97۔ 1 اس میں قتال، خون ریزی، شکار حتٰی کہ درخت تک کاٹنا ممنوع ہے۔ 97۔ 2 راہ پاسکتے ہوں کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہوجائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پر امن ہو اور جان و مال محفوظ رہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت اور تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔ یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لئے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ 97۔ 3 استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے کفر سے تعبیر کیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث میں بھی ایسے شخص کے لئے وعید آئی ہے۔
[٨٥] آیات بینات سے مراد ایسی واضح نشانیاں جنہیں سب لوگ دیکھتے یا دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ گھر ایک لق و دق میدان میں تعمیر کیا گیا۔ اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر زمزم کا چشمہ پیدا فرمایا اور اس سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان وہاں جا کر یہ پانی استعمال کرتے اور اپنے گھروں میں لاتے ہیں، مگر اس چشمہ کا پانی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ نیز یہ پانی بھوک اور پیاس دونوں کو دور کرتا اور کئی بیماریوں کے لیے شفا ہے پھر اس گھر کو اللہ نے ایسا مامون بنادیا کہ اگر کسی کا جانی دشمن بھی کعبہ میں داخل ہوجائے تو وہ اسے ایذا پہنچانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ نیز اللہ نے کعبہ کے علاوہ اس پورے علاقہ کو پر امن حرم بنادیا۔ ڈھائی ہزار برس سے سارا ملک عرب جاہلیت کی وجہ سے انتہائی بدامنی، لوٹ مار، قتل و غارت میں مبتلا رہا، مگر ملک بھر میں کعبہ ہی ایک ایسا خطہ تھا، جہاں امن قائم رہا۔ یہ کعبہ ہی کی برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسر آجاتا تھا۔ سارے ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ مگر قریش کے قافلے محض کعبہ کے متولی ہونے کی بنا پر بلاخطر سفر کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جو تجارتی قافلے قریش کی امان میں آجاتے۔ ان سے بھی کسی کو تعرض کرنے کی جراءت نہ ہوتی تھی۔ نیز نصف صدی پیشتر بھی جب ابرہہ نے کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر جو حملہ کیا تھا تو ابابیلوں (چھوٹے چھوٹے پرندوں) کے لشکر نے ان ہاتھیوں والی فوج کا جس طرح ستیاناس کردیا تھا، اسے بھی سب لوگ دیکھ چکے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لق و دق اور پتھریلے میدان کے بسنے والوں کے لیے اللہ نے رزق رسانی کا ایسا بہترین انتظام کردیا کہ اطراف و جوانب سے ہر قسم کے پھل اور غلے معجزانہ طور پر کھنچے چلے آتے ہیں اور مکہ کو ایک مرکزی تجارتی منڈی کی حیثیت حاصل ہے اور یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں سب لوگ بچشم خود ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کعبہ کے پاس مقام ابراہیم وہ پتھر بھی بدستور موجود ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا اور صفا ومروہ کی پہاڑیاں بھی جن کے درمیان حضرت ہاجرہ دوڑیں تھیں۔ اور یہ مقامات شعائر اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مناسک حج ادا کرنے کے لیے دنیا بھر کے لوگوں کو اسی مقام کی طرف دعوت دی گئی۔ انبیاء سابقین بھی حج کی ادائیگی کے لیے یہیں تشریف لاتے اور ان شعائر کی غیر معمولی تعظیم اور احترام کرتے رہے۔- مکہ کے ( حرماً آمناً ) ہونے کی تفسیر درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا، اس سے دوسرے دن آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا : آج کے بعد ہجرت (فرض) نہیں رہی۔ البتہ جہاد اور اس کی نیت بدستور باقی ہے اور جب تم سے جہاد کے لیے کہا جائے تو نکل کھڑے ہو۔ یہ وہ شہر ہے کہ جس دن سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اسی دن سے اس کو حرمت دی اور اللہ کی یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی، اور وہاں مجھ سے پہلے کسی کو لڑنا درست نہیں ہوا اور مجھے بھی ایک گھڑی کے لیے درست ہوا۔ پھر اس کی حرمت قیامت تک کے لیے قائم ہوگئی۔ نہ وہاں سے کانٹے کاٹے جائیں، نہ شکار کو ہانکا جائے، نہ گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا مالک کو پہچانتا ہو اور وہ اسے پہنچا دے اور نہ وہاں سے سبزہ کاٹا جائے۔ حضرت عباس نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دیجئے کہ وہ لوہاروں کے لیے اور گھروں میں کام آنے کی چیز ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا اذخر کی اجازت ہے۔ (بخاری ابو اب العمرہ، باب لایحل القتال بمکۃ) اس حدیث سے مکہ کی حرمت اور تعظیم سے متعلق درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔- ١۔ حرم مکہ میں فوج کشی اور جدال و قتال ممنوع ہے اور مکہ کی یہ حرمت تاقیامت بحال رہے گی۔ اسی طرح آپس میں جدال و قتال بھی ممنوع ہے۔- ٢۔ حرم مکہ کے شکاری جانور بھی محفوظ و ماموں ہیں۔ ان کو نہ شکار کیا جاسکتا ہے نہ شکار کے لیے انہیں ہانکا جاسکتا ہے۔- ٣۔ حرم مکہ کے درخت اور پودے بھی محفوظ و مامون ہیں۔ انہیں بھی کاٹنا ممنوع ہے۔ البتہ بعض اقتصادی ضرورتوں کے پیش نظر اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔- ٤۔ حرم مکہ میں گری پڑی چیز اٹھانا ممنوع ہے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا چیز کے مالک کو جانتا ہو۔ اور وہ چیز مالک کو پہنچانے کا ذمہ دار بنتا ہو وہ اٹھا سکتا ہے۔- ٢۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ : تم سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ مکہ میں ہتھیار لگائے ہوئے پھرے۔ (مسلم، کتاب الحج، باب النھی عن حمل السلاح بمکۃ من غیر حاجۃ) - ٣۔ البتہ موذی جانوروں کو حرم مکہ میں مار ڈالنے کی اجازت ہے۔ چناچہ ہم منا میں مقیم تھے کہ ایک سانپ ہم پر کو دا تو آپ نے فرمایا : اسے مار ڈالو (بخاری، ابو اب العمرہ، باب ما یقتل المحرم من الدواب) نیز حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پانچ جانور بدذات ہیں۔ انہیں حرم میں بھی مار ڈالنا چاہئے۔ کوا (چتکبرا) چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا (بخاری۔ باب ایضاً )- اور دور صحابہ میں یہ تعامل رہا ہے کہ اگر کوئی مجرم بیت اللہ میں پناہ لے لیتا تو جب تک وہ حرم میں رہتا اس سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ خواہ وہ کسی حد والے گناہ کا مجرم ہو۔ یزید نے جب حضرت امام حسین کو اپنی بیعت کے لیے مجبور کیا تو آپ نے حرم مکہ میں آکر ہی پناہ لی تھی۔- [٨٦] حج اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق اور ارکان اسلام سے پانچواں رکن ہے اور یہ صرف اس شخص پر زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ استطاعت سے مراد یہ ہے کہ بیت اللہ شریف جانے اور واپس آنے کا خرچ اس کے پاس موجود ہو۔ اس سفر حج میں اپنی گھر سے غیر موجودگی کے دوران اہل خانہ کو معمول کے مطابق خرچ دے کر جائے۔ نیز راستہ پرخطر نہ ہو یعنی اسے اپنی جان و مال کا خطرہ نہ ہو اور اس کی جسمانی صحت اس قابل ہو کہ حج اور سفر حج کی صعوبتوں کی برداشت کرسکتا ہو۔ اگر کسی کے پاس حج کا اور اہل خانہ کا خرچ موجود ہو اور راستہ بھی پرامن ہو مگر جسمانی صحت ساتھ نہ دے سکتی ہو تو کسی تندرست شخص سے اپنی طرف سے حج کروا سکتا ہے جو پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کرچکا ہو اور اسے حج بدل کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے حج کی نذر مانی ہو اور نذر پوری کرنے سے پیشتر مرجائے تو اس کے پس ماندگان پر اس نذر کو پورا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ خود اس پر فرض ہوچکا تھا۔ خواہ یہ نفلی حج ہو۔ اگر راستہ پرخطر ہے تو جب تک خطرہ دور نہ ہو حج ساقط ہوجاتا ہے۔ قرضہ اٹھا کر یا مانگ کر یا سواری مہیا ہونے کے باوجود پیدل سفر حج کرنا کوئی نیکی کا کام نہیں اور اگر کسی نے ایسی غلط قسم کی نذر مانی ہو تو اسے ایسی نذر توڑ کر درست کام کرنا چاہئے۔- [٨٧] یعنی جو شخص استطاعت رکھتا ہو پھر جان بوجھ کر حج کا ارادہ نہ کرے اور اس سے غافل رہے تو ایسے شخص کے لیے حدیث شریف میں بڑے سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ یعنی یہ کہ اللہ کو کچھ پروا نہیں کہ ایسا شخص یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر (ترمذی، ابو اب الحج، باب فی التغلیظ فی ترک الحج) یعنی وہ بہر طور مسلمان نہیں اور اس کا مسلمان ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔
وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کی (شہادت) کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم : ٨، عن ابن عباس (رض) ] ہر عاقل و بالغ مسلمان پر جو کعبہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے، اس پر عمر بھر میں ایک مرتبہ حج فرض ہے۔ [ مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر : ١٣٣٧ ]- مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا : استطاعت کی تفسیر حدیث میں زاد راہ اور سواری سے کی گئی ہے۔ [ ترمذی، عن علی عن رسول اللہ، الحج، باب ما جاء من التغلی٭۔۔ : ٨١٢ ] شیخ البانی (رض) نے صحیح الترغیب میں اسے حسن قرار دیا ہے اور ابن تیمیہ (رض) بھی یہی کہتے ہیں۔ (ہدایۃ المستنیر)- استطاعت کے مفہوم میں راستے کا پر امن ہونا، جان و مال کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہونا بھی شامل ہے اور عورت کے لیے محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مالی استطاعت ہو مگر جسمانی نہ ہو تو کوئی دوسرا اس کی جگہ حج کرلے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی، اس نے پوچھا : ” یا رسول اللہ اللہ کا اپنے بندوں پر جو فریضہ حج ہے، وہ میرے والد پر اس حال میں آیا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہے، سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ “ فرمایا : ” ہاں “ اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ [ بخاری، الحج، باب حج المرأۃ عن - الرجل : ١٨٥٥ ]- اسی طرح اگر کسی صاحب پر حج فرض تھا، جو سستی سے رہ گیا اور وہ فوت ہوگیا تو اس کی میراث میں سے حج ادا کیا جائے گا، ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَاقْضِ اللّٰہَ فَہُوَ أَحَقُّ بالْقَضَاءِ ) ” اللہ کا قرض ادا کرو، کیونکہ وہ پورا کیے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔ “ [ بخاری، الأیمان - والنذور، باب من مات وعلیہ نذر : ٦٦٩٩۔ مسلم : ١١٤٨ ]- ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کی طرف سے وہ شخص حج کرے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ [ أبو داوٗد، الحج، باب الرجل یحج عن غیرہ : ١٨١١، عن ابن عباس ]- 2 ۭ وَمَنْ كَفَر : اس سے معلوم ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کفر ہے اور جو کفر کرے تو اس بےچارے کی کیا اوقات ہے، اللہ تعالیٰ تو سارے جہانوں سے بےپروا ہے۔ اسلام کی پانچ بنیادوں کے ترک اور دوسری چیزوں کے ترک کا یہی فرق ہے کہ ان پانچوں میں سے کسی کے ترک سے اسلام کی بنیاد ڈھے جاتی ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے ابوبکر اسماعیلی الحافظ (رح) کی سند سے امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” جو شخص حج کی طاقت رکھے اور پھر حج نہ کرے تو اس پر برابر ہے کہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ہونے کی حالت میں۔ “ امام ابن کثیر نے فرمایا : ” یہ سند عمر (رض) تک صحیح ہے۔ “
خلاصہ تفسیر :- اس میں (کچھ تشریعی کچھ تکوینی) کھلی نشانیاں (اس کی افضلیت کی موجود) ہیں (چنانچہ تشریعی نشانیوں میں اس کا مبارک اور ہدی بتفسیر مذکور ہونا بیان ہوچکا اور کچھ مقام ابراہیم کے بعد مذکور ہیں یعنی اس میں داخل ہونے والے کا مستحق امن ہوجانا اور اس کا حج بشرائطہ فرض ہونا جو کہ مطلق مشروعیۃ مذکورہ سابق پر زائد مفہوم ہے۔ یہ چار نشانیاں تو تشریعی اس جگہ مذکور ہیں، اب درمیان میں تکوینی کا ذکر فرماتے ہیں کہ) منجملہ ان (نشانیوں) کے ایک مقام ابراہیم ( نشانی) ہے، اور (ایک تشریعی نشانی یہ ہے کہ) جو شخص اس ( کے حدود متعلقہ) میں داخل ہوجاوے وہ (شرعا) امن والا ہوجاتا ہے اور (ایک تشریعی نشانی یہ ہے کہ) اللہ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا (فرض) ہے (مگر سب کے ذمہ نہیں بلکہ خاص خاص) یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک (پہنچنے) کے سبیل کی اور جو شخص (احکام خداوندی کا) منکر ہو تو (خدا تعالیٰ کا کیا ضرر کیونکہ) اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے غنی ہیں (کسی کا ماننے پر ان کا کوئی کام اٹکا نہیں پڑا بلکہ خود اس منکر ہی کا ضرر ہے ) ۔- معارف و مسائل :- بیت اللہ کی تین خصوصیات :- اس آیت میں بیت اللہ یعنی کعبہ کی خصوصیت اور فضائل بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ اس میں اللہ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں، منجملہ ان کے مقام ابراہیم ہے، دوسرے یہ کہ جو شخص اس میں داخل ہوجائے وہ امن والا اور محفوظ ہوجاتا ہے، کوئی اس کو قتل نہیں کرسکتا، تیسرے یہ کہ ساری دنیا کے مسلمانوں پر اس بیت اللہ کا حج فرض ہے، بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو، اور قدرت رکھتا ہو۔ - پہلی بات کہ اس میں اللہ جل شانہ کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں، اس کی توضیح یہ ہے کہ جب سے بیت اللہ قائم ہوا اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو مخالفین کے حملوں سے محفوظ فرمادیا، ابرہہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر چڑھائی کی، تو اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو پرندوں کے ذریعہ تباہ و ہلاک کردیا، حرم مکہ میں داخل ہونے والاانسان بلکہ جانور تک محفوظ ہے، جانوروں میں بھی اس کا احساس ہے، حدود حرم کے اندر جانور بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہاں وحشی شکاری جانور انسان سے نہیں بھاگتا، عام طور پر یہ بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بیت اللہ کی جس جانب بارش ہوتی ہے اس جانب کے ممالک زیادہ بارش سے سیراب ہوتے ہیں ایک عجیب نشانی یہ ہے کہ جمرات جن پر ایک حج کرنے والا سات سات کنکریاں روزانہ تین روز تک پھینکتا ہے، اور ہر سال لاکھوں حجاج وہاں جمع ہوتے ہیں، یہ ساری کنکریاں اگر وہاں جمع ہو کر باقی رہیں تو ایک ہی سال میں وہ جمرات کنکریوں کے ڈھیر میں دب جائیں، اور چند سال میں تو وہاں ایک پہاڑ بن جائے۔ حالانکہ مشاہدہ میں یہ ہے کہ حج کے تینوں دن گزرنے کے بعد وہاں کنکریوں کا کوئی بہت بڑا انبار جمع نہیں ہوتا، کچھ کنکریاں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں جس کی وجہ حدیث آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمائی کہ یہ کنکریاں فرشتے اٹھا لیتے ہیں اور صرف ایسے لوگوں کی کنکریاں باقی رہ جاتی ہیں جن کا حج کسی وجہ سے قبول نہیں ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ جمرات کے پاس سے کنکریاں اٹھا کر رمی کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، کیونکہ وہ غیر مقبول ہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی تصدیق ہر دیکھنے والا آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے، کہ جمرات کے آس پاس بہت تھوڑی سی کنکریاں نظر آتی ہیں، حالانکہ وہاں سے اٹھا نے یا صاف کرنے کا نہ کوئی اہتمام حکومت کی طرف سے ہوتا ہے نہ عوام کی طرف سے۔ (حاشیہ ١)- (حاشیہ) اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے اٹھوانے کا انتظام کیا ہے۔ (محمد تقی عثمانی) اس وجہ سے شیخ جلال الدین سیوطی (رح) نے خصائص کبری میں فرمایا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض معجزات ایسے بھی ہیں جو آپ کی وفات کے بعد بھی موجود اور قائم ہیں، اور قیامت تک باقی رہیں گے، اور ہر شخص ان کا مشاہدہ کرسکے گا، ان میں سے ایک تو قرآن کا بےنظیر ہونا ہے کہ ساری دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہے، یہ عجز جیسے عہد نبوی میں تھا ایسے ہی آج بھی موجود ہے، اور قیامت تک رہے گا، ہر زمانہ کا مسلمان پوری دنیا کو چیلنج کرسکتا ہے کہ (فاتوا بسورۃ من مثلہ) اسی طرح جمرات کے بارے میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ان پر پھینکی ہوئی کنکریاں نامعلوم طور پر فرشتے اٹھا لیتے ہیں، صرف ان بدنصیب لوگوں کی کنکریاں رہ جاتی ہیں جن کے حج قبول نہیں ہوتے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی تصدیق ہر زمانہ ہر قرن میں ہوتی رہی ہے، اور قیامت تک ہوتی رہے گی، یہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ اور بیت اللہ سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نشانی ہے۔- مقام ابراہیم : - ان نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی مقام ابراہیم ہے، اسی لئے قرآن کریم نے اس کو مستقل طور پر علیحدہ بیان فرمایا، مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر فرماتے تھے، اور بعض روایات میں ہے کہ پتھر تعمیر کی بلندی کے ساتھ ساتھ خودبخود بلند ہوجاتا تھا، اور نیچے اترنے کے وقت نیچا ہوجاتا تھا، اس پتھر کے اوپر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم مبارک کا گہرا نشان آج تک موجود ہے، ظاہر ہے کہ ایک بےحس و بےشعور پتھر میں یہ ادراک کہ ضرورت کے موافق بلند یا پست ہوجائے اور یہ تاثر کہ موم کی طرح نرم ہو کر قدمین کا مکمل نقشہ اپنے اندر لے لے، یہ سب آیات قدرت ہیں جو بیت اللہ کی اعلی فضیلت ہی سے متعلق ہیں، یہ پتھر بیت اللہ کے نیچے دروازے کے قریب تھا، جب قرآن کا یہ حکم نازل ہوا کہ مقام ابراہیم پر نماز پڑھو (واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی) اس وقت طواف کرنے والوں کی مصلحت سے اس کو اٹھا کر بیت اللہ کے سامنے ذرا فاصلے پر مطاف سے باہر بیر زمزم کے قریب رکھ دیا گیا، اور آج کل اس کو اسی جگہ ایک محفوظ مکان میں مقفل کیا ہوا ہے، طواف کے بعد کی دو رکعتیں اسی مکان کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں، حال میں یہ ترمیم ہوئی کہ وہ مکان تو ہٹا دیا گیا اور مقام ابراہیم کو ایک بلوری خول کے اندر محفوظ کردیا گیا، مقام ابراہیم اصل میں اس خاص پتھر کا نام ہے، اور طواف کے بعد کی رکعتیں اس کے اوپر یا اس کے پاس پڑھنا افضل ہے، لیکن مقام ابراہیم کے لفظی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ تمام مسجد حرام کو حاوی ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ مسجد حرام کے اندر جس جگہ بھی طواف کی رکعتیں پڑھ لے واجب ادا ہوجائے گا۔- داخل بیت اللہ کا مامون ہونا :- آیت مذکورہ میں بیت اللہ کی دوسری خصوصیت یہ بتلائی گئی ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے وہ امن والا یعنی مامون و محفوظ ہوجاتا ہے، اس میں داخل ہونے والے کا مامون و محفوظ ہونا ایک تو تشریعی اعتبار سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہوجائے اس کو نہ ستاؤ نہ قتل کرو، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے یا کوئی اور جرم کر کے وہاں چلا جائے اس کو بھی اس جگہ سزا نہ دی جائے، بلکہ اس کو اس پر مجبور کیا جائے کہ وہ حرم سے باہر نکلے، حرم سے باہر آنے پر سزا جاری کی جائے گی، اس طرح حرم میں داخل ہونے والا شرعی طور پر مامون و محفوظ ہوگیا۔ دوسرے حرم میں داخل ہونے کا مامون و محفوظ ہونا یوں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر ہر قوم و ملت کے دلوں میں بیت اللہ کی تعظیم و تکریم ڈال دی ہے اور وہ سب عموما ہزاروں اختلافات کے باوجود اس عقیدے پر متفق ہیں کہ اس میں داخل ہونے والا اگرچہ مجرم یا ہمارا دشمن ہی ہو تو حرم کا احترام اس کا مقتضی ہے کہ وہاں اس کو کچھ نہ کہیں، حرم کو عام جھگڑوں لڑائیوں سے محفوظ رکھا جائے، زمانہ جاہلیت کے عرب اور ان کے مختلف قبائل خواہ کتنی ہی عملی خرابیوں میں مبتلا تھے، مگر بیت اللہ اور حرم محترم کی عظمت پر سب جان دیتے تھے، ان کی جنگ جوئی اور تند خوئی ساری دنیا میں مشہور ہے، لیکن حرم کے احترام کا یہ حال تھا کہ باپ کے قاتل بیٹے کے سامنے آتا تو مقتول کا بیٹا جو اس کے خون کا پیاسا ہوتا تھا اپنی آنکھیں نیچی کر کے گذر جاتا تھا اس کو کچھ نہ کہتا تھا۔ فتح مکہ میں صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے دین کی اہم مصلحت اور بیت اللہ کی تطہیر کی خاطر صرف چند گھنٹوں کے لئے حرم میں قتال کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی، اور فتح کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑی تاکید کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار فرمایا کہ یہ اجازت صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تطہیر بیت اللہ کی غرض سے تھی اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لئے تھی، اس کے بعد ہمیشہ کے لئے پھر اس کی وہی حرمت ثابت ہے جو پہلے سے تھی، اور فرمایا کہ حرم کے اندر قتل و قتال نہ مجھ سے پہلے حلال تھا نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہے، اور میرے لئے بھی صرف چند گھنٹوں کے لئے حلال ہوا تھا پھر حرام کردیا گیا۔- رہا یہ معاملہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حجاج بن یوسف نے حضرت عبداللہ ابن زبیر (رض) کے خلاف مکہ میں فوج کشی کی اور قتل و غارت کیا، یہ اس امن عام کے تشریعی طور پر اس لئے خلاف نہیں کہ باجماع امت اس کا یہ فعل حرام اور سخت گناہ تھا، تمام امت نے اس پر نفرین کی اور تکوینی طور پر بھی اس کو احترام بیت اللہ کے منافی اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ حجاج خود بھی اپنے اس عمل کے حلال ہونے کا معتقد نہ تھا، وہ بھی جانتا تھا کہ میں ایک سنگین جرم کر رہا ہوں، لیکن سیاست و حکومت کی مصالح نے اس کو اندھا کیا ہوا تھا۔ بہرحال یہ بات پھر بھی محفوظ تھی کہ عامہ خلائق بیت اللہ اور حرم کو اس درجہ واجب الاحترام سمجھتے رہے ہیں کہ اس میں قتل و قتال اور لڑائی جھگڑے کو بدترین گناہ سمجھتے ہیں، اور یہ ساری دنیا میں صرف بیت اللہ اور حرم محترم ہی کی خصوصیت ہے۔- حج بیت اللہ کا فرض ہونا :- آیت میں بیت اللہ کی تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر بیت اللہ کا حج کرنا لازم واجب قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت و استطاعت رکھتے ہوں، اس مقدرت و استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے فاضل اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کرسکے، اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے، نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکان حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی۔- اسی طرح عورت کے لئے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعا جائز نہیں، اس لئے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی جبکہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو، یا یہ عورت اس کا خرچ بھی برداشت کرے، اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لئے راستہ کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جزء ہے، اگر راستہ میں بدامنی ہو، جان و مال کا قوی خطرہ ہو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے گی۔ لفظ حج کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں، اور شری معنی کی ضروری تفصیل تو خود قرآن کریم نے بیان فرمائی کہ طواف کعبہ اور وقوف عرفہ و مزدلفہ وغیرہ ہیں، اور باقی تفصیلات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زبانی ارشادات اور عملی بیانات کے ذریعہ واضح فرمادی ہیں، اس آیت میں حج بیت اللہ کے فرض ہونے کا اعلان فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا ( ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین) یعنی جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے تمام جہان والوں سے۔- اس میں وہ شخص تو داخل ہے ہی جو صراحۃ فریضہ حج کا منکر ہو، حج کو فرض نہ سمجھے، اس کا دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہونا تو ظاہر ہے، اس لئے ومن کفر کا لفظ اس پر صراحۃ صادق ہے، اور جو شخص عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے، لیکن باوجود استطاعت وقدرت کے حج نہیں کرتا، وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہی ہے، اس پر لفظ ومن کفر کا اطلاق تہدید اور تاکید کے لئے ہے، کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے، جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فرمایا کہ آیت کے اس جملہ میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہوگئے۔ (العیاذ باللہ)
فِيْہِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِيْمَ ٠ۥۚ وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا ٠ ۭ وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا ٠ ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ٩٧- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - مَقامُ- والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379-- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم - «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر :- 380-- واستبّ بعدک يا كليب المجلس فسمّى المستبّين المجلس .- المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - حج - أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔.- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔
مقام ابراہیم بھی اللہ کی نشانی ہے۔- قول باری ہے (فیہ ایات بینات مقام ابراھیم ، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقام عبادت ہے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم نشانی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں قدم اللہ کی قدرت سے ایک تھوس پتھر میں دھنس کر اپنا نقش چھوڑگئے تاکہ یہ نقش یانشان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کی صداقت وصحت کی دلالت اور علامت بن جائے۔- بیت اللہ کی امتیازی نشانیاں - بیت اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جس کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے کہ جنگلی جانوروں کو یہاں امن طتا ہے اور وہ چیرپھاڑ کرنے والے درندوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ نیز زمانہ جاہلیت میں خوفزوہ انسان کو یہیں امن نصیب ہوتا تھا اور یہ امن کا گہوارتھاجب کہ حرم سے باہر کا ماحول یہ تھا کہ لوگوں کو اچک لیاجاتا تھا اور ان کی جان ومال کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ایک نشانی یہ ہے کہ تینوں جمرے ابھی تک پہلے کی طرح باقی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر آج تک لامحدود افراد نہیں کنکریاں مارتے چلے آرہے ہیں اور کنکریاں بھی دوسری جگہوں سے لائی جاتی ہیں ایک اور نشانی یہ ہے کہ پرندے بیت اللہ کے اوپر پرواز نہیں کرتے بلکہ اس کے اردگرد محوپر وازرہتے ہیں اور جو پرندے بیمارہوتے ہیں انہیں یہاں آکرشفاحاصل ہوجاتی ہے۔ نیز ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جو شخص بیت اللہ کی بےحرمتی کرتا اسے فوری طورپرسزامل جاتی۔ شروع سے ہی یہی طریقہ چلاآرہا ہے۔- اصحاب فیل کا واقعہ بھی ایک نشانی ہے کہ جب انہوں نے بیت اللہ کو ڈھانے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈبھیج کر انہیں تباہ و برباد کردیا۔ بیت اللہ کی یہ چند نشانیاں ہیں جو ہم نے بیان کیں جبکہ بےشمارنشانیاں ہمارے بیان کے دائرے میں آنے سے رہ گئیں۔ ان تمام نشانیوں میں ایک بات کی دلیل موجود ہے اور وہ یہ کہ بیت اللہ سے مراد ساراحرم ہے اس لیے کہ یہ تمام نشانیاں حرم میں پھیلی ہوئی ہیں اور خودمقام ابراہیم بھی بیت اللہ سے باہر اورحرم کے اند رہے۔ واللہ اعلم۔- کوئی مجرم جرم کرنے کے بعد حرم میں پناہ لے لے یاحرم کے حدود میں ارتکاب جرم کرے - قول باری ہے (ومن دحلہ کان امنا، اور جو شخص اس میں داخل ہوگیا دہ مامون ہوگیا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ان اول بیت وضع للناس) کے بعد جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ پورے حرم میں موجود ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا گیا (ومن دخلہ کان امنا) تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ یہاں صرف بیت اللہ مرادنہ ہوبل کہ پوراحرم مراد لیاجائے۔ نیز قول باری (ومن دخلہ کان امنا) اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ مامون ہوجائے خواہ اس نے داخل ہونے سے پہلے جرم کیا ہویا داخل ہونے کے بعد تاہم فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم کے اندر کسی کی جان لے لے یا اس سے کم یعنی کسی کے اعضاء کو نقصان پہنچانے کا جرم کرے تو وہ حرم کے اندر بھی اس جرم میں ماخوذہوگا۔- یہاں ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ قول باری (وامن دخلہ کان امنا) خبر کی صورت میں ام رہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ حرم میں داخل ہونے والا شخص اللہ کے حکم اور اس کے امر میں مامون ہے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ فلاں چیزمباح ہے فلاں چیز منوع ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے حکم اور بندوں کو دیئے گئے اوامر میں اس چیز کی حیثیت یہی ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ کسی مباح کرنے والے نے اسے مباح سمجھ لیا ہے۔ یانما نعت کا اعتقادرکھنے والے شخص نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ اس کی حیثیت یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے مباح کے متعلق یہ فرمادیا کہ ، یہ فعل کرلو، اس کانہ کوئی جرمانہ تم پر آئے گانہ ہی ثواب ملے گا۔ اور ممنوع کے متعلق یہ فرمادیا کہ یہ فعل نہ کرو اگر کروگے تو سزا کے مستحق ٹھہروگے۔- اسی طرح قول باری (ومن دخلہ کان امنا) میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم داخل ہونے والے کا مان دیں اور اس کا خون نہ بہایں، آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولاتقاتلوھم عندالمسجدالحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم، ان سے مسجدحرام کے پاس اس وقت تک قتال نہ کروجب تک وہ تم سے جنگ کرنے میں پہل نہ کریں اگر وہ تم سے وہاں یہ حکم دیا کہ ہم حرم میں مشرکین کو اس وقت قتل کریں جب وہ ہمارے ساتھ پنچہ آزمائی پر اترآئیں۔- اب اگر قول باری (ومن دخلہ کان امنا) جملہ خبریہ ہوتا تو ہرگز اس کا جواز نہ ہوتا کہ جس بات کی خبر دی گئی ہے وہ سرے سے پائی نہ جائے۔ اس لیئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ درج بالا قرآنی فقرہ خبر کی صورت میں ام رہے جس کے ذریعے ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے کہ ہم اسے امان دیں اور اس کا خون بہانے سے ہمیں روک قتل سے امان دیں جس کا وہ ارتکاب قتل کی بناپرسزاوارہوچکا ہے۔ اگ اس حکم کو پہلی صورت پر محمول کیا جائے یعنی بلاوجہ بلکہ ازراہ ظلم قتل ہوجانے سے امان دے دی جائے تو پھر اس حکم کے ساتھ حرم کی تخصیص بےفائدہ ہوگی کیونکہ اس معاملے میں حرم اور غیرحرم دونوں کی یکساں حیثیت ہے، اس لیئے کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم ہر شخص کو ظلم وتعدی سے بچائیں اور حفاظت مہیاکریں خواہ یہ ظلم ہماری طرف سے ہورہاہویا کسی اور کی طرف سے ۔ غرض اس پوری بحث سے جو چیز ہمارے علم میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ امان سے مراد ایسے قتل سے امان ہے جس کا حرم میں داخل ہونے والا ارتکاب قتل کے جرم کی بناپرسزاوارہوچکا ہے۔ آیت کا ظاہراس کا متقاضی ہے کہ ہم اسے امان مہیا کریں خواہ اس نے حرم کے اندریہ جرم کیا ہو یا حرم سے باہر۔- تاہم اہل علم کے اتفاق کی بناپریہ دلالت قائم ہوگئی ہے کہ جب کوئی شخص حرم کے اندرقتل کا ارتکاب کرے گا تو اسے اس جرم کی پاداش میں قتل کردیاجائے گا۔ قول باری ہے (ولاتقاتلوھم عندالمسجدالحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم) اللہ تعالیٰ نے حرم کے اندرجرم کرنے والے اور حرم سے باہرجرم کرکے حرم میں پناہ لینے والے کے درمیان فرق رکھا ہے۔- حدود حرم سے باہرجرم کرنے والا اگر حرم میں پناہ لے لے تو کیا سلوک کیا جائے - اس شخص کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے جو حدود حرم سے باہرجرم کرکے حرم میں پناہ لے لے۔ امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد زفر اورحسن بن زیادہ کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو قتل کرنے کے بعد حدودحرم میں داخل ہوجائے تو اس وقت تک قصاص نہیں لیاجائے گا جب تک وہ حدددحرم میں رہے گا۔ لیکن نہ اس کے ساتھ خرید د فروخت کی جائے گی اور نہ ہی کھانے پینے کے لیئے اسے کچھ دیا جائے گا حتی کہ وہ مجبورہو کر حدود حرم سے باہرنکل آئے پھر اس سے قصاص لیاجائے گا۔ اگر وہ حرم کے اندرقتل کا ارتکاب کرے گا تو اسے قتل کردیاجائے۔ اگر اس نے حرم سے باہر قتل نفس سے کم تر جرم کیا ہو یعنی کسی کے اعضاء وجوارح کو نقصان پہنچایاہو اور پھر حرم میں داخل ہوگیا تو اس سے حرم کے اندرہی قصاص لے لیا جائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس سے ہر صورت میں حرم کے اندرہی قصاص لیا جائے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) حضرت ابن عمر (رض) ، عبید اللہ بن عمیر، سعید بن جبیر، طاؤس اور شعبی سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص قتل کا جرم کرکے حرم میں پنا ہ لے لے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ نشست وبرخاست کی جائے گی نہ اسے ٹھکانہ مہیاکیاجائے گا نہ اس کے ہاتھ کوئی چیزوفروخت کی جائے گی حتی کہ دہ حدددحرم سے نکل جائے پھر اسے قتل کر دیاجائے گا۔ اگر اس نے حرم کے اندر ارتکاب قتل کیا تو اس پر د ہیں حدجاری کردی جائے گی۔- قتادہ نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ جو شخص حرم کے اندریاحرم سے باہر کسی کے خون سے اپناہاتھ آلودہ کرلے تو اس پر حدقائم کرنے سے حرم آڑے نہیں آئے گا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ حسن کہا کرتے تھے کہ (ومن دخلہ کان امنا) کا تعلق دور جاہلیت سے تھا کہ اس زمانے میں اگر کوئی شخص خواہ کتنا بھیانک جرم کیوں نہ کرلیتا اور پھر حرم میں پناہ گزیں ہوجاتا تو جب تک وہ حرم میں رہتا اس سے کوئی سے باہر کسی حدکاسزاوار ہوجائے پھر بھاگ کر حرم میں پناہگزیں ہوجائے تو اس پر حرم کے اندرہی حد جاری کردیں جائے گی۔- ہشام نے حسن اور عطاء سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدودحرم سے باہر کسی حدکاسزا واہوجائے۔ پھر حرم میں پناہگزیں ہوجائے تو اسے حرم سے باہر نکال دیاجائے گا اور باہرلے جاکر اس پر حدجاری کردی جائے گی۔ مجاہد سے بھی یہی قول منقول ہے۔ اس قول میں یہ احتمال ہے کہ ان کی مراد اس سے یہ ہو کہ اسے حرم سے باہرچلے جانے پر اس طرح مجبورکردیاجائے گا کہ حرم کے اندراس کی مجالست تزک کردی جائے گی، اسے ٹھکانہ نہیں دیاجائے گا اس کے ہاتھ کوئی چیز فردخت نہیں کی جائے گی غرض اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ عطاء سے یہ قول اسی تفسیر کے ساتھ منقول ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے کہ اسے حرم سے نکالنے کے سلسلے میں عطاء اور حسن سے جو روایت منقول ہے اسے اسی معنی پر محمول کیا جائے ہم نے بتادیا ہے کہ قول باری (ولاتقاتلوھم عندالمسجد الرحرام حتی یقاتلوکم فیہ) کی دلالت اسی مفہوم پر ہورہی ہے جس پر قول باری (ومن دخلہ کان امنا) کی ہے۔ اس مقام پر ہم نے اس بات پر دلالت کی وجہ بھی بیان کردی ہے کہ حرم میں دخول اس شخص کو قتل کرنے سے مانع ہے جو اس میں آکرپناہ لے لے بشرطیکہ اس نے جرم کا ارتکاب حرم میں نہ کیا ہو۔- اس بارے میں ہم نے سلف کے جو اقوال نقل کیئے ہیں وہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص حدودحرم سے باہرقتل کا ارتکاب کرکے حرم میں پناہگزیں ہوجائے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیئے کہ حسن بصری سے اس سلسلے میں دومتضادروایتیں ہیں۔ ایک روایت قتادہ کے واسطے سے ہے کہ اسے قتل کردیاجائے گا۔ دوسری روایت ہشام کے واسطے سے ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے حرم سے نکال باہر کیا جائے گا اور پھر قتل کیا جائے گا، ہم نے یہبیان کردیا ہے کہ حسن کے اس قول میں یہ احتمال ہے کہ ان کی مراد شاید یہ ہو کہ اس کے ساتھ لین دین کھاناپینا اور اٹھنا بیٹھنا نزک کرکے اسے باہر نکلنے پر مجبورکردیاجائے گا۔ اس طرح دومتضادردایتوں کی بناپر اس اس مسئلے میں گویا حسن بصری کا قول برقرارنہ رہ سکا۔ اس لیے صحابہ اور تابعین کا یہ قول باتی رہ گیا کہ حرم کے حدود سے باہرقتل کے جرم کا قصاص حرم کے اندر نہیں لیاجائے گا۔- سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر ارتکاب جرم کرے گا تو وہ اس جرم میں ماخوذہوکرسزائے موت یا اور کوئی سزاپالے گا۔- اگریہ کہاجائے کہ قول باری (کتب علیکم القصاص فی القتلٰی، قتل ہوجانے والے کے لیے قصاص لینا تم پر فرض کردیا گیا ہے) اور قول باری (النفس بالنفس ، جان کے بدلے جان) نیز قول باری (ومن قتل مظلمومافقد جعلنا لولیہ سلطاتا۔ جو شخص ازراہ ظلم قتل کردیاجائے اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطاکردیا ہے۔ ) کا عموم حرم میں قاتل سے قصاص لینا واجب کردیتا ہے۔ خواہ اس نے قتل کا ارتکاب حرم کے اندر کیا ہو یا حرم سے باہر۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے پہلے ہی اس بات کی دلیل پیش کردی ہے کہ قول باری (ومن دخلہ کان امنا) کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حدود حرم سے باہرقتل کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا یعنی قتل سے حرم میں امن حاصل ہوجاتا ہے اور قول باری (کتب علیکم القصاص) نیز دیگر دوسری آیات جو قصاص کو واجب کردیتی ہیں ترتیب میں ان کا حکم حرم میں دخول کی بناپرحاصل ہوجانے والے امن کے حکم کے بعد آتا ہے اس بناپرقصاص کی آیات کے عمومی حکم سے اس حکم کی تخصیص کردی جائے گی۔ نیز قول باری (کتب علیکم القصاص) کا حکم ایجاب قصاص کے سلسلے میں واردہوا ہے۔ حرم کے احکامات کے ضمن میں نازل نہیں ہوا اور (ومن دخلہ کان امنا) حرم کے حکم اور حرم میں پناہ لینے والے کو امن کے حصول کے سلسلے میں واردہوا ہے۔ اس لیے ہر حکم اپنے متعلقہ باب میں مؤثرہوگا اور جس سلسلے میں ی ہ واردہوا ہے اس پر اسی سلسلے میں عمل جائے گا اور اس طرح قصاص کی آیتیں حرم کے حکم میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔- ایک اور پہلو سے غور کیا جائے تو عملوم ہوگا کہ قصاص کا ایجاب حرم میں داخل ہوجانے کی بناپر امان ملنے کے وجوب پر لامحالہ مقدم ہے۔ اس لیے کہ اگر دخول سے پہلے اس پر قصاص واجب نہ ہوتاتو یہ کہنا محال ہوتا کہ اسے اس جرم کی سزا سے امن مل گیا ہے۔ جس کا ارتکاب نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس سزاکا حقداربنا۔ اس استدلال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دخول حرم کی بناپرا سے ملنے والے امن کا حکم ایجاب قصاص کے حکم سے متاخ رہے۔