Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ ۔۔ : یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ کی رضا پر نہ دیا، آخرت میں دیا نہ دیا برابر ہے۔ (موضح) - عام طور پر مصیبت کے وقت اولاد انسان کے کام آتی ہے، مگر اس وقت کفار کی اولاد ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا کہ ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی، بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا، اب اس آیت میں کافر کے صدقہ و خیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بےفائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ان لوگوں کی کھیتی سے تشبیہ دی ہے، جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، جو کھیتی دیکھنے میں سرسبز و شاداب نظر آئے لیکن درمیانی فاصلہ ختم کریں سخت سرد ہوا چلے اور اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ یہی حال کفار کے صدقہ و خیرات کا ہے، وہ چونکہ ایمان و اخلاص کی دولت سے محروم ہیں، اس لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ و برباد ہوجائیں گے اور انھیں ان اعمال کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فرقان (٢٣) اور سورة نور ( ٣٩، ٤٠) ۔ ہاں کفار کو دنیا ہی میں ان کے اچھے اعمال کا بدلہ مل جائے گا۔ [ دیکھیے الأحقاف : ٢٠ ] ” صِرٌّ“ شدید ٹھنڈی ہوا جو کھیتوں کو جلا دے۔ واضح رہے کہ قرآن میں عموماً ” رِیْحٌ“ کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور ” رِیَاحٌ“ جمع کا لفظ رحمت کے لیے۔ ( مفردات) میں ریح کا لفظ موافق ہوا کے لیے آیا ہے ( وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ ) دوسرے مقامات پر عذاب کی ھود کے لیے آیا ہے۔ - وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰه : یعنی ان کے اعمال جو ضائع اور برباد ہوئے یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے، بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ انھوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے، بلکہ ریاکاری کرتے رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْــــًٔـا۝ ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝ ٠ ۚ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ۝ ١١٦- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٦) اور جن لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کیا جیسا کہ کعب اور اس کے ساتھی تو ان کے اموال واولاد کی زیادتی انھیں خداوند کے عذاب سے نہیں بچا سکے گی یہ جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani