اللہ تعالیٰ کی رسی قرآن حکیم ہے اللہ تعالیٰ سے پورا پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کی یاد نہ بھلائی جائے اس کا شکر کیا جائے کفر نہ کیا جائے ، بعض روایتوں میں یہ تفسیر مرفوع بھی مروی ہے لیکن ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے واللہ اعلم ۔ حضرت انس کا فرمان ہے کہ انسان اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حق نہیں بجا لا سکتا جب تک اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے ، اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت ( فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 64 ۔ التغابن:16 ) کی آیت سے منسوخ ہے اس دوسری آیت میں فرما دیا ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس سے ڈرتے رہا کرو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہو اس کے کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال نہ کرو عدل پر جم جاؤ یہاں تک کہ خود اپنے نفس پر عدل کے احکام جاری کرو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد کے بارے میں بھی عدل و انصاف برتا کرو ۔ پھر فرمایا کہ اسلام پر ہی مرنا یعنی تمام زندگی اس پر قائم رہنا تاکہ موت بھی اسی پر آئے ، اس رب کریم کا اصول یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی جیسی رکھے ویسی ہی اسے موت آتی ہے اور جیسی موت مرے اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جاتا ہے واللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کی ناپسند موت سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے اور حضرت ابن عباس بھی وہاں تھے ان کے ہاتھ میں لکڑی تھی بیان فرمانے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں گرا دیا جائے تو دنیا والوں کی ہر کھانے والی چیز خراب ہو جائے کوئی چیز کھا پی نہ سکیں پھر خیال کرو کہ ان جہنمیوں کا کیا حال ہو گا جن کا کھانا پینا ہی یہ زقوم ہو گا اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص جہنم سے الگ ہوتا اور جنت میں جانا چاہتا ہو اسے چاہئے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جسے وہ خود اپنے لئے چاہتا ہو ( مسند احمد ) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ کے انتقال کے تین روز پہلے سنا کہ دیکھو موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھنا ( مسلم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھے میں اس کے گمان کے پاس ہی ہوں اگر اس کا میرے ساتھ حسن ظن ہے تو میں اس کے ساتھ اچھائی کروں گا اور اگر وہ میرے ساتھ بدگمانی کرے گا تو میں اس سے اسی طرح پیش آؤں گا ( مسند احمد ) اس حدیث کا اگلا حصہ بخاری مسلم میں بھی ہے ، مسند بزار میں ہے کہ ایک بیمار انصاری کی بیمار پرسی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور سلام کر کے فرمانے لگے کہ کیسے مزاج ہیں؟ اس نے کہا الحمد للہ اچھا ہوں رب کی رحمت کا امیدوار ہوں اور اس نے عذابوں سے ڈر رہا ہوں ، آپ نے فرمایا سنو ایسے وقت جس دل میں خوف و طمع دونوں ہوں اللہ اس کی امید کی چیز اسے دیتا ہے اور ڈر خوف کی چیز سے بچاتا ہے ، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور کہا کہ میں کھڑے کھڑے ہی کروں ، اس کا مطلب امام نسائی نے تو سنن نسائی میں باب باندھ کر یہ بیان کیا ہے کہ سجدے میں اس طرح جان چاہئے ، اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ میں مسلمان ہوئے بغیر نہ مروں ، اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ جہاد پیٹھ دکھاتا ہوا نہ مارا جاؤں ۔ پھر فرمایا باہم اتفاق رکھو اختلاف سے بچو ۔ حبل اللہ سے مراد عہد الہ ہے ، جیسے الا یحبل من اللہ الخ ، میں حبل سے مراد قرآن ہے ، ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن اللہ کریم کی مضبوطی رسی ہے اور اس کی سیدھی راہ ہے ، اور روایت میں ہے کہ کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی ہوئی رسی ہے ، اور حدیث میں ہے کہ یہ قرآن اللہ سبحانہ کی مضبوط رسی ہے یہ ظاہر نور ہے ، یہ سراسر شفا دینے والا اور نفع بخش ہے اس پر عمل کرنے والے کے لئے یہ بچاؤ ہے اس کی تابعداری کرنے والے کے لئے یہ نجات ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ان راستوں میں تو شیاطین چل پھر رہے ہیں تم اللہ کے راستے پر آجاؤ تم اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو وہ رسی قرآن کریم ہے ۔ اختلاف نہ کرو پھوٹ نہ ڈالو جدائی نہ کرو ، علیحدگی سے بچو ، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو ، تفرقہ نہ ڈالو ، تیسرے مسلمان بادشاہوں کی خیر خواہی کرو ، فضول بکواس ، زیادتی سوال اور بربادی مال یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں ، بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نااتفاقی سے ڈرایا بھی ہے ، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہو گئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہو گا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے ۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی ، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہو گئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالیٰ کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو گئے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ۭهُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ 62ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ ) 8 ۔ الانفال:62 ) وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ اپنا دوسرا احسان ذکر کرتا ہے کہ تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے اور تمہارا کفر تمہیں اس میں دھکیل دیتا لیکن ہم نے تمہیں اسلام کی توفیق عطا فرما کر اس سے بھی الگ کر لیا ، حنین کی فتح کے بعد جب مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے مصلحت دینی کے مطابق حضور علیہ السلام نے بعض لوگوں کو زیادہ مال دیا تو کسی شخص نے کچھ ایسے ہی نامناسب الفاظ زبان سے نکال دئیے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت انصار کو جمع کر کے ایک خطبہ پڑھا اس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اے جماعت انصار کیا تم گمراہ نہ تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی؟ کیا تم متفرق نہ تھے پھر رب دو عالم نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی کیا تم فقیر نہ تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے غنی کر دیا ؟ ہر ہر سوال کے جواب میں یہ پاکباز ، جماعت یہ اللہ والا گروہ کہتا جاتا تھا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان اور بھی بہت سے ہیں اور بہت بڑے بڑے ہیں ، حضرت محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب اوس و خزرج جیسے صدیوں کے آپس کے دشنوں کو یوں بھائی بھائی بنا ہوا دیکھا تو یہودیوں کی آنکھوں میں کانٹا کھٹکنے لگا انہوں نے آدمی مقرر کئے کہ وہ ان کی محفلوں اور مجلس میں جایا کریں اور اگلی لڑائیاں اور پرانی عداوتیں انہیں یاد دلائیں ان کے مقتولوں کی یاد تازہ کرائیں اور اس طرح انہیں بھڑکائیں ۔ چنانچہ ان کا یہ داؤ ایک مرتبہ چل بھی گیا اور دونوں قبیلوں میں پرانی آگ بھڑک اٹھی یہاں تک کہ تلواریں کھچ گئیں ٹھیک دو جماعتیں ہوگئیں اور وہی جاہلیت کے نعرے لگنے لگے ہتھیار سجنے لگے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اور یہ ٹھہر گیا کہ حرہ کے میدان میں جا کر ان سے دل کھول کر لڑیں اور مردانگی کے جوہر دکھائیں پیاسی زمین کو اپنے خون سے سیراب کریں لیکن حضور علیہ السلام کو پتہ چل گیا آپ فوراً موقع پر تشریف لائے اور دونوں گروہ کو ٹھکڈا کیا اور فرمانے لگے پھر جاہلیت کے نعرے تم لگانے لگے میری موجودگی میں ہی تم نے پھر جنگ وجدال شروع کر دیا ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی سب نادم ہوئے اور اپنی دو گھڑی پہلے کی حرکت پر افسوس کرنے لگے اور آپس میں نئے سرے سے معانقہ مصافحہ کیا اور پھر بھائیوں کی طرح گلے مل گئے ہتھیار ڈال دئیے اور صلح صفائی ہو گئی ، حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر منافقوں نے تہمت لگائی تھی اور آپ کی برات نازل ہوئی تھی تب ایک دوسرے کے مقابلہ میں تن گئے تھے ، فاللہ اعلم
102۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ کرام پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرما دی اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو جس طرح اپنی طاقت سے ڈرنے کا حق ہے (فتح القدیر)
[٩٢] اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان پر کسی وقت بھی کوئی ایسا لمحہ نہ آنا چاہئے۔ جب کہ وہ اللہ کے خوف سے غافل ہو کیونکہ موت کے وقت کا کسی کو علم نہیں اور اللہ سے ڈرنے کا ایسا ہی حق ہونا چاہئے کہ جن جن اوامر کا اس نے حکم دیا ہے اور جن نواہی سے روکا ہے۔ انہیں ٹھیک ٹھیک اور بروقت بجا لانا چاہئے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دنیوی دھندوں میں مشغول رہ کر اتنی احتیاط ملحوظ رکھنا بسا اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رض) بہت گھبرائے اور عرض کیا کہ اس قدر احتیاط کس سے ممکن ہے۔ اس وقت سورة تغابن کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ( فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ 16) 64 ۔ التغابن :16) یعنی ممکنہ حد تک اللہ سے ڈرتے رہو۔
اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ ۔۔ : عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس آیت کی تفسیر یوں مروی ہے : ” اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد رکھا جائے بھلایا نہ جائے، اس کا شکر ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے۔ “ [ ابن أبی حاتم : ٣؍١١٢۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٢٣، ح : ٣١٥٩ ] ابن کثیر (رض) نے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ مراد حسب استطاعت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْت ) [ التغابن : ١٦ ] ” سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو۔ “ - وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ : چونکہ موت کا علم ہی نہیں کب آجائے، اس لیے موت آنے تک ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اسی طرح ڈرتے رہو۔
ربط آیات :- سابقہ آیات میں مسلمانوں کو اس پر تنبیہ کی گئی تھی کہ اہل کتاب اور دوسرے لوگ جو تمہیں گمراہی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ان کی گمراہی سے باخبر رہ کر بچنے کا اہتمام کریں، مذکورہ دو آیتوں میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو مضبوط، ناقابل تسخیر بنانے کے دو اہم اصول بتلائے گئے ہیں۔- اول تقوی، دوسرے باہمی اتفاق و اتحاد، اور تفرق و اختلاف سے بچنا۔- خلاصہ تفسیر :- اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے (ایسا) ڈرا کرو ( جیسا) ڈرنے کا حق ہے (کامل ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شرک و کفر سے بچتے ہو اسی طرح تمام گناہوں سے بھی بچا کرو اور بلا وجہ شرعی لڑنا معصیت ہے تو اس سے بھی بچنا فرض ہے) اور بجز اسلام (کامل) کے ( جس کا حاصل وہی ہے جو کامل ڈرنے کا حق تھا) اور کسی حالت پر جان نہ دینا (یعنی اسی کامل تقوی اور کامل اسلام پر تادم مرگ قائم رہنا) اور مضبوط پکڑے رہو، اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو (یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کو جس میں اصول و فروع سب آگئے) اس طور پر کہ باہم سب متفق بھی رہو (جس کی اسی دین میں تعلیم بھی ہے) اور باہم نااتفاقی مت کرو ( جس کی