Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یوم آخرت منافق اور مومن کی پہچان حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس جماعت سے مراد خاص صحابہ اور خاص راویان حدیث ہیں یعنی مجاہد اور علماء امام ابو جعفر باقر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا صبر سے مراد قرآن و حدیث کی اتباع ہے ، یاد رہے کہ ہر ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے لیکن تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو اپنے دل سے نفرت کرے یہ ضعیف ایمان ہے ، ایک اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ، ( صحیح مسلم ) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اچھائی کا حکم اور برائیوں سے مخالفت کرتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرما دے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن قبول نہ ہوں گی ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو کسی اور مقام پر ذکر کی جائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم سابقہ لوگوں کی طرح افتراق و اختلاف نہ کرنا تم نیک باتوں کا حکم اور خلاف شرع باتوں سے روکنا نہ چھوڑنا ، مسند احمد میں ہے حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کیلئے جب مکہ شریف میں آئے تو ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اہل کتاب اپنے دین میں اختلاف کر کے بہتر گروہ بن گئے اور اس میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے خواہشات نفسانی اور خوش فہمی میں ہوں گے بلکہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی رگ رگ میں نفسانی خواہشیں اس طرح گھس جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے ہوئے انسان کی ایک ایک رگ اور ایک ایک جوڑ میں اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اے عرب کے لوگو اگر تم ہی اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز پر قائم نہ رہو گے تو اور لوگ تو بہت دور ہو جائیں گے ۔ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں پھر فرمایا اس دن سفید چہرے اور سیاہ منہ بھی ہونگے ۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے منہ سفید اور نورانی ہونگے مگر اہل بدعت و منافقت کے کالے منہ ہونگے ، حسن بصری فرماتے ہیں یہ کالے منہ والے منافق ہونگے جن سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کیوں کیا اب اس کا مزہ چکھو ۔ اور سفید منہ والے اللہ رحیم و کریم کی رحمت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب خارجیوں کے سر دمشق کی مسجد کے زینوں پر لٹکے ہوئے دیکھے تو فرمانے لگے یہ جہنم کے کتے ہیں ان سے بدر مقتول روئے زمین پر کوئی نہیں انہیں قتل کرنے والے بہترین مجاہدین پھر آیت ( يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ) 3 ۔ آل عمران:106 ) تلاوت فرمائی ، ابو غالب نے کہا کہ جناب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ؟ فرمایا ایک دو دفعہ نہیں بلکہ سات مرتبہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہی نہیں ، ابن مردویہ نے یہاں حضرت ابو ذر کی روایت سے ایک لمبی حدیث نقل کی ہے جو بہت ہی عجیب ہے لیکن سنداً غریب ہے ۔ دنیا اور آخرت کی یہ باتیں ہم تم پر اے نبی کھول رہے ہیں اللہ عادل حاکم ہے وہ ظالم نہیں اور ہر چیز کو آپ خوب جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ کسی پر ظلم کرے ( جن کے کالے منہ ہوئے وہ اسی لائق تھے ) زمین اور آسمان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں اور ہر کام کا آخری حکم اسی کی طرف ہے متصرف اور با اختیار حکم دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٥] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کا ایک نہایت اہم ستون ہے اسی لیے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر خلافت کے مستحقین کا ذکر فرمایا تو ان کی صفات میں اقامت صلٰوۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے بعد تیسرے نمبر پر اسی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر فرمایا (٢٢ : ٤١) اس لیے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض عین قرار دیا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی اپنی علمی سطح اور صلاحیت کے مطابق یہ فریضہ بجا لاسکتا ہے اور یہ بات بھی بالکل درست اور بہت سی احادیث صحیحہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ تاہم اس آیت میں جس فرقہ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں۔ جو علوم شریعت کے ماہر اور دعوت کے آداب سے واقف ہوں اور ان کی زندگی کا وظیفہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیا کریں اور برے کاموں سے روکتے رہیں۔ نیز ( وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ١٠٤۔ ) 3 ۔ آل عمران :104) سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خواہ کتنا ہی اہم فریضہ ہے تاہم فرض عین نہیں ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑنے اور اختلاف و ضلالت سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ تم میں سے ایک جماعت نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی رہے۔ جب تک اس قسم کی جماعت قائم رہے گی، لوگ ہدایت پر رہیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، پھر اگر طاقت نہ رکھے تو اپنی زبان سے، پھر اگر طاقت نہ رکھے تو اپنے دل سے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان کون النھی عن المنکر۔۔ : ٤٩، عن أبی سعید الخدری (رض) ] شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ایک جماعت قائم رہے جہاد کرنے کے لیے اور دین کا تقید کرنے ( پابندی کرنے اور کروانے) کے لیے، تاکہ کوئی دین کے خلاف نہ کرے اور جو اس کام پر قائم ہوں وہی کامیاب ہیں اور یہ کہ کوئی کسی سے واسطہ نہ رکھے ” موسیٰ بدین خود، عیسیٰ بدین خود “ (موسیٰ اپنے دین پر اور عیسیٰ اپنے دین پر) یہ راہ مسلمان کی نہیں ہے۔ “ (موضح) - یہ تفسیر ” مِّنْكُمْ “ کے ” من “ کو بعض کے معنی میں لینے کی صورت میں ہے جیسا کہ عام طور پر ” وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ“ میں من کو تبعیض کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تفسیر کی رو سے مسلمانوں کی ایک جماعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کافی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان ”ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ “ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ امت کے ہر فرد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض ہے کیونکہ آخر میں فرمایا کہ کامیاب صرف وہ ہیں جو یہ فریضہ سرانجام دیں اور ظاہر ہے کہ کامیابی کی ضرورت ہر مسلمان کو ہے۔ اس لیے یہاں مّنْكُمْ کے ” من “ کو بیانیہ ماننا پڑے گا اور یعنی یہ ہوگا کہ اے مسلمانو تمہاری صورت میں ایک ایسی جماعت ہونا لازم ہے جو نیکی کا حکم دیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کے اجتماعی فلاح و صلاح کے دو اصول بتلائے گئے تھے جن میں ہر فرد کو ایک خاص انداز سے اپنی اصلاح کرنے کی ہدایت تھی کہ ہر شخص تقوی اختیار کرے، اور اللہ تعالیٰ کے سلسلہ (اسلام) سے مربوط ہوجائے اس طرح انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ خودبخود ایک اجتماعی قوت بھی مسلمانوں کو حاصل ہوجائے گی، مذکورہ دو آیتوں میں اسی نظام صلاح و فلاح کا تکملہ اس طرح کیا گیا ہے کہ مسلمان صرف اپنے اعمال و افعال کی اصلاح پر بس نہ کریں، بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی ساتھ ساتھ کریں، اسی صورت سے پوری قوم کی اصلاح بھی ہوگی، اور ربط و اتحاد کو بقاء و قیام بھی ہوگا۔- خلاصہ تفسیر :- اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ (آخرت میں ثواب سے) پورے کامیاب ہوں گے، اور تم لوگ ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے (دین میں) باہم تفریق کرلی اور (نفسانیت سے) باہم اختلاف کرلیا، ان کے پاس واضح احکام پہنچنے کے بعد اور ان لوگوں کے لئے سزائے عظیم ہوگی (یعنی قیامت کے روز) ۔