ذکر بیت اللہ اور احکامات حج یعنی لوگوں کی عبادت قربانی طواف نماز اعتکاف وغیرہ کے لئے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے بانی حضرت ابراہیم خلیل ہیں ، جن کی تابعداری کا دعویٰ یہود و نصاریٰ مشرکین اور مسلمان سب کو ہے وہ اللہ کا گھر جو سب سے پہلے مکہ میں بنایا گیا ہے ، اور بلاشبہ خلیل اللہ ہی حج کے پہلے منادی کرنے والے ہیں تو پھر ان پر تعجب اور افسوس ہے جو ملت حنیفی کا دعویٰ کریں اور اس گھر کا احترام نہ کریں حج کو یہاں نہ آئیں بلکہ اپنے قبلہ اور کعبہ الگ الگ بناتے پھریں ۔ اس بیت اللہ کی بنیادوں میں ہی برکت و ہدایت ہے اور تمام جہان والوں کے لئے ہے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام ، پوچھا پھر کونسی؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے ( مسند ) احمد وبخاری مسلم ) حضرت علی فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے ، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے ، بیت اللہ شریف کے بنانے کی پوری کیفیت سورۃ بقرہ کی آیت ( وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ) 2 ۔ البقرۃ:125 ) کی تفسیر میں پہلے گذر چکی ہے وہیں ملاحظہ فرما لیجئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، سدی کہتے ہیں سب سے پہلے روئے زمین پر یہی گھر بنا ، لیکن صحیح قول حضرت علی کا ہی ہے اور وہ حدیث جو ییہقی میں ہے جس میں ہے کہ آدم و حوا نے بحکم الہ بیت اللہ بنایا اور طواف کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تو سب سے پہلا انسان ہے اور یہ سب سے پہلا گھر ہے یہ حدیث ابن لہیعہ کی روایت سے ہے اور وہ ضعیف راوی ہیں ، ممکن ہے یہ حضرت عبداللہ بن عمر کا اپنا قول ہو اور یرموک والے دن انہیں جو دو پورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے انہی میں یہ بھی لکھا ہوا ہو ۔ مکہ مکہ شریف کا مشہور نام ہے چونکہ بڑے بڑے جابر شخصوں کی گردنیں یہاں ٹوٹ جاتی تھیں ہر بڑائی والا یہاں پست ہو جاتا تھا ، اس لئے اسے مکہ کہا گیا اور اس لئے بھی کہ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ یہاں ہوتی ہے اور ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے اور اس لئے بھی کہ یہاں لوگ خلط ملط ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی عورتیں آگے نماز پڑھتی ہوتی ہیں اور مرد ان کے پیچھے ہوتے ہیں جو اور کہیں نہیں ہوتا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فج سے تنعیم تک مکہ ہے بیت اللہ سے بطحا تک بکہ ہے بیت اللہ اور مسجد کو بکہ کہا گیا ہے ، بیت اللہ اور اس آس پاس کی جگہ کو بکہ اور باقی شہر کو مکہ بھی کہا گیا ہے ، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں مثلاً بیت العتیق ، بیت الحرام ، بلد الامین ، بلد المامون ، ام رحم ، ام القری ، صلاح ، عرش ، قادس ، مقدس ، ناسبہ ، ناسسہ ، حاطمہ ، راس ، کوثا البلدہ البینۃ العکبہ ۔ اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت و شرافت کی دلیل ہیں اور جن سے ظاہر ہے کہ خلیل اللہ کی بنا یہی ہے اس میں مقام ابراہیم بھی ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت اسماعیل سے پتھر لے کر حضرت ابراہیم کعبہ کی دیواریں اونچی کر رہے تھے ، یہ پہلے تو بیت اللہ شریف کی دیوار سے لگا ہوا تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے ذرا ہٹا کر مشرق رخ کر دیا تھا کہ پوری طرح طواف ہو سکے اور جو لوگ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کے لئے پریشانی اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو ، اسی کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور اس کے متعلق بھی پوری تفسیر آیت ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ) 2 ۔ البقرۃ:125 ) کی تفسیر میں پہلے گذر چکی ہے فالحمد للہ ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آیات بینات میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے باقی اور بھی ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جو مقام ابراہیم پر تھے یہ بھی آیات بینات میں سے ہیں ، کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکان حج کو بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے ابن عباس فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت ( اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ) الخ ، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:67 ) ہم نے انہیں خوف سے امن دیا نہ صرف انسان کے لئے امن ہے بلکہ شکار کرنا بلکہ شکار کو بھگانا اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے اس کے درخت کاٹنا یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت وعھدنا الخ ، کی تفسیر میں سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہیں ، مسند احمد ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے جسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے بہتر اور پیارا ہے اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ، اور اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اس گھر میں داخل ہوا وہ جہنم سے بچ گیا ، بیہقی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جو بیت اللہ میں داخل ہوا وہ نیکی میں آیا اور برائیوں سے دور ہوا ، اور گناہ بخش دیا گیا لیکن اس کے ایک راوی عبداللہ بن تومل قوی نہیں ہیں ۔ آیت کا یہ آخری حصہ حج کی فرضیت کی دلیل ہے بعض کہتے ہیں آیت ( وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي ) 2 ۔ البقرۃ:196 ) والی آیت دلیل فرضیت ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح ہے ، کئی ایک احادیث میں وارد ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے ، اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ استطاعت والے مسلمان پر حج فرض ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا حضور کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو فرض ہو جاتا پھر بجا نہ لا سکتے میں جب خاموش رہوں تو تم کرید کر پوچھا نہ کرو تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھر مار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ ۔ اور جس چیز میں منع کروں اس سے رک جاؤ ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف کی اس حدیث شریف میں اتنی زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ بھی فرمایا کہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے اور پھر نفل ۔ ایک روایت میں ہے کہ اسی سوال کے بارے میں آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) 5 ۔ المائدہ:101 ) یعنی زیادتی سوال سے بچو نازل ہوئی ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہوتا تم بجا نہ لا سکتے تو عذاب نازل ہوتا ( ابن ماجہ ) ہاں حج میں تمتع کرنے کا جواز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کے سوال پر ہمیشہ کے لئے جائز فرمایا تھا ، ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں امہات المومنین یعنی اپنی بیویوں سے فرمایا تھا حج ہو چکا اب گھر سے نہ نکلنا ، رہی استطاعت اور طاقت سو وہ کبھی تو خود انسان کو بغیر کسی ذریعہ کے ہوتی ہے کبھی کسی اور کے واسطے سے جیسے کہ کتب احکام میں اس کی تفصیل موجود ہے ، ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ حاجی کون ہے؟ آپ نے فرمایا پراگندہ بالوں اور میلے کچیلے کپڑوں والا ایک اور نے پوچھا یا رسول اللہ کونسا حج افضل ہے ، آپ نے فرمایا جس میں قربانیاں کثرت سے کی جائیں اور لبیک زیادہ پکارا جائے ایک اور شخص نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سبیل سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا توشہ بھتہ کھانے پینے کے لائق سامان خرچ اور سواری ، اس حدیث کا ایک راوی گو ضعیف ہے مگر حدیث کی متابعت اور سند بہت سے صحابیوں سے مختلف سندوں سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ) 3 ۔ آل عمران:97 ) کی تفسیر میں زادو راحلہ یعنی توشہ اور سواری بتائی ہے ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرض حج جلدی ادا کر لیا کرو نہ معلوم کل کیا پیش آئے ، ابو داؤد وغیرہ میں ہے حج کا ارادہ کرنے والے کو جلد اپنا ارادہ پورا کر لینا چاہئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جس کے پاس تین سو درہم ہوں وہ طاقت والا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں مراد صحت جسمانی ہے پھر فرمایا جو کفر کرے یعنی فرضیت حج کا انکار کرے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری کہ دین اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور دین پسند کرے اس سے قبول نہ کیا جائے گا تو یہودی کہنے لگے ہم بھی مسلمان ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مسلمانوں پر تو حج فرض ہے تم بھی حج کرو تو وہ صاف انکار بیٹھے جس پر یہ آیت اتری کہ اس کا انکاری کافر ہے اور اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کھانے پینے اور سواری پر قدرت رکھتا ہو اور اتنا مال بھی اس کے پاس ہو پھر حج نہ کرے تو اس کی موت یہودیت یا نصرانیت پر ہو گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے لئے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو اس کے راستہ کی طاقت رکھیں اور جو کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے ، اس کے راوی پر بھی کلام ہے ، حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں طاقت رکھ کر حج نہ کرنے والا یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر ، اس کی سند بالکل صحیح ہے ( حافظ ابو بکر اسماعیلی ) مسند سعید بن منصور میں ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرا مقصد ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ان پر جزیہ لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔
96۔ ا یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا ؟ اس کے جواب میں اور اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے۔
[٨٤] یہ یہود کے ایک دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ تمام انبیاء کا قبلہ بیت المقدس ہی رہا ہے اور تمام انبیاء نے وہاں ہجرت کی۔ لہذا یہ مقام کعبہ سے افضل ہے اب مسلمانوں نے بیت المقدس کے بجائے کعبہ کو اپنا قبلہ بنایا ہے تو یہ ملت ابراہیمی سے روگردانی کی ہے۔ اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ لوگوں کی عبادت کے لیے سب سے پہلے جو گھر تعمیر ہوا۔ وہ بیت اللہ تھا۔ بیت المقدس نہیں تھا۔ کیونکہ بیت اللہ ہی وہ گھر ہے جسے حضرت ابراہیم نے اللہ ہی کی عبادت کے لیے لوگوں کے مرجع کی حیثیت سے تعمیر کیا تھا اور بیت المقدس کو تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے چار سو سال بعد تعمیر کیا تھا اور حضرت سلیمان ہی کے عہد میں یہ قبلہ اہل توحید کے لیے بنایا گیا تھا۔ لہذا قبلہ اول تو دراصل کعبہ ہی ہے۔ تحویل قبلہ پر یہود کے اعتراض کا جواب سورة بقرہ (آیت ١٤٢ تا ١٥٠) میں پہلے بھی گزر چکا ہے۔ مگر یہود چونکہ اپنے اس اعتراض کو اس کے بعد بھی بار بار دہراتے رہے۔ لہذا پھر سے ان کے اعتراض کا تاریخی پہلو سے بھی جواب دیا گیا ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ : یہ یہود کے دوسرے شبہ کا جواب ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے شام کی طرف ہجرت کی اور ان کی اولاد میں سے تمام انبیاء شام میں ہوئے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مسلمانوں نے اس قدیم قبلہ کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ بنا لیا ہے، پھر یہ ملت ابراہیم کے متبع کیسے ہوسکتے ہیں ؟ قرآن نے بتایا کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ تو کعبہ ہے، جو ” بکہ “ میں ہے۔ بکہ مکہ ہی کا نام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا۔ اس پر بہت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ جن میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ دور جاہلیت سے یہ محترم چلا آ رہا ہے کہ اگر کسی کے باپ کا قاتل بھی اس میں داخل ہوجائے تو وہ اس سے تعرض نہیں کرتا، نیز اس میں مقام ابراہیم، یعنی وہ پتھر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے بانی ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور یہ کہ یہی ابراہیمی قبلہ ہے، کیونکہ بیت المقدس کی تعمیر کعبۃ اللہ سے چالیس برس بعد ہوئی۔- ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : ” اے اللہ کے رسول روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ “ آپ نے فرمایا : ” مسجد حرام۔ “ پوچھا : ” پھر کون سی ؟ “ آپ نے فرمایا : ” مسجد اقصیٰ ۔ “ پوچھا : ” ان دونوں کے درمیان کتنی مدت ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” چالیس سال۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ : ٣٣٦٦ ]
خلاصہ تفسیر :- یقینا وہ مکان جو سب (مکانات عبادت) سے پہلے لوگوں (کی عبادت گاہ بننے) کے واسطے (منجانب اللہ) مقرر کیا گیا وہ مکان ہے جو کہ (شہر) مکہ میں ہے (یعنی خانہ کعبہ) جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے (کیونکہ اس میں دینی نفع یعنی ثواب ہے) اور (عبادت خاص مثلا نماز کا رخ بتلانے میں) جہان بھر کے لوگوں کا رہنما ہے ( مطلب یہ ہے کہ حج وہاں ہوتا ہے اور مثلا نماز کا ثواب بروئے تصریح حدیث وہاں بہت زیادہ ہوتا ہے، دینی برکت تو یہ ہوئی، اور جو وہاں نہیں ہیں ان کو اس مکان کے ذریعے سے نماز کا رخ معلوم ہوتا ہے یہ رہنمائی ہوئی) ۔- معارف و مسائل :- مذکورہ آیت میں ساری دنیا کے مکانات یہاں تک کہ تمام مساجد کے مقابلہ میں بیت اللہ یعنی کعبہ کا شرف اور افضلیت کا بیان ہے، اور یہ شرف و فضیلت کئی وجہ سے ہے۔- فضائل بیت اللہ مع تاریخ و تعمیر : - اول اس لئے کہ وہ دنیا کی تمام سچی عبادت گاہوں میں سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ دوسرے کہ وہ برکت والا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ پورے جہان کے لئے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ آیت کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو منجانب اللہ لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے، اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کے لئے بنایا گیا ہو، اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولت خانہ، حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، ان کی شان سے کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد قتادہ، سدی وغیرہ صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے رہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں، مگر عبادت کے لئے یہ پہلا گھر بنا ہو حضرت علی (رض) سے یہی منقول ہے۔ بیہقی (رح) نے اپنی کتاب " دلائل النبوۃ " میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کو یہ حکم بھیجا کہ وہ بیت اللہ (کعبہ) بنائیں، ان حضرات نے حکم کی تعمیل کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طواف کریں، اور ان سے کہا گیا کہ آپ اول الناس یعنی سب سے پہلے انسان ہیں، اور یہ گھر اول بیت وضع للناس ہے، یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ضعفہ ابن کثیر بابن لہیعہ ولا یخفی انہ الیس بمتروک الحدیث مطلقا ولا سیما فی ہذا المقام فان الروایۃ قد تایدت باشارات الکتاب۔ - بعض روایات میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی یہ تعمیر کعبہ نوح (علیہ السلام) کے زمانے تک باقی تھی، طوفان نوح میں منہدم ہوئی، اور اس کے نشانات مٹ گئے، اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا، پھر ایک مرتبہ کسی حادثہ میں اس کی تعمیر منہدم ہوئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی، پھر ایک مرتبہ منہدم ہوئی تو عمالقہ نے تعمیر کی، اور پھر منہدم ہوئی تو قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کی، جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک ہوئے اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے قائم فرمایا، لیکن قریش نے اس تعمیر میں بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تعمیر کی تھی کہ ایک حصہ بیت اللہ کا بیت اللہ سے الگ کردیا