- اگر روایات کی جہت سے دیکھا جائے تو حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوسریح کعبی کی حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان اللہ حرم مکۃ ولم تحل لاحدقبل ولالاحدبعدی وانما احلت لی ساعۃ من نھار، اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی تحریم کردی ہے یعنی اسے حرمت والی جگہ بنادیا ہے۔ اب اس کی حرمت نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے اٹھائی گئی اور نہ مجھ سے بعد کسی کے لیے اٹھائی جائے گی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی بھرکے لیئے اس کی حرمت اٹھادی گئی تھی۔ ) اس حدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ حرم میں پناہ لینے والے قاتل اور حرم کے اندرقتل کا جرم کرنے والے دونوں کے قتل کی ممانعت ہے۔ تاہم حرم کے اندرجرم کرنے والے کے متعلق امت کا اتفاق ہے کہ اسے پکڑکرحرم کے اندرہی سزادے دی جائے گی۔ اس لیے اب حدیث کا حکم صرف اس شخص کے حق میں باقی رہ گیا جو حدددحرم سے باہرجرم کا ارتکاب کرنے کے بعد حرم میں آکرپنا ہگزیں ہوجائے۔- حمادین سلمہ نے حبیب المعلم سے روایت کی ہے انہوں نے عمروبن شعیب سے انہوں نے واپنے والد سے انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمروبن العاص سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (ان اعتی الناس علی اللہ عزوجل رجل قتل غیر قاقلہ اوقتل فا الحرم اوقتل بذھل الجاھلیۃ، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ سرکش اور معتوب انسان وہ ہے۔ جو اپنے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کردے۔ یاحرم کے حدود میں قتل کا ارتکاب کرے یا زمانہ جاہلیت کے کسی کینے اور دشمنی کی بناپر کسی کی جان لے لے) اب اس روایت کا عموم بھی ہراس شخص کے قتل کی ممانعت کرتا ہے جو حرم میں موجود ہو اس لیے اس عمومی حکم سے دلالت کے بغیر کوئی تخصیص کی جائے گی۔- اتلاف نفس سے کم ترجرم پر وہیں سزادی جائے گی - اگرجرم اتلاف نفس سے کم درجے کا ہو یعنی کسی عضویا اعضاء کو نقصان پہنچایا گیا ہو تو حرم کے اندررہتے ہوئے بھی مجرم کو پکڑکرسزادے دی جائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے قرض ہو اور وہ بھاگ کر حرم میں پناہ لے لے توا سے پکڑکرقید میں ڈال دیاجائے گا۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ، جو شخص قرض ادا کرسکتا ہو اورپھروہ ادائیگی میں ٹال مٹول کرے تو اس کی یہ حرکت اس کی آبروادراس کی سزاکوحلال کردے گی) قرض کے سلسلے میں کسی کو قید ر دینا سزا کی صورت ہے اور یہ سزا اسے اتلاف نفس سے کم ترجرم پر دی جارہی ہے۔ اس لیے ہر وہ حق اتلاف نفس سے کم ترجرم کی بنا پر واجب ہورہا ہو اس کی بناپرمجرم کو پکڑلیا جائے گا اگر دہ بھاگ کر حرم میں پناہ گزیں کیوں نہ ہوگیا ہو۔- اس مسئلے کو قرض کے سلسلے میں جس کرنے کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے۔ نیز فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اتلاف نفس سے کم ترجرم کو پکڑاجائے گا۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اتلاف نفس اور اس سے کم ترجم کا مجرم اگر حرم میں ارتکاب جرم کرے تو دہ ماخوذ ہوگا، نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حددد حرم سے باہر جرم کرنے کے بعد حرم میں آکرپناہ لینے والے مجرم کو جب حدد دحرم میں سزائے موت دینا واجب نہیں ہوگاتو کم ازکم یہ ضرور کیا جائے گا۔ کہ اس کے ساتھ لین دین خرید وفرخت بندکردی جائے گی نیز اسے کوئی ٹھکانہ بھی مہیا نہیں کیا جائے گا۔ حتی کہ وہ بےبس ہو کر حدودحرم سے باہرنکل جائے۔- جب ہمارے نزدیک حددحرم میں اس کا قتل نہ کیا جانا ثابت ہوگیا تو اس کے متعلق دوسرے حکم پر عمل ورآمدنا گزیرہوگیا یعنی لین دین خرید و فروخت اور ٹھکانہ وغیرہ مہیانہ کرنے کا حکم ۔ درج بالاتمام صورتیں وہ ہیں جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف صرف اس صورت میں ہے جبکہ کوئی قاتل حدودحرم سے باہرجرم کرنے کے بعد حرم میں آکرپنا ہ لے لے۔ ہم نے اس کے متعلق اپنے دلائل بیان کردیئے ہیں۔ اس لیے اس اختلافی صورت کے علاوہ بقیہ تمام صورتوں کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا جس پر اتفاق ہوچکا ہے۔- تین طرح کے لوگ مکہ میں نہیں رہ سکتے - ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں محمد بن عبدوس بن کامل نے انہیں یعقوب بن حمید نے انہیں عبداللہ بن الولید نے سفیان ثوری سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے انہوں نے حضرت جابر (رض) سے انہوں نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لایسکن مکۃ سافک دمولااکل ریاولامشاء بنمیمۃ، مکہ میں وہ شخص نہیں رہ سکتا جس کا ہاتھ کسی کے خون سے رنگا ہواہو اورنہ دہ شخص جو سود خورہو اورنہ وہ جو لگائی بجھائی کرنے والاہو) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب قاتل حرم میں داخل ہوجائے تو اسے نہ کوئی ٹھکانہ دیاجائے نہ اس کے ساتھ مجالست کی جائے، لین دین اور خرید و فروخت کی جائے اور نہ ہی اسے کھلایاپلایاجائے۔ حتی کہ وہ مجبورہوکر حرم سے باہرچلاجائے اس لیئے کہ آپ نے فرمادیا کہ، کسی کے خون سے ہاتھ رنگنے والا مکہ میں رہ نہیں سکتا۔- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انہیں احمدبن الحسن بن عبدالجبارنے انہیں داؤد بن عمرونے انہیں محمد بن مسلم نے ابراہیم بن میسرہ سے انہوں نے طاؤس سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آپ نے فرمایا ۔ جب قاتل حرم میں داخل ہوجائے تو اس کے ساتھ نہ تومجالست کی جائے، نہ خرید و فروخت اور نہ ہی اسے کوئی ٹھکانہ دیاجائے۔ بلکہ مقتول کے خون کا طالب اس کے پیچھے لگا رہے اور اس سے یہ کہتا رہے کہ فلاں شخص کے خون کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اورحرم سے نکل جاؤ۔- قول باری (ومن دخلہ کان امنا) کی نظیر یہ قول باری ہے۔ (اولم یروا اناجعلنا حرماامنا ویتخطف الناس من حولھم، کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنادیا جبکہ (احرم سے باہر) ان لوگوں کے چاروں طرف یہ صورت حال تھی کہ لوگوں کو اچک لیاجاتا تھا) نیزیہ قول بار (اولم نمکن لھم حرماامنا، کیا ہم نے انہیں امن وامان دالے حرم میں جگہ نہیں دی) اور یہ قول باری بھی (واذجعلناالبیت متابۃ للناس وامنا، اور جبکہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ٹھکانہ اور امن والی جگہ بنادیا۔- یہ تمام آیتیں اس بات پر دلالت کرنے میں تقریباہم معنی ہیں کہ حرم میں آکر پناہ لے لینے واے کو باوجود یکہ دہ حرم میں آنے سے پہلے سزائے موت کا مستحق ہوچکا تھا قتل کرنے کی ممانعت ہے پھر ان آیات میں کبھی لفظ بیت کے ذکر سے اور کبھی لفظ حرم کے ذکر سے بات بیان کی گئی ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ حرم کا سارا علاقہ امن کے اعتبار سے اور پناہ لینے والے کو قتل نہ کرنے کے لحاظ سے بیت اللہ کے حکم میں ہے۔ پھر جب کسی کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص بیت اللہ میں پناہ گزیں ہوجائے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو صفت امن کے ساتھ موصوف کیا ہے تو ضروری ہوگیا کہ حرم اور حرم میں پناہ لینے والے کا بھی یہی حکم ہو۔- اگر یہ کہاجائے کہ جو شخص بیت اللہ کے اندرقتل کا ارتکاب کرے گا اسے بیت اللہ میں سزا کے طورپرقتل نہیں کیا جائے گا لیکن جو شخص حرم میں اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے سزائے موت دے دی جائے گی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حرم بیت اللہ کی طرح نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان باتوں میں حرم کو بیت اللہ کے حکم میں رکھا جن سے اس کی حرمت کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہی اور اس کی تعبیر کبھی لفظ بیت کے ذکر سے اور کبھی لفظ کے ذکر سے کی تو یہ اس بات کا مقتضی ہوگیا کہ بیت اللہ اور حرم دونوں کو یکساں درجے پر رکھا جائے سوائے ان باتوں کے جن کی تخصیص کے لیے دلائل موجودہوں۔ اور چونکہ بیت اللہ کے اندر کسی کو قتل کرنے کی ممانعت کی دلیل قائم ہوچکی ہے اس بناپرہم نے اس کی تخصیص کردی ہے۔ اور حرم کا حکم اس طورپرباقی رہ گیا جو ظاہر قرآن کا مقتضی تھا یعنی بیت اللہ اور حرم کے درمیان یکسانیت کا۔ واللہ اعلم - حج کی فرضیت - قول باری ہے (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا، لوگوں پر یہ اللہ کا حق ہے کہ جو شخص وہاں تک پہنچنے کی استطاعترکھتا ہو وہ اللہ کے گھرکا حج کرے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حج کی فرضیت کے ایجاب کے لیے یہ آیت بالکل واضح ہے۔ بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو۔ یہ شرط جس بات کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کے لیئے وہاں تک پہنچ ناممکن ہوا سے گویا استطاعت حاصل ہوگئی۔ اگر استطاعت کا مفہوم وہاں تک پہنچنے کا امکان لیا جائے جس طرح کہ قول باری ہے (فھل الی خروج من سبیل، کیا یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے) یعنی کوئی ذریعہ ہے۔ نیز قول باری ہے (وھل الی مردمن سبیل، کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے) یعنی کوئی ذریعہ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں تک پہنچنے کی استطاعت کی شرط زادرہ اور راحلہ یعنی توشہ (سفرخرچ) اور سواری کی موجود گی رکھی ہے۔- استطاعت کے باوجودحج نہ کرنا بہت بڑاجرم ہے - ابواسحاق ن الحارث سے انہوں نے حضرت علی (رض) اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (من ملک زاد اوراحلۃ یبلغہ بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا اونصرانیا، جو شخص زادراہ اور سواری کا مالک ہو جس کے ذریعے وہ بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اورپھرحج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی رواہ نہیں ہوگی کہ وہ یہودی یانصرافی بن کرمرے ، یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔- ابراہیم بن یزید الخوزی نے محمد بن عباد سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت درج بالاکامطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (السبیل الی الحج الزادوالراحلۃ، حج تک پہنچنے کا ذریعہ زادراہ اور سواری ہے) یونس نے حسن بصری سے روایت کی ہے۔ کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ اللہ کے رسول سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ زادراہ اور سواری۔ عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سبیل سے مراد زادراہ اور سواری ہے۔ نیز اس کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی شخص رکاوٹ نہ بناہو۔ سعیدبن جبیرکاقول ہے کہ سبیل سے مراد زادراہ اور سواری ہے۔- حج نہ کرنے کے شرعی عذرکون کون سے ہیں - ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ زادراہ اور سواری کا وجود اس سبیل کا مدلول ہے جس کا ذکراللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت میں کیا ہے۔ نیز یہ حج کی شرائط میں سے ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ استطاعت کا انحصارصرف ان ہی دونوں چیزوں پر نہیں اس لیے کہ مریض، خالف، بوڑھا انسان جو سواری پر بیٹھنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو، اپاہج نیز ہر وہ شخص جس کے لیے بیت اللہ تک پہنچنامتعدزہوان تمام لوگوں کا شماران میں ہوتا ہے جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتے خواہ ان کے پاس زادراہ اور سواری کیوں نہ موجودہو۔- اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرماکر کہ، سبیل الی الحج زادراہ اور سواری کا نام ہے، یہ مراد نہیں لیا کہ یہی دونوں چیزیں استطاعت کی جملہ شرطیں ہیں۔ البتہ اس سے اس قائل کے قول کا بطلان ضرورہوگیا ہے۔ جس کے نزدیک اگر کوئی شخص بیت اللہ تک پیدل سفر کی طاعت رکھتا ہو اورا سے زادراہ اور ر سواری میسر نہ ہو تو اس پر حج فرض ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درج بالاحدیث میں یہ بیان فرمادیا کہ حج کی قرضیت کالزوم سواری کے ذریعے سفر کے ساتھ مخصوص ہے۔ نہ کہ پیدل سفر کے ساتھ۔ نیز یہ کہ جس شخص کے لیے وہاں تک صعوبت اٹھاکر اوردشواری برداشت کرکے ہی پیدل پہنچ ناممکن ہو اس پر حج فرض نہیں۔- مکہ کے قریب وجوار میں مقیم لوگوں کے لیے حکم حج - اگریہ کہاجائے کہ پھر تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جس شخص کے گھر اورم کہ مکرمہ کے درمیان صرف ایک گھنٹے کی مسافت ہو اور وہ پیدل چلنے کی قدرت رکھتا ہو صرف اسی پر حج کی فرضیت لازم ائے۔ اسے جواب میں کہا جائے گا کہ اسے پیدل چلنے میں سخت مشقت کا سامنانہ کرنا پڑے قو اس کا معاملہ اس شخص کے مقابلہ میں زیادہ آسان ہوگا جس کے پاس زادراہ اور سواری قوموجودہو لیکن اس کا وطن مکہ مکرمہ سے بہت دورہویہ بات تو واضح اور معلوم ہے کہ زادراہ اور سواری کی شرط صرف اس واسطے لگائی گئی ہے کہ اسے حج کے سفر میں مشقت پیش نہ آئے اور چلنے کی پر پیش آنے والی تکلیفوں سے بچا رہے ۔ اب اگر وہ شخص مکہ مکرمہ یا اس کے اطراف کا باشندہ ہو کہ جسے دن کی ایک گھڑی بھرپیدل سفر میں کوئی دشواری پیش نہ آئے تو ایسا شخص بیت اللہ تک بلامشقت پہنچنے کی استطاعت کا حامل سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص سخت مشقت اٹھائے بغیر بیت اللہ تک نہ پہنچ سکتا ہوا س کے لیے اللہ نے تحفیف کردی ہے کہ اس پر حج کی فرضیت کالزوم صرف اس شرط کی بناپرہوگا جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں بیان فرمادیا ہے۔ قول باری ہے (وما جعل علیکم فی الدین من حرج، اللہ تعالیٰ نے تمہاری لیے دین کے معاملے میں کوئی تنگی پیدا نہیں کی) حرج سے مراد ضیق تنگی ہے۔- بغیرمحرم کے عورت سفرنہ کرے چاہے سفرحج کیوں نہ ہو - ہمارے نزدیک عورت پر فرضیت حج کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ کرنے کے لیے اس کا کوئی محرم موجودہو۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (لایحل لامرا ۃ تومن باللہ والیوم الاخران تسفرسفوافوق ثلاث الامع ذی محرمرادزوج کسی ایسی عورت کے لے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو تین دن سے زائد کا سفرحلال نہیں ہے الایہ کہ اس کا کوئی محرم یاشوہر ساتھ ہو) عمربن دینارنے ابومعبد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوران خطبہ ارشاد فرمایا (لاتسافرامراۃ الاومعھا ذومحرم، کوئی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے) ایک شخص نے کھڑے ہوکرعرض کیا کہ میرانام فلاں غزوہ کے لیے لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کے لیے جانا چاہئی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ۔ تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کا یہ قول کہ۔ کوئی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے۔- حج کے ارادے سے سفر کرنے والی عورت بھی تین وجوہ سے شامل ہے۔ اول یہ کہ سائل کو اس شمولیت کی سمجھ تھی اس لیے اس نے اپنی بیوی کے متعلق مسئلہ پوچھا جو حج پر جانا چاہتی تھی۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سوال پر ناپسند یدگی کا اظہار بھی نہیں کیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس سے ہر قسم کا سفرمراد ہے۔ خواہ وہ حج کا سفرہو یا کسی اور کا۔ دوم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ، اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ، اس میں دراصل یہ خبردی گئی ہے کہ آپ کے ارشاد، کوئی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے، میں سفر سے مراد سفرحج ہے۔ سوم حج ہے۔ سوم آپ نے سائل کو غزدہ پر جانے سے منع کرکے بیوی کیساتھ حج کے سفرپرجانے کا حکم دیا۔ اگر اس کی بیوی کے لیے محرم یاشوہر کے بغیر حج کا سفر جائز ہوتا تو آپ ہرگزا سے فرض یعنی غزوہ کو چھوڑکرنفل یعنی سفرحج پر جانے کا حکم نہ دیتے۔ اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ وہ عورت فرض حج پر جانا چاہتی تھی۔ نفلی حج پر نہیں ۔ اس لیے کہ اگر یہ اس کانفلی حج ہوتا تو آپ شوہر کو بیوی کے نفلی حج کے لیئے نزک جہاد کا حکم نہ دیتے جو کہ فرض تھا۔- ایک اور جہت سے اس پر غورکریں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے یہ نہیں پوچھا کہ اس کی بیوی فرض حج پر جانا چاہتی ہے یانفلی حج پر۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر سفر کی پابندی کے لحاظ سے نفلی اور فرض حج دونوں کا حکم یکساں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ محرم کا ساتھ ہونا حج کے لیے عورت کی استطاعت کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کہ عورت کی استطاعت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ عدت میں نہ ہو اس لیے کہ قول باری ہے (لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الاان یاتین بفاحشۃ، انہیں (یعنی عدت گزارنیوالی عورت کو) ان کے گھروں میں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود گھروں سے نکلیں الایہ کہ وہ کسی بےحیائی کا ارتکاب کربیٹھیں) جب عورت کی استطاعت کے سلسلے میں اس بات کا اعتبار کیا گیا ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ محرم کے بغیرسفر کی ممانعت کا بھی استطاعت میں اعتبارکیاجائے۔- حج کے لیے ایک شرط جس کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے یہ ہے کہ حج پر جانے والا سواری پر بیٹھنے کے قابل ہو۔ اس سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے انہیں موسیٰ بن الحسن بن ابی عبادنے انہیں محمد بن مصعب نے انہیں اوزاعی نے زھری سے انہوں نے سلیمان بن یسار سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی خثعم کی ایک خاتون نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا میرے بوڑھے باپ کو فریضہ حج عائد ہوگیا ہے لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ بڑھا پے کی وجہ سے وہ سواری پرجم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا آیامیں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ ، ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کرلو، اس طرح آپ نے اس عورت کو اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے باپ پر حج اداکرنالازم قرار نہیں دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حج تک پہنچنے کا امکان استطاعت کی ایک شرط ہے۔- ایسے لوگ یعنی مریض، اپاہج اور عورت وغیرہ اگرچہ زادراہ اور سواری رکھنے کے باوجود ان پر حج لازم نہیں ہوتا۔ لیکن ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی طرف سے دوسروں کو بھیج کر ان کے ذریعے اپنا حج کرائیں اور قریب الموت ہونے کی صورت میں حج کرانے کی وصیت کرجائیں۔ اس لیے کہ ان کی ملکیت میں ان چیزوں کا وجودجن کے ذریعے حج تک پہنچنا ممکن ہے ۔ ان کے مال میں حج کی فرضیت کو اس صورت میں لازم کردیتا ہے جبکہ ان کے لیے خود حج کرنا ممکن نہ ہو۔ اس لیے کہ حج کی فرضیت کا تعلق دوچیزوں کے ساتھ ہے۔ اول زادراہ اور سواری کی موجودگی اور ذاتی طورپر اس کی ادائیگی کا ممکن ہونا۔ جس شخص کی یہ کیفیت ہو اس کے لیئے حج پر نکلنا ضروری ہے۔ دوم، بیماری، بڑھا پییا اپاہج ہونے کی بناپریا عورت کے ساتھ محرم یاشوہرنہ ہونے کی وجہ سے خود سفرکرکے حج کی ادائیگی کا متعذرہونا۔- ان صورتوں میں ایسے لوگوں پر ان کے مال میں حج کی فرضیت لازم ہوجاتی ہے۔ جبکہ انہیں خود جا کر حج کی ادائیگی سے مایوسی اور درماند گی لاحق ہوچکی ہو۔ اگر کوئی بیماریا عورت اپنی طرف سے حج کرا دے اور پھر مریض تندرست ہونے سے پہلے مرجائے یا عورت کو محرم دستیاب ہونے سے پہلے اس کی وفات ہوجائے تو ان کا یہ حج بدل ان کی طرف سے کفایت کرجائے گا اور اگر حج کرانے کے بعد مریض صحتیاب ہوجائے یا عورت کو محرم دستیاب ہوجائے تو یہ حج بدل ان کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا۔ خثعمی خاتون کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کرنا کہ اس کے بوڑھے باپ کو فریضہ حج لازم ہوگیا ہے۔ لیکن وہ سواری پرجم کر بیٹھنے کے بھی قابل نہیں ہے اور آپ کی طرف سے اسے اپنے باپ کی جگہ حج کرنے کی اجازت اس پر ال ہے کہ اس بوڑھے کو اس کے مال فرضیت حج لازم ہوگئی تھی۔ اگرچہ اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ وہ سواری پر بیٹھنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تھا۔- مال میں فرضیت کے لزدم کی دلیل یہ ہے کہ اس عورت نے یہ خبردی تھی کہ اس کے باپ پر حج فرض ہوگیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کی اس بات کی تردید نہیں فرمائی یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے مال میں فرضیت حج لازم ہوگئی تھی۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اسے یہ حکم ملنا کہ اپنے باپ پر لازم شدہ حج کو تم خوداداکرو۔ یہ بھی اس کے لزوم پر دال ہے۔- فقیر کے حج کے بارے میں آرائے ائمہ - فقیر کے حج کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ اس پر کوئی حج فرض نہیں۔ لیکن اگر وہ حج کرلے تو حج اسلام یعنی فرض حج کی ادائیگی ہوجائے گی۔ امام مالک سے منقول ہے کہ اگر اس کے لیئے پیدل سفرممکن ہو تو اس پر حج فرض ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) اور حسن بصری سے منقول ہے کہ استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے وہاں تک پہنچا نے کا کوئی ذریعہ حاصل ہو خواہ اس ذریعے کی کوئی بھی شکل کیوں نہ ہو لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ استطاعت زادراہ اور سواری کا نام ہے اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایسے شخص پر کوئی حج نہیں۔- تاہم فقیرپیدل چلی کر اگربیت اللہ پہنچ گیا تو وہاں پہنچنے کے ساتھ ہی اسے استطاعت حاصل ہوجائے گی اور اس ی حیثیت مکہ کے باشندوں کی طرح ہوجائے گی اس لیے کہ یہ بات تو واضح ہے کہ زاد اور راحلہ کی شرط ان لوگوں کے لیے ہے جو مکہ مکرمہ سے دوررہتے ہیں۔ اس لیے جب ایک شخص مکہ معظمہ پہنچ گیا تو اب دہ زادوراحلہ کی ضرورت سے مسغنی ہوگیا۔ جن کی شرط صرف اس لیے تھی کہ وہ وہاں پہنچ سکے ۔ اس بناپر اس پر حج لازم ہوجائے گا اور جب وہ حج ادا کرلے گا توفرضیت کی ادائیگی ہوجائے گی۔- غلام کے حج کے متعلق خیالات ائمہ۔- غلام اگر حج کرلے تو آیا اس کا فرض حج ادا ہوجائے گا ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ادا نہیں ہوگا اور امام شافعی کے نزدیک ادا ہوجائے گا۔ ہمارے قول ک صحت کی دلیل وہ روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں مسلم بن ابراہیم نے انہیں ہلال بن عبداللہ نے جو ربیعہ بن سلیم کے آزاد کردہ غلام تھے، انہیں ابواسحق نے الحارث سے انہوں نے حضرت علی (رض) سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (من ملک زاد اوراحلۃ تبلغم الی بیت اللہ ثم لم یحیج فلاعلیہ ان یموت یھودیا اونصرانیا، جو شخص زاد اورراحلہ کا مالک ہو جس کے ذریعے وہ بیت اللہ پہنچ سکتا ہو پھر وہ حج نہ کرے تو اللہ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ خواہ وہ یہودی بن کرمر سے یانصرافی۔- اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفرفان اللہ غنی عن العالمین) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبردی کہ حج کے لزوم کی شرط زادراہ اور سواری کا مالک ہونا ہے۔ اور غلام چونکہ کسی چیزکامالک نہیں ہوتا اس لیے اس کا ان لوگوں میں شمار نہیں ہوتا جنہیں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں مخاطب بنایاگیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول تمام روایتیں جن استطاعت کی تشریح زادراہ اور سواری سے کی گوئی ہے۔ وہ اس پر محمول ہیں کہ یہ دونوں چیزیں اس کی ملکیت ہوں۔ جس طرح کہ حضرت علی (رض) کی درج بالا روایت میں اس کی وضاحت ہوگئی ہے۔ نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے زادراہ اور سواری کی شرط میں آپ کی مراد معلوم ہوگئی کہ یہ دونوں چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں۔ اس شرط سے آپ کی مراد یہ نہیں کہ یہ دونوں چیزیں کسی اور کی ملکیت ہوں۔ دوسری طرف غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لیے وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوسکتا جنہیں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں مخاطب بنایاگیا ہے اس لیے اس کا حج فرض حج کی ادائیگی کیطرف سے کفایت نہیں کرسکتا۔- اگریہ کہاجائے کہ فقیر بھی تو ان لوگوں میں سے نہیں جو حج کے حکم کے مخاطب ہیں اس لیے کہ وہ ز اوراہ اور سواری کا مالک نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر وہ حج کرلیتا ہے تو اس کا حج جائز ہوگا اسی طرح غلام کا حج بھی جائز ہوجانا چاہیئے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فقیران لوگوں میں سے ہے جو حج کے حکم کے مخاطب ہیں اس لیے کہ اس کے اندر ملکیت کی صلاحیت ہے جبکہ غلام کے اندرسرے سے ملکیت کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ فقیر سے وقتی طورپرفرضیت حج اس لیے ساقط ہوتی ہے کہ اس کے پاس زادراہ اور سواری نہیں ہوتی، اس سے حج کے سقوط کی یہ وجہ نہیں ہوتی کہ وہ ملکیت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ مکہ مکرمہ پہنچ جاتا ہے تو وہ زادراہ اور سواری کی ضرورت سے مستغنی ہوجاتا ہے اور اس کی حیثیت ان لوگوں کی طرح ہوجاتی ہے جن کے پاس زاددراحلہ کا وجود ہوتا ہے۔ اور جوان کے ذریعے مکہ مکرمہ پہنچ جانے والے ہوتے ہیں۔- رہ گیا غلام تو اس سے حج کی ادائیگی کا خطاب اس لیے نہیں ساقط ہوا کہ اس کے پاس زادو راحلہ نہیں ہے بلکہ اس لیے ساقط ہوگیا کہ وہ سرے سے ان کا مالک ہی نہیں ہوتا خواہ وہ مکہ کیوں نہ پہنچ گیا ہو اس لیے وہ حج کے خطاب میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کا حج فرض حج کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا اور اس پہلو سے اس کی حیثیت اس نابالغ کی سی ہوتی ہے جسے اس وجہ سے حج کے حکم کا مخاطب قرار نہیں دیا گیا کہ اس کے پاس زادراہ اور سواری نہیں ہے۔ بلکہ اس وجہ سے کہ اس میں حج کے حکم کا مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ حج کے حکم کے مخاطب بننے کی جس طرح یہ شرط ہے کہ اس میں ملکیت کی صلاحیت ہو۔ نیز غلام اپنی ذات سے حاصل ہونے والے منافع کا مالک نہیں ہوتا اور آقاکو بالا تفاق یہ حق حاص ہے کہ اسے حج پر جانے سے روک دے ۔ غلام کے تمام منافع کا مالک آقا ہوتا ہے۔- اب اگر ان منافع کے تحت غلام حج کرے گا تو یہ گویا آقاکاحج ہوگا اس لیے فرضیت حج اس سے ادانہ ہوسکے گی اور اس کا یہ حج اسلام قرار نہیں پائے گا۔ غلام اپنے منافع کا مالک نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ یہ منافع اگر مال کی شکل اختیار کرلیں تو ان کے ابدال کا آقاہی حقدارہوتا ہے۔ نیز اسے یہ حق بھی ہوتا ہے کہ اسے اپنی خدمت میں لگارکھے اور حج پر جانے نہ دے۔ پھر اگر وہ اسے حج پر جانے کی اجازت دے دیتا ہے توگویاوہ ان منافع کو جن کا وہ مالک ہوتا ہے عاریت کے طورپر اسے دے دیتا ہے۔ اس لیے یہ منافع آقا کی ملکیت کی بنیاد پر صرف ہوتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غلام کا حج اس کی اپنی ذات کے منافع کا خود مالک ہوتا ہے۔ اگر ان منافع کے تحت وہ حج اداکرے گا تو اس کا ذاتی حج ہوگا اور حج کی فرضیت ادا ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ صورت میں اہل استطاعت میں سے ہوجائے گا۔ اگر یہ کہاجائے کہ آقاکویہ حق حاص ہے کہ وہ اسے جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روک دے۔ اور غلام ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہوتا جنہیں جمعہ کی ادائیگی کے سلسلے میں مخاطب بنایاگیا ہے، اس پر جمعہ فرض بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر وہ جمعہ کی نماز جاکرادا کرلے تو اس کی ادائیگی ہوجائے گی۔ توپھرحج کے سلسلے میں یہی بات کیوں نہیں ہوسکتی ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ غلام پر ظہر کی فرضیت قائم رہتی ہے اور آقاکویہ حق نہیں ہوتا کہ اسے ظہر کی نماز پڑھنے سے روک دے اس لیے غلام جب جمعہ کی نماز ادا کرلے گا تو وہ اپنے اوپر سے ظہر کی فرضیت ساقط کرلے گا۔ جس کی ادائیگی کا وہ مالک تھا۔ اور اس کے لیے اسے آقا سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی اس لیے اس کی نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہوجائے گی۔- دوسری طرف حج کی صورت میں وہ کسی اور فرض کی ادائیگی کا مالک نہیں تھا کہ حج اداکرکے وہ اس فرض کی ادائیگی اپنی ذات سے ساقط کرلیتاتا کہ ہم اس کے جواز کا حکم لگادیتے اور اسے اس فرض کے حکم میں کردیتے جس کی ادائیگی کا وہ مالک ہوتا۔ اس لیے یہ دونوں صورتیں مختلف ہوگئیں۔- غلام کے حج کے متعلق ایک روایت منقول ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے۔ جسے عبدالباقی بن قانع نے ہمیں بیان کی انہیں بشرین موسیٰ نے انہیں یحییٰ بن اسحق نے انہیں یحییٰ بن ایوب نے حرام بن عثمان سے، انہوں نے حضرت جابر (رض) کے دو بیٹوں سے ان دونوں نے اپنے والدحضرت جابر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لوان صبیاحج عشراححج ثم بلغ لکانت علی حجتم ان استطاع الیھا سبیلا، ولوان اعرابیاحج عشرححج ثم ھاجرلکانت علیہ حجۃ ان استطاع الیھا سبیلا ولوان مملوکا حج عشرححج ثم اعتق لکانت علیہ حجۃ ان استطاع الیھا سبیلا، اگر کوئی بچہ دس حج بھی کرلے اور پھر وہ بالغ ہوجائے تو اس پر ایک حج فرض ہوگا، بشرطیکہ اسے حج تک پہنچنے کی استطاعت حاصل ہوجائے اور اگر کوئی اعرابی دس حج کرلے پھر ہجرت کرلے تو اس پر ایک حج فرض ہوگابشرطی کہ اسے حج تک پہنچنے کی استطاعت حاصل ہوجائے ۔ اور اگر کوئی غلام دس حج کرلے پھر آزادہوجائے تو اس پر ایک حج فرض ہوگا اگر وہ حج تک پہنچنے کی استطاعت حاصل کرلے۔ ہمیں عبدالباقی نے حدیث بیان کی انہیں موسیٰ بن الحسن بن ابی عبادنے انہیں محمد بن منہال نے انہیں یزیدبن ذریع نے ، انہیں شعبہ نے اعمش سے انہوں نے ابوظبیان سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ایما صبی حج ثم ادرک الحلم فعلیہ ان یحج حجۃ اخری واینااعرابی حج ثم ھاجرفعلیہ ان یحج حجۃ اخری وایماعبدحج ثم اعتق فعلیہ ان یحج حجۃ اخری، جو بچہ حج کرلے پھر بالغ ہوجائے تو اس پر ایک اور حج کرنا فرض ہوگا اور جو اعرابی حج کرلے پھر ہجرت کرجائے تو اس پر ایک اور حج کرنا فرض ہوگا اور جو غلام حج کرلے پھر آزاد ہوجائے تو اس پر ایک اور حج کرنا فرض ہوگا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام پر آزاد ہونے کے بعد ایک اور حج فرض کردیا۔ اور غلامی کے دوران کیئے ہوئے حج کا کوئی اعتبارنہ کیا اور اسے نابالغ کے کئے ہوئے حج کا درجہ دے دیا۔- اگریہ یہ کہا جائے کہ اعرابی یعنی بدو کے متعلق بھی یہی فرمایا گیا ہے حالانکہ وہ اگر ہجرت سے پہلے حج کرلے تو اس کا یہ حج اس سے فرضیت کو ساقط کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اعرابی کے متعلق اس زمانے تک یہی حکم تھا جب تک ہجرت کرنا فرض تھا۔ لیکن جب ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوگئی تو اب اس کے متعلق پچھلاحکم باقی رکھنا ممتنع ہوگیا۔ اس لیے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمادیا کہ (لاھجرۃ بعالفتح۔ فتح مکہ کے بعد اب کوئی ہجرت نہیں تو اس کے ساتھ ہی وہ حکم بھی منسوخ ہوگیا جس کا اس کے ساتھ تعلق تھا۔ یعنی ہجرت کے بعد حج کا اعادہ اس لیے کہ اس ارشاد کے بعد اب ہجرت واجب نہیں رہی تھی۔ غلام کے حج کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) حسن اور عطاء ہمارے قول کی طرح قول منقول ہے۔- حج زندگی میں صرف ایک بارفرض ہے - ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا) صرف ایک حج کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں تکرارکو واجب کرنے والی کوئی بات موجود نہیں ہے اس لیے جب کوئی ایک دفعہ حج ادا کرلے گا تو وہ آیت میں مذکورہ ذمہ داری سے عہدہ برا ہوجائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی مفہوم کی تاکید فرمائی ہے۔ چناچہ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں وبوداؤد نے انہیں زہیربن حرب اور عثمان بن ابی شیبہ نے ان دونوں کو یزیدبن ہارون نے سفیان بن حسین سے انہوں نے زہری سے انہوں نے ابوسنان سے (ان کے نسبتی نام کے متعلق ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ دولی ہیں) انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ اقرع حابس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، اللہ کے رسول حج ہر سال ہے یا صرف ایک دفعہ۔ آپ نے فرمایا صرف ایک مرتبہ اس سے زائد جو کرے گا وہ اس کے لیے نفل ہوگا۔- قول باری ہے (ومن کفرفان اللہ ٹنی عن العالمین، جو شخص اس حکم کی پیروی سے انکارکرے گا تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےنیاز ہے) وکیع نے فطربن خلیفہ انہوں نے نفیع ابی واؤد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (ومن کفر) کے مفہوم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شخص وہ ہے جو اگرحج کرے تو اللہ سے ثواب کی امیدنہ رکھے اگر حالات میں گرفتارہوکرحج پر نہ جاسکے تو اللہ کے عتاب سے نہ ڈرے۔ مجاہد نے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔ حسن کا قول ہے کہ جو شخص حج کا انکارکرے۔- آیت فرقہ جبریہ کے مذہب کے بطلان پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حج کی استطاعت رکھنے والا قراردیا ہے۔ جس کے پاس حج کی ادائیگی سے قبل زادراہ اور سواری کا انتظام ہو اور اس فرقہ کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص حج ادا نہیں کرے گا وہ صاحب استطاعت قرار نہیں دیاجائے گا اس مذہب کے بناپرپھریہ ضروری ہوگیا کہ جب ایک شخص حج نہ کرے وہ معذورقراردیاجائے اور اس پر حج لازم بھی نہ کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اس شخص پر حج لازم کردیا ہے جو صاحب استطاعت ہو اور اس شخص نے چونکہ حج نہیں کیا اس لیے حج کے لیے صاحب استطاعت قرار نہیں پایا۔ جبکہ پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ہراس شخص پر حج کی فرضیت لازم ہے جس کے اندرہماری مذکورہ صفات یعنی جسمانی صحت زادراہ اور سواری کی موجودگی پائی جاتی ہوں۔ امت کا یہ اتفاق فرقہ جبریہ کے قول کے بطلان کو واجب کردیتا ہے۔- راہ خدا سے روکنے کی کیفیت - قول بارے ہے (قل یاھل الکتاب لم تصدون عن سبیل اللہ من امن تبغونھاعوجاوانتم شھداء کہو، اے اہل کتاب ایہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اورچاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے۔ حالانکہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر گواہ ہو) زیدبن اسلم کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے ایک گروہ کے متعلق نازل ہوئی جو انصار مدینہ کے دوقبیلوں اوس اور خزرج کو ان کی زمانہ جاہلیت میں لڑی جانے والی جنگیں یاددلاکر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کرتے تھے تاکہ قبائلی تعصب اور جاہلیت کی غیرت سے متاثرہوکریہ ہوگ دین اسلام سے نکل جائیں۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ یہ آیت یہودونصاری کے بارے میں نازل ہوئی اس لیے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کو چھپاگئے تھے جن کا ذکر ان کی کتابوں میں آیا تھا۔- اگریہ کہا جائے کی اللہ تعالیٰ نے کفار یعنی اہل کتاب کو شہداد (گواہوں) کے نام سے موسوم کیا۔ حالانکہ ان کے غیروں پر ان کی بات حجت تسلیم نہیں کی جاتی اس لیے کہ قول باری (لتکونواشھدآء علی الناس، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ) سے اجماع امت کی صحت اور اس کے حجت ہونے پر آپ کا استدلال درست نہیں ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے غیروں پر گواہ بن جاؤ اور یہاں یہ فرمایا کہ (لتکونواشھدآء علی الناس) جس طرح یہ فرمایا (ویکون الرسول علیکم شھیدا، اور رسول تم پر گواہ بن جائیں۔ )- اس قول باری نے اس کی تصدیق اور ان کے اجماع کی صحت کو واجب کردیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے (وانتم شھداء) فرمایا جس کے معنی (شھدآء علی الناس) سے مختلف ہیں۔ قول باری (وانتم شھدآء) کے دومعنی بیان کیے گئے ہیں۔ اول یہ کہ اللہ کے دین سے روکنے کے متعلق تم اپنے قول کے بطلان کا علم رکھتے ہو۔ اس صورت میں اس قول کا تعلق اہل کتاب میں سے لوگوں کے ساتھ ہوگا۔- دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ (شھدآء) سے عقلاء مراد لیا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے۔ (والقی السمع وھوشھید، یا اس نے کان دھرا اور وہ سمجھ بھی رہاہو) یعنی وہ عاقل ہو۔ اس لیے کہ اس نے وہ دلیل دیکھ لی ہے۔ جس کے ذریعے حق وباطل میں وباطل میں تمیز کرسکتا ہے۔
آیت ٩٧ (فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ ج ) ۔- سورۃ البقرۃ کے نصفِ اوّل کے آخری چار رکوعوں (١٥ ‘ ١٦ ‘ ١٧ ‘ ١٨) میں پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور خانہ کعبہ کا ذکر ہے ‘ پھر باقی ساری گفتگو ہے۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور خانہ کعبہ کا تذکرہ آخر میں آیا ہے۔ گویا مضامین وہی ہیں ‘ ترتیب بدل گئی ہے۔- (وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط) - آ جاتا ہے۔- جاہلیت کے بدترین دور میں بھی بیت اللہ امن کا گہوارہ تھا۔ پورے عرب کے اندر خونریزی ہوتی تھی ‘ لیکن حرم کعبہ میں اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تھا تو اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ حرم کی یہ روایات ہمیشہ سے رہی ہیں اور آج تک یہ اللہ کے فضل و کرم سے دارالامن ہے کہ وہاں پر امن ہی امن ہے۔ - (وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط) اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اس کے گھر کا ‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔- ( وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ) - نوٹ کیجیے کہ یہاں لفظ کَفَرَآیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کوئی استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا وہ گویا کفر کرتا ہے۔- اگلی آیت میں اہل کتاب کو بڑے تیکھے اور جھنجوڑنے کے سے انداز میں مخاطب کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی پر نگاہیں گاڑ کر اس سے بات کی جائے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :80 یعنی اس گھر میں ایسی صریح علامات پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جناب میں مقبول ہوا ہے اور اسے اللہ نے اپنے گھر کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہے ۔ لق و دق بیابان میں بنایا گیا اور پھر اللہ نے اس کے جوار میں رہنے والوں کی رزق رسانی کا بہتر سے بہتر انتظام کر دیا ۔ ڈھائی ہزار برس تک جاہلیت کے سبب سے سارا ملک عرب انتہائی بدامنی کی حالت میں رہا ، مگر اس فساد بھری سر زمین میں کعبہ اور اطراف کعبہ ہی کا ایک خطہ ایسا تھا جس میں امن قائم رہا ۔ بلکہ اسی کعبہ کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسر آجاتا تھا ۔ پھر ابھی نصف صدی پہلے ہی سب دیکھ چکے ہیں کہ اَبرَہہ نے جب کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج کس طرح قہر الہٰی کی شکار ہوئی ۔ اس واقعہ سے اس وقت عرب کا بچہ بچہ واقف تھا اور اس کے چشم دید شاہد ان آیات کے نزول کے وقت موجود تھے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :81 جاہلیت کے تاریک دور میں بھی اس گھر کا یہ احترام تھا کہ خون کے پیاسے دشمن ایک دوسرے کو وہاں دیکھتے تھے اور ایک کو دوسرے پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی تھی ۔