اسی دین میں ممانعت بھی ہے) اور تم پر جو اللہ تعالیٰ کا انعام (ہوا) ہے اس کو یاد کرو جبکہ تم کم (باہم) دشمن تھے (یعنی قبل اسلام کے، چناچہ اوس و خزرج کے دو قبیلوں میں طویل مدت سے جنگ چلی آتی تھی، اور عام طور پر اکثر عرب کے لوگوں کی یہی حالت تھی) پس اللہ تعالیٰ نے (اب) تمہارے قلوب میں (ایک دوسرے کی) الفت ڈال دی، سو تم اللہ تعالیٰ کے (اس) انعام (تالیف قلوب) سے (اب) آپس میں بھائی بھائی (کی طرح) ہوگئے اور (ایک انعام جو کہ انعام مذکورہ کی بھی اصل ہے یہ فرمایا کہ) تم لوگ (بالکل) دوزخ کے گڑھے کے کنارے (ہی) پر کھڑے تھے (یعنی بوجہ کافر ہونے کے دوزخ سے اتنے قریب تھے کہ بس دوزخ میں جانے کے لئے صرف مرنے کی دیر تھی) سو اس (گڑھے) سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری جان بچائی (یعنی اسلام نصیب کیا جس نے جہنم سے نجات دلائی، تو اب تم ان انعاموں کی قدر پہچانو اور آپس کے جدال و قتال سے جو کہ معصیت ہے اللہ کی ان نعمتوں کو زائل نہ کرو، کیونہ باہمی جنگ وجدال سے پہلا انعام سب کے قلوب کا باہم مربوط اور مانوس ہونا تو خود ہی زائل ہوجائے گا، اور دوسرا انعام یعنی دین اسلام بھی اس سے مختل اور کمزور ہوجائے گا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ احکام واضح طور پر بیان فرمائے ہیں) اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اپنے (اور) احکام (بھی) بیان کر کے بتلاتے ہیں تاکہ تم لوگ راہ (راست) پر قائم رہو۔ - معارف و مسائل : - مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے دو اصول، تقوی اور باہمی اتفاق : - مذکورہ بالا دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں پہلا اصول اور دوسری میں دوسرا بتلایا گیا ہے، پہلا اصول جو مذکورہ آیت نے بتلایا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے یعنی اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے بچنے کا مکمل اہتمام جو اللہ تعالیٰ کے حق کے مطابق ہو۔ - لفظ تقوی اصل عربی زبان میں بچنے اور اجتناب کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کا ترجمہ ڈرنا بھی اس مناسبت سے کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ڈرنے ہی کی چیزیں ہوتی ہیں، تاکہ ان سے عذاب الہی کا خطرہ ہے، وہ ڈرنے کی چیز تقوی کے کئی درجات ہیں، ادنی درجہ کفر و شرک سے بچنا ہے، اس معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان کو متقی کہا جاسکتا ہے، اگرچہ گناہوں میں مبتلا ہو، اس معنی کے لئے بھی قرآن میں کئی جگہ لفظ متقین اور تقوی استعمال ہوا ہے۔ دوسرا درجہ جو اصل میں مطلوب ہے وہ ہے اس چیز سے بچنا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ نہیں، تقوی کے فضائل و برکات جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ اسی درجہ پر موعود ہیں۔- تیسرا درجہ تقوی کا اعلی مقام ہے جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے خاص نائیبین اولیاء اللہ کو نصیب ہوتا ہے کہ اپنے قلب کو ہر غیر اللہ سے بچانا اور اللہ کی یاد اور اس کی رضا جوئی سے معمور رکھنا، مذکورہ آیت میں اتقوا اللہ کے بعد حق تقاتہ کا کلمہ بڑھا دیا گیا ہے کہ تقوی کا وہ درجہ حاصل کرو جو حق ہے تقوی کا۔- حق تقوی کیا ہے ؟ اس کی تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ربیع اور قتادہ اور حسن بصری (رض) نے یہ فرمائی ہے جو مرفوعا خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے :- " حق تقاتہ ھو ان یطاع فلا یعصی و یذکر فلا ینسی ویشکر فلا یکفر " (بحر محیط) حق تقوی یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت ہر کام میں کی جائے کوئی کام اطاعت کے خلاف نہ ہو اور اس کو ہمیشہ یاد رکھیں کبھی بھولیں نہیں اور اس کا شکر ہمیشہ ادا کریں کبھی ناشکری نہ کریں۔ اسی مفہوم کو ائمہ تفسیر نے دوسرے عنوانات سے بھی ادا کیا ہے، مثلا بعض نے فرمایا کہ حق تقوی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی کی ملامت اور برائی کی پروا نہ کرے اور ہمیشہ انصاف پر قائم رہے، اگرچہ انصاف کرنے میں خود اپنے نفس یا اپنی اولاد یا ماں باپ ہی کا نقصان ہوتا ہو، اور بعض نے فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک حق تقوی ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے۔- اور قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں جو اتقوا اللہ ما استطعتم ہے یعنی اللہ سے ڈرو جتنا تمہاری قدرت میں ہے تو حضرت ابن عباس (رض) اور طاؤس (رح) نے فرمایا کہ یہ درحقیقت حق تقاتہ کی ہی تفسیر و تشریح ہے اور مطلب یہ ہے کہ معاصی اور گناہوں سے بچنے میں اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کردے تو حق تقوی ادا ہوگیا، اگر کوئی شخص اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے بعد کسی ناجائز میں مبتلا ہو ہی گیا تو وہ حقوق تقوی کے خلاف نہیں۔- اگلے جملے میں جو ارشاد فرمایا فلا تموتن الا وانتم مسلمون، اس سے معلوم ہوا کہ تقوی درحقیقت پورا اسلام ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت اور اس کی نافرمانی میں حکم یہ ہے کہ تمہاری موت اسلام ہی پر آنی چاہیے اسلام کے سوا کسی حال پر موت نہ آتی چاہیے۔- تو یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ موت تو آدمی کے اختیار میں نہیں کسی وقت کسی حال میں آسکتی ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کما تحیون تموتون وکما تموتون تحشرون، یعنی جس حالت پر تم اپنی زندگی گزار دو اسی پر موت آئے گی، اور جس حالت میں موت آئے گی اسی حالت میں حشر میں کھڑے کئے جاؤ گے۔ تو جو شخص اپنی پوری زندگی اسلام پر گزارنے کا پختہ عزم رکھتا ہے اور زندگی بھر اس پر عمل کرتا ہے اس کی موت انشاء اللہ اسلام ہی پر آئے گی، بعض روایات حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ بعض آدمی ایسے بھی ہوں گے کہ ساری عمر اعمال صالحہ کرتے ہوئے گزر گئی، آخر میں کوئی ایسا کام کر بیٹھے جس سے سارے اعمال حبط و برباد ہوگئے، یہ ایسے ہی لوگوں کو پیش آسکتا ہے جن کے عمل میں اول اخلاص اور پختگی نہیں تھی۔ واللہ اعلم
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔
تقوی کی حد - قول باری ہے (یایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ، اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے) حضرت عبداللہ (رض) ، حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ (حق تقاتہ) کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ادرنافرمانی نہ کی جائے اس کا شکراداکیاجائے اور ناشکری نہ کی جائے اسے یادکیاجائے اور بھلایانہ جائے۔ ایک قول میں اس کے معنی یہ بیان کیئے گئے ہیں کہ تمام گناہوں اور نافرنیوں سے پرہیز کیا جائے، اس آیت کے منسوخ ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) اور طاؤس سے مروی ہے کہ یہ محکم ہے منسوخ نہیں ہوئی۔ قتادہ ربیع بن انس اور سدی سے مروی ہے کہ یہ قول باری (فاتقوا اللہ مااستطعتم، جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو) سے منسوخ ہوچکی ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ اسے منسوخ قراردینا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے معنی تمام معاصی سے بچنے کے ہیں ۔ اور ظاہ رہے کہ جملہ مکلفین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام معاصی سے بچیں۔ اگر یہ آیت منسوخ ہوجاتی تو اس سے بعض معاصی کی اباحت ہوجاتی ہے اور یہ بات جائز نہیں ہے۔- ایک اور قول ہے کہ بایں معنی اس کا منسوخ قراردیاجانا درست ہوسکتا ہے کہ قول باری (حق تقاتہ) کا مفہوم خوف اور امن کی حالت میں اللہ کے حقوق کو پوراکرنا اور ان حقوق کے سلسلے میں اپنی جان کی فکرنہ کرنا لیاجائے۔ پھر اپنی جان بچانے کی فکر اور اکراہ کی صورت میں اسے منسوخ قراردیاجائے اس صورت میں قول باری (مااستطعتم) کا مفہوم یہ ہوگا کہ ایسی باتوں میں جن کی وجہ سے تمہیں اپنی جان کا خطرہ نہ ہو۔ یعنی جس میں مار پٹائی اور قتل کا احتمال نہ ہو۔ اس لیے کہ کبھی استطاعت کی نفی کا اطلاق ان باتوں پر بھی ہوتا ہے۔ جن کا کرنا انسان کے لیے بڑی مشقت کا باعث بن جاتا ہے۔ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا (وکانوالایستطیعون سمعا، اور وہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے) یہاں ان پر اس کی مشقت مراد ہے۔- حبل اللہ کیا ہے ؟
(١٠٢) اللہ تعالیٰ کی اس طرح اطاعت کرو کہ پھر اس کی نافرمانی نہ ہو اور ایسا شکر کرو کہ پھر کبھی اس کی ناشکری نہ ہو اور اس طرح یاد کرو کہ کبھی اس سے غافل نہ ہو، عبادت اور توحید کے اقرار کے بعد اسی پر خلوص کے ساتھ جمے رہو۔
اب سورة آل عمران کا نصف ثانی شروع ہو رہا ہے ‘ جس کا پہلا حصہ دو رکوعوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے یہ مشابہت بھی نوٹ کرلی ہوگی کہ سورة البقرۃ کے نصفِ اوّل میں بھی ایک مرتبہ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا) سے خطاب تھا : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط) اسی طرح سورة آل عمران کے نصفِ اوّل میں بھی ایک آیت اوپر آچکی ہے : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ ) لیکن مسلمانوں سے اصل خطاب گیارہویں رکوع سے شروع ہو رہا ہے اور یہاں پر اصل میں امت کو ایک سہ نکاتی لائحہ عمل دیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امت اب قیامت تک قائم رہنے والی ہے ‘ اور اس میں زوال بھی آئے گا اور اللہ تعالیٰ اولوالعزم اور باہمت لوگوں کو بھی پیدا کرے گا ‘ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مجددین امت ہر صدی کے اندر اٹھتے رہے۔ لیکن جب بھی تجدید دین کا کوئی کام ہو ‘ دین کو ازسر نو تروتازہ کرنے کی کوشش ہو ‘ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد ہو تو اس کا ایک لائحہ عمل ہوگا۔ وہ لائحہ عمل سورة آل عمران کی ان تین آیات (١٠٢ ‘ ١٠٣ ‘ ١٠٤) میں نہایت جامعیت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ یہ بھی تین آیات ہیں جیسے سورة العصر کی تین آیات ہیں ‘ جو نہایت جامع ہیں۔ ان آیات کے مضامین پر میری ایک کتاب بھی موجود ہے امت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل اور اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس لائحہ عمل کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہے تو سب سے پہلے افراد کی شخصیت سازی ‘ کردار سازی کرنا ہوگی۔- چنانچہ فرمایا :- آیت ١٠٢ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہ (وَلاَ تَمُوْتُنَّ الاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) ۔- قرآن مجید میں تقویٰ کی تلقین کے لیے یہ سب سے گاڑھی آیت ہے۔ اس پر صحابہ (رض) ‘ گھبرا گئے کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے تقویٰ کا حق کون ادا کرسکتا ہے ؟ پھر جب سورة التغابن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ (فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ ) (آیت ١٦) اپنی امکانی حد تک اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تب ان کی جان میں جان آئی۔ تقویٰ کے حکم کے ساتھ ہی یہ فرمایا کہ مت مرنا مگر حالت فرمانبرداری میں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی پتہ نہیں کس لمحے موت آجائے ‘ لہٰذا تمہارا کوئی لمحہ نافرمانی میں نہ گزرے ‘ مبادا موت کا ہاتھ اسی وقت آکر تمہیں دبوچ لے۔ اگر پہلے اس طرح کی شخصیتیں نہ بنی ہوں تو اجتماعی اصلاح کا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پہلے افراد کی کردار سازی پر زور دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ایک اجتماعیت اختیار کرو۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :82 یعنی مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو ۔