کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہم راز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں پھنس نہ جانا ورنہ موقعہ پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے تم انہیں اپنا راز دار ہرگز نہ سمجھنا راز کی باتیں ان کے کانوں تک ہرگز نہ پہنچانا بطانہ کہتے ہیں انسان کے راز دار دوست کو اور من دو نکم سے مراد جس خلیفہ کو مقرر کیا اس کیلئے دو بطانہ مقرر کئے ایک تو بھلائی کی بات سمجھانے والا اور اس پر رغبت دینے والا اور دوسرا برائی کی رہبری کرنے والا اور اس پر آمادہ کرنے والا بس اللہ جسے بچائے وہی بچ سکتا ہے ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا محرر اور منشی مقرر کرلیں آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے ، اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ انکی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے ، ازہر بن راشد کہتے ہیں کہ لوگ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سنتے تھے اگر کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو حضرت حسن بصری سے جا کر مطلب حل کر لیتے تھے ایک دن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ مشرکوں کی آگ سے روشنی طلب نہ کرو اور اپنی انگوٹھی میں عربی نقش نہ کرو انہوں نے آکر حسن بصری سے اس کی تشریح دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پچھلے جملہ کا تو یہ مطلب ہے کہ انگوٹھی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھدواؤ اور پہلے جملہ کا یہ مطلب ہے کہ مشرکوں سے اپنے کاموں میں مشورہ نہ لو ، دیکھو کتاب اللہ میں بھی ہے کہ ایمان دارو اپنے سوا دوسروں کو ہمراز نہ بناؤ لیکن حسن بصری کی یہ تشریح قابل غور ہے حدیث کا ٹھیک مطلب غالباً یہ ہے کہ محمد رسول اللہ عربی خط میں اپنی انگوٹھیوں پر نقش نہ کراؤ ، چنانچہ اور حدیث میں صاف ممانعت موجود ہے یہ اس لئے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے ساتھ مشابہت نہ ہو اور اول جملے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی بستی کے پاس نہ رہو اس کے پڑوس سے دور رہو ان کے شہروں سے ہجرت کر جاؤ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان کی لڑائی کی آگ کو کیا تم نہیں دیکھتے اور حدیث میں ہے جو مشرکوں سے میل جول کرے یا ان کے ساتھ رہے بسے وہ بھی انہی جیسا ہے پھر فرمایا ان کی باتوں سے بھی ان کی عداوت ٹپک رہی ہے ان کے چہروں سے بھی قیافہ شناس ان کی باطنی خباثتوں کو معلوم کر سکتا ہے پھر جو ان کے دلوں میں تباہ کن شرارتیں ہیں وہ تو تم سے مخفی ہیں لیکن ہم نے تو صاف صاف بیان کر دیا ہے عاقل لوگ ایسے مکاروں کی مکاری میں نہیں آتے پھر فرمایا دیکھو کتنی کمزوری کی بات ہے کہ تم ان سے محبت رکھو اور وہ تمہیں نہ چاہیں ، تمہارا ایمان کل کتاب پر ہو اور یہ شک شبہ میں ہی پڑے ہوئے ہیں ان کی کتاب کو تم تو مانو لیکن یہ تمہاری کتاب کا انکار کریں تو چاہئے تو یہ تھا کہ تم خود انہیں کڑی نظروں سے دیکھتے لیکن برخلاف اس کے یہ تمہاری عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں ۔ سامنا ہو جائے تو اپنی ایمانداری کی داستان بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب ذرا الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب سے جلن اور حسد سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں پس مسلمانوں کو بھی ان کی ظاہرداری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے یہ چاہے جلتے بھنتے رہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو ترقی دیتا رہے گا مسلمان دن رات ہر حیثیت میں بڑھتے ہی رہیں گے گو وہ مارے غصے کے مر جائیں ۔ اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بخوبی واقف ہے ان کے تمام منصوبوں پر خاک پڑے گی یہ اپنی شرارتوں میں کامیاب نہ ہوسکیں گے اپنی چاہت کے خلاف مسلمانوں کی دن دوگنی ترقی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں والی جنت حاصل کرتے دیکھیں گے برخلاف ان کے یہ خود یہاں بھی رسوا ہوں گے اور وہاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ، ان کی شدت عداوت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے کہ جہاں تمہیں کوئی نفع پہنچتا ہے یہ کلیجہ مسوسنے لگے اور اگر ( اللہ نہ کرے ) تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے لگتے ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد ہوئی یہ کفار پر غالب آئے انہیں غنیمت کا مال ملا یہ تعداد میں بڑھ گے تو وہ جل بجھے اور اگر مسلمانوں پر تنگی آگئی یا دشمنوں میں گھر گئے تو ان کے ہاں عید منائی جانے لگی ۔ اب اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان شریروں کی شرارت اور ان بدبختوں کے مکر سے اگر نجات چاہتے ہو تو صبرو تقویٰ اور توکل کرو اللہ عزوجل خود تمہارے دشمنوں کو گھیر لے گا کسی بھلائی کے حاصل کرنے کسی برائی سے بچنے کی کسی میں طاقت نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہو سکتا جو اس پر توکل کرے اسے وہ کافی ہے ۔ اسی مناسبت سے اب جنگ احد کا ذکر شروع ہوتا ہے جس پر مسلمانوں کے صبرو تحمل کا بیان ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی آزمائش کا پورا نقشہ ہے اور جس میں مومن و منافق کی ظاہری تمیز ہے سنئے ارشاد ہوتا ہے
118۔ 1 یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اس کی اہمیت کے پیش نظر پھر دہرایا جا رہا ہے۔ بطانتہ، دلی دوست اور رازدار کو کہا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات و عزائم رکھتے ہیں، ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنہیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشاندہی فرما دی ہے یہ اور اس قسم کی دیگر آیات کے پیش نظر ہی علماء و فقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے ایک (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا، حضرت عمر (رض) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ تم انہیں اپنے قریب نہ کرو جب کہ اللہ نے انہیں دور کردیا ہے ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کردیا ہے اور انہیں راز دار مت بناؤ جب کہ اللہ نے انہیں بددیانت قرار دیا ہے ـ حضرت عمر (رض) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں اس زمانے میں اہل کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اس وجہ سے غبی لوگ سردار اور امرا بن گئے (تفسیر قرطبی) ۔ بدقسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کریم کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور اس کے برعکس غیر مسلم بڑے بڑے اہم عہدوں اور کلیدی مناصب پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقینا بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ 118۔ 2 لایألون، کوتاہی اور کمی نہیں کریں گے خبالا کے معنی فساد اور ہلاکت کے ہیں ماعنتم (جس سے تم مشقت اور تکلیف میں پڑو) عنت بمعنی مَشَقَّۃ
[١٠٦] یہ خطاب دراصل انہیں انصار مدینہ سے ہے۔ ان کے دو بڑے قبیلے اوس و خزرج مدینہ میں آباد تھے۔ اسلام سے پہلے ان قبائل کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی اور مدینہ کے یہودی بھی تین قبائل میں منقسم تھے۔ یہودیوں کا کام یہ تھا کہ ان کا ایک قبیلہ اوس کا حلیف بن جاتا اور دوسرا خزرج کا اور اس طرح اوس و خزرج کو آپس میں لڑاتے رہتے تھے اور اس طرح کئی طرح کے مفادات حاصل کرتے تھے۔ مثلاً ایک یہ کہ ان کے ہتھیار فروخت ہوجاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قلت تعداد کے باوجود انصار مدینہ پر اپنی بالا دستی قائم رکھتے اور ان کی معیشت و سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ جب اوس و خزرج کے قبیلے مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ وہی پرانے تعلقات نباہتے رہے اور اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی سابقہ ئمحبت و خلوص سے ملتے رہے۔ لیکن یہودیوں کو آپ اور آپ کے مشن سے جو بغض وعناد تھا اس کی بنا پر وہ کسی مسلمان سے مخلصانہ محبت رکھنے کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے منافقانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ ظاہر میں تو وہ انصار سے دوستی کا دم بھرتے تھے۔ مگر دل میں ان کے سخت دشمن بن چکے تھے۔ اس ظاہری دوستی سے وہ دو قسم کے فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ و فساد پیدا کردیں جیسا کہ شماس بن قیس یہودی نے کیا بھی تھا اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے جماعتی راز ان کے دشمنوں تک پہنچائیں۔ انہی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کسی بھی غیر مسلم سے دوستی گانٹھنے اور اسے اپنا راز دار بنانے سے روک دیا اور یہود کے بغض وعناد کا تو یہ حال تھا کہ بسا اوقات ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جاتی تھی جو ان کی مسلمانوں سے گہری دشمنی کا پتا دے جاتی تھی اور حسد اور دشمنی کے بارے میں ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی تھی۔ اور جو ان کے دلوں میں کدورت بھری ہوئی تھی وہ تو اس سے بہت بڑھ کر تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سوچو تو ان کی دوستی میں تمہیں سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔ لہذا کافروں سے دوستی رکھنے سے بہرحال تمہیں اجتناب کرنا چاہئے۔
بِطَانَةً : پوشیدہ چیز اور وہ کپڑا جو اوپر والے کپڑے کے نیچے جسم کے ساتھ ملا ہوتا ہے، مراد دلی دوست، خاص راز دار۔ یہ باب ” نَصَرَ “ سے مصدر ہے، واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ ” مِّنْ دُوْنِكُمْ “ ( اپنے مخلص مسلمانوں کے سوا) اس کا تعلق ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ ) [ آل عمران : ١٠٠ ] سے ہے اور اس میں کفار کی طرف میلان اور ان کی دوستی سے منع فرمایا گیا ہے۔ ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے : ” مسلمانوں میں سے کچھ آدمی یہودیوں سے میل جول اور تعلقات رکھتے تھے۔ کیونکہ اسلام سے پہلے وہ آپس میں ہمسائے اور حلیف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کر کے انھیں اپنے اندرونی راز داں اور دلی دوست بنانے سے منع فرما دیا۔ کیونکہ اس میں ( راز افشا ہونے اور) ان کی طرف سے فتنے کا شدید خطرہ تھا۔ “ - ابن ابی حاتم ہی نے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ عمر بن خطاب (رض) سے کہا گیا کہ اہل حیرہ سے ایک نوجوان محفوظ رکھنے والا کاتب ہے، آپ اسے کاتب (سیکرٹری) رکھ لیں۔ فرمایا : ” پھر تو میں مومنوں کے سوا ” بطانۃ “ (راز دار) بنانے والا ہوں گا۔ “ [ ابن أبی حاتم : ٣؍١٤٧، ح : ٤٠٨٧ ] ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں : ” میں نے عمر (رض) سے کہا، میرے پاس ایک نصرانی کاتب ہے۔ “ انھوں نے فرمایا : ” اللہ تجھے مارے، یہ تم نے کیا کیا ؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا : ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ ) [ المائدۃ : ٥١ ] ” تم نے کسی مسلمان کو کیوں نہیں رکھا ؟ “ میں نے عرض کی : ” اے امیر المومنین مجھے اس کی کتابت سے غرض ہے، اس کا دین اس کے لیے ہے۔ “ عمر (رض) نے فرمایا : ” جب اللہ نے انھیں رسوا کردیا ہے تو میں ان کی تکریم نہیں کرسکتا، جب اللہ نے انھیں ذلیل کیا ہے تو میں انھیں عزت نہیں دے سکتا، جب اللہ نے انھیں دور کردیا ہے، تو میں انھیں قریب نہیں کرسکتا۔ “ [ السنن الکبریٰ للبیہقی : ١٠؍١٢٧، ح : ٢٠٤٠٩ ]- ” مِّنْ دُوْنِكُم “ (اپنے سوا) کے الفاظ عام ہیں اور یہود و نصاریٰ ، منافقین اور مشرکین سبھی ” مِّنْ دُوْنِكُم “ میں داخل ہیں، اس لیے انتظامی امور میں کسی منافق یا غیر مسلم (ذمی) کو متعین کرنا ممنوع ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کے راز فاش ہونے کا خطرہ ہے۔ بلکہ مسلمان کے لیے مشرکین کے ملک میں رہنا بھی درست نہیں۔ دیکھیے سورة نساء (٩٧، ٩٨)- افسوس کہ اس وقت مسلمان ملکوں کے حکمرانوں نے اللہ کے اس حکم کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور غیر مسلم ان کے کلیدی عہدوں پر فائز اور تقریباً تمام اہم رازوں سے آگاہ ہیں، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ - لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا : ” أَلاَ یَأْلُوْ “ (ن) کمی کرنا، کوتاہی کرنا۔ ” خَبَالًا “ خرابی ڈالنا، نقصان پہنچانا۔ ” مَا عَنِتُّمْ “ عَنَتٌ مشقت، تکلیف، یعنی ” جس سے تم تکلیف میں پڑو۔ “ دلی دوست نہ بنانے کے حکم کی وجہ کی طرف اشارہ ہے، یعنی اگرچہ یہ لوگ اپنی منافقت کی بنا پر تم سے ایسی باتیں نہیں کرنا چاہتے جن سے تمہیں ان کی اسلام دشمنی کا پتا چل سکے، مگر شدید عداوت کی وجہ سے ان کی زبان پر ایسے الفاظ آ ہی جاتے ہیں، جن سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ یہ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ بدترین دشمن ہیں اور تمہارے خلاف جو جذبات اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ - قَدْ بَيَّنَّا۔۔ : یعنی کفار سے دوستی نہ کرنے کے سلسلہ میں یہودیوں اور منافقین کے بغض و عناد اور ان کے دلی حسد سے متعلق ہم نے پتے کی باتیں خوب کھول کر بیان کردی ہیں۔ اب غور و فکر کرنا تمہارا کام ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اے ایمان والو اپنے (لوگوں کے) سوا (اور مذہب والوں میں سے) کسی کو (محبت کے برتاؤ میں) صاحب خصوصیت مت بناؤ (کیونکہ) وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے (اور دل سے بھی) تمہاری مضرت (دنیوی و دینی) کی تمنا رکھتے ہیں، (دلوں میں تمہاری طرف سے اس قدر بغض بھرا ہے کہ) واقعی ( وہ) بغض (بعض اوقات) ان کے منہ سے (بےاختیار بات چیت میں) ظاہر ہو پڑتا ہے، اور جس قدر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت کچھ ہے (چنانچہ) ہم (ان کی عداوت کے) علامات (اور قرائن) تمہارے سامنے ظاہر کرچکے اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان یقینی علامات سے دیکھ لو) ہاں (سمجھو) تم ایسے ہو ان لوگوں سے محبت (کا برتاؤ) رکھتے ہو، اور یہ لوگ تم سے اصلا محبت نہیں رکھتے (نہ دل سے نہ برتاؤ سے) حالانکہ تم تمام (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (اس بات میں ان کی کتابیں بھی شامل ہیں اور وہ تمہاری کتاب یعنی قرآن پر ایمان نہیں رکھتے مگر وہ تو باوجود اس تمہارے ایمان کے بھی تم سے محبت نہیں رکھتے اور تم باوجود ان کے اس عدم ایمان کے بھی ان سے محبت رکھتے ہو) اور (تم ان کے ظاہری دعوی ایمان سے شبہ مت کرنا کہ وہ بھی تو ہماری کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ) یہ لوگ جب تم سے ملتے ہیں (صرف تمہارے دکھانے کو منافقانہ طو رپر) کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، اور جب (تم سے) الگ ہوتے ہیں تو تم پر اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں مارے غیظ (وغضب) کے (یہ کنایہ ہے شدت غضب سے) آپ (ان سے) کہہ دیجیے کہ تم مرر ہو اپنے غصہ میں (مراد یہ کہ اگر تم مر بھی جاؤ گے تب بھی تمہاری مراد پوری نہ ہوگی) بیشک اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں دلوں کی باتوں کو (اسی لئے ان لوگوں کے دلوں میں جو رنج و غبار اور عداوت تمہاری طرف سے بھری ہیں سب بتلا دی اور ان کا یہ حال ہے کہ) اگر تم کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے (مثلا تم میں باہم اتفاق ہو، غیروں پر غلبہ ہوجائے) تو ان کے لئے موجب رنج ہوتی ہے (جس کا سبب اشد درجہ کا حسد ہے) اور اگر تم کو کوئی ناگواری حالت پیش آتی ہے تو اس سے (بڑے) خوش ہوتے ہیں ( جس سے ان کی شماتت ثابت ہے، سو ان کے جب یہ حالات ہیں تو وہ اس قابل کب ہیں کہ ان سے دوستی یا دوستی کا برتاؤ کیا جاوے، ان کے مذکورہ حالات سننے کے بعد دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا بعید نہیں تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں کو ضرر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں رکھیں گے، اس لئے گلی آیت میں مسلمانوں کی تسلی کے لئے فرمایا) اور اگر تم استقلال اور تقوی کے ساتھ رہو تو ان لوگوں کی تدبیر تم کو ذرا بھی ضرر نہ پہنچا سکے گی (تم اس سے بےفکر رہو تو دنیا میں تو ان کو یہ ناکامی نصیب ہوگی اور آخرت میں سزائے دوزخ ہوگی کیونکہ) بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال پر (علمی) احاطہ رکھتے ہیں (کوئی عمل ہم سے مخفی نہیں اس لئے وہاں سزا سے بچنے کے لئے کسی حیلہ حوالہ کی گنجائش نہیں) ۔