جس کو حطیم کہا جاتا ہے، اور خلیل اللہ (علیہ السلام) کی بناء میں کعبہ کے دو دروازے تھے، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کے لئے، قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا، تیسرا تغیر یہ کیا کہ دروازہ بیت اللہ کا سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے، بلکہ جس کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے اس کو بالکل بناء ابراہیمی کے مطابق بنادوں، قریش نے جو تصرفات بناء ابراہیمی کے خلاف کئے ہیں ان کی اصلاح کردوں، لیکن نو مسلم ناواقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اسی لئے سردست اس کو اسی حال پر چھوڑتا ہوں، اس راشاد کے بعد اس دنیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات زیادہ نہیں رہی۔ لیکن حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنے ہوئے تھے، خلفائے راشدین کے عبد جس وقت مکہ مکرمہ پر ان کی حکومت ہوئی تو انہوں نے بیت اللہ منہدم کر کے ارشاد نبوی اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیا، مگر عبداللہ بن زبیر (رض) کی حکومت مکہ معظمہ پر چند روزہ تھی، ظالم الامۃ حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کر کے ان کو شہید کیا، اور حکومت پر قبضہ کر کے اس کو گوارا نہ کیا کہ عبداللہ بن زبیر (رض) کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک ان کی مدح وثناء کا ذریعہ بنا رہے، اس لئے لوگوں میں مشہور کیا کہ عبداللہ بن زبیر (رض) کا یہ فعل غلط تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جس حالت پر چھوڑا تھا ہمیں اسی حالت پر اس کو رکھنا چاہئے، اس بہانے سے بیت اللہ کو پھر منہدم کر کے اسی طرح کی تعمیر بنادی جو زمانہ جاہلیت میں قریشی نے بنائی تھی، حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے بعض مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بنا پر یہ ارادہ کیا کہ بیت اللہ کو از سر نو حدیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موافق بنادیں، لیکن اس زمانہ کے امام حضرت امام مالک بن انس (رض) نے یہ فتوی دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنے والے بادشاہوں کے لئے بیت اللہ کو ایک کھلونا بنادے گا، ہر آنے والا بادشاہ اپنی نام آوری کے لئے یہی کام کرے گا، اس لئے اب جس حالت میں بھی ہے اس حالت میں چھوڑدینا مناسب ہے، تمام امت نے اس کو قبول کیا، اسی وجہ سے آج تک وہی حجاج بن یوسف ہی کی تعبیر باقی ہے، البتہ شکست و ریخت اور مرمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ ان روایات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے، اور یا کم از کم سب سے پہلا عبادت خانہ ہے، قرآن کریم میں جہاں یہ ذکر ہے کہ کعبہ کی تعمیر بامر خداوندی حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے کی ہے وہیں اس کے اشارات بھی موجود ہیں کہ ان بزرگوں نے اس کی ابتدائی تعمیر نہیں فرمائی، بلکہ سابق بنیادوں پر اسی کے مطابق تعمیر فرمائی، اور کعبہ کی اصل بنیاد پہلے ہی سے تھی۔ قرآن کریم کے ارشاد (واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعل۔ ٢: ١٢٧) سے بھی ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے کہ قواعد بیت اللہ یعنی اس کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں سورة حج کی آیت میں ہے : (واذ بوانا لابراہیم مکان البیت۔ ٢٢: ٢٦) " یعنی جب ٹھیک کردیا ہم نے ابراہیم کے لئے ٹھکانا اس گھر کا "۔ اس سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی جگہ پہلے سے متعین چلی آتی تھی، اور پہلی آیت سے اس کی بنیادوں کا ہونا بھی مفہوم ہوتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت خلیل اللہ علیہ وسلم کو تعمیر بیت اللہ کا حکم دیا گیا تو فرشتہ کے ذریعہ ان کو بیت اللہ کی جگہ سابق بنیادوں کی نشاندہی کی گئی جو ریت کے تودوں میں دبی ہوئی تھی۔