Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کامیابی کا انحصار کس پر ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اہل کتاب کے اس بدباطن فرقہ کی اتباع کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ یہ حاسد ایمان کے دشمن ہیں اور عرب کی رسالت انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ودکثیر ) الخ ، یہ لوگ جل بھن رہے ہیں ۔ اور تمہیں ایمان سے ہٹانا چاہتے ہیں تم ان کے کھوکھلے دباؤ میں نہ آجانا ، گو کفر تم سے بہت دور ہے لیکن پھر بھی میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی آیتیں دن رات تم میں پڑھی جا رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سچا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( مالکم لا تومنون باللہ ) تم ایمان کیسے نہ لاؤ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں اور تم سے عہد بھی لیا جا چکا ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب سے پوچھا تمہارے نزدیک سب سے بڑا ایمان والا کون ہے؟ انہوں نے کہا فرشتے آپ نے فرمایا بھلا وہ ایمان کیوں نہ لاتے؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے براہ راست تعلق ہے ، صحابہ نے کہا پھر ہم ، فرمایا تم ایمان کیوں نہ لاتے تم میں تو میں خود موجود ہوں صحابہ نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی ارشاد فرمائیں فرمایا کہ تمام لوگوں سے زیادہ عجیب ایمان والے وہ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے وہ کتابوں میں لکھا پائیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے ( امام ابن کثیر نے اس حدیث کی سندوں کا اور اس کے معنی کا پورا بیان شرح صحیح بخاری میں کر دیا ہے فالحمد للہ ) پھر فرمایا کہ باوجود اس کے تمہارا مضبوطی سے اللہ کے دین کو تھام رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر پورا توکل رکھنا ہی موجب ہدایت ہے اسی سے گمراہی دور ہوتی ہے یہی شیوہ رضا کا باعث ہے اسی سے صحیح راستہ حاصل ہوتا ہے اور کامیابی اور مراد ملتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 یہودیوں کے مکرو فریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جانا۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اسطرح بیان کیا گیا ہے۔ کہ انصار کے دو قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا پہلے یہ ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے اب اسلام کی برکت سے باہم شیرو شکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان ہوئی تھی انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چناچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جذبات بھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کے ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ ان کا باہم قتال بھی شروع ہوجائے کہ اتنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہیں وہ بھی نازل ہوئیں (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٩] اس آیت میں ایک گروہ سے مراد یہود مدینہ ہیں۔ جنہیں مدینہ کے انصار (قبیلہ اوس خزرج) کا آپس میں بھائیوں کی طرح مل بیٹھنا اور شیروشکر ہوجانا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو پھر آپس میں لڑا بھڑا کر ان میں عداوت ڈال دیں۔ جنگ بدر میں جب اللہ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی تو یہود کے عناد میں مزید اضافہ ہوگیا، ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس کو بہت صدمہ پہنچا اس نے ایک نوجوان یہودی کو حکم دیا کہ وہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے تھے وہ پڑھ پڑھ کر سنائے، نوجوان نے جاکر یہی کارنامہ سرانجام دیا۔ بس پھر کیا تھا ؟ تو تو میں میں سے کام شروع ہوا اور نوبت بایں جارسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا کہ اگر تم چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں ہتھیار ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور مقابلہ کے لیے حرہ کا میدان بھی طے پا گیا اور لوگ اس طرح نکل کھڑے ہوئے۔ قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ اتنے میں کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقع پر پہنچ گئے اور جاتے ہی فرمایا : مسلمانو میری موجودگی میں یہ جاہلیت کی پکار اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پکار سن کر انصار کی آنکھیں کھل گئی اور وہ سمجھ گئے کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے اور اس جال میں پھنسانے والے یہی ستم گر یہود تھے۔ پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس سازش کو ناکام بنا کر مسلمانوں کو تباہی سے بچا لیا۔ (ابن ہشام، ٥٥٥-٥٥٦)- [٩٠] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم یہودیوں کی بات ماننے لگو گے تو یہ تمہیں اسلام سے مرتد کرکے ہی دم لیں گے اور دوسرے یہ کہ تمہیں آپس میں لڑا بھڑا کر کافر بنادیں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑنا کفر ہے اور خطبہ حجۃ الوداع کے دوران آپ نے مسلمانوں کے عظیم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : سن لو تمہاری جانیں، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں۔ جیسے تمہارے اس دن کی، اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرمت ہے۔ سن لو میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی لاترجعوا بعدی کفارا۔۔ الخ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا : اوپر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو وعید سنائی گئی، جو لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے، اب یہاں سے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی جا رہی ہے کہ ان سے ہوشیار رہیں اور گمراہی میں نہ پڑجائیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہات کا جواب دے کر مسلمانوں سے فرمایا کہ ان کی بات مت سنو، یہی علاج ہے، ورنہ شبہات سنتے سنتے اپنی راہ سے پھسل جاؤ گے۔ اب بھی ہر مسلمان کا فرض ہے کہ شک پیدا کرنے والوں کی بات نہ سنیں، اس میں دین کی سلامتی ہے اور بحث سے جھگڑے بڑھتے ہیں۔ “ (موضح) - يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ ۔۔ : ایمان کے بعد پھر کافر بنا دینے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کا کام آپس میں لڑانا ہے۔ اگر ان کی بات مانو گے تو آپس کے اتفاق اور محبت سے محروم ہوجاؤ گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے بعد پھر کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ “ [ بخاری، المغازی، باب حجۃ الوداع : ٤٤٠٣، عن ابن عمر (رض) ] یاد رہے کہ اس کفر سے مراد اسلام میں رہ کر کفر ہے، مرتد ہونا نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دو لڑنے والے گروہوں میں سے دونوں کو مومن قرار دے کر ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة حجرات (٩، ١٠)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ۝ ١٠٠- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٠۔ ١٠١) یہ آیت مبارکہ حضرت عمار (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کہ یہودیوں نے ان کو اپنے دین کی دعوت دی تھی، اہل کتاب کی ایک جماعت تمہارے ایمان لانیکے بعد یہ چاہتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منکر ہوجاؤ اور تم کسیے اللہ تعالیٰ کے منکر ہوسکتے ہو حلان کہ تم پر قرآن کریم کے اوامرو نواہی پڑھے جاتے ہیں اور تمہارے پاس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں لہٰذا جو شخص دین الہی اور اس کی کتاب پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا تو ایسا شخص ضرور راہ راست پر آتا ہے اور اس پر استقامت حاصل ہوتی ہے، یہ آیت حضرت معاذ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور پھر اس کے بعد دوبارہ قبیلہ اوس اور خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان میں سے ثعلبہ بن غنم (رض) اور سعد بن ابی زیادہ (رض) نے اپنے زمانہ جاہلیت کی قتل و غارت گری پر فخر کیا تھا۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ (الخ)- فریابی (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت سے لڑائی تھی ایک دن وہ سب مل کر بیٹھے اور آپس کے جھگڑے کا ذکر کرنے لگے یہاں تک کہ غصہ میں بھر گئے اور ایک دوسرے پر ہتھیار لے کر کھڑے ہوگئے اس پر (آیت) ” وکیف تکفرون “۔ اور اس کے بعد والی آیات نازل ہوئیں۔- ابن اسحاق (رح) اور ابو الشیخ (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ شاس بن قیس یہودی اوس اور خزرج کے پاس سے گزرا اور ان کو آپس میں باتیں کرتا ہوا دیکھ کر حسد کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ان میں کس قدر دشمنی تھی اور اب آپس میں کس قدر محبت ہے، چناچہ اس سے برداشت نہ ہوا اس نے آکر ایک یہودی نوجوان کو حکم دیا کہ اوس و خزرج کے مسلمانوں کی مجلس میں جا کر بیٹھے اور جنگ ” بعاث “ کا ذکر چھیڑے اور ان کو اور ان کو وہ وقت یاد دلائے چناچہ اس نے آکر ایسا ہی کیا اس کی یہ باتیں سن کر انہوں نے آپس میں لڑائی اور ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کیا، قبیلہ اوس سے اوس بن قیظی اور خزرج سے جبار بن جعفریہ دونوں آدمی کھڑے ہوگئے اور آپس میں گفتگو کی جس سے دونوں قبائل غصہ میں تیار ہوگئے، اس چیز کی اطلاع رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف لائے اور ان کو نصیحت کرکے آپس میں صلح کرا دی۔ ان سب حضرات نے آپ کی بات کو بسر و چشم سنا اور اطاعت وفرمانبرداری کے لیے اپنی گردنیں جھکا دی، اللہ تعالیٰ نے قبیلہ اوس و خزرج اور جو ان کے ساتھ تھے ان کے بارے میں (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ (الخ) یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور شاس بن قیس کے بارے میں (آیت) ” یا اھل الکتاب لم تصدون “۔ والی آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani