Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] یہود کی اسلام دشمنی کا ایک طریقہ یہ تھا کہ جو شخص مسلمان ہونے لگتا اسے طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتے تھے۔ پہلی بات جو اسے ذہن نشین کرائی جاتی وہ یہ تھی کہ جس نبی آخر الزمان کی بشارت ہماری کتابوں میں دی گئی ہے وہ یہ نبی نہیں۔ اگر یہ وہی نبی ہوتا تو قبلہ کو کیوں تبدیل کرتا۔ جو سب انبیاء کا قبلہ رہا ہے یا جو چیزیں حرام ہیں انہیں حلال کیوں بنا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے غلط قسم کے مسائل کو اصل بنیاد قرار دے کر مسلمان ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی ہی حرکات پر گرفت فرمائی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُہَدَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٩٩- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- عوج - الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال :- عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ،- ( ع و ج ) العوج - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ ) - (تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا) - تم چاہتے ہو کہ جو اہل ایمان ہیں وہ بھی ٹیڑھے راستے پر چلیں۔ چناچہ تم سازشیں کرتے ہو کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں بھی وسوسے اور دغدغے پیدا ہوجائیں۔- (وَّاَنْتُمْ شُہَدَآءُ ط) حالانکہ تم خود گواہ ہو - تم راہ راست کو پہچانتے ہو اور جو کچھ کر رہے ہو جانتے بوجھتے کر رہے ہو۔- (وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ۔- لیکن ان تمام سازشوں کے جواب میں اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: یہاں سے آیت نمبر ۸۰۱ تک کی آیات ایک خاص واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ مدینہ منورہ میں دو قبیلے اوس وخزرج کے نام سے آباد تھے۔ اسلام سے پہلے ان کے درمیان سخت دُشمنی تھی، اور دونوں میں وقتا فوقتا جنگیں ہوتی رہتی تھیں جو بعض اوقات سالہا سال جاری رہتی تھیں۔ جب ان قبیلوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اسلام کی برکت سے ان کی یہ دُشمنی ختم ہوگئی اور اِسلام کے دامن میں آکر وہ شیر وشکر ہو کر رہنے لگے۔ بعض یہودیوں کو ان کا یہ اتحاد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ ایک مرتبہ دونوں قبیلوں کے لوگ ایک مجلس میں جمع تھے، ایک یہودی شماس بن قیس نے ان کے پیار محبت کا یہ منظر دیکھا تو اس سے نہ رہا گیا، اور اس نے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے یہ ترکیب کی کہ ایک شخص سے کہا کہ اس مجلس میں وہ اَشعار سنادو جو زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج کے شاعروں نے ایک لمبی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف کہے تھے۔ اس شخص نے وہ اَشعار سنانے شروع کردیئے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان اَشعار سے پرانی باتیں تازہ ہوگئیں، شروع میں دونوں قبیلوں کے لوگوں میں زبانی تکرار ہوئی، پھر بات بڑھ گئی اور آپس میں نئے سرے سے جنگ کی تاریخ اور وقت مقرر ہونے لگا۔ آنحضرتﷺ کو علم ہوا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ یہ سب شیطانی حرکت تھی، بالآخر آپ کے سمجھانے سے یہ فتنہ ختم ہوا۔ ان آیتوں میں اﷲ تعالیٰ نے پہلے تو یہودیوں سے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ اوّل تو تم کو خود اِیمان لانا چاہئے اور اگر خود اس سعادت سے محروم ہو تو کم از کم ان لوگوں کے راستے میں رُکاوٹ نہ ڈالو جو اِیمان لاچکے ہیں۔ اس کے بعد بڑے موثر انداز میں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے اور آخر میں باہمی جھگڑوں سے بچنے کا علاج یہ بتایا ہے کہ اپنے آپ کو دِین کی تبلیغ ودعوت میں مصروف کرلو تو اس سے اشاعتِ اسلام کے علاوہ یکجہتی بھی پیدا ہوگی۔