103۔ 1 تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کردیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہیں پر قائم ہوسکتا اور رہ سکتا ہے۔ 103۔ 2 ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑجائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہوگیا۔
[٩٣] اللہ کی رسی سے مراد اللہ کا دین یا کتاب و سنت کے احکام ہیں اور اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ سے تعلق قائم رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط بناتا ہے اور کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں اختلاف، انتشار یا عداوت پیدا ہو۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی تمام تر توجہ دینی تعلیمات پر مرکوز رکھیں اور فروعی مسائل میں الجھ کر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے فرقہ بندیوں سے پرہیز کریں۔- [٩٤] یعنی جس وقت پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ کوئی حکومت یا عدالت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس کی طرف رجوع کیا جاسکتا۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا تھا جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتا، قبائلی حمیت، جسے قرآن نے حمیۃ جاہلیہ کا نام دیا ہے۔ اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے ؟ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ چونکہ ہمارے قبیلہ کے آدمی کو فلاں قبیلہ کے آدمی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے اس سے انتقام لینا ضروری ہے۔ پھر اس انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ جہاں کہیں کوئی جنگ چھڑی تو پھر وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ مکہ میں بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑائی شروع ہوئی جس میں نصف صدی لگ گئی۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے، کشتوں کے پشتے لگ گئے مگر لڑائی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔ تقریباً ایسی ہی صورت حال مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث کی تھی۔ عرب بھر کا ہوشمند طبقہ اس صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ مگر اس صورت حال سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ پھر یہ صورت حال مکہ اور مدینہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجائے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دولت اسلام سے سرفراز فرمایا۔ جس سے پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں۔ عداوت کے بجائے مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا ہوگئی اور وہ بالکل بھائیوں کی طرح بن گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو لڑائی کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اسی نعمت الفت و محبت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورة انفال میں فرمایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ :- اگر آپ دنیا بھر کی دولت خرچ کرکے ان میں ایسی محبت و الفت پیدا کرنا چاہتے تو نہ کرسکتے تھے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی (٨: ٦٣) اور یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جو صرف اسلام اور اللہ کی مہربانی سے انہیں نصیب ہوئی اور جسے ہر شخص بچشم خود دیکھ رہا تھا۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا۔۔ : مومنوں کو اہل کتاب کی اطاعت سے دور رہنے کی نصیحت فرما کر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے، جن کی پابندی سے انسان ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا جیسے ڈرنے کا حق ہے، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور جدا جدا نہ ہونا اور اللہ کی نعمت، یعنی دلوں میں الفت ڈالنے کو یاد رکھنا۔ - اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے، درحقیقت یہ ایک استعارہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پہاڑ کی بلندی سے کسی گہری کھائی میں گرپڑیں تو انھیں نکالنے کے لیے اوپر سے رسی پھینکی جاتی ہے۔ اب جو لوگ مل کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں وہ اس رسی کے ساتھ اوپر نکل آئیں گے اور دوسرے گڑھے ہی میں رہ جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے آسمان سے قرآن اتارا ہے، جس کے ساتھ وحی الٰہی، یعنی سنت رسول بھی اتاری ہے۔ مسلمان موجودہ فرقہ بندیوں سے بھی اسی صورت میں نجات پاسکتے ہیں کہ قرآن مجید کو لائحہ عمل قرار دیں اور ذاتی خیالات و آراء کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور مشائخ و ائمہ کے اقوال و فتاویٰ کو قرآن و سنت کا درجہ دے کر گروہ بندی اختیار نہ کریں۔ - اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً ۔۔ : اسلام سے پہلے اوس اور خزرج ہی نہیں بلکہ تمام عرب کفر و شرک اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے۔ اسی کو یہاں آگ کے گڑھے کے کنارے پر ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گرنے سے بچا لیا اور عداوت کے بجائے اخوت پیدا کردی۔ اگر اس عداوت کا اندازہ کرنا ہو تو سورة انفال (٦٢، ٦٣) کا مطالعہ کریں۔