- بہر حال آیت مذکورہ سے کعبہ کی ایک فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ وہ دنیا کا سب سے پہلا گھر یا پہلا عبادت خانہ ہے، صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مسجد حرام، انہوں نے عرض کیا اس کے بعد کونسی مسجد ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسجد بیت المقدس ہے، پھر دریافت کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چالیس سال کا۔ اس حدیث میں بیت اللہ کی بناء جدید جو ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی اس کے اعتبار سے بیت المقدس کی تعمیر کا فاصلہ بیان کیا گیا ہے، کیونکہ روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ بیت المقدس کی ابتدائی تعمیر بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعہ بیت اللہ کی تعمیر سے چالیس سال بعد میں ہوئی، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو بیت المقدس کی تعمیر کی یہ بھی بیت اللہ کی طرح بالکل نئی اور ابتدائی تعمیر نہ تھی، بلکہ سلیمان (علیہ السلام) نے بناء ابراہیمی پر اس کی تجدید کی ہے، اس طرح روایات میں باہم کوئی تعارض نہیں رہتا۔ حاصل یہ ہے کہ ہمیشہ سے دنیا میں اس کی تعظیم و تکریم ہوتی چلی آئی ہے، اس میں لفظ وضع للناس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کسی خاص قوم یا جماعت ہی کا حصہ نہیں، بلکہ عامہ خلائق اور سب انسان اس کی تعظیم کریں گے، اس کی سرشت میں حق تعالیٰ نے ایک عظمت اور ہیبت کا داعیہ رکھا ہے کہ لوگوں کے قلوب اس کی طرف خود بخود مائل ہوتے ہیں، اس میں لفظ " بکہ " سے مراد مکہ معظمہ ہے، خواہ یہ کہا جائے کہ میم کو باء سے بدل دیا گیا ہے، عرب کے کلام میں اس کی نظائر بکثرت ہیں کہ میم کو باء سے بدل دیا کرتے ہیں، اور یا یہ کہا جائے کا مکہ کا دوسرا نام بکہ بھی ہے۔- بیت اللہ کی برکات :- اس آیت میں بیت اللہ کی دوسری فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مبارک ہے، لفظ مبارک، برکت سے مشتق ہے، برکت کے معنی ہیں بڑہنا اور ثابت رہنا، پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے، اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃ اس سے زائد نکلا کرتے ہیں، اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہا جاسکتا ہے۔ بیت اللہ کا بابرکت ہونا ظاہری طور پر بھی ہے معنوی طور پر بھی، اس کے ظاہری برکات میں یہ مشاہدہ ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس ایک خشک ریگستان اور بنجر زمین ہونے کے باوجود اس میں ہمیشہ ہر موسم میں ہر طرح کے پھل اور ترکاریاں اور تمام ضروریات مہیا رہتی ہیں، کہ صرف اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ اطراف عالم سے آنے والوں کے لئے بھی کافی ہوجاتی ہیں، اور آنے والوں کا حال دنیا کو معلوم ہے کہ خاص موسم حج میں تو لاکھوں انسان اطراف عالم سے جمع ہوتے ہیں جن کی مردم شماری اہل مکہ سے چوگنی پانچ گنی ہوتی ہے، یہ ہجوم عظیم وہاں صرف دو چار روز نہیں بلکہ مہینوں رہتا ہے، موسم حج کے علاوہ بھی کوئی وقت ایسا نہیں آتا جس میں باہر سے ہزاروں انسانوں کی آمد و رفت نہ رہتی ہو، پھر خاص موسم حج میں جبکہ وہاں لاکھوں انسانوں کا زائد مجمع ہوتا ہے کبھی نہیں سنا گیا کہ بازار میں کسی وقت بھی ایشاء ضرورت ختم ہوگئیں، ملتی نہیں، یہاں تک کہ قربانی کے بکرے جو وہاں پہنچ کر ایک ایک انسان سو سو بھی کرتا ہے اور اوسط فی کس ایک کا تو یقینی ہے، یہ لاکھوں بکرے وہاں ہمیشہ ملتے ہیں، یہ بھی نہیں کہ دوسرے ملک سے منگوانے کا اہتمام کیا جاتا ہو، قرآن کریم میں (یجبی علیہ ثمرت کل شیء۔ ٢٨: ٥٧) " یعنی اس میں باہر سے لائے جاتے ہیں ثمرات ہر چیز کے " ان الفاظ میں اس کی طرف واضح اشارہ بھی موجود ہے۔ یہ تو ظاہری برکات کا حال ہے جو مقصود کی حیثیت نہیں رکھتیں، اور معنوی و باطنی برکات تو اتنی ہیں کہ اس کا شمار نہیں ہوسکتا، بعض اہم عبادات تو بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہیں، ان میں جو اجر عظیم اور برکات روحانی ہیں ان سب کا مدار بیت اللہ پر ہے، مثلا حج وعمرہ، اور بعض دوسری عبادات کا بھی مسجد حرام میں ثواب بدرجہا بڑھ جاتا ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کوئی انسان گھر میں نماز پڑھے اس کو ایک نماز کا ثواب ملے گا، اور اگر اپنے محلہ کی مسجد میں ادا کرے تو اس کو پچیس نمازوں کا ثواب حاصل ہوگا، اور جو جامع مسجد میں ادا کرے تو پانچ سو نمازوں کا ثواب پائے گا، اور اگر مسجد اقصی میں نماز ادا کی تو ایک ہزار نمازوں کا اور میری مسجد میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے، اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کا۔ (یہ روایت ابن ماجہ و طحاوی وغیرہ نے نقل کی ہے) حج کے فضائل میں یہ حدیث عام مسلمان جانتے ہیں کہ حج کو صحیح طور پر ادا کرنے والا مسلمان پچھلے گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پاک و صاف پیدا ہوا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب بیت اللہ کی معنوی اور روحانی برکات ہیں، انہی برکات کو آیت کے آخر میں لفظ ھدی سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (مبارکا وھدی للعالمین) ۔
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ ٩٦ ۚ- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - بك - بكّة هي مكة عن مجاهد، وجعله نحو : سبد رأسه وسمده، وضربة لازب و لازم في كون الباء - بدلا من المیم . قال عزّ وجلّ : إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبارَكاً [ آل عمران 96] . وقیل : بطن مكة، وقیل : هي اسم المسجد، وقیل : هي البیت، وقیل : هي حيث الطواف وسمّي بذلک من التَبَاكِّ ، أي : الازدحام، لأنّ الناس يزدحمون فيه للطواف، وقیل : سمیت مكّة بَكَّة لأنها تبكّ أعناق الجبابرة إذا ألحدوا فيها بظلم .- ( ب ک ک ) بکۃ ۔ مجاہد سے منقول ہے کہ یہ اصل میں مکۃ ہے اور اس میں یا ومیم سے مبدل ہے جیسا کہ : میں ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبارَكاً [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں ( کے عبادت کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو سے میں ہے بابرکت ۔ بعض کا قول ہے کہ بکہ سے اندروں نکتہ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ مسجد کا نام ہے ۔ اور بعض نے بیت اللہ کے اسماء سے شمار کیا ہے اور بعض نے مطاف ( طواف گاہ ) سے تفسیر کی ہے ۔ اور یا تو تباک سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ازد عام کے ہیں اور وہاں چونکہ طواف کے لئے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے ۔ اس لئے اس کو بکہ کہا گیا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ بکۃ بک ( ن ) سے مشتق ہے جس کے معنی مزاحمت کرنے اور پھا ڑ ڈالنے کے ہیں چونکہ سنت الہی جاری ہے کہ جو ظالم وہاں الحاد وظلم پھیلانا چاہتا ہے ۔ اس کی گردن توڑدی جاتی ہے اسلئے اسے اس نام سے پکارا گیا ہے ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
بکہ اور مکہ میں فرق - قول باری ہے (ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعالمین، بیشک سب سے پہلاگھرجولوگوں کے لیے (ان کی عبادت گاہ کے طورپر) بنایا گیا وہ مکہ میں ہے۔ اس میں بڑی برکتیں ہیں اور وہ تمام جہان والوں کے لیے ہدایت کامرکز ہے) مجاہد اورقتادہ کا قول ہے کہ خانہ کعبہ سے پہلے روئے زمین پر کوئی گھر نہیں بنا یا گیا ۔ حضرت علی (رض) اور حسن بصری روایت ہے کہ یہ پہلاگھر تھا جو عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ لفظ بکہ کے متعلق اختلاف ہے زھری کا قول ہے بکہ مسجد کا نام ہے اور مکہ پورے حرم کا نام ہے۔- مجاہد کا قول ہے کہ بکہ اور مکہ دونوں کا مفہوم ایک ہے۔ اس قول کے مطابق حرف باء حرف میم سے تبدیل ہوگیا۔ جس طرح کہ اگر کوئی شخص اپناسرمونڈلے توکہاجائے گا۔ سبدراسہ، اور یہ بھی کہنا درست ہے کہ، سمدراسہ، ابوعبید ہ کا قول ہے کہ بکہ بطن مکہ کا نام ہے۔ ایک قول ہے کہ لفظ الیک کے معنی الزحم یعنی ہجوم کے ہیں جیسا کہ جب کوئی کسی جگہ پر ہجوم کرے اور اس کے لیے تنگی پیداکردے تو اس وقت یہ فقرہ کہاجاتا ہے، بکہ بکا، اسی طرح جب ایک جگہ پر لوگوں کا اژدھام ہوجائے تو کہا جاتا ہے، تباک الناس، اس بناپربیت اللہ کو بکہ کے نام سے موسوم کرنا جائز ہے اس لیے کہ وہاں نماز کے ذریعے برکت حاصل کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے اسی طرح بیت اللہ کے ارد گرد مسجد کو بھی بکہ کا نام دیا جاسکتا ہے اس لیے کہ وہاں طواف کرنے والوں کا اژدھام ہوتا ہے۔