105۔ 1 روشن دلیلیں آجانے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہم اختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا اور وہ اس کے دلائل سے بیخبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں سب کچھ جانتے ہوئے محض دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف و تفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ لیکن وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا جوہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل اور تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔
[٩٦] اس آیت میں ان لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں یعنی یہود و نصاریٰ بیشمار فرقوں میں بٹ گئے۔ اور ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ یہود اکہتر (٧١) فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتر (٧٢) فرقوں میں اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ جن میں سے ایک فرقہ کے سوا سب دوزخی ہوں گے۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا تو آپ نے فرمایا : ما انا علیہ واصحابی یعنی وہ فرقہ اسی راہ پر چلے گا۔ جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ)- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقہ کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے۔ لہذا ہر فرقہ کے مسلمانوں کو اس بات کی ضرور تحقیق کرلینا چاہئے کہ اس کا کوئی عقیدہ یا عمل ایسا تو نہیں جس کا وجود دور نبوی یا دور صحابہ میں ملتا ہی نہ ہو ؟ اور اگر فی الواقعہ نہ ملتا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔- یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ گمراہ فرقوں کے قائدین یا موجد عموماً عالم دین اور ذہین و فطین قسم کے لوگ ہی ہوا کرتے ہیں جو استنباط و تاویل پر دسترس رکھتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً متشابہات سے استنباط کرکے اور محکمات کی غلط تاویل کے ذریعہ اپنے بدعی عقیدہ کو کتاب و سنت سے ہی مستنبط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد فقط ایک فرقہ کی قیادت اور بعض دوسرے مالی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسی بات پر ہی اکتفا نہ کرے کہ اس کے فرقہ کا قائد ایک بہت بڑا عالم ہے۔ وہ بھلا کیسے غلط ہوسکتا ہے یا دوسروں کو غلط راہ پر ڈال سکتا ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے طور پر تحقیق کرنا ضروری ہے۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا۔۔ : اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلاف اور فرقہ بندی کی وجہ یہ نہ تھی کہ انھیں حق کا پتا نہ تھا اور وہ اس کے دلائل سے بیخبر تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لیے اختلاف اور فرقہ بندی کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف طریقوں سے بار بار یہ حقیقت واضح فرمائی اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہود اکہتر (٧١) یا بہتر (٧٢) فرقوں میں جدا جدا ہوگئے، اسی طرح نصاریٰ بھی، اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں جدا جدا ہوجائے گی۔ “ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ : ٢٦٤٠ ] دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ نے فرمایا : ” سب آگ میں جائیں گے مگر ایک۔ پوچھنے پر بتایا : ( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِی ) ” جس طریقے پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ “ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ھذہ الأمۃ : ٢٦٤١، و حسنہ الالبانی ]- افسوس امت مسلمہ کے تفرقہ بازوں نے بھی وہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کے روشن دلائل قرآن کریم اور سنت صحیحہ کی صورت میں انھیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں، مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا زور پہلی امتوں کی طرح تاویل و تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔
حق تعالیٰ نے امت داعیہ الی الخیر کی ضرورت اور اس کے اوصاف کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ صدر دوسری آیت میں مسلمانوں کو باہمی اختلاف اور تفرق و انتشار سے بچانے کی ہدایت فرمائی ہے، ارشاد ہے :- ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاءھم البینت، " یعنی ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے واضح اور روشن دلائل آنے کے بعد اختلاف کیا "۔ مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری کی طرح مت بنو، جنہوں نے حق تعالیٰ کے صاف احکام پہنچنے کے بعد محض اوہام و اہوا کی پیروی کر کے اصول شرع میں متفرق ہوگئے، اور باہمی جنگ وجدال سے عذاب الہی میں مبتلا ہوگئے، یہ آیت درحقیقت آیت واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کا تتمہ ہے، اسی آیت میں مرکز وحدت اعتصام بحبل اللہ کی طرف دعوت دی گئی، اور اشارۃ بتلایا گیا کہ اجتماع اور اتحاد امت تمام امت اور قوم کو ایک شخص واحد میں تبدیل کردیتا ہے، پھر دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اسی وحدت و اجتماع کو غذا پہنچائی جاتی ہے اور نشوونما کیا جاتا ہے، پھر ولاتفرقوا اور آیت ولا تکونوا کالذین تفرقوا سے اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ تفرق اور اختلاف نے پچھلی قوموں کو تباہ کردیا، ان سے عبرت حاصل کرو، اور اپنے میں یہ مرض پیدا ہونے نہ دو ۔ - آیت میں جس تفرق و اختلاف کی مذمت ہے اس سے مراد وہ تفریق ہے جو اصول دین میں ہو یا فروع میں نفسانیت کے غلبہ کی وجہ سے ہو، چناچہ آیت میں یہ قید کہ " احکام واضحہ آنے کے بعد " اس امر پر واضح قرینہ ہے، کیونکہ اصول دین سب واضح ہوتے ہیں، اور فروع بھی بعض ایسے واضح ہوتے ہیں کہ اگر نفسانیت نہ ہو تو اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی، لیکن جو فروع غیر واضح ہیں کسی نص صریح نہ ہونے کی وجہ سے یا نصوص کے ظاہری تعارض کی وجہ سے ایسے فروع میں رائے و اجتہاد سے جو اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں، اور وہ حدیث صحیح اس کی اجازت کے لئے کافی ہے جس کو بخاری و مسلم نے مرفوعا عمرو بن العاص سے روایت کی ہے کہ جب کوئی اجتہاد کرے اور وہ حکم ٹھیک ہو تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ جس اختلاف اجتہادی میں خطا ہونے پر بھی ایک ثواب ملتا ہے وہ مذموم نہیں ہوسکتا، لہذا وہ اجتہادی اختلاف جو صحابہ (رض) اور ائمہ مجتہدین میں ہوا ہے اس کو اس آیت مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں، بقول حضرت قاسم بن محمد و حضرت عمر بن عبدالعزیز صحابہ کا اختلاف لوگوں کے لئے موجب رحمت و رخصت ہے۔ (کذا فی روح المعانی نقلا عن البیہقی والمدخل)- اجتہادی اختلافات میں کوئی جانب منکر نہیں ہوتی اس پر نکیر جائز نہیں :- یہاں سے ایک بہت اہم اصولی بات واضح ہوگئی کہ جو اجتہادی اختلاف شرعی اجتہاد کی تعریف میں داخل ہے اس میں اپنے اپنے اجتہاد سے جس امام نے جو جانب اختیار کرلی اگرچہ عنداللہ اس میں سے صواب اور صحیح صرف ایک ہے دوسرا خطا ہے، لیکن یہ صواب و خطا کا فیصلہ صرف حق تعالیٰ کے کرنے کا ہے، وہ محشر میں بذریعہ اجتہاد و صواب پر پہنچنے والے عالم کو دوہرا ثواب عطا فرمادیں گے، اور جس کے اجتہاد نے خطا کی ہے اس کو ایک ثواب دیں گے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اجتہادی اختلاف میں یہ کہنے کا حق نہیں کہ یقینی طور پر یہ صحیح ہے دوسرا غلط ہے، ہاں اپنی فہم و بصیرت کی حد تک ان دونوں میں جس کو وہ اقرب الی القرآن والسنۃ سمجھتے اس کے متعلق یہ کہہ سکتا ہے کہ میرے نزدیک یہ صواب ہے، مگر احتمال خطاء کا بھی ہے، اور دوسری جانب خطا ہے، مگر احتمال صواب کا بھی ہے، اور یہ وہ بات ہے جو تمام ائمہ فقہاء میں مسلم ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اجتہادی اختلاف میں کوئی جانب منکر نہیں ہوتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ماتحت اس پر نکیر کیا جائے، اور جب وہ منکر نہیں تو غیر منکر پر نکیر خود امر منکر ہے، اس سے پرہیز لازم ہے یہ وہ بات ہے جس میں آج کل بہت سے اہل علم بھی غفلت میں مبتلا ہیں، اپنے مخالفین نظریہ رکھنے والوں پر تبرا اور سب و شتم سے بھی پرہیز نہیں کرتے، جس کا نتیجہ مسلمانوں میں جنگ وجدل اور انتشار و اختلاف کی صورت میں جگہ جگہ مشاہدہ میں آرہا ہے۔ اجتہادی اختلاف بشرطیکہ اصول اجتہاد کے مطابق ہو، وہ تو ہرگز آیت مذکورہ ولا تفرقوا سے خلاف اور مذموم نہیں، البتہ اس اجتہادی اختلاف کے ساتھ جو معاملہ آج کل کیا جارہا ہے کہ اسی کی بحث و مباحثہ کو دین کی بنیاد بنالی گئی، اور اسی پر باہمی جنگ و جدل اور سب وشتم تک نوبت پہنچا دی گئی، یہ طرز عمل بلا شبہ ولا تفرقوا کی کھلی مخالفت اور مذموم اور سنت سلف، صحابہ وتابعین کے بالکل خلاف ہے، اسلاف امت میں کبھی کہیں نہیں سنا گیا کہ اجتہادی اختلاف کی بنا پر اپنے سے مختلف نظریہ رکھنے والوں پر اس طرح نکیر کیا گیا ہو، مثلا امام شافعی اور دوسرے ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ جو نماز جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے پڑھی جائے اس میں بھی مقتدیوں کو سورة فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اور ظاہر ہے جو اس فرض کو ادا نہیں کرے گا، اس کی نماز ان کے نزدیک نہیں ہوگی، اس کے بالمقابل امام ابوحنیفہ کے نزدیک مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا جائز نہیں، اسی لئے حنفیہ نہیں پڑھتے، لیکن پوری امت کی تاریخ میں کسی سے نہیں سنا گیا کہ شافعی مذہب والے حنفیوں کو تارک نماز کہتے ہوں، کہ تمہاری نمازیں نہیں ہوئیں، اس لئے تم بےنمازی ہو، یا ان پر اس طرح نکیر کرتے ہوں جیسے منکرات شرعیہ پر کی جاتی ہے۔ امام ابن عبدالبر اپنی کتاب جامع العلم میں اس مسئلہ کے متعلق سنت سلف کے بارے میں یہ بیان فرماتے ہیں :- عن یحییٰ بن سعید قال ما برح اھل الفتوی یفتون فیحل ھذا ویحرم ھذا فلا یری المحرم ان المحل ھلک لتحلیلہ ولا یری المحل ان المحرم ھلک لتحریمہ۔ (جامع بیان العلم، ص ٨٠)- " یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ہمیشہ اہل فتوی فتوی دیتے رہے ہیں ایک شخص غیر منصوص احکام میں ایک چیز کو اپنے اجتہاد سے حلال قرار دیتا ہے، دوسرا حرام کہتا ہے، مگر نہ حرام کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے وہ ہلاک اور گمراہ ہوگیا، اور نہ حلال کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ حرام کا فتوی دینے والا ہلاک اور گمراہ ہوگیا "۔- تنبیہ ضروری :- یہ تمام گفتگو اس اجتہاد میں ہے جو شریعت کے اصول اجتہاد کے ماتحت ہو جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ اجتہاد صرف ان مسائل میں کیا جاسکتا ہے جن کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی فیصلہ موجود نہیں، یا ایسا مبہم ہے کہ اس کی تفسیریں مختلف ہوسکتی ہیں، یا چند آیات و روایات سے ظاہرا دو متضاد چیزیں سمجھی جاتی ہیں، ایسے مواقع میں صرف ان لوگوں کو اجتہاد کرنے کی اجازت ہے جن میں شرائط اجتہاد موجود ہیں۔ مثلا قرآن و حدیث کے متعلق تمام علوم و فنون کی مکمل مہارت، عربی زبان کی مکمل مہارت، صحابہ وتابعین کے اقوال و آثار کی مکمل واقفیت وغیرہ، تو جو شخص کسی منصوص مسئلہ میں اپنی رائے چلائے وہ اجتہادی اختلاف نہیں۔- اسی طرح شرائط اجتہاد جس میں موجود نہیں اس کے اختلاف کو اجتہادی اختلاف نہیں کہا جاسکتا، اس کے قول کا کوئی اثر مسئلہ پر نہیں پڑتا، جیسے آج کل بہت سے لکھے پڑھے لوگوں نے یہ سن لیا ہے کہ اسلام میں اجتہاد بھی ایک اصول ہے اور ان منصوصات شرعیہ میں رائے زنی کرنے لگے، جس میں کسی امام مجتہد کو بھی بولنے کا حق نہیں، اور یہاں تو شرائط اجتہاد کیا نفس علم دین سے بھی واقفیت نہیں ہوتی۔ العیاذ باللہ۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ١٠٥ ۙ- تفریق - والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ،- ( ف ر ق ) الفرق - التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مونا ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
(١٠٥) ایسے ہی یہ حضرات مومنین اللہ کے غصہ اور عذاب سے نجات پانے والے ہیں اور یہود و نصاری نے جس طرح دین میں اختلاف کیا تم اس طرح اپنی کتاب میں اسلام کے واضح اور روشن دلائل آجانے کے بعد اختلاف مت کرنا ان یہود ونصاری کے لیے بہت بڑی سزا ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :86 یہ اشارہ ان امتوں کی طرف ہے جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے دین حق کی صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مدت گزر جانے کے بعد اساس دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلق ضمنی و فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کر دیے ، پھر فضول و لایعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ انہیں اس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے ان بنیادی اصولوں سے کوئی دلچسپی رہی جن پر درحقیقت انسان کی فلاح و سعادت کا مدار ہے ۔