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا دوسرا اصول باہمی اتفاق :- دوسری آیت واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ میں اس کو نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے وہ اصول اور گر بتلایا جو انسانوں کو باہمی مربوط اور متفق کرنے کا نسخہ اکسیر ہے، اس کے بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا، اس کے بعد آپس کے افتراق و انتشار سے منع فرمایا۔- تشریح اس کی یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں، کسی مذہب و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں، دنیا میں شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کو بذاتہ مفید اور بہتر جانتا ہوں، اس لئے دنیا کی ہر جماعت، ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہیں، لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں، گروہوں، پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے، پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا ہے کہ صحیح معنی میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے، وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں، اغراض پوری ہوجائیں، یا ان میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آتی ہے۔- غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ و ہر فرقہ اور ہر شخص لوگوں کو اپنے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے، اور جبکہ دوسرے لوگ خود اپنا بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اس لئے لازمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا نتیجہ ایک ہی جماعتوں اور افراد کا افتراق و انتشار نکلتا ہے، اور اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی - اس لئے قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلادیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے، کوئی عقلمند انسان اس سے اصولا انکار نہیں کرسکتا، اب اگر اختلاف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کے پہچاننے میں ہوسکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا ہے، یہودی نظام تورات کو، نصاری نظام انجیل کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواواجب التعمیل بتلاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتی ہیں۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور آبائی تقلید سے ذرا بلند ہو کر اپنی عقل خداداد سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہو کر اس کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیام قرآن کی صورت میں لائے ہیں، آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں، اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اور چونکہ خود حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے، اس لئے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف و تغییر کا بھی امکان نہیں، اس لئے سردست میں غیر مسلم جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے، اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختلافات ایک لحظہ میں ختم ہوسکتے ہین، جو انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر ہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے مضر بلکہ ایسا اختلاف رائے عقلاء کے درمیان رہنا فطری امر ہے، سو اس پر قابو پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں، بخلاف اس کے کہ قرآنی نظام سے آزاد ہو کر ہماری پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خلاف وجدال کا کوئی علاج نہیں رہتا، اور اسی اختلاف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہورہی ہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکسیر اس طرح بتلایا ہے : - واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ " یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو "- اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے، عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض۔ یعنی کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) زید بن ارقم کی روایت میں حبل اللہ ہوا القرآن کے الفاظ آئے ہیں۔ (ابن کثیر) محاورہ عربی میں حبل سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے، قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے، ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو، دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل کریں، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں، جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم وحد بن جاتی ہے، قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا ہے : ان الذین امنوا و عملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا (١٩: ٩٦) ۔ " یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں دوستی و محبت پیدا فرمادیتے ہیں "۔- پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط ریس کو پکڑ لیں، اور ہلاکت سے محفوظ رہیں، لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب ملکر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا، اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں۔