- مکہ کی قدرتی نشانیاں - قول باری (وھدی للعالمین) کا مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت کے لیے اس لحاظ سے دلیل اور بیان ہے کہ اس میں اللہ نے ایسی نشانیاں رکھی ہیں جن پر اس کے سوا اور کوئی قادر نہیں۔ ایک نشانی یہ ہے کہ تمام جنگلی جانورامن سے زند گی گذارتے ہیں۔ حتی کہ ہرن اور کتادونوں حرم میں یکجا ہوجاتے ہیں نہ کتا اسے ڈراتا اور بھگاتا ہے اور نہ ہرن ہی اس سے خوف زدہ ہوتا ہے اس میں اللہ کی واحدانیت اور اس کی قدرت پر دلالت موجود ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں بیت سے بیت اللہ اور اس کے گردساراحرم مراد ہے اس لیئے کہ یہ بات پورے حرم میں موجود ہے۔- قول باری (ومبارکا) کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں خیروبرکت رکھی گئی ہے ۔ اس لیے کہ خیر اور بھلائی کی موجود گی اس کی نشو و نما اور اس میں اضافے کو برکت کہتے ہیں۔ البرک ثبوت اور وجود کو کہتے کو کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی حالت پر باقی اور ثابت رہے تو اس وقت یہ فقرہ کہاجاتا ہے۔ برک بدکاوبروکا،۔ اس آیت میں حج بیت اللہ کی ترغیب دی گئی ہے اس لیے کہ اس کے ذریعے بیت اللہ میں موجود خیروبرکت اس کے نمو اور اضافے، فلاح وصلاح توحید اور دینداری کے حصول کی توفیق وہدایت کے امکانات کی خبردی گئی ہے۔
(٩٦۔ ٩٧) سب سے پہلی مسجد جو مسلمانوں کے لیے بنائی گئی یعنی خانہ کعبہ اور مکہ کو ” بکہ “ اس لیے کہا گیا کیوں کہ طواف میں ہجوم کی بنا پر ایک دوسرے پر گرتے ہیں اور بڑے بڑے سرکش ونافرمان آکر وہاں آہ زاری کرتے ہیں ،- اور وہ مقام مغفرت و رحمت والا ہے اور وہ ہر ایک نبی رسول صدیق اور مومن کا قبلہ ہے اور اس میں کھلی نشانیاں موجود ہیں اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا پتھر اور حجر اسود موجود ہے اور اس میں جو داخل ہو وہ حملہ سے امن والا ہوجاتا ہے اور مسلمانوں میں سے اس شخص پر جو وہاں تک جانے آنے کھانے پینے اور اپنی واپسی تک اپنے اہل و عیال کو خرچہ دینے کی طاقت رکھتا ہو اس پر حج بیت اللہ فرض ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم اور حج کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کے ایمان اور حج کی کوئی ضرورت نہیں۔
آیت ٩٦ (اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ ) - بَکَّۃ اور مَکَّۃدرحقیقت ایک ہی لفظ کے لیے دو تلفظ ( ) ہیں۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :79 یہودیوں کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا ، حالانکہ پچھلے انبیا کا قبلہ بیت المقدس ہی تھا ۔ اس کا جواب سورہ بقرہ میں دیا جا چکا ہے ۔ لیکن یہودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مصر رہے ۔ لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ بیت المقدس کے متعلق خود بائیبل ہی کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو تعمیر کیا ( ١ ۔ سلاطین ، باب ٦ ۔ آیت ١ ) ۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کے زمانہ میں وہ قبلہ اہل توحید قرار دیا گیا ( کتاب مذکور ، باب ۸ ، آیت ۲۹ ۔ ۳۰ ) ۔ برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا ، اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں ۔ لہٰذا کعبہ کی اولیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں ۔
34: یہ یہودیوں کے ایک اور اعتراض کا جواب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنی اسرائیل کے تمام انبیائے کرام بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دیتے آئے ہیں، مسلمانوں نے اسے چھوڑ کر مکہ کے کعبہ کو کیوں قبلہ بنا لیا۔ آیت نے جواب یہ دیا ہے کہ کعبہ تو بیت المقدس کی تعمیر سے بہت پہلے وجود میں آچکا تھا، اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نشانی ہے۔ لہذا اسے پھر سے قبلہ اور مقدس عبادت گاہ بنانا ہرگز قابل اعتراض نہیں۔