106۔ 1 حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت وافتراق مراد لئے ہیں (ابن کثیر و فتح القدیر) جس سے معلوم ہوا اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت والجماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت و اہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔
[٩٧] پچھلی آیت میں فرقہ حقہ، اور گمراہ فرقوں کا ذکر چل رہا تھا۔ اس آیت میں ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یہودی یا عیسائی یا ہندو یا سکھ وغیرہ ہوگئے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دین میں بہت سی بےاصل اور باطل باتیں شامل کرکے یا بعض ضروریات دین کا انکار کرکے یا ملحدانہ عقائد اختیار کرکے اصل دین سے نکل گئے تھے، اور یہ کفر دون کفر ہے اور ان سب باتوں پر کفر کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ گویا قیامت کے دن روشن چہرے تو صرف ان لوگوں کے ہوں گے جو دین حقہ پر قائم و ثابت قدم رہے۔ اور یہی لوگ اللہ کے سایہ ئرحمت میں ہوں گے اور جن لوگوں نے گمراہ فرقوں میں شامل ہو کر کفر کی روش اختیار کی۔ انہیں کے چہرے سیاہ ہوں گے اور انہیں ہی دردناک عذاب ہوگا۔
اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ : اس سے بظاہر تو مرتدین مراد ہیں، مگر درحقیقت یہ تمام کفار کو شامل ہے، کیونکہ جب ثابت ہے کہ روز اول کے وقت سب نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اقرار کیا تھا اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ ہر شخص دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لہٰذا جو بھی کفر اختیار کرے گا وہ ایمان لانے کے بعد ہی کافر ہوگا۔ اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اصلی کافر، مرتدین، منافقین اور پھر اہل بدعت سبھی آجاتے ہیں، کیونکہ یہ سب ایمان لانے کے بعد کفر کر رہے ہیں۔ (رازی۔ شوکانی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” معلوم ہوا کہ سیاہ منہ ان کے ہیں جو مسلمانی میں کفر کرتے ہیں، منہ سے کلمۂ اسلام کہتے ہیں اور عقیدہ خلاف رکھتے ہیں، سب گمراہ فرقوں کا یہی حکم ہے۔ “ (موضح)
خلاصہ تفسیر :- اس روز (یعنی قیامت کے روز) کہ بعضے چہرے سفید (روشن) ہوجاویں گے اور بعضے چہرے سیاہ (اور تاریک) ہوں گے، سو جن کے چہرے سیاہ ہوگئے ہوں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم (ہی) لوگ کافر ہوئے تھے، اپنے ایمان لانے کے بعد تو (اب) سزا چکھو بسبب اپنے کفر کے اور جن کے چہرے سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت (یعنی جنت) میں (داخل) ہوں گے، (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ (جو اوپر مذکور ہوئیں) اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو صحیح صحیح طور پر ہم تم کو پڑھ کر سناتے ہیں (اس سے تو مضمون بالا کا صحیح ہونا معلوم ہوا) اور اللہ تعالیٰ مخلوقات پر ظلم کرنا نہیں چاہتے (پس جو کچھ کسی کے لئے جزا و سزا تجویز کی ہے، وہ بالکل مناسب ہے اس سے تجویز مذکور کا مناسب ہونا معلوم ہوا) اور اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے (پس جب سب ان کی ملک ہے تو ان سب کے ذمہ اطاعت واجب تھی، ان سے ان کا مملوک ہونا اور وجوب اطاعت ثابت ہوا) اور اللہ ہی کی طرف سب مقدمات رجوع کئے جاویں گے (کوئی دوسرا صاحب اختیار نہ ہوگا)- معارف و مسائل :- چہرے کی سفیدی اور سیاہی سے کیا مراد ہے ؟ - چہرے کی سفیدی اور سیاہی کا ذکر قرآن مجید میں بہت سے مقامات میں آیا ہے، مثلا۔ ویوم القیامۃ تری الذین کذبوا علی اللہ وجوھھم مسودۃ۔ (زمر ٣٩: ٦٠) وجوہ یومئذ مسفرۃ، ضاحکۃ مستبشرۃ، ووجوہ یومئذ علیھا غبرۃ، ترھقھا قترۃ۔ (عبس ٨٠: ٣٨ تا ٤١) وجوہ یومئذ ناضرۃ، الی ربھا ناضرۃ۔ (قیامہ ٧٥: ٢٢، ٢٣)- ان آیات میں ایک ہی مفہوم سے متعلق متعدد الفاظ ذکر کئے گئے ہیں، یعنی " بیاض " اور " سواد "، " غبرہ "، " قترۃ " اور " نضرۃ "۔ جمہور مفسرین کے نزدیک سفیدی سے مراد نور ایمان کی سفیدی ہے، یعنی مومنین کے چہرے نور ایمان سے روشن اور غایت مسرت سے خنداں اور فرحاں ہوں گے، اور سیاہی سے مراد کفر کی سیاہی ہے، یعنی کافروں کے چہروں پر کفر کی کدورت چھائی ہوگی، اور اوپر سے فسق و فجور کی ظلمت اور زیادہ تیرہ و تاریک کردے گی۔- سیاہ چہرے والے اور سفید چہرے والے کون لوگ ہیں :- ان لوگوں کی تعیین میں مفسرین کے متعدد اقوال مذکور ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت کے سیاہ ہوں گے، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار کے چہرے سفید ہوں گے اور بنی قریظہ اور بنی نضیر کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ (قرطبی)- امام ترمذی نے حضرت ابو امامہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس سے مراد خوارج ہیں، یعنی سیاہ چہرے خوارج کے ہوں گے اور سفید چہرے ان لوگوں کے ہوں گے جن کو وہ قتل کریں گے، فقال ابو امامۃ کلاب النار شر قتل تحت ادیم السماء وخیر قتلی من قتلوہ ثم قراء، " یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ " ابو امامہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے یہ حدیث حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے تو آپ نے جواب میں شمار کر کے بتلادیا کہ اگر حضور سے میں نے سات مرتبہ یہ حدیث سنی ہوئی نہ ہوتی تو میں بیان نہ کرتا۔ (ترمذی)- حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ سیاہ چہرے اہل کتاب کے ان لوگوں کے ہوں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل تو آپ کی تصدیق کرتے تھے لیکن جب آپ مبعوث ہوئے تو بجائے آپ کی تائید و نصرت کرنے کے الٹا تکذیب کرنی شروع کردی۔ (تفسیر قرطبی)- مذکورہ اقوال کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال ہیں، لیکن ان سب میں کوئی تعارض نہیں ہے، سب کا حاصل ایک ہی ہے، امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں آیت " یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ " کے متعلق فرمایا کہ مومنین مخلصین کے چہرے سفید ہوں گے، لیکن ان کے علاوہ ان تمام لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، جنہوں نے دین میں تغیر و تبدل کیا ہو، خواہ وہ مرتد اور کافر ہوگئے ہوں، خواہ اپنے دلوں میں نفاق کو چھپائے ہوئے ہوں، ان سب کے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا۔ (تفسیر قرطبی)- چند اہم فوائد :- اللہ تعالیٰ نے " یوم تبیض وجوہ و تسود وجوہ " میں بیاض کو سواد پر مقدم کیا، لیکن فاما الذین اسودت وجوھھم میں سود کو بیاض پر مقدم کیا، حالانکہ ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ بیاض کو یہاں بھی مقدم رکھا جاتا، اس ترتیب کو برعکس کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقصد تخلیق کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ مقصد اپنی مخلوق پر رحمت کرتا ہے، نہ کہ عذاب، اس لئے سب سے قبل اللہ تعالیٰ نے اہل بیاض کو بیان کیا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ثواب کے مستحق ہیں، اس کے بعد اہل سواد کو ذکر کیا گیا جو عذاب کے مستحق ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت کے خاتمہ پر ففی رحمۃ اللہ سے اپنی رحمت عظمی کا بھی اظہار فرمایا تو آیت کے شروع اور اس کے آخر دونوں جگہ اہل رحمت کو بیان کیا، درمیان میں اہل سواد کا جس میں اپنی رحمت بیکراں کی طرف اشارہ کردیا کہ بنی نوع انسان کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ ان کو اپنے عذاب کا مظہر بنایا جائے بلکہ اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری رحمت سے فائدہ اٹھاسکیں۔- دوسرا فائدہ یہ کہ اہل بیاض کے بارے میں ارشاد ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رحمت میں رہیں گے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رحمت سے مراد اس جگہ جنت ہے یہاں بھی بظاہر جنت کو رحمت سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ آدمی خواہ کتنا ہی عابد اور زاہد کیوں نہ ہو، وہ جنت میں محض اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی جائے گا، کیونکہ عبادت کرنا بھی انسان کا کوئی ذاتی کمال نہیں ہے، بلکہ اس کی قدرت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے، اس لئے عبادت کرنے سے دخول جنت ضروری نہیں ہوجاتا، بلکہ جنت کا داخلہ تو اللہ کی رحمت ہی سے ہوگا۔ (تفسیر کبیر)
يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ٠ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ٠ ۣ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ١٠٦- بيض - البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] .- ( ب ی ض ) البیاض - سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- سود - السَّوَادُ : اللّون المضادّ للبیاض، يقال : اسْوَدَّ واسْوَادَّ ، قال : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ- [ آل عمران 106] - ( س و د ) السواد - ( ضد بیاض ) سیاہ رنگ کو کہتے ہیں اور اسود ( افعلال ) واسواد ( افعیلال ) کے معنی کسی چیز کے سیاہ ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [ آل عمران 106] جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ ۔ تو چہروں کے سفید ہونے سے اظہار مسرت اور سیاہ ہونے سے اظہار غم مراد ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔
(١٠٦۔ ١٠٧) قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جس دن بعض لوگوں کے چہرے سفید ہوں گے اور بعض کے سیاہ تو ان سیاہ چہرے والوں سے فرشتے کہیں گے کہ کیا تم نے ہی ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا اور سفید چہرے والے جنت میں رہیں گے، نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ اس سے بےدخل کیے جائیں گے۔
آیت ١٠٦ (یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج) (فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْقف) (اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ) - ہدایت کے آنے کے بعد تم لوگ تفرقے میں پڑگئے تھے اور حبل اللہ کو چھوڑ دیا تھا۔
36: اگر یہ یہودیوں کا ذکر ہے تو ایمان سے مراد ان کا تورات پر ایمان لانا ہے اور اگر منافقین مراد ہیں تو ایمان کا مقصد ان کا زبانی اعلان ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ خبر دار اسلام کو چھوڑ نہ بیٹھنا، اس لیے یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ واقعۃ مرتد ہوجائیں گے، ان کا آخرت میں کیا حال ہوگا