- پوری مسلم قوم کا اتفاق صرف اسلام ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے نسبی اور وطنی وحدت سے یہ کام نہیں ہوسکتا : یہاں سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو، پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا، جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی، اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا، کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھتے جاتے، کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز اتحاد بنایا ہوا تھا کہ ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم، کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا، کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم، جیسے ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج وغیرہ۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت حبل اللہ قرآن کریم کو یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا، اور دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل اللہ سے وابستہ ہے، اور کافر دوسری قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں، خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (٦٤: ٣) کا یہی مطلب ہے، جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے، کیونکہ وہ وحدتیں عموما غیر اختیاری امور ہین، جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کرسکتا، جو کالا ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا، جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا، جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا، اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ میں ہوسکتی ہیں، ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا، اس لئے قرآن کریم نے مرکز وحدت حبل اللہ یعنی قرآن اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے، کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، گورا ہو یا کالا، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے، اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں، اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہو کر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں، اور اس کا اتباع کر کے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کر کے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرلے گا، یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرح آؤ، اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے، لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہوگئی، اب امت اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی، قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات درحقیقت امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے، اس لئے اعتصام بحبل اللہ کی وحدت اختیار کریں، جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔- الغرض اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں، دوسرے یہ کہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ اس نظام کو تھام لیں، تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولی میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔- مسلمانوں میں اتفاق کے ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا ولا تفرقوا باہم نااتفاقی نہ کرو، قرآن حکیم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرماتا ہے، چناچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ (٦: ١٥٤) اس آیت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین ہے، اور اپنی خواہشات کے زیر اثر خودساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت نااتفاقی کسی قوم کی ہلاکت کا سب سے پہلا اور آخری سبب ہے، اسی لئے قرآن حکیم نے بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت فرمائی ہے۔- ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔ (٦: ١٦) " یعنی جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں "۔ علاوہ ازیں انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایا کہ کس طرح وہ امتیں باہمی اختلاف و شقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہو کر دنیا و آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا ہوچکی ہیں۔- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے، اور تین چیزوں کو ناپسند، پسندیدہ چیزیں یہ ہیں :- اول یہ کہ تم عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو، اور نااتفاقی سے بچو۔ سوم یہ کہ اپنے حکام اور اولوا الامر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو۔ - اور وہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں۔ (١) بےضرورت قیل و قال اور بحث و مباحثہ (٢) بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا (٣) اضاعت مال۔ (ابن کثیر عن ابی ہریرہ) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے، جواب یہ ہے کہ ہر اختلاف مذموم نہیں ہے، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے کہ جس میں اپنی اہواء اور خواہشات کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے، لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے، اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا، صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ و جدل اور سب و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے، باہمی اتحاد کے ان دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد اس حالت کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے، قبائل کی باہمی عداوتیں، بات بات پر ان کی لڑائیاں اور شب و روز کے کشت وخون کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی، اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ چناچہ فرمایا گیا۔ واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا۔ " یعنی اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی، سو تم اس کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، سو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا " یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر اللہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے بھائی بھائی بنادیا، جس سے تمہارے دین و دنیا درست ہوگئے اور ایسی دوستی قائم ہوگئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوئے، اور یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔- واقعہ شان نزول میں شریر لوگوں نے جو اوس و خزرج کے قبیلوں کو پچھلی جنگ یاد دلا کر فساد برپا کرنا چاہا تھا آیت مذکور میں اس کا مکمل علاج ہوگیا، نتائج اور بذریعہ اسلام ان سے رہائی کا بیان فرمادیا۔- مسلمانوں کا باہمی اتحاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر موقوف ہے :- قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا، وہ یہ کہ دلوں کا مالک درحقیقت اللہ جل شانہ ہے، دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے، کسی جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور موددت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، معصیت و نافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم و اتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنالیں، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے کہ کذلک یبین اللہ لکم ایتہ لعلکم تھتدون " یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لئے حقائق واضح کر کے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم لوگ صحیح راہ پر رہو۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ٠ ۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ٠ ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ ١٠٣- عصم - العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] - ( ع ص م ) العصم - کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103]- حبل - الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين :- عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» .- والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة .- ( ج ب ل ) الحبل - ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ - تفریق - والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ،- ( ف ر ق ) الفرق - التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] . والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . - الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- شفا (کناره)- شَفَا البئر وغیرها : حرفه، ويضرب به المثل في القرب من الهلاك . قال تعالی: عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة 109] ، وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران 103] ، وأَشْفَى فلان علی الهلاك، أي : حصل علی شفاه، ومنه استعیر : ما بقي من کذا إلّا شَفاً أي : قلیل کشفا البئر . وتثنية شفا شَفَوَانِ ، وجمعه أَشْفَاءٌ ، ( ش ف و ) شفا۔ کنوئیں وغیرہ کے کنارہ کو کہتے ہیں ۔ یہ قرب ہلاکت کے لئے ضرب المثل ہے ۔ قرآن میں ہے : عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة 109] گرجانے والی کھائی کے کنارہ پر ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران 103] ( اور تم ) آگ کے گڑھے کے کنارے تک فلاں ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور ہر کہا جاتا ہے ما بقي من کذا إلّا شَفاً ۔۔ کہ فلاں چیز تھوڑی سی باقی رہ گئی ہے ( یہ چاند یا سورج کے غروب ہونے یا کسی کی موت کے وقت بولا جا تا ہے ) شفا کا تثنیہ شفوان اور جمع اشفاء آتی ہے ۔- حفر - قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران 103] ، أي : مکان محفور، ويقال لها : حَفِيرَة . والحَفَر : التراب الذي يخرج من الحفرة، نحو : نقض لما ينقض، والمِحْفَار والمِحْفَر والمِحْفَرَة : ما يحفر به، وسمّي حَافِر الفرس تشبيها لحفره في عدوه، وقوله عزّ وجل : أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحافِرَةِ [ النازعات 10] ، مثل لمن يردّ من حيث جاء، أي : أنحیا بعد أن نموت ؟. وقیل : الحافرة : الأرض التي جعلت قبورهم، ومعناه : أإنّا لمردودون ونحن في الحافرة ؟ أي : في القبور، وقوله : فِي الْحافِرَةِ علی هذا في موضع الحال . وقیل : رجع علی حافرته ورجع الشیخ إلى حافرته، أي : هرم، نحو قوله تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] ، وقولهم : ( النقد عند الحافرة) لما يباع نقدا، وأصله في الفرس إذا بيع، فيقال : لا يزول حافره أو ينقد ثمنه، والحَفْر : تأكّل الأسنان، وقد حَفَرَ فوه حَفْراً ، وأَحْفَرَ المهر للإثناء والإرباع - ( ح ف ر ) الحفر۔ وہ مٹی جو گڑھے سے نکالی جاتی ہے ( یہ اسم مفعول کے معنی میں ہے ) جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے ۔ الحفرۃ والحفیرۃ گڑھا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے ۔ المحفار والمحفر والمحفرۃ بیلچہ وغیرہ جس سے گڑھا کھودا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر گھوڑے کے سم کو حافر کہاجاتا ہے کیونکہ وہ درڑتے دقت اپنے سم سے مٹی اڑاتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحافِرَةِ [ النازعات 10] کیا ہم الٹے پاؤں پھر لوٹیں گے ۔ میں مردود فی الحافرۃ ۔ ایک مثل ہے اور یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو جد ھر سے آئے اسی طرف لوٹا دیا جائے ان کا مطلب یہ تھا ک ہم مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں گے ۔ بعض نے کہا ہے ک حافرۃ سے مراد وہ زمین ہے جس میں ان کی قبریں بنائی گئی تھیں اور حافرۃ یہاں موضع حال میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ کیا ہم لوٹائے جائیں گے اس حال میں کہ قبروں میں ہوں گے ۔ محاورہ ہے ۔ رجع علی حافرتہ اور جع الشیخ الی حافرتہ یعنی بوڑھا ہوگیا ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] آیا ہے ۔ اور جو چیز لقدر فروخت کی جائے اس کے متعلق عرب لوگ کہتے ہیں ( مثل ) النقد عند الحافرۃ ۔ اور اصل میں یہ گھوڑے کی بیع کے متعلق بولا جاتا ہے ۔ جیسے ؛ لا یذول حافرہ او ینقد ثمنہ کی اس کا سم یہاں سے جدا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی قیمت نقداد ادا نہ کی جائے ۔ الحفر تاکل الاسنان دانتوں کی زردی ان کو کھا جاتی ہے ۔ حفر فوہ حفرا اس کے دانت خراب ہوگئے احفر المھر ۔ بچھڑے کے ثنائی یا رباعی دانت گرگئے - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - نقذ - الإِنْقَاذُ : التَّخْلِيصُ من وَرْطَةٍ. قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها - [ آل عمران 103] والنَّقْذُ : ما أَنْقَذْتَهُ ، وفَرَسٌ نَقِيذٌ: مأخوذٌ من قومٍ آخرین كأنه أُنْقِذَ منهم، وجمْعُه نَقَائِذُ.- ( ن ق ذ) الانقاذ کسی خطرہ یا ہلاکت سے خلاصی دینا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها[ آل عمران 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا ۔ النقذ بمعنی چھڑا یا ہوا فر س نقیذ دشمن کے ہاتھ سے چھینا ہوا گھوڑا گویا وہ ان سے بچایا گیا ہے نقا ئذ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
قول باری ہے (اعتصموابحبل اللہ جمیعاولا تفر قوا، تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہاں، حبل اللہ، کے معنی کے متعلق روایت ہے اس سے مراد قرآن ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د، قتادہ اور سدی سے بھی روایت ہے ایک قول ہے کہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے، ایک قول ہے کہ اس سے مراد عہدالٰہی ہے، اس لیے کہ یہ اسی طرح نجات کا ذریعہ ہے جس طرح رسی دوبنے وغیرہ سے نجات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔- امان کو بھی حبل کا نام دیاجاتا ہے اس لیے کہ وہ نجات کا سبب ہوتا ہے۔ یہ مفہوم اس قول باری کا ہے (الا بحبل من اللہ وحبل من الناس، سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے یا لوگوں کی طرف سے امان ہو) یہاں حبل سے مراد امان ہے۔- البتہ قول باری (واعتصموابحبل اللہ جمیعا) میں اجتماع اور اتفاق کا حکم اور تفرقہ کی نہی ہے۔ اس مفہوم کو اپنے اس قول (ولاتفرقوا) سے اور موکد کردیا ہے۔ جس کے معنی دین کے راستے سے بکھر جانے اور ہٹ جانے کے ہیں۔ جبکہ اس کے لزوم اور اس پر اکٹھا ہوجانے کا تمام لوگوں کو حکم دیا گیا ہے حضرت عبداللہ اور قتادہ سے اسی قس کی روایت ہے۔ حسن کے قول میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑکرنہ چلے جاؤ۔- اس آیت سے دوقسم کے لوگوں نے استدلال کیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو نئے پیدا ہونے والے مسائل کے احکام میں قیاس اور اجتہاد کی نفی کرتا ہے۔ مثلا نظام اور اس جیسے دوسرے روافض۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو قیاس اور اجتہاد کا توقائل ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کرنے والوں کے اقوال میں حق صرف ایک قول ہوتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک اجتہادی مسئلے میں جس کا قول حق کے مطابق نہیں ہوتا وہ خطاکارہوتا ہے۔ اس گردہ کی دلیل یہ ہے کہ قول باری (ولا تفرقوا) اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تفرقہ اور اختلاف اللہ کا دین بن جائے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع بھی فرمایا ہے۔- اصول دین میں اختلاف کی ممانعت ہے فروع دین میں نہیں - ہمارے نزدیک بات ایسی نہیں ہے۔ جو انہوں نے بیان کی ہے۔ اس لیے کہ اصل کے اعتبار سے احکام شرع کچھ اس طرح ہیں کہ ان میں سے بعض میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ وہ احکام ہیں جن کی ہر حالت میں مانعت یا ایجاب پر عقل دلالت کرتی ہے اور بعض ایسے ہیں جن میں اس کا جواز اور اس کی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ کبھی واجب ہوجائیں کبھی ممنوع اور کبھی مباح۔ ایسے احکام میں اختلاف کی گنجائش ہے اور انہیں بجالانادرست ہوتا ہے۔ مثلا نماز، روزے میں طاہر اور حائضہ کا حکم ، مقیم اور مسافرکاقصر اوراتمام کے سلسلے میں حکم، یا اسی طرح کے اور احکام۔- اب اس حیثیت سے کہ ان مسائل میں لوگوں کو ملنے والے احکام کے اختلاف کی وجہ نص ک اورود ہے۔ جس کے تحت بعض لوگ ایسے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہیں جو بعض دوسروں کے احکامات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں تو ایسے مسائل میں اجتہاد کی گنجائش اور جواز مین کوئی امتناع نہیں۔ جن میں نص کے ورودکاجوازوجہ اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ہر قسم کا اختلاف قابل مذمت ہوتاتو پھر یہ ضروری ہوتا کہ احکام شرع میں نص اور توقیف کی راہ سے اختلاف کادورد جائز ہی نہ ہوتا۔ اب جو اختلاف نص میں جائز ہے وہی اجتہاد میں بھی جائز ہے۔- بعض دفعہ دوعالم بیویوں کے نان ونفقہ تلف ہوجانے والی اشیاء کی قیمتوں کے تعین اور فوجداری جرائم میں جرمانوں اور دیتوں کے تخمینہ لگانے میں اپنے اپنے اجتہاد میں ایک دوسرے سے مختلف الرائے ہوجاتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی قابل ملامت یامذمت نہیں ہوتا۔- دراصل اجتہادی مسائل کا یہی طریق کا رہے اگر اس قسم کا اختلاف قابل مذمت ہوتا تو پھر صحابہ کرام کا حصہ اس میں س ب سے بڑھ کرہوتا اس لیے کہ بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کے متعلق ہم ان کی آراء میں اختلاف پاتے ہیں لیکن اس کے باجودان کے آپس کے تعلقات میں کوئی بگاڑپیدا نہیں ہوتا۔ ہر صحابی اپنے رفیق کے اختلاف رائے کے برداشت کرتے اور اس کی کوئی معذرت نہیں کرتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح گویا اس قسم کے اختلاف کے جواز اور اس کی گنجائش پر صحابہ کرام کا ایک طرح کا اتفاق اور اجماع ہوچکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے اجماع کی صحت اور اس کے بطورحجت ثبوت پر اپنی کتاب میں کئی مواقع پر حکم جاری کردیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اختلاف) امتی رحمۃ، میری امت کا اختلاف رائے ہونا ایک رحمت ہے) نیز فرمایا (لاتجتمع امتی علی ضلال گمراہی پر میری امت کا اجتماع نہیں ہوسکتا) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قول (ولاتفرقوا) کے ذریعے اس قسم کے اختلاف سے منع نہیں فرمایا ہے۔ بلکہ نہی کا رخ ود میں سے ایک بات کی طرف ہے یا تو منصوص احکامات میں اختلاف کی طرف یا ایسے مسائل میں جن کے ثبوت یاعدم ثبوت کے متعلق کوئی عقلی یاسمعی دلیل قائم ہوچکی ہو جس میں صرف اور صرف ایک ہی معنی کا احتمال ہو۔- آیت کے مضمون میں یہ بات موجود ہے کہ اس سے مراد اصول دین میں تفرقہ اور اختلاف ہے فروع دین میں نہیں ، اور نہ ہی اس میں جس کے اندراختلاف کرتے ہوئے بھی تعبد اورفرماں برداری بجالانے کا جوازموجود ہو۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (واذکروانعمۃ اللہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم، اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروجب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا) یعنی اسلام کے ذریعے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے۔ قابل مذمت اختلاف جس سے آیت میں روکا گیا ہے۔ وہ اختلاف اور تفرقہ ہے جو اصول وین واسلام میں کیا جائے ۔ وہ اختلاف مراد نہیں جو فروع دین میں ہو۔ واللہ اعلم۔
(١٠٣) اور دین الہی اور کتاب خداوندی (قرآن) کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اسلام کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جاہلیت میں تم کس طرح باہم دشمن تھے پھر دین اسلام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔- اور بوجہ کفر کے تم لوگ دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے، اس دوزخ سے تمہیں بذریعہ ایمان نجات عطا کی، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے اوامرو نواہی اور اپنے احسانات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو۔
آیت ١٠٣ (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص) ۔- یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت ١٠١ ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے : (وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے چمٹ جائے (اللہ کی حفاظت میں آجائے) اس کو تو ہدایت ہوگئی صراط مستقیم کی طرف۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے : (وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ ) اور اللہ سے چمٹ جاؤ اب اللہ کی حفاظت میں کیسے آیا جائے ؟ اللہ سے کیسے چمٹیں ؟ اس کے لیے فرمایا : (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ ) کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور یہ اللہ کی رسّی کونسی ہے ؟ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن ہے۔ ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو ‘ اور دوسری طرف اس میں علم آنا چاہیے ‘ قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے ‘ قرآن کے نظریات کو سمجھنا چاہیے ‘ قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی طرح نہیں ہوسکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے کر سب کو ہانک رہا ہے۔ انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں گے ‘ ان کی سوچ ایک بنانی ہوگی۔ یہ حیوان عاقل ہیں ‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک ہو ‘ نظریات ایک ہوں ‘ مقاصد ایک ہوں ‘ ہم آہنگی ہو ‘ نقطۂ ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع ہوں گے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جو ان میں یک رنگئ خیال ‘ یک رنگئ نظر ‘ یک جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے ‘ اور وہ قرآن ہے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ - حضرت علی (رض) سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں : (وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ) (١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کِتَاب اللّٰہِ ‘ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ) (٢) اللہ کی کتاب (کو تھامے رکھنا) ‘ یہی وہ مضبوط رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا : (اَبْشِرُوْا اَبْشِرُوْا ۔۔ فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ‘ طَرْفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرْفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ ) (٣) خوش ہوجاؤ ‘ خوشیاں مناؤ۔۔ یہ قرآن ایک واسطہ ہے ‘ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ چناچہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و سرچشمہ اور مبنیٰ و مدار قرآن ہے۔ اس کا عنوان ہی دعوت رجوع الی القرآن ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی الحمد للہ اسی کام میں کھپائی ہے اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ایک سالہ رجوع الی القرآن کو رس برسہا برس سے جاری ہے۔ اس کو رس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں ‘ جو ایم اے؍ایم ایس سی ہوتے ہیں ‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں ‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہوگی تو پھر آپ دین کے اس رخ پر آگے چلیں گے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ اللہ کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ - (وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً ) (فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ ) (فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ج) - یہاں اوّلین مخاطب انصار ہیں۔ ان کے جو دو قبیلے تھے اوس اور خزرج وہ آپس میں لڑتے آ رہے تھے۔ سو برس سے خاندانی دشمنیاں چلی آرہی تھیں اور قتل کے بعد قتل کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن جب ایمان آگیا ‘ اسلام آگیا ‘ اللہ کی کتاب آگئی ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے تو اب وہ شیر و شکر ہوگئے ‘ ان کے جھگڑے ختم ہوگئے۔ اسی طرح پورے عرب کے اندر غارت گری ہوتی تھی ‘ لیکن اب اللہ نے اسے دارالامن بنا دیا۔- (وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ) (فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا ط) (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ ) - اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل کے یہ دو نکتے بیان ہوگئے۔ سب سے پہلے افراد کے کردار کی تعمیر ‘ انہیں تقویٰ اور فرمانبرداری جیسے اوصاف سے متصف کرنا ۔۔ اور پھر ان کو ایک جمعیت ‘ تنظیم یا جماعت کی صورت میں منظم کرنا ‘ اور اس تنظیم کا معنوی محور قرآن مجید ہونا چاہیے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ بقول علامہ اقبال : عاعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست اس کو مضبوطی سے تھامو کہ یہ حبل اللہ ہے اس جماعت سازی کا فطری طریقہ بھی ہم اسی سورت کی آیت ٥٢ کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ داعی بن کر کھڑا ہو اور (مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ) کی آواز لگائے کہ میں تو اس راستے پر چل رہا ہوں ‘ اب کون ہے جو میرے ساتھ اس راستے پر آتا ہے اور اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے ؟ ایسی جمعیت جب وجود میں آئے گی تو وہ کیا کرے گی ؟ اس ضمن میں یہ تیسری آیت اہم ترین ہے :
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :83 اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے ۔ اس رسی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو ، اسی سے ان کو دلچسپی ہو ، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں ، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :84 یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے ۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں ، اور شب و روز کے کشت و خون ، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی ۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی ۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے ، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے ، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے ، اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتاؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :85 یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اسے چھوڑ کر پھر اسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالت سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