کافروں کا انجام اہل کتاب کے کافروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے جو حق سے دشمنی کرتے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے دوسرے لوگوں کو بھی پورے زور سے اسلام سے روکتے تھے باوجود یکہ رسول کی حقانیت کا انہیں یقینی علم تھا اگلے انبیاء اور رسولوں کی پیش گوئیاں اور ان کی بشارتیں ان کے پاس موجود تھیں نبی امی ہاشمی عربی مکی مدنی سید الولد آدم خاتم الانبیاء رسول رب ارض و سماء صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ان کتابوں میں موجود تھا پھر بھی اپنی بے ایمانی پر بضد تھے اس لئے ان سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خوب دیکھ رہا ہوں تم کس طرح میرے نبیوں کی تکذیب کرتے ہو اور کس طرح خاتم الانبیاء کو ستاتے ہو اور کس طرح میرے مخلص بندوں کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہو میں تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہوں تمام برائیوں کا بدلہ دوں گا اس دن پکڑوں گا جس دن تمہیں کوئی سفارشی اور مددگار نہ ملے ۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ ۔۔ : اہل کتاب کے شبہات کی تردید کرنے کے بعد اب انھیں ڈانٹ پلائی جا رہی ہے کہ تم نہ صرف یہ کہ حق پر خود ایمان نہیں لاتے، بلکہ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں ان میں طرح طرح کے فتنے اور شوشے چھوڑ کر حق کی راہ میں کجی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ ” تبغونہا عوجا “ کا مطلب ہے : ” تَبْغُوْنَ فِیْہَا عِوَجًا “ (تم اس دین میں کوئی نہ کوئی کجی تلاش کرتے ہو) اور پھر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کو تمہارے یہ کرتوت خوب معلوم ہیں، تمہیں اپنے اس جرم کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ ” سَبِيْلِ اللّٰهِ “ سے مراد یہاں اسلام ہے۔
ربط آیات :- اوپر سے اہل کتاب کے عقائد فاسدہ اور ان کے شبہات پر کلام چل رہا تھا، درمیان میں بیت اللہ اور حج کا تذکرہ آیا، آگے پھر اہل کتاب ہی سے خطاب ہے جس کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے، کہ ایک یہودی شماس بن قیس مسلمانوں سے بہت کینہ رکھتا تھا، اس نے ایک مجلس میں انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کو ایک جگہ مجتمع و متفق دیکھا تو حسد سے بےچین ہوگیا، اور ان میں تفریق ڈالنے کی فکر میں لگا، آخر یہ تجویز کی کہ ایک شخص سے کہا کہ ان دونوں قبیلوں میں اسلام سے پہلے جو ایک بڑی جنگ عرصہ دراز تک رہ چکی ہے، اور اس کے متعلق فریقین کے فخریہ اشعار ہیں وہ اشعار ان کی مجلس میں پڑھ دیئے جائیں۔ چناچہ اشعار کا پڑھنا تھا فورا ایک آگ سی بھڑک اٹھی، اور آپس میں چناں چنیں ہونے لگی، یہاں تک کہ موقع اور وقت لڑائی کا پھر مقرر ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اندہیر ہے، میرے ہوتے ہوئے پھر مسلمان ہونے اور باہم متفق و مانوس ہونے کے بعد یہ کیا جہالت ہے، کیا تم اسی حالت میں کفر کی طرف عود کرنا چاہتے ہو ؟ سب متنبہ ہوئے اور سمجھا کہ یہ شیطانی حرکت تھی، اور ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئے اور توبہ کی، اس واقعہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس واقعہ کو روح المعانی میں بروایت ابن اسحاق اور ایک جماعت نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے، یہ مضمون کئی آیتوں تک چلا گیا ہے، جس میں اول ملامت ہے ان اہل کتاب پر جنہوں نے یہ کارروائی کی تھی اور یہ ملامت بڑی بلاغت سے کی گئی، کہ اس فعل پر ملامت ہے پہلے ان کے کفر پر بھی ملامت کی، جس کا حاصل یہ ہوا کہ چاہئے تو یہ تھا کہ خود بھی مسلمان ہوجائے نہ یہ کہ دوسروں کے گمراہ کرنے کی فکر میں لگ رہے، پھر خطاب و فہمائش مسلمانوں کو ہے۔- خلاصہ تفسیر : - (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان اہل کتاب سے) فرما دیجیے کہ اے اہل کتاب تم (بعد ظہور حجت حقانیت اسلام کے) کیوں انکار کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے احکام کا (اصول و فروع اس میں سب آگئے) حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کی اطلاع رکھتے ہیں (تم کو اس سے بھی ڈر نہیں لگتا، اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ بھی) فرما دیجیے کہ اے اہل کتاب کیوں (ہٹانے کی کوشش کرتے) ہو اللہ کی راہ (یعنی اس کے دین حق) سے ایسے شخص کو جو (اس دین حق کے ہونے پر) ایمان لاچکا اس طور پر کہ کجی ( کی باتیں) ڈھوندتے ہو اس راہ کے (اندر پیدا کرنے کے) لئے (جیسا کہ قصہ مذکورہ میں کوشش کی تھی کہ اس کارروائی سے ان کے دین کے اندر بوجہ نااتفاقی کہ گناہ بھی ہے اور اجتماعی قوت کی بربادی بھی، اور یہ کہ ان بکھیڑوں میں پڑ کر دین حق سے ان کو بعد ہوجاوے گا) حالانکہ تم خود بھی (اس حرکت کے قبیح ہونے کی) اطلاع رکھتے ہو، اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے بیخبر نہیں (وقت معین پر اس کی سزا دیں گے) اے ایمان والو اگر تم کہنا مانو گے کسی فرقہ کا ان لوگوں میں سے جن کو کتاب دی گئی ہے (یعنی اہل کتاب میں سے) تو وہ لوگ تمہارے ایمان لائے پیچھے (اعتقادا یا عملا) کافر بنادیں گے اور (بھلا) تم کفر کیسے کرسکتے ہو (یعنی تمہارے لئے کب روا ہوسکتا ہے) حالانکہ (اسباب مانع کفر کے پورے جمع ہیں کیونکہ) تم کو اللہ تعالیٰ کے احکام (قرآن میں) پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور (پھر) اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں (اور دونوں قوی ذرائع ہیں ایمان پر قائم رہنے کے، پس تم کو چاہئے کہ ان دونوں ذریعوں کی تعلیم تلقین کے موافق ایمان پر اور ایمان کی باتوں پر قائم رہو) اور (یاد رکھو کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کو مضبوط پکڑتا ہے (یعنی ایمان پر پورا قائم رہتا ہے، کیونکہ اللہ کو مضبط پکڑنا یہی ہے کہ اس کی ذات وصفات کی تصدیق کرے، اس کے احکام کو مضبوط پکڑے، کسی دوسرے مخالف کی موافقت نہ کرے) تو (ایسا شخص) ضرور راہ راست کی ہدایت کیا جاتا ہے (یعنی وہ راہ راست پر ہوتا ہے، اور راہ راست پر ہونا اصل ہے ہر صلاح و فلاح کی، پس اس میں ایسے شخص کے لئے ہر صلاح کی بشارت و وعدہ ہے) ۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ ٠ ۤۖ وَاللہُ شَہِيْدٌ عَلٰي مَا تَعْمَلُوْنَ ٩٨- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(٩٨۔ ٩٩) اے اہل کتاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا کس لیے انکار کرتے ہو حالانکہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کفر و گناہ کے چھپانے کو جانتا ہے اور کیوں ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے دین سے ہٹانے کی کوشش میں لگے رہتے ہو جو کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لا چکا ہے، اور اب اسے تم کجی اور گمراہی کے تلاش کرنے کی وجہ سے ہٹاتے ہو ؟ اللہ کے سامنے یہ راز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہاری کفر و گناہ کی پوشیدہ کاروائیوں تک کو جانتا ہے۔