101۔ 1 اعتصام باللہ۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔
[٩١] گویا یہود کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے بچنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے بروقت متنبہ کردیتا ہے اور دوسرے یہ کہ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو چاہئے کہ فوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کریں جو خود بھی مسلمانوں کے احوال پر گہری اور مشفقانہ نظر رکھتے ہیں۔ لہذا جو شخص یہود کی شرارتوں سے بچنے اور راہ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ یقینا اسے ایسی فتنہ انگیزیوں سے بچا لے گا۔
وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ ۔۔ : ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” جاہلیت میں اوس اور خزرج کے درمیان لڑائی رہی تھی، اب ایک دفعہ وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے آپس میں جو کچھ ہوا تھا اس کا ذکر کیا تو دونوں غصے میں آگئے اور ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے اسلحہ لینے کے لیے اٹھے، تو اس پر یہ آیت اتری : ( وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۭ ) [ ابن أبی حاتم : ٣؍١١٠، ح : ٣٩٤٨ طبری ]- 2 وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۭ: یعنی تمہاری طرف سے کفر کا ارتکاب بہت بعید ہے، کیونکہ اللہ کی آیات تم پر پڑھی جا رہی ہیں، اس کا رسول بنفس نفیس تم میں موجود ہے اور جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے تو یقیناً اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت کی گئی۔ اس کے مخاطب صحابہ کرام (رض) ہیں، لیکن نصیحت کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ آج گو ہمارے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس موجود نہیں ہیں، مگر اللہ کی کتاب، یعنی قرآن کریم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت موجود ہے، جن پر عمل پیرا ہو کر موجودہ دور کے فتنوں اور ہر قسم کی بدعت و ضلالت سے مسلمان محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اب بغیر دیکھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔ ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے ابو جمعہ (رض) سے کہا : ” ہمیں کوئی حدیث سناؤ جو تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو “ انھوں نے کہا : ” ہاں، میں تمہیں ایک جید حدیث سناؤں گا، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ناشتہ کیا اور ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح (رض) بھی تھے، انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا ہم سے بھی کوئی بہتر ہے ؟ ہم آپ کے ساتھ اسلام لائے اور آپ کے ساتھ جہاد کیا ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں، وہ لوگ جو تمہارے بعد ہوں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انھوں نے مجھے دیکھا نہیں۔ “ [ أحمد : ٤؍١٠٦، ح : ١٦٩٧٨، ١٦٩٧٩، و سندہ صحیح ]- امام احمد کے علاوہ ابو نعیم، حاکم اور ابو یعلی الموصلی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ سورة بقرہ کی شروع کی آیات ( يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ ) کی تفسیر میں اس مفہوم کی کئی احادیث حافظ ابن کثیر (رض) لائے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں موجود نہیں، بلکہ اب ہم ایمان بالغیب لا کر قرآن و سنت پر عمل کریں گے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة حجرات (٧)
وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللہِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُہٗ ٠ ۭ وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ ١٠١ ۧ- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں
آیت ١٠١ (وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُولُہٗ ط) ۔- تمہارے درمیان محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس تمہاری راہنمائی کے لیے موجود ہیں اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ میں علماء یہود کا کتنا اثر تھا۔ اوس اور خزرج کے لوگ ان سے مرعوب تھے کیونکہ یہ اَن پڑھ لوگ تھے ‘ ان کے پاس کوئی کتاب ‘ کوئی شریعت اور کوئی قانون نہیں تھا ‘ جبکہ یہود صاحب کتاب اور صاحب شریعت تھے ‘ ان کے ہاں علماء تھے۔ لہٰذا اوس اور خزرج کے جو لوگ اسلام لے آئے تھے ان کے بارے میں اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں یہود کی ریشہ دوانیوں کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس قسم کے خطرے سے بچنے کی تدبیر بھی بتادی گئی :- (وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ۔- جو کوئی اللہ کی پناہ میں آجائے ‘ اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لے اسے تو ضرور صراط مستقیم کی ہدایت ملے گی اور وہ ضلالت و گمراہی کے خطرات سے محفوظ ہوجائے گا۔ جیسے شیر خوار بچے کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو وہ دوڑ کر آئے گا اور اپنی ماں کے ساتھ چمٹ جائے گا۔ اب وہ یہ سمجھے گا کہ میں مضبوط قلعہ میں آگیا ہوں ‘ اب مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ نہیں جانتا کہ ماں بےچاری تمام خطرات سے اس کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ اسے کیا پتا کہ کب کوئی درندہ صفت انسان اسے ماں کی گود سے کھینچ کر اچھالے اور کسی بلم یا نیزے کی انی میں پرو دے۔ بہرحال بچہ تو یہی سمجھتا ہے کہ اب میں ماں کی گود میں آگیا ہوں تو محفوظ پناہ میں آگیا ہوں۔ اللہ کا دامن واقعتا محفوظ پناہ گاہ ہے ‘ اور جو کوئی اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے وہ گمراہی کی ٹھوکروں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور جادۂ مستقیم پر گامزن ہوجاتا ہے۔ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