- معارف و مسائل :- مسلمانوں کی قومی اور اجتماعی فلاح دو چیزوں پر موقوف ہے :- پہلے تقوی اور اعتصام بحبل اللہ کے ذریعہ اپنی اصلاح دوسرے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح۔ آیت ولتکن منکم میں اسی دوسری ہدایت کا بیان ہے، گویا ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ خود بھی اپنے اعمال و اخلاق کو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق درست کرو، اور اپنے دوسرے بھائیوں کے اعمال کو درست کرنے کی بھی فکر رکھو، یہی مضمون ہے جو سورة والعصر میں ارشاد فرمایا ہے : الا الذین امنوا و عملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ " یعنی آخرت کے خسارہ سے صرف وہ لوگ محفوظ ہیں جو خود بھی ایمان اور عمل صالح کے پابند ہیں اور دوسروں کو بھی عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی ہدایت کرتے رہتے ہیں "۔ قومی اور اجتماعی زندی کے لئے جس طرح یہ ضروری تھا کہ ان کا کوئی مضبوط و مستحکم رشتہ وحدت ہو، جس کو پہلی آیت میں اعتصام بحبل اللہ کے الفاظ سے واضح فرمایا گیا ہے، اسی طرح رشتہ کو قائم اور باقی رکھنے کے لئے یہ دوسرا عمل بھی ضروری ہے جو اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے، یعنی دوسرے بھائیوں کو احکام قرآن و سنت کے مطابق اچھے کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کو ہر شخص اپنا فریضہ سمجھے، تاکہ یہ حبل اللہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے، کیونکہ بقول استاد مرحوم شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی " اللہ تعالیٰ کی یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے " اس لئے قرآن کریم نے اس رسی کے چھوٹ جانے کے خطرے کے پیش نظر یہ ہدایت جاری فرمائی کہ ہر مسلمان جس طرح خود نیک عمل کرنے کو اور گناہ سے بچنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے اس کو بھی ضروری سمجھے کہ دوسرے لوگوں کو بھی نیک عمل کی ہدایت اور برے اعمال سے روکنے کی کوشش کرتا رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ حبل متین کو تھامے رہیں گے، اور اس کے نتیجہ میں فلاح دنیا و آخرت ان کے ساتھ ہوگی، اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی ذمہ داری ہر مسلمان پر ڈالنے کے لئے قرآن کریم میں بہت سے واضح ارشادات وارد ہیں۔ سورة العصر کا مضمون ابھی آپ دیکھ چکے ہیں اور اسی سورة آل عمران میں ارشاد ہے : کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔ (٣: ١١٠) " تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے کیونکہ تم نیک کاموں کا لوگوں کو حکم کرتے ہور اور برے کاموں سے روکتے ہو "۔ اس میں بھی پوری امت پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ عائد کیا گیا ہے، اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت کا سبب ہی اس خاص کام کو بتلایا ہے، اسی طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اس بارے میں بیشمار ہیں، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : والذی نفسی بیدہ لتامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر او لیوشکن اللہ ان یبعث علیکم عقابا من عندہ ثم لتدعنہ فلا یستجیب لکم۔ " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کے ساتھ تم سب پر بھی اپنا عذاب بھیج دے اس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی۔ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان۔ " یعنی تم میں سے جو شخص کوئی گناہ ہوتا ہوا دیکھے تو اس کو چاہے کہ اپنے ہاتھ اور قوت سے اس کو روک دے، اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں اس فعل کو برا سمجھے، اور یہ ادنی درجہ کا ایمان ہے "۔- ان تمام آیات اور روایات سے یہی ثابت ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے ہر فرد پر لازم ہے، البتہ تمام احکام شرعیہ کی طرح اس میں بھی ہر شخص کی قدرت و استطاعت پر احکام دائر ہوں گے جس کو جتنی قدرت ہو اتنا ہی امر بالمعروف کا فریضہ اس پر عائد ہوگا ابھی جو حدیث آپ نے دیکھی ہے اس میں استطاعت ہی پر مدار رکھا گیا ہے۔ پھر استطاعت وقدرت ہر کام کی جدا ہوتی ہے، امر بالمعروف کی قدرت پہلے تو اس پر موقوف ہے کہ وہ معروف و منکر اس شخص کو پوری طرح صحیح صحیح معلوم ہو، جس کو خود ہی معروف و منکر کی تمییز نہ ہو یا اس مسئلہ کا پورا علم نہ ہو، وہ اگر دوسروں کو امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ بجائے اصلاح ہونے کے فساد ہوگا، اور بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناء پر کسی معروف کو منع کرنے لگے، یا منکر کا حکم کرنے لگے، اس لئے جو شخص خود معروف و منکر سے واقف نہیں اس پر یہ فریضہ تو عائد ہے کہ واقفیت اور احکام شرعیہ کے معروف و منکر کا علم حاصل کرلے، اور پھر اس کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت انجام دے۔ لیکن جب تک اس کو واقفیت نہیں اس کا اس خدمت کے لئے کھڑا ہونا جائز نہیں جیسے اس زمانہ میں بہت سے جاہل وعظ کہنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں نہ انہیں قرآن کا علم ہے نہ حدیث کا، یا بہت سے عوام سنی سنائی غلط باتوں کو لے کر لوگوں سے جھگڑنے لگتے ہیں کہ ایسا کرو ایسا نہ کرو، یہ طریق کار بجائے معاشرہ کے درست کرنے کے اور زیادہ ہلاکت اور جنگ و جدل کا سبب ہوتا ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف کی قدرت میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنے آپ کو کوئی ناقابل برداشت ضرر پہنچنے کا قوی خطرہ نہ ہو، اسی لئے حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ گناہ کو ہاتھ اور قوت سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اور زبان سے روکنے پر قدرت نہ ہو تو دل ہی سے برا سمجھے ظاہر ہے کہ زبان سے روکنے پر قدرت نہ ہونے کے یہ معنی تو ہیں نہیں کہ اس کی زبان حرکت نہیں کرسکتی، بلکہ مراد یہی ہے کہ اس کو یہ خطرہ قوی ہے کہ اس نے حق بات کی تلقین کی تو اس کی جان جائے گی، یا کوئی دوسرا شدید نقصان پہنچ جائے گا، ایسی حالت میں اس شخص کو قادر نہ سمجھا جائے گا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک پر اس کو گنہگار نہ کہا جائے گا، یہ دوسری بات ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کی پرواہ نہ کرے، اور نقصان برداشت کر کے بھی امر بالمعروف نہی عن المنکر کی خدمت انجام دے، جیسے بہت سے صحابہ وتابعین اور ائمہ اسلام کے واقعات منقول ہیں، یہ ان کی اولوا العزمی اور بڑی فضیلت ہے، جس سے ان کا مقام دنیا و آخرت میں بلند ہوا، مگر ان کے ذمہ ایسا کرنا فرض واجب نہ تھا۔- سورة والعصر کی آیت اور کنتم خیر امۃ (٣: ١١٠) وغیرہ آیات سے، نیز احادیث مذکورہ سے امت کے ہر فرد پر اس کی قدرت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کیا جارہا ہے، لیکن اس کے وجوب میں یہ تفصیل ہے کہ امور واجبہ میں معروف کا امر اور منکر سے نہی کرنا واجب اور امور مستحبہ میں مستحب ہے، مثلا نماز پنجگانہ فرض ہے تو ہر شخص پر واجب ہوگا کہ بےنمازی کو نصیحت کرے اور نوافل مستحب ہیں، اس کی نصیحت کرنا مستحب ہوگا، اس کے علاوہ ایک ضروری ادب یہ بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ مستحبات میں مطلقا نرمی سے اظہار کرے اور واجبات میں اولا نرمی سے اور نہ ماننے پر سختی کی بھی گنجائش ہے، آج کل لوگ مستحبات میں یا مباحات میں تو سختی سے روک ٹوک کرتے ہیں لیکن امور واجبہ اور فرائض کے ترک پر کوئی ملامت نہیں کرتے۔ نیز ہر شخص پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اس وقت عائد ہوگا جبکہ وہ اپنے سامنے کسی منکر کو ہوتے ہوئے دیکھے، مثلا ایک شخص دیکھ رہا ہے کہ کوئی مسلمان شراب پی رہا ہے یا چوری کر رہا ہے یا کسی غیر عورت سے مجرمانہ اختلاط کر رہا ہے، تو اس کے ذمہ واجب ہوگا کہ اپنی استطاعت وقدرت کے مطابق اس کو روکے، اور اگر اس کے سامنے یہ سب کچھ نہیں ہورہا ہے تو یہ فریضہ اس کے ذمہ نہیں، بلکہ اب یہ فریضہ اسلامی حکومت کا ہے کہ مجرم کے جرم کی تفتیش و تحقیق کر کے اس کو سزا دے۔- نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد من رای منکم میں اسی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہے کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر کو دیکھے۔- امر بالمعروف کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت خاص دعوت و ارشاد ہی کے لئے قائم رہے اس کا وظیفہ یہ یہی ہو کہ اپنے قول و عمل سے لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلائے، اور جب لوگوں کو اچھے کاموں میں سست یا برائیوں میں مبتلا دیکھے اس وقت بھلائی کی طرف متوجہ کرنے اور برائی سے روکنے کی اپنے مقور کے موافق کوتاہی نہ کرے، اور چونکہ اس اہم فریضہ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو پوری طرح اسی وقت ادا کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کو مسائل کا پورا علم بھی ہو اور امر بالمعروف کو موثر بنانے کے آداب اور طریقے بھی سنت کے مطابق اس کو معلوم ہوں، اس لئے مکمل طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا، جو ہر طرح دعوت الی الخیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہل ہو، چناچہ اسی آیت میں ایسی جماعت کی ضرورت اور اہمت کو بتلاتے ہوئے فرمایا : - ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔ " یعنی تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں "۔ ولتکن منکم امۃ میں اشارہ ہے کہ اس جماعت کا وجود ضروری ہے، اگر کوئی حکومت یہ فریضہ انجام نہ دے تو تمام مسلمانوں پر فرض ہوگا کہ وہ ایسی جماعت قائم کریں کیونکہ ان کی حیات ملی اسی وقت محفوظ رہے گی جب تک یہ جماعت باقی ہے، پھر اس جماعت کے بعض اہم اوصاف اور امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یدعون الی الخیر یعی اس جماعت کا پہلا امتیاز خصوصی یہ ہوگا کہ وہ خیر کی طرف دعوت دیا کرے گی، گویا دعوت الی الخیر اس کا مقصد اعلی ہوگا، خیر سے مراد کیا ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ الخیر ھو اتباع القران وسنتی، " یعنی خیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے "۔ (ابن کثیر)- " خیر " کی اس سے زیادہ جامع اور مانع تعریف نہیں ہوسکتی، پورا دین شریعت اس میں آگیا پھر یدعون کو صیغہ مضارع سے لاکر بتلایا کہ اس جماعت کا وظیفہ دعوت الی الخیر ہوگا، یعنی دعوت الی الخیر کی مسلسل اور لگاتار کوشش ان کا فریضہ ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ اس کی ضرورت خاص مواقع پر ہوگی، جب وہ منکرات دیکھے جائیں، لیکن یدعون الی الخیر کہہ کر بتلادیا کہ اس جماعت کا کام دعوت الی الخیر ہوگا، اگرچہ اس وقت منکرات موجود نہ ہوں، یا کسی فرض کی ادائیگی کا وقت نہ ہو، مثلا آفتاب نکلنے کے بعد زوال تک نماز کا وقت نہیں ہے، لیکن وہ جماعت اس وقت بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرے گی کہ وقت نماز آنے کے بعد نماز ادا کرنا ضروری ہے یا روزہ کا وقت نہیں آیا ابھی رمضان کا مہینہ دور ہے، لیکن وہ جماعت اپنے فرض سے غافل نہیں رہے گی، بلکہ وہ پہلے سے لوگوں کو بتلاتی رہے گی کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو روزہ رکھنا فرض ہوگا، غرضیکہ اس جماعت کا فریضہ دعوت الی الخیر ہوگا۔ پھر اس دعوت الی الخیر کے بھی دو رجے ہیں، پہلا یہ کہ غیر مسلموں کو خیر یعنی اسلام کی طرف دعوت دینا ہے مسلمانوں کا ہر فرد عموما اور یہ جماعت خصوصا دنیا کی تمام قوموں کو خیر یعنی اسلام کی دعوت دے، زبان سے بھی اور عمل سے بھی، چناچہ مسلمانوں کو جس آیت میں قتال و جہاد کا حکم دیا وہاں سچے مومنین کی اس طرح تعریف کی :- الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر۔ (٢٢: ٤١) " یعنی سچے مسلمان وہ ہیں کہ جب ہم ان کو زمین کی تمکین وقدرت یعنی حکومت دیتے ہیں تو ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہا اللہ کی زمین میں نظام اطاعت قائم کرتے ہیں جس کا ایک مظہر نماز ہے اور اپنا مالیاتی نظام زکوٰۃ کے اصولوں پر قائم کرتے ہیں، نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا مقصد حیات بناتے ہیں، اگر آج امت مسلمہ اپنا مقصد دیگر اقوام کو خیر کی طرف دعوت دینا بنالیں تو وہ سب بیماریاں ختم ہوجائیں گی جو دوسری قوموں کی نقالی سے ہمارے اندر پھیلی ہیں، کیونکہ جب کوئی قوم اس عظیم مقصد (دعوت الی الخیر) پر مجتمع ہوجائے اور یہ سمجھ لے کہ ہمیں علمی اور عملی حیثیت سے اقوام عالم پر غالب آنا ہے اور اقوام کی تربیت و تہذیب ہمارے ذمہ ہے تو اس کی نااتفاقیاں بھی یکسر ختم ہوجائیں گی، اور پوری قوم ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے لگ جائے گی، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کامیابیوں کا راز اسی میں مضمر تھا، حدیث میں ہے کہ حضرت ضحاک نے یہ آیت ولتکن منکم تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا ھم خاصۃ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ابن جریر) یعنی یہ جماعت مخصوص صحابہ کرام کی جماعت ہے، کیونکہ ان نفوس قدسیہ کا ہر فرد خود کو دعوت الی الخیر کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ دعوت الی الخیر کا دوسرا درجہ خود مسلمانوں کو دعوت خیر دینا ہے، کہ تمام مسلمان علی العموم اور جماعت خاصہ علی الخصوص مسلمانوں کے درمیان تبلیغ اور فریضہ دعوت الی الخیر انجام دے، پھر اس میں بھی ایک تو دعوت الی الخیر عام ہوگی، یعنی تمام مسلمانوں کو ضروری احکام و اسلامی اخلاق سے واقف کیا جائے، دوسری دعوت الی الخیر خاص ہوگی یعنی امت مسلمہ میں علوم قرآن و سنت کے ماہرین پیدا کرنا، اس طرف ایک دوسری آیت میں رہنمائی کی گئی : فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون۔ (٩: ١٢٢) آگے اس جماعت داعیہ کا دوسرا وصف اور امتیاز خصوصی یہ بتلایا یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر یعنی وہ لوگ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔ معروف وہ تمام نیکیاں اور بھلائیاں داخل ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے اور ہر نبی نے ہر زمانے میں اس کی ترویج کی کوشش کی، اور چونکہ یہ امور خیر جانے پہچانے ہوئے ہیں اس لئے معروف کہلاتے ہیں۔- اسی طرح منکر میں تمام وہ برائیاں اور مفاسد داخل ہیں جن کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ناجائز قرار دینا معلوم و معروف ہے، اس مقام پر واجبات اور معاصی کے بجائے معروف و منکر کا عنوان اختیار کرنے میں شاید یہ حکمت بھی ہو کہ روکنے ٹوکنے کا معاملہ صرف ان مسائل میں ہوگا جو امت میں مشہور و معروف ہیں اور سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں، اجتہادی مسائل جن میں اصول شرعیہ کے ماتحت رائیں ہوسکتی ہیں، ان میں یہ روک ٹوک کا سلسلہ نہ ہونا چاہیے، افسوس ہے کہ عام طور پر اس حکیمانہ تعلیم سے غفلت برتی جاتی ہے اور اجتہادی مسائل کو جدال کا میدان بنا کر مسلمانوں کی جماعت کو ٹکرایا جاتا ہے، اور اس کو سب سے بڑی نیکی قرار دیا جاتا ہے، اور اس کے بالمقابل متفق علیہ معاصی اور گناہوں سے روکنے کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی ہے، آیت کے اختتام پر اس جماعت کے انجام اور عاقبت محمودہ کو ان لفظوں میں فرمایا واولئک ھم المفلحون، یعنی درحقیقت یہ لوگ کامیاب ہیں، فلاح وسعادت دارین انہی کا حصہ ہے۔ اس جماعت کا سب سے پہلا مصداق جماعت صحابہ ہے، جو دعوت الی الخیر اور امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے عظیم مقصد کو لے کر اٹھی اور قلیل عرصہ میں ساری دنیا پر چھا گئی، روم و ایران کی عظیم سلطنتیں روند ڈالیں، اور دنیا کو اخلاق و پاکیزگی کا درس دیا، نیکی اور تقوی کی شمعیں روشن کیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ١٠٤- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] - اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔- فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت - قول باری ہے (ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر، تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیئے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا رہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے)- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے اول امربالمعروف اور نہی عن المنکرکاوجوب۔ دوم یہ فرض کفایہ ہے۔ ہر شخص پر فرض عین نہیں۔ جب ایک شخص اس فرض کا داداکردے گا تو دوسرے پر اس کی فرضیت باقی نہیں رہے گی اس لیے کہ قول باری (ولتکن منکم امۃ) اس کی حقیقت کا تقاضا کہ بعض پر فرض اور دوسرے بعض پر نہ ہو۔ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ فرض کفایہ ہے کہ جب کچھ لوگ اسے داداکر لیں گے توباقیوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔- بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ یہ فرض عین ہے یعنی اس کی فرضیت ہر شخص پر عائد ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس قول باری (ولتکن منکم امۃ) کے اندازبیان کو مجاز اخصوص پر محمول کرتے ہیں (لیکن حکم میں عموم ہے جس طرح کہ یہ قول باری ہے (یغفرلکم من ذنوبکم، اللہ تعالیٰ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا) اس کے معنی ہیں کہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا۔- فرض کفایہ کے قول کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب کچھ لوگ امربالمعروف اور رنہی عن المنکر کرلیں گے تو باقی ماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ جس طرح کہ جہاد، مردوں کی تغسیل وتکفین اور جنازے کی نماز اور ان کی تدفین کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ فرض کفایہ نہ ہوتا تو بعض کی طرف سے اس کی ادائیگی کی بناپردوسروں سے اس کی فرضیت ہرگز ساقط نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کئی اور مقامات پر بھی ذکر فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر، اب دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہوج سے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیئے دنیا میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو)- اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان (علیہ السلام) کے الفاظ میں فرمایا (یا بنی اقم الصلوۃ وامربالمعروف وانہ عن المنکرواصبرعلی مااصابک، اے میرے بیٹے قائم کرنی کی کا حکم دے اور برائی سے روک اور اس سلسلے میں) جو تکلیفیں تجھے اٹھانی پڑیں انہیں برداشت کر)- نیز قول باری ہے (وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوافاصلحوابینھما فان یغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ، اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگ جائیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس سے لڑوجوزیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔ )- نیز فرمایا (یعن الذین کفروامن بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسیٰ بن مریم ذلک بماعصواوکانوایعتدون۔ کانوالا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوایفعلون، بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفراختیار کیا۔ ان پر داود اورعیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت ہوء۔ یہ اس لیئے کہ انہوں نے نافرمانیاں کیں اور وہ حد سے آگے نکل نکل جاتے تھے۔ جو برائی انہوں نے اختیارکررکھی تھی اس سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔ جو کچھ وہ کررہے تھے وہ بہت ہی برا تھا۔ ) یہ آیتیں اور ان جیسی دوسری آیتیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ایجاب کا تقاضا کرتی ہیں۔- امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کئی مراحل ہیں - امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کئی مراحل ہیں۔ اول کسی برائی کو ہاتھ سے یعنی اگر ممکن ہو تو بزور طاقت بدل ڈالنا اور روک دینا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور اسے اس برائی کو بزور روکنے میں اپنی جان کا خوف ہو تو اس پرا سے اپنی زبان سے روکنا اور اس کے خلاف بولنا لازم ہے۔ اگر درج بالاوجہ کی بناپریہ بھی مشکل ہو تو پھر اس برائی کو دل سے برا سمجھنا اس پر لازم ہوگا۔- اس سلسلے میں ہمیں عبداللہ بن جعفربن احمد بن فارس نے روایت بیان کی انہیں یونس بن حبیب نے انہیں ابوداؤ دطیالسی نے انہیں شعبہ نے انہیں قیس بن مسلم نے کہ میں نے طارق بن شہاب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ مروان بن الحکم نے نماز پر خطبے کو مقدم کردیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکرکہا امیر تم نے سنت کے خلاف عمل کیا خطبہ نما ز کے بعد ہوا کرتا تھا۔ مروان نے سن کر کہا اس بات کو چھوڑو اے فلاں کے باپ شعیہ کہتے ہیں کہ مروان اونچی آوازوالا تھا اس کی یہ آوازسن کر ابوسعید خدری (رض) اٹھے اور فرمایا مروان سے یہ بات کہنے والا کون شخص ہے، اس نے اپنا فرض پوراکردیا ہے۔ ہم سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (من رای منکم منکوافلینکرہ بیدہ فان لم یستطع فلینکرہ بلسانہ فان لم یستطع فلینکرہ بقلبہ وذلک ضعف الایمان، تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے توا سے اپنے ہاتھوں سے ہٹادے اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو تو اس کے خلاف اپنی زبان استعمال کرلے اگر ا سے اس کی بھی طاقت نہ ہوتوا سے اپنے دل سے براجانے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔- ہمیں محمد بن بکربصری نے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے انہیں محمد بن علاء نے انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے انہوں نے اسماعیل بن رجاء سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ابو سعید اور قیس بن مسلم سے انہوں نے طارق بن شہاب سے انہوں نے ابوسعید خدر (رض) ی سے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (من رای منکم منکراواستطاع ان یغیرہ بیدہ فلیغیرہ بیدہ ، فان لم یستطع فبقلبہ وذاک اضعف الایمان، تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے ہٹاسکتا ہو تو اسے اپنے ہاتھوں سے ہٹادے اگر ا سے اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے یہ کام کرے۔ اگر اس کی بھی اس میں طاقت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے براس مجھے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔ )- برائی کو روکنا حالا و امکان کے مطابق ہے - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ منکر اوربرائی کو روکنا حالات و امکان کے مطابق ان تین مرحلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر دہ اپنے ہاتھوں سے منکر یعنی برائی کو ہٹانہ سکے تو پھر اپنی زبان سے ہٹائے یعنی اس کے خلاف زبانی جہاد کرے۔ اگر اس کے لیئے یہ ممکن نہ ہو تو اس پر اس سے زیادہ اور کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ دل سے اسے براس مجھے۔- برائی سے نہ روکنے والا اس کی زد میں آسکتا ہے - ہمیں عبداللہ بن جعفرنے روایت بیان کی انہیں یونس بن حبیب نے انہیں ابوداؤدنے انہیں شعبہ نے ابواسحاق سے انہوں نے عبداللہ بن جریرالنجلی سے انہوں نے والد حضرت جریرالجبلی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (مامن قوم یعمل بینھم بالمعامی ھم اکثرواعزممن یعملہ ثم لم یغیروا الاعمھم اللہ منہ یعقاب، جو قوم ایسی ہو کہ اس کے اندر بےڈھرک معاصی کا ارتکاب ہورہاہو۔ اس میں ایسے لوگ موجودہوں جوان مرتکبین سے بڑھ کر اثردرسوخ دالے ہوں اور ان کی عددی اکثیریت بھی ہو اس کے باوجود وہ ان معاصی کو ختم نہ کرائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی سزانازل کرے گا جس کی لپیٹ میں سب آجائیں گے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤد نے انہیں عبداللہ بن محمد النفیلی نے انہیں یونس بن راشد نے علی بن بدیمہ سے انہوں نے ابوعبیدہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (ان اول مادخل النقص علی بنی اسرائیل کان الرجل یلقی الرجل فیقول یاھداتق اللہ ودع ماتصنع فانہ لا یحل لک ثم یلقاہ من الغد فلا یمنعہ ذلک ان یکون اکیدہ وشریبہ وقعیدہ فلما فعلواذلک ضرب اللہ تعالیٰ قلوب بعضھم ببعض، بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو خرابی پیداہوئی اس کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اسے اس کی معاصی پر سرزنش کرتے ہوئے کہتا کہ اے فلاں اللہ سے ڈر اوریہ کام چھوڑکیون کہ یہ تیرے لیئے حلال نہیں ہے پھر وہی نصیحت کرنے والا دوسرے روز اس سے ملتا لیکن اس کی خطاکاری اور معاصی اسے اس کے اٹھتے بیٹھنے اور کھانے پینے سے نہ روکتے جب بنی اسرائیل نے یہ طرز عمل اختیارکیاتو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہرلگادی۔ )- برائیوں سے صرف نظرلعنت خداوندی کی موجب ہے - پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (لعن الذین کفروامن بنی اسرئیل علی لسان داؤدوعیسیٰ بن مریم ذلک بماعصواوکانویعتدون) تاقول باری (فاسقون) پھر آپ نے فرمایا (کلا، واللہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکرولتاخذن علی یدی الظالم ولتاطرنہ علی الحق اطرا وتقرنہ علی الحق قصرا، ہرگز نہیں سبخدا تم ضرورنی کی کا حکم دوگے اور برائی سے ضرورروکوگے۔ ظالم کا ہاتھ پکڑکرا سے ظلم سے بازرکھوگے۔ اور اسے حق کی طرف موڑدوگے۔ نیزا سے حق کی طرف لوٹادوگے)- ابوداؤد نے کہا ہمیں خلف بنی ہشام نے انہیں ابوشہاب الحناط نے العلاء بن المسیب سے انہوں نے عمروبن مرہ سے انہوں نے سالم سے انہوں نے ابوعبیدہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د سے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی روایت بیان کی البتہ اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی کیا (اولیضربن اللہ یقلوب بعضکم علی بعض ثم لیلعنتکم لعنھم، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہرلگادے گا اور تم پر اسی طرح لعنت بھیجے گا جس طرح ان پر یعنی بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی تھی) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ نہی عن المنکر کی ایک شرط یہ ہے کہ برائی سے روکنے والاخود اس برائی کو براسمجھتا ہو۔ نیز برائی اور معصیت میں گرفتارانسان کے ساتھ نہ اٹھے بیٹھے اور نہ ہی کھائے پیئے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا ہے دراصل اس قول باری کا بیان ہے۔ اور اس کی وضاحت ہے (تری کثیرامنھم یتولون لذین کفروا، تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ کافروں سے دوستی گا نھتے ہیں) یعنی وہ لوگ معاصی کے مرتکبین کے ساتھ اٹھنے بیٹھتے اور کھانے پینے کی وجہ سے خود نہی عن المنکرکے ترک کے مرتکب قرارپائے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (کانوالا یتناھون عن منکرفعلوہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ اگر ایک شخص برائی کی زبان سے تردیدکرے لیکن وہ اس برائی کے مرتکبین کے ساتھ اٹھنابیٹھنا اور کھانا پینا بھی جاری رکھے تو اس کی یہ زبانی تردید اس کے لیئے فائد ہ مند نہیں ہوگی۔- اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرتے بیان کی انہیں ابوداؤد نے انہیں وہب بن بقیہ نے انہیں خالد نے اسماعیل سے انہوں نے قیس سے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے حمدوثنا کے بعد فرمایا لوگو تم اس آیت (لایضرکوم من ضل اذا اھتدیتم ، جب تم ہدایت پر ہوگے تو گمراہ ہونے والوں کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کی تلاوت کرتے ہو لیکن اسے اس کے درست معنی پر محمول نہیں کرتے ہم نے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے (ان الناس اذاروا الظالم فلم یاخذواعلی یدیہ یوشک ان یعمھم اللہ بعقاب، لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور پھر اس کا ہاتھ پکڑکرا سے ظلم کرنے سے نہ روک دیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عمومی سزادے)- ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے انہیں ابوالربیع سلیمان بن داؤد العتکی نے انہیں ابن المبارک نے عقبہ بن ابلی حکم سے انہیں عمروبن جاریہ الخمی نے انہیں ابوامیہ شعبانی نے کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی سے آیت (علیکم انفسکم) کے متعلق سوال کیا انہوں نے جواب میں فرمایا کہ میں نے یہی سوال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا۔ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ۔ بات ایسی نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دو اوربرائی سیروکو۔ حتی کہ تم جب یہ دیکھ لو کہ بخل کی پیروی کی جاتی ہے۔ خواہشات کی اتباع کی جاتی ہے دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کے متعلق خوش فہم نظر آتا ہے تو اس وقت تم صرف اپنی ذات کی فکر کرو اورلوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدو۔ تمہارے اوپر آنے والے دن صبر کے دن ہوں گے اور اس وقت صبر کرنا انگارے کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہوگا ایسے لوگوں میں رہ کر شریعت پر عامل انسان کا اجر پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ہوگا۔- ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابوثعلبہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ آیا اس شخص کو اس زمانے کے پچاس آدمیوں کے عمل کے برابراجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ تمہارے زمانے یعنی صحابہ کرام کے پچاس آدمیوں کے عمل کے برابر اجرملے گا۔ ان ردایات میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوصورتیں ہیں۔ ایک صورت تو وہ ہے جس میں ایک بدی کو بدل ڈالنا اور ختم کردینا ممکن ہو ایسی صورت میں ہراس شخص پر اس بدی کو مٹا ڈالنا فرض ہے جس کے لیے اسے اپنے ہاتھوں سے ایسا کرنا ممکن ہو۔ ہاتھوں سے اسے مٹا ڈالنے کی بھی کئی شکلیں ہیں ایک شکل تو یہ ہے کہ تلوار کے سوا اس کا ازالہ ممکن نہ ہو یعنی اس بدی کے مرتکب کی جب تک جان ن لے لی جائے اس وقت تک اس کا ازالہ ممکن نہ ہو ایسی صورت میں اسے یہ کرگزرنا چاہیے۔- مثلا کوئی شخص کسی کو اس کی اپنی جان یا کسی اور کی جان کے درپے دیکھے یا اس کا مال ہتھیانے کی فکر میں ہویا کسی عورت سے زنا کے ارتکاب پر کمر بستہ ہو یا اس قسم کی اور کوئی صورت حال ہو اورا سے علم ہو کہ زبان سے روکنے یا ہتھیار کے علا وہ کسی اور چیز سے مقابلہ کرنے پر بھی وہ باز نہیں آئے گا تو ایسی صورت میں وہ اسے قتل کردے۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (من راہ منکرا فلیغرہ بیدہ) ایسی صورت میں اگر اس کے لیئے اس بدی کو اپنے ہاتھ سے ہٹادینا ممکن نہ ہو الایہ کہ اس بدی پر اڑے رہنے والے شخص کا خاتمہ کرکے ہی اس بدی سے چھٹکارامل سکتا ہو تو اس پر اس شخص کو ختم کردینا فرض ہوگا۔ اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ اگر زبان سے یا ہاتھ سے ہتھیاراستعمال کیئے بغیر اسے روکنے سے وہ رک جائے گا تو پھر اس کے لیے اس شخص کو قتل کردینے کا اقدام جائز نہیں ہوگا۔ اگر اس کا گمان غالب یہ ہو کہ ہاتھ یا زبان سے روکنے پر وہ اڑ جائے گا اور مقابلہ پر اترآئے گا اور اس کے بعد اسے ہٹانا اور قتل کا اقدام کیئے بغیر اس بدی کو دور کرنا ممکن نہیں رہے گا تو ایسی صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ اسے خبردار کیئے بغیر قتل کرڈالے ۔- ابن رستم نے امام محمد سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا سامان غصب کرلے تو پھر تمہارے لیے ایسے شخص کو قتل کردینے کی گنجائش ہے تاکہ غصب شدہ سامان اس سے برآمد کرکے اصل مالک کو لوٹادو۔ امام ابوحنیفہ فے چور کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے کہ جب وہ سامان چراکربھاگے تو تمھارے لیے گنجائش ہے کہ اس کاپیچھاکرکے اسے پکڑلو اورسامان کی واپسی سے انکارپرا سے قتل کردو۔- امام محمد نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر چورگھر میں نقب لگاکرگھس جائے تو تمہارے لیے اسے قتل کردینے کی گنجائش ہے۔ آپ نے اس شخص کے متعلق جو تمھارے دانت اکھاڑناچاہتا ہو یہ فرمایا کہ اگر جگہ ایسی ہو جہاں تم کسی کو اپنی مدد کے لیے بلانہ سکتے ہو تو پھر اسے قتل کردینا تمہارے لیے جائز ہوگا۔ اس پر قول باری (فقاتلوا التی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) دلالت کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے قتال کرنے کا حکم دیا ، اور ان کے خلاف قتال کا اقدام اس وقت ہی ختم ہوگا جب کہ ایسے لوگ سرکشی اور بدی کے ارتکاب سے منہ موڑکر اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان (من رای منکم مکرافلیغیر ہ بیدہ ) بھی اس چیز کو واجب کرتا ہے اس لیے کہ آپ نے بدی کو جس طریقے سے بھی ممکن ہو، دور کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اگر بدی کے مرتکب کو قتل کیئے بغیر اس کادورکرنا ممکن نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ قتل کا اقدام کرکے اس بدی کو ووکردے۔- ٹیکس اور محصول چنگی وصول کرنے والوں کا خون مباح ہے - لوگوں کے مال ومتاع ٹیکس اور محصول چنگی وصول کرنے والوں کے متعلق بھی ہمارا یہی قول ہے کہ ان کا خون مباح ہے اور مسلمانوں پر انہیں قتل کردینا واجب ہے بلکہ ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ ان میں سے جو بھی اس کے قابو میں آجائے اسے خبردارکیئے بغیر اور زبانی طورپر روکے بغیر اور زبانی طورپرروکے بغیر، اس کا خاتم کردے اس لیے کہ ایسے لوگوں کی یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب یہ ٹیکس اور محصول وغیرہ وصول کرنے پر کمربستہ ہوجائیں تو باوجودیکہ انہیں اس قسم کی وصولی کی ممانعت کا علم ہے یہ کسی کی بات سننے یا ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور جب کوئی انہیں اس قسم کی وصولی کی ممانعت کا علم ہے یہ کسی کی بات سننے یا ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور جب کوئی انہیں اس سے یاز رہنے کی دھمکی دے تو اس کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں حتی کہ ان کی ذات سے وابستہ لوگوں کو قتل کردینا جائز ہے۔- جان کا خطرہ ہو تو صرف قطع تعلق کافی ہے - ساتھ ہی ساتھ جس شخص کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ ایسے لوگوں کے خلاف قتل کا اقدام کرے گا تو اس کی اپنی جان چلی جائے گی، ایسی صورت میں انہیں ان کے حال پرچھوڑدینا اس کے لیے جائز ہوگا۔ البتہ اس پر ان سے دوررہنا ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا اور ان سے قطع تعلق کرنا لازم ہوگا۔ یہی حکم ان لوگوں کے متعلق بھی ہے جو دین وایمان کے لیے تباہ کن معصیت کے مرتکب ہوں۔ اس پر ان کا اصرارہو، اور وہ کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرتے ہوں۔ ایسی بدی اور معصیت کو ہر ممکن طریقے سے روکنا لازمی ہے، اگر ہاتھ سے روکنا ناممکن ہو تو اپنی زبان سے روکے ، یہ اس وقت کرے جب اسے یہ امید ہو کہ زبانی طورپر اس کے خلاف آواز اٹھا نے سے یہ لوگ اس برائی سے باز آجائیں گے اور اسے ترک کردیں گے۔- بدی کے خلاف طاقت نہ ہوتوخاموش رہنا مباح تو ہے افضل نہیں - لیکن اگر اسے یہ امید نہ ہو، بلکہ غالب گمان یہ ہو کہ جروتوبیخ اور زبانی تنقید کا ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ جبکہ انہیں خود بھی اس بدمی کے متعلق علم ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کے لیئے خاموش رہنے کی گنجائش ہے تاہم ان سے قطع تعلقی اورعلیحد گی ضرور ہے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ (فلیغیرہ بلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ) آپ کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ اگر زبانی جہاد کے باوجود برے لوگ برائی سے بازنہ آئیں تو پھر ایسے لوگوں کو دل سے برا سمجھنا ضروری ہے خواہ یہ اپنے بچاؤ کی شکل میں ہو یا کسی اور صورت میں اسی لیے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ اگر ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کا اس کا مفہوم یہی ہے کہ اگر کہنے سننے اور زبان سے روکنے کے باوجود یہ لوگ باز نہ آئیں اور برائی کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی حالت میں خاموش ہوجانے کی اباحت ہے - امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے حکمت سے کام لیاجائے - حضرت ابن مسعو (رض) د سے قول باری (علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا ھتدیتم) کے متعلق مروی ہے آپ نے فرمایا امربالمعروف اور نہی عن المنکر، اسی مقام پر کروجہاں تمہاری بات مان لی جائے اگر بات نہ مانی جائے تو پھر تم صرف اپنی ذات کے ذمہ دارہو، حضرت ابوثعلیہ (رض) خشنی کی روایت بھی ۔۔ جس کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔۔ اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث کا مطلب ۔۔ واللہ اعلم۔۔ یہی ہے کہ جب لوگ تمہاری بات نہ مانیں بلکہ اپنی ہواء وہوس میں لگ کر اپنی رائے پر ڈٹ جائیں تو ایسی صورت میں تمہارے لیے گنجائش ہے کہ تم انہیں چھوڑکر اپنی ذات کی فکر کرو اورا نہیں ان کی حالت پر رہنے دو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کو زبانی طورپر روکنے سے کنارہ کشی کی اجازت دے دی ۔- صحابہ کرام کے نزدیک علم کی قدر - عکرمہ (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے ان لوگوں کے انجام کا علم نہیں ہوسکاجواصحاب سبت (بنی اسرئیل کا ایک گروہ جو یوم السبت یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑا کرتا تھا جبکہ اسرائیلی شریعت میں ہفتے کا دن صرف عبادت کے لیے مخصوص تھا اور دنیا دی کاموں کی ممانعت تھی اس خلاف ورزی کی انہیں یہ سزادی گئی کہ ان کی شکلیں مسخ کردی گئیں۔ ) کو ہفتے کے دن کی خلاف ورزی پر ٹوکتے اور انہیں اس کام سے روکتے نہیں تھے۔ یہ سن کر عکرمہ (رض) نے کہا : میں آپ کو بتاتاہوں، آپاگلی آیت (انجیناالذین یتھون عن السوء ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے لوگوں کو روکتے تھے) تلاوت کرین، یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ، تم نے ٹھیک کہا پھر آپ نے میری اس بات سے خوش ہوکر ایک جو ڑاپہننے کے لیے عنایت کیا، حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت سے یہ استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو برائی کرتے تھے یعنی ہفتے کے دن کی حرمت اور تقدس کو پامال کرتے تھے۔ نیز انہیں بھی ہلاک کردیاجوا نہیں اس برائی سے روکتے اور اس پر ٹوکتے نہیں۔ آپ نے عذاب کی لپیٹ میں آنے کے لحاظ سے ایسے لوگوں کو بھی اس برائی کے مرتکبین جیسا قراردیا۔- ہمارے نزدیک اس کی تاویل یہ ہے کہ مؤخرالذکرلوگ اس بدی کے مرتکبین کے اعمال سے راضی تھے۔ اور ان پر گرفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی دل سے انہیں براسمجھتے تھے۔- فعل قبیح پر رضا مندی ارتکاب قبیح کے مساوی ہے - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجودیہودیوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیائے سابقین کے قتل کی نسبت ان الفاظ میں کی (قدجاء کم رسل من قبلی بالبینات وبالذی قلتم فلم قتلتموھم) تمہارے پاس مجھ سے پہلے بھی رسول نشانیاں اور (قربانی کو آگ کھانے جانے کا) معجزہ جو تم چاہتے ہو لے کر آئے تھے، پھر تم نے ان کو کیوں قتل کردیا) نیز (فلم تقتلون اتبیاء اللہ من قبل ان کنتم مؤمنین ، تم اس سے پہلے اللہ کے پیغمبروں کو کیوں قتل کردیتے تھے۔ اگر تم سچے ہو) اس کی وجہ یہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہوداپنے اسلاف سے جو انبیاء کے قاتل تھے محبت کرنے اور ان سے تعلق برقراررکھنے میں کوئی ہچکچا ہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس بناپرقتل کی نسبت ان کی طرف کردی گئی اگرچہ واقعہ براہ راست وہ انبیائے کرام کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے اسلاف کے اس فعل قبیح پر رضامند تھے انہیں قاتل گروانا گیا۔ ٹھیک اسی طرح اصحاب سبت میں جو لوگ ہفتے کے دن کے تقد س کو پامال کرتے تھے ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی ملحق کردیا گیا جو اس فعل قبیح سے انہیں روکتے نہیں تھے۔ دراصل وہ ان لوگوں کی اس حرکت پر نہ صرف راضی تھے بلکہ ان سے دوستی اور تعلق باقی رکھ کر گویا عملی طورپرا سے پسند بھی کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص اپنے دل سے کسی برائی کو براسمجھتا ہو اور اس میں اتنی طاقت نہ ہو کہ دوسروں کو اس برائی سے روک سکے تو ایسا شخص اس وعید میں میں داخل نہیں ہوگا جو اس برائی کے مرتکبین کو سنائی گئی ہو بلکہ اس کا شماران لوگوں میں ہوگا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اھتدیتم)- ہمیں مکرم بن احمد القاضی نے روایت بیان کی انہیں احمد بن عطیہ الکونی نے انہیں الحمانی نے انہوں نے ابن المبارک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ امام ابوحنیفہ کو جب ابراہیم الصائغ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپ اس قدرروئے کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ شائد روتے روتے آپ کی وفات ہوجائے گی۔ جب تنہائی ہوئی تو آپ نے فرمایا بخدا، ابراہیم ایک عقلمند انسان تھے مجھے خطرہ تھا کہ ان کے ساتھ یہی کچھ ہوگا۔ میں نے عرض کیا۔ اس قتل کا سبب کیا تھا ؟ آپ نے فرمیاا، وہ میرے پاس آتے اور مجھ سے سوالات کرتے، اللہ کی طاعت میں وہ اپنی جان لگادیتے تھے انتہائی متقی اور پرہیزگار تھے۔ بعض دفعہ میں ان کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کرتا تو اس کے متعلق مجھ سے پوچھناشروع کردیتے پھر ایسا ہوتا کہ وہ چیزا نہیں پسند نہ آتی اور اسے وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور بعض دفعہ پسند آجاتی توکھالیتے ۔- امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اقدام کے متعلق امام ابوحنیفہ کا مسلک - ایک دفعہ مجھ سے، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکے متعلق سوالات کیئے پھر بحث ومباحثہ کے بعد ہم اس پر مفتق ہوگئے کہ یہ اللہ کی طرف سے مقررکردہ ایک فرض ہے پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ میں بیعت کرتاہوں۔- ان کے قتل کے بعد اب میری نظروں میں دنیا تاریک ہوگئی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ وہ کیسے ؟ فرمایا مجھے انہوں نے اللہ کے ایک حق کی طرف بلایا لیکن میں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور ان سے یہ کہہ دیا کہ اگر، امربالمعروف اورنہی عن المنکر ، کی دعوت اکیلا شخص لے کر اٹھے گا تو قتل کردیاجائے گا اور لوگوں کی ایک بات بھی درست نہیں ہوسکے گی۔ لیکن اگر ا سے نیک اور مخلص ساتھی مل جائیں جن کا سردار کوئی ایسا شخص ہو جس کی دینی حالت پوری طرح قابل اطمینان ہو تو اس صورت میں اس دعوت کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوسکتی۔ آپ نے مزید فرمایا، ابراہیم جب کبھی میرے پاس آتے تو اس پر نکلنے کے لیے مجھ سے اس قدرشدید تقاضا کرتے جس طرح قرض خواہ ہاتھ دھو کرمقروض سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کبھی وہ میرے آتے تو مجھ سے یہی تقاضا کرتے۔ میں ان سے یہی کہتا کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں ہے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی جب تک غیبی امداد حاصل نہیں ہوگئی انہیں اس کام کی ہمت نہیں ہوئی۔- اس فرض کی نوعیت دیگر فرائض سے مختلف ہے اس لیے کہ دوسرے فرائض کی ادائیگی ایک شخص خود تنہا کرسکتا ہے اور یہ فرض ایسا ہے کہ جب ایک آدمی تنہا اس کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا تو گویا وہ اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کردے گا۔ اس لیے ان کے بارے میں مجھے ہمیشہ یہی خطرہ رہتا کہ وہ اپنے قتل کا سامان خود ہی پیداکر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اس راستے میں ایک آدمی قتل ہوجائے تو کسی اور کو اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میں نے انہیں انتظار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔- آخرفرشتوں نے بھی تو اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا تھا۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الد ماء ونحن نسبح بحمد ک ونقد س لک قال انی اعلم ما لاتعلمون، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خونریزی کرے گا۔ آپ کی حمد وثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس توہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا : میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے)- ابراہیم امام ابوحنیفہ کے پاس سے نکل کرمروچلے گئے جہاں ابومسلم خراسانی (عباسی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے والا مشہورجرنیل) مقیم تھا وہاں جاکر اس کے ساتھ سخت کلامی کی جس کی بناپر اس نے انہیں پکڑلیا۔ لیکن خراسان کے فقہاء اور دیندارلوگوں کی کوششوں سے انہیں رہائی مل گئی ابراہیم نے پھر وہی طرزعمل اختیار کیا اور ابومسلم کو اس کی غلط کاریوں پر ٹوکا۔ اس نے انہیں تنبیہ کی۔ لیکن ابراہیم پھر اس کے پاس گئے۔ اور کہنے لگے کہ میری نظر میں نیزے خلاف جہاد سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں جو میں اللہ کی خاطرسرانجام دے سکوں۔ لیکن میرے ہاتھ میں چونکہ کوئی قوت نہیں ہے اس لیے میں تیرے خلاف زبانی جہاد جاری رکھوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے راستہ دکھادیا ہے میں اس کی خاطر تجھ سے ہمیشہ نفرت رکھوں گا۔ ابومسلم یہ باتیں سن کر طیش میں آگیا اور انہیں قتل کرادیا۔- ابوبکر جصاص کا استنباط - ابوبکرجصا ص کہتے ہیں کہ سابقہ سطور میں قران وحدیث کی روشنی میں جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ، امربالمعروف اورنہی عن المنکر، کرنا امت پر عائدشدہ ایک فریضہ ہے اور یہ چیز بھی واضح کردی گئی کہ اس کی نوعیت فرض کفایہ کی ہے کہ جب کچھ افراد اس کی ادائیگی کریں تو باقیماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی فرضیت کے لزوم میں نیک اور بد کے درمیان کوئی فرق نہ ہو، اس لیے کہ بعض فرائض کے ترک سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسے انسان سے دوسرے فرائض بھی ساقط ہوجائیں، آپ نہیں دیکھتے کہ ایک اگر نماز ترک کردے تو اس کی بناپر اس سے روزے کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی اور دوسری تمام عبادات بھی اس پر لازم رہتی ہیں ٹھیک اسی طرح جو شخص تمام نیکیاں نہیں کرتا اور تمام برائیوں سے باز نہیں رہتا، اس سے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی۔ طلحہ (رض) بن عمرونے عطاء (رض) بن ابی رباح سے انہوں نے حضرت ابوہریر (رض) ہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کرنے لگے کہ حضور کیا ہمارے لیے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی گنجائش اس وقت پیدا ہوگی جب ہم تمام نیکیاں کر گزریں گے اور تمام برائیوں سے باز آجائیں گی ؟ جواب میں آپ نے فرمایا (مروابالمعروف وان لم تعملوابہ کلہ وانھوا عن المنکروان لم تنھواعنہ کلہ، اگرچہ تم تمام نیکیوں پر خود عمل پیرانہ بھی ہو پھر بھی امربالمعروف کرواسی طرح اگرچہ تم تمام برائیوں سے خود باز نہ بھی آئے ہو پھر بھی لوگوں کو برائیوں سے روکو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض فرائض میں کوتاہی کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ادائیگی کے لزوم کے (رح) لحاظ سے دوسرے فرائض کے برابر قراردیا۔- امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق جاہلانہ تصور - علمائے امت اور فقہائے ملت میں سے خواہ ان کا تعلق سلف سے ہو یا خلف سے کسی نے بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کے وجوب کا انکار نہیں کیا۔ البتہ نام نہاداصحاب حدیث کا ایک جاہل اور علم سے تہی دامن گروہ مسلمانوں کے کسی باغی گروہ کے خلاف جنگی اقدامات کا قائل نہیں ہے۔ یعنی وہ ہتھیار کے سہارے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کی نظروں میں اس کام کے لیے اگر ہتھیاراٹھا نے اور باغی گروہ سے قتال کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو یہ تبلیغ نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک فتنہ ہوگا، حالانکہ ان کے کافوں میں اس قول باری (فقاتلوا التی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) کی آوازپہنچ چکی ہے اور ان کے سامنے اس آیت کے الفاظ کا مقتضی بھی واضح ہے اور یہ مقتضیٰ باغی گروہ کے ساتھ قتال بالسیف کے وجوب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس گروہ کا یہ زعم بھی باطل ہے کہ سلطان یا صاحب اقتداراگرظلم وجورکرے نیز بےگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے تو اس کے خلاف لب کشائی نہ کی جائے، البتہ سلطان کے علاوہ کوئی اور شخص ایسی حرکتیں کرے تو اس کے خلاف صرف زبانی یا ہاتھ سے کارروائی کی جائے ہتھیارپھر بھی استعمال نہ کیے جائیں۔ ان جاہلوں نے اپنے اس طرزعمل سے امت کو اس سے زیادہ نقصان پہنچایاجتنا دشمنوں کے ہاتھوں سے اسے پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے کہ انہوںنی اپنے اس زعم باطل کا پرچارکرکے مسلمانوں کو باغی گروہوں کے خلاف ہتھیاراٹھا نے اور سلطان یابرسراقتدار شخص کے ظلم وجور کے خلاف لب کشائی کرنے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاسقوں اورفاجروں بلکہ محبوسیوں اور دشمنان اسلام کو زورپکڑنے اور حکومت پر قبضہ جمانے کا موقعہ مل گیا جس سے بلاد اسلامیہ کی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، ظلم وستم کا بازارگرم ہوگیا ، شہراجڑگئے، علاقے تباہ ہوگئے اور دین ودنیا دونوں ہاتھ سے گئے دوسری طرف فکر ی اتنشار کے نتیجے میں زندیقیت ، بےتباہ ہوگئے اور دین ودنیا دونوں ہاتھ سے گئے دوسری طرف فکر ی اتنشار کے نتیجے میں زندہ لقیت بےدینی اور تشیع کو ہواملی نہ صرف یہ بلکہ ثنویت ، مزوکیت اور خرمیت جیسے باطل خیالات عام ہونے لگے یہ تمام خرایباں دراصل ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کے فریضہ کو ترک کرنے نیز ظالم سلطان کے خلافآواز بلند نہ کرنے نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔- دو خداؤں یعنی یزدان وہرمن کا نظر یہ جس کے مطابق یزدان خالق خیر اور اہرمن خالق شر ہے۔ فرقہ خرمیہ دراصل مجوسیوں کا طائفہ تھا جو تناسخ کا قائل تھا۔ ان کے ہاں محرمات کی اباحت تھی ۔ یعنی ایک انسان اپنی ماں بہن وغیرہ سے نکاح کرسکتا تھا۔ اس فرقے کی نسبت ایران کے ایک گاؤں خرمہ کی طرف ہے، مزدکیت بھی ان ہی نظریات کی حامل تھی البتہ اسکاوجود فرقہ خرمیہ سے پہلے ہوا تھا۔- قرآن وسنت کی روشنی میں جاہلانہ تصورد - ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے ، انہیں محمد بن عبادالوواسطی نے، انہیں یزید بن ہاون نے انہیں اسرائیل نے انہیں محمد بن حجادہ نے عطیہ عوفی سے انہوں نے ابوسعید خدری سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (افضل الجھاد کلمہ عدل عند سلطان جائراوامیرجائر۔ ظالم وجابرسلطان یاحاکم کے سامنے کلمہ حق وانصاف بلند کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ ) ہمیں محمد بن عمر نے روایت بیان کی انہیں احمد بن محمد بن عمروبن مصعب المروزی نے انہوں نے ابوعمارہ سے انہوں نے الحسن بن رشید سے ، انہوں نے امام ابوحنیفہ سے، آپ نے فرمایا، میں نے ابراہیم صائغ کو عکرمہ سے ایک روایت بیان کی جو انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (سیدالشھداء حمزہ بن عبدالمطلب ورجل قام الی امام جائرفامرہ ونھا ، فقتلہ، شہیدوں کے سروارحمزہ (رض) بن عبدالمطلب ہیں نیزوہ شخص بھی ہے جو کسی ظالم حاکم کے پاس جاکرامربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں شہید ہوجائے)- قول باری ہے (وما اللہ یرید ظلما للعباد، اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بندوں پر ظلم ہو) یہ قول باری (من کل الوجوہ ارادہ ظلم کی نفی کا متقاضی ہے۔ یعنی نہ تو اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ بندے ایک دوسرے پر ظلم کریں اس لیے کہ ظلم کی یہ دونوں صورتیں قبیح ہونے کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ کیونکہ اگر یہ جائز ہوتا کہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا اللہ کے ارادے میں ہے تو اس کی طرف سے بندوں پر ارادہ ظلم بھی جائز ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے دو شخصوں کے درمیان عقلی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا جن میں سے ایک غیر کی خاطر اپنے اوپر اور دوسرا غیر کی خاطر کسی اور پر ظلم کرنے کا ارادہ کرے۔ فعل قبیح کے ارتکاب کے لحاظ سے دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں سے ارادہ ظلم کی نفی ہونی چاہیے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٤) اب اللہ تعالیٰ امر بالمعروف اور آپس میں صلح کرانے کا حکم دیتا ہے کہ تم لوگوں میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہنی چاہیے، جو نیکی، صلح توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم اور کفر وشرک سے روکتی اور منع کرتی رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط) - اس جماعت کے کرنے کے تین کام بتائے گئے ہیں ‘ جن میں اوّلین دعوت الی الخیر ہے ‘ اور واضح رہے کہ سب سے بڑا خیر یہ قرآن ہے۔ - (وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) - یہاں لفظ منکُمْ بڑا معنی خیز ہے کہ تم میں سے ایک ایسی امت وجود میں آنی چاہیے۔ گویا ایک تو بڑی امت ہے امت مسلمہ ‘ وہ تو ایک سو پچاس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ‘ جو خواب غفلت میں مدہوش ہیں ‘ اپنے منصب کو بھولے ہوئے ہیں ‘ دین سے دور ہیں۔ لہٰذا اس امت کے اندر ایک چھوٹی امت یعنی ایک جماعت وجود میں آئے جو جاگو اور جگاؤکا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ نے تمہیں جاگنے کی صلاحیت دے دی ہے ‘ اب اوروں کو جگاؤ اور اس کے لیے طاقت فراہم کرو ‘ ایک منظم جماعت بناؤ فرمایا کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ وہ بڑی امت جو کروڑوں افراد پر مشتمل ہے اور یہ کام نہیں کرتی وہ اگر فلاح اور نجات کی امید رکھتی ہے تو یہ ایک امید موہوم ہے۔ فلاح پانے والے صرف یہ لوگ ہوں گے جو تین کام کریں گے : ) ( دعوت الی الخیر ( ) امر بالمعروف ( ) نہی عن المنکر۔ میں نے منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مراحل و مدارج کے ضمن میں بھی یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے آخری اقدام بھی نہی عن المنکر بالیدہو گا۔ اس لیے کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہی عن المنکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ ) (١)- تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے زور بازو سے روک ‘ دے۔ پس اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے۔ پھر اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو دل میں برائی سے نفرت ضرور رکھے۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ‘ ہے۔- اگر دل میں نفرت بھی ختم ہوگئی ہے تو سمجھ لو کہ متاع ایمان رخصت ہوگئی ہے۔ بقول اقبال : ؂- وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا - کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا - ہاں ‘ دل میں نفرت ہے تو اگلا قدم اٹھاؤ۔ زبان سے کہنا شروع کرو کہ بھائی یہ چیز غلط ہے ‘ اللہ نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے ‘ یہ کام مت کرو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک طاقت بناتے جاؤ۔ ایک جماعت بناؤ ‘ قوت مجتمع کرو۔ جب وہ طاقت جمع ہوجائے تو پھر کھڑے ہوجاؤ کہ اب ہم یہ غلط کام نہیں کرنے دیں گے۔ پھر وہ ہوگا نہی عن المنکر بالید یعنی طاقت کے ساتھ برائی کو روک دینا۔ اور یہ ہوگا انقلاب کا آخری مرحلہ۔- تو ان تین آیات کے اندر عظیم ہدایت ہے ‘ انقلاب کا پورا لائحہ عمل موجود ہے ‘ بلکہ اسی میں منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو آخری اقدامی عمل ہے وہ بھی پوشیدہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani