6 9 1یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں 6 9 2اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ 6 9 3احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔
[١٠١] یعنی انسان کا کام یہ ہے کہ وہ نہایت نیک نیتی سے اللہ کے راہ پر گامزن ہوجائے۔ اس راستہ میں کون کون سی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اور ان کا کیا حل ہوسکتا ہے یہ سوچنا انسان کے بس سے باہر ہے کیونکہ نہ اسے پیش آنے والی مشکلات کا پہلے سے صحیح اندازہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اللہ کی تقدیر کے مقابلہ میں انسان کی تدبیر کسی کام آسکتی ہے۔ انسان کا کام اعلائے کلمہ اللہ کے لئے اس کی مقدور بھر کوشش ہے اور اس کی لازمی شرط محض اللہ کی رضا مندی اور خلوص نیت ہے۔ اس شرط کے ساتھ اگر کوئی فرد یا کوئی جماعت جہاد کی کسی بھی قسم کے لئے گامزن ہوجائے گا تو اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل خود ہی سجھاتا جائے گا خلوص اور نیک نیتی ہوگی تو راہیں خود بخود کھلتی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ دستگیری اور مدد فرماتا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھلے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ راہیں سجھاتا بھی ہے، کھولتا بھی ہے اور بروقت مدد کو بھی پہنچتا ہے۔ انسان کا کام صبر و استقلال اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتے جانا ہے۔- واضح رہے کہ یہاں جہاد سے مراد صرف قتال فی سبیل اللہ ہی نہیں بلکہ جہاد کی جملہ اقسام ہیں۔ جن کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر دی جاچکی ہے۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا : کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اپنے مومن بندوں کے لیے بشارت بیان فرمائی۔ سورت کا آغاز اہل ایمان کی آزمائش اور جہاد کے ذکر سے ہوا تھا، فرمایا : (وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ ) [ العنکبوت : ٦ ] اب اختتام بھی اسی جہاد پر بشارت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ” وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا “ میں جہاد سے وہی جہاد مراد ہے جو سورت کے شروع میں ” وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ “ سے مراد ہے۔ اس لیے اس پہلی آیت کا فائدہ دوبارہ نقل کیا جاتا ہے۔ ” جَھَدَ یَجْھَدُ “ کا معنی کوشش کرنا ہے اور ” جَاہَدَ “ (مفاعلہ) میں مقابلے کا مفہوم بھی ہے اور مبالغے کا بھی، یعنی کسی کے مقابلے میں پوری کوشش لگا دینا۔ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر کاربند رہنے کے لیے بہت سی چیزوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے اپنے نفس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو ہر وقت اسے اپنی خواہش کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے، شیطان کا بھی جس نے اس کی دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے اور اپنے گھر سے لے کر تمام دنیا کے ان انسانوں کا بھی جو اسے راہ حق سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسے اس کوشش میں لڑائی بھی کرنا پڑتی ہے، جس میں وہ دشمن کو قتل کرتا ہے اور خود بھی قتل ہوجاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاد کا لفظ اکثر اسی معنی میں آیا ہے۔ سب سے اونچا درجہ اس کا وہ ہے جب وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر قربان ہوجاتا ہے۔ عبداللہ بن حُبْشی (رض) بیان کرتے ہیں (لمبی حدیث ہے) : ( قِیْلَ فَأَيُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ مَنْ جَاہَدَ الْمُشْرِکِیْنَ بِمَالِہِ ، وَنَفْسِہِ ، قِیْلَ فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ ؟ قَالَ مَنْ أُہْرِیْقَ دَمُہُ ، وَعُقِرَ جَوَادُہُ ) [ مسند أحمد : ٣؍٤١١، ٤١٢، ح : ١٥٤٠٧، قال المحقق إسنادہ قوي۔ أبوداوٗد : ١٤٤٩، قال الألباني صحیح ] ”(نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) سوال کیا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو مشرکین کے ساتھ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے۔ “ پوچھا گیا : ” پھر کون سا قتل سب سے اونچی شان والا ہے ؟ “ فرمایا : ” جس کا خون بہا دیا جائے اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا جائے۔ “- 3 یعنی اللہ پر جھوٹ گھڑنے اور حق کو جھٹلانے والوں کا انجام تو جہنم ہے، مگر ہماری خاطر جو لوگ ایسے لوگوں کے ساتھ جہاد کریں گے اور ہماری راہ میں اپنے مال اور اپنی جانیں قربان کریں گے ہم ضرور ہی انھیں وہ راستہ دکھا دیں گے جن پر چل کر وہ ہم تک پہنچیں اور انھیں ان پر چلنے کی توفیق دیں گے اور ان پر ثابت قدم رکھیں گے، کیونکہ ہدایت کی تکمیل ان تینوں چیزوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ : ” اِنَّ “ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یہاں ایک جملہ محذوف ہے جو خودبخود سمجھ میں آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ جو شخص ہماری راہ میں جہاد کرے وہ محسن ہے، یعنی اپنی جان پر اور دوسرے لوگوں پر احسان کرنے والا ہے اور ایسے لوگ جو احسان کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔- 3 اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی مخلوق کے ساتھ بھی ہے۔ پھر اس کی یہ معیت (ساتھ) ایک تو عام ہے کہ وہ اپنے علم و قدرت کے ساتھ یا جس طرح وہ خود بہتر جانتا ہے ہر بندے کے ساتھ ہے (دیکھیے حدید : ٤۔ مجادلہ : ٧) اور ایک خاص معیت ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے لشکروں کے آنے پر کہا تھا : (اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٦٢ ] ” بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ “ اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کے آ پہنچنے پر اپنے غار کے ساتھی سے فرمایا تھا : ( لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ ” المحسنین “ کے ساتھ ہونے سے مراد یہی خاص معیت ہے، یعنی اللہ اپنی ہدایت، حفاظت، حمایت اور نصرت کے ذریعے سے ان کے ساتھ ہے۔- 3 بعض مفسرین نے اس مقام پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ سے واپس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِھَادِ الْأَکْبَرِ ) ” ہم چھوٹے جہاد (یعنی کفار سے لڑائی) سے بڑے جہاد (یعنی نفس سے جہاد) کی طرف واپس آئے ہیں۔ “ حالانکہ یہ کسی شخص کا قول ہے، اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے لگانا بہت بڑا جھوٹ اور زبردست دیدہ دلیری ہے۔ جہاد اکبر وہی ہے جس کا ذکر اوپر حدیث رسول میں آیا ہے : ( مَنْ أُھْرِیْقَ دَمُہُ وَ عُقِرَ جَوَادُہُ ) ” جس کا خون بہا دیا گیا اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا گیا۔ “ حقیقت یہ ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بھی سب سے بڑھ کر اسی کا ہے جو اللہ کی راہ میں جان دے دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے قتال فی سبیل اللہ کو چھوٹا قرار دیا اور نفس سے جہاد کو بڑا قرار دے کر حجروں میں چلہ کشی کے لیے بیٹھ گئے۔ ایسے آرام دہ جہاد ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں مغلوب ہیں اور کافر غالب۔ کاش یہ حضرات راہبوں کے طریقے کے بجائے وہ جہاد کرتے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے کیا، جس کے ساتھ وہ صرف دس سال کے عرصے میں پورے جزیرۂ عرب کے مالک بن گئے اور پھر نصف صدی کے اندر اندر مشرق سے مغرب تک کے فرماں روا بن گئے۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا، جہاد کے اصلی معنی دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے ہیں، اس میں وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار و فجار کی طرف سے پیش آتی ہیں، کفار سے جنگ و مقاتلہ اس کی اعلی فرد ہے اور وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے پیش آتی ہیں۔- جہاد کی ان دونوں قسموں پر اس آیت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جہاد کرنے والوں کو اپنے راستوں کو ہدایت کردیتے ہیں۔ یعنی جن مواقع میں خیر و شر یا حق و باطل یا نفع و ضرر میں التباس ہوتا ہے عقلمند انسان سوچتا ہے کہ کس راہ کو اختیار کروں، ایسے مواقع میں اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو صحیح، سیدھی، بےخطر راہ بتا دیتے ہیں۔ یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لئے خیر و برکت ہو۔ - علم پر عمل کرنے سے علم میں زیادتی :- اور حضرت ابوالدرداء نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے جو علم لوگوں کو دیا گیا ہے جو لوگ اپنے علم پر عمل کرنے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان پر دوسرے علوم بھی منکشف کردیتے ہیں جو اب تک حاصل نہیں۔ اور فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ جو لوگ طلب علم میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے عمل بھی آسان کردیتے ہیں۔ (مظہری) واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ ٦٩ۧ- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع .- وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» .- ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
یعنی جو اپنے علم کے مطابق نیکیاں کرتا ہے تو ہم اس کو ان چیزوں کی بھی توفیق عطا فرمائیں گے کہ جو اس کے علم میں نہیں یا یہ کہ ہم خوشی و حلاوت طبع اس کو نصیب فرمائیں گے یا یہ کہ ہم اپنی اطاعت کی اس کو مزید توفیق عطا فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کی قول و فعل توفیق و عصمت کے ذریعے مدد فرمانے والا ہے۔
آیت ٦٩ (وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط) ” - جو لوگ ہمارے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور ہماری راہ میں جہاد کر رہے ہیں انہیں مطمئن رہنا چاہیے کہ ہم انہیں بےسہارا نہیں چھوڑیں گے ‘ ہم انہیں اپنے راستوں کی بصیرت عطا فرمائیں گے۔ یہ ان سے ہمارا پختہ وعدہ ہے۔- (وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) ” - جن لوگوں کا اللہ پر ایمان ہے اور ان کا ایمان ” احسان “ کے درجے تک پہنچ چکا ہے ‘ پھر اللہ کی راہ میں وہ اپنا تن من اور دھن قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار بھی رہتے ہیں ‘ اللہ کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس کی تائید و نصرت ہر وقت ان کے ساتھ رہے گی۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم۔۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 107 مجاہدہ کی تشریح اسی سورہ عنکبوت کے حاشیہ نمبر 8 میں گزر چکی ہے ۔ وہاں یہ فرمایا گیا تھا کہ جو شخص مجاہدہ کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا ( آیت 6 ) یہاں یہ اطمینان دلایا جارہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ دنیا بھر سے کش مکش کا خطرہ مول لے لیتے ہیں انہیں اللہ تعالی ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا ۔ بلکہ وہ ان کی دستگیری و رہنمائی فرماتا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہیں ان کے لیے کھول دیتا ہے ۔ وہ قدم قدم پر انہیں بتاتا ہے کہ ہماری خوشنودی تم کس طرح حاصل کرسکتے ہو ۔ ہر ہر موڑ پر انہیں روشنی دکھاتا ہے کہ راہ راست کدھر ہے اور غلط راستے کون سے ہیں ۔ جتنی نیک نیتی اور خیر طلبی ان میں ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی مدد اور توفیق اور ہدایت بھی ان کے ساتھ رہتی ہے ۔
37: یہ اُن لوگوں کے لئے بڑی عظیم خوشخبری ہے جو اﷲ تعالیٰ کے دِین پر خود چلنے اور دُوسروں کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں، جب تک اِنسان اس راستے میں کوشش جاری رکھے، اور مایوس ہو کر نہ بیٹھ جائے، اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُس کی مدد فرماکر ضرور منزل تک پہنچادیں گے، لہٰذا راستے کی مشکلات سے ہار مان کر بیٹھنے کے بجائے نئے عزم وہمت کے ساتھ یہ کوشش ہمیشہ جاری رہنی چاہئے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس کی مکمل توفیق عطا فرمائیں۔ امین۔