے ہیں۔- شان نزول : اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا (الخ)- جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کفار نے عرض کیا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں آپ کے دین میں داخل ہونے سے یہی امر مانع ہے کہ ہماری کمی کی وجہ سے لوگ ہمیں اچک لیں گے کیونکہ عرب کی کثرت ہے تو جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ ہم نے آپ کے دین کو اختیار کرلیا تو ہمیں اچک لیں گے سو ایسی صورت میں ہم سب کا لقمہ بن جائیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی کیا ان لوگوں کی اس بات پر نظر نہیں کہ ہم نے ان کے شہر مکہ کو امن والا حرم بنایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا) ” - یہاں مخاطب اہل ایمان ہیں لیکن بات مشرکین مکہ کی ہو رہی ہے۔- (وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ط) ” - اللہ نے حدود حرم کو امن کی جگہ بنا رکھا ہے جس کی برکات سے یہ لوگ مسلسل مستفیض ہو رہے ہیں جبکہ باقی پورے عرب میں امن وامان نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 105 یعنی کیا ان کے شہر مکہ کو جس کے دامن میں انہیں کمال درجے کا امن میسر ہے ، کسی لات یا ہبل نے حرم بنایا ہے؟ کیا کسی دیوی یا دیوتا کی یہ قدرت تھی کہ ڈھائی ہزار سال سے عرب کی انتہائی بد امنی کے ماحول میں اس جگہ کو تمام فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رکھتا ؟ اس کی حرمت کو برقرار رکھنے والے ہم نہ تھے تو اور کون تھا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

37: پچھلی سورت یعنی سورۂ قصص :57 میں گذرا ہے کہ مشرکین مکہ اپنے ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ یہ پیش کرتے تھے کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو سارا عرب جو اس وقت ہماری عزت کرتا ہے، ہمارا مخالف ہوجائے گا، اور ہمیں اپنی سرزمین سے نکال کر باہر کرے گا۔ اس آیت میں اول تو اس بہانے کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی مکہ مکرمہ کو حرم بنا کر اسے اتنا پر امن علاقہ بنا دیا ہے کہ وہاں کوئی قتل و غارت گری کی جرات نہیں کرتا، حالانکہ اس کے ارد گرد اچھے خاصے لوگوں کو دن دہاڑے اچک کر قتل اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لہذا جب تمہاری نافرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چین کی زندگی دے رکھی ہے تو جب تم اس کے فرماں بردار بن جاؤگے تو کیا وہ تمہیں اس نعمت سے محروم کردے گا؟ دوسرے اس آیت نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ مکہ مکرمہ کو کیا کسی بت نے یا دیوتا نے حرم بنا دیا تھا جو تم ان کی عبادت کے پیچھے پڑے ہوئے ہو؟ یقیناً اس خطے کو یہ تقدس تو اللہ تعالیٰ ہی نے عطا فرمایا ہے۔ پھر خود سوچ لو کہ عبادت کے لائق کون ہے؟