- معارف و مسائل :- شان نزول اس آیت کا یہ ہے کہ مدینہ کے اطراف میں جو یہودی آباد تھے ان کے ساتھ اوس اور خزرج کے لوگوں کی قدیم زمانہ سے دوستی چلی آتی تھی، انفرادی طور پر بھی ان قبیلوں کے افراد ان کے افراد سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے، اور قبائلی حیثیت سے بھی یہ اور یہود ایک دوسرے کے ہمسایہ اور حلیف تھے، جب اوس اور خزرج کے قبیلے مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ پرانے تعلقات نبھاتے رہے، اور ان کے افراد اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی محبت و خلوص کے ساتھ ملتے رہے، لیکن یہودیوں کو حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور آپ کے لائے ہوئے دین سے جو عداوت تھی اس کی بناء پر وہ کسی ایسے شخص سے مخلصانہ محبت رکھنے کے لئے تیار نہ تھے جو اس دعوت کو قبول کر کے مسلمان ہوگیا ہو، انہوں نے انصار کے ساتھ ظاہر میں تو وہی تعلقات رکھے جو پہلے سے چلے آرہے تھے، مگر دل میں اب وہ ان کے دشمن ہوچکے تھے، اور اسی ظاہری دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کی جماعت میں اندرونی فتنہ و فساد برپا کردیں، اور ان کے جماعتی راز معلوم کر کے ان کے دشمنوں تک پہنچائیں، اللہ تعالیٰ یہاں ان کی اس منافقانہ روش سے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت فرما رہے ہیں، اور ایک نہایت اہم ضابطہ بیان فرماتے ہیں کہ :- " یایھا الذین امنوا لا تتخذوا بطانۃ من دونکم " یعنی اے ایمان والو اپنے (یعنی مسلمانوں کے) علاوہ کسی کو گہرا اور راز دار دوست نہ بناؤ، بطانۃ کے معنی ہیں ولی، دوست، راز دار اور بھیدی، کپڑے کا باطنی استر جو جسم سے ملا رہے وہ بھی بطانہ کہلاتا ہے، یہ بطن سے مشتق ہے، بطن کا استعمال ہر شے میں ظہر کے خلاف ہوتا ہے، اوپر کی جانب کو ظہر اور اندر کی جانب کو بطن بولتے ہیں، اور کپڑے کے اوپر کے حصہ کو ظہارہ اور اندرونی اور نیچے کے حصہ کو جسم سے ملا رہے جیسے استر وغیرہ کو بطانہ کہتے ہیں، جس طرح ہم اپنی زبان میں بولتے ہیں کہ وہ اس کا اوڑھنا بچھونا ہے، یعنی وہ اس کو نہایت مرغوب و محبوب ہے، اسی طرح بطانہ الثوب سے بطور استعارہ ولی، دوست اور معتمد جو باطنی امور کا رازدار ہو اس کے لئے بطانہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، عربی لغت کی مشہور معتبر کتاب لسان العرب میں بطانہ کے معنی اس طرح کئے : بطانۃ الرجل صاحب سرہ و داخلۃ امرہ الذی یش اورہ فی احواہ، یعنی بطانۃ الرجل کسی شخص کے ولی اور رازدار دوست اور اس کے معاملات میں دخیل کو کہا جاتا ہے، جس سے وہ اپنے معاملات میں مشورہ لے، اصفہانی نے مفردات القرآن میں اور قرطبی نے اپنی تفسیر میں بھی یہی معنی بیان کئے ہیں، جس کا حاصل یہ ہوا کہ بطانہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کو راز دار، ولی اور دوست سمجھا جائے، اور اس کو اپنے معاملات میں معتمد اور مشیر بنایا جائے۔- تو اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی ملت والوں کے سوا کسی کو اس طرح کا معتمد اور مشیر نہ بناؤ کہ اس سے اپنے اور اپنی ملت و حکومت کے راز کھول دو ، اسلام نے اپنی عالمگیر رحمت کے سایہ میں جہاں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی، خیر خواہی، نفع رسانی اور مروت و رواداری کی غیر معمولی ہدایات فرمائی اور نہ صرف زبانی ہدایات بلکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام معاملات میں اس کو عملی طور پر رواج دیا ہے وہیں عین حکمت کے مطابق مسلمانوں کی اپنی تنظیم اور ان کے مخصوص شعائر کی حفاظت کے لئے یہ احکام بھی صادر فرمائے کہ قانون اسلام کے منکروں اور باغیوں سے تعلقات ایک خاص حد سے آگے بڑھانے کی اجازت مسلمان کو نہیں دی جاسکتی، کہ اس سے فرد اور ملت دونوں کے لئے ضرر اور خطرے کھلے ہوئے ہیں، اور یہ ایسا صریح، معقول، مناسب اور ضروری انتظام ہے جس سے فرد اور ملت دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، جو غیر مسلم اسلامی مملکت کے باشندے ہیں یا مسلمانوں سے کوئی معاہدہ کئے ہوئے ہیں ان کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور ان کی حفاظت کے لئے انتہائی تاکیدات اسلامی قانون کا جزء ہیں، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ( من اذی ذمیا فانا خصمہ و من کنت خصمہ خصمتہ یوم القیامۃ۔ (عن ابن مسعود) " جس شخص نے کسی ذمی کو ستایا تو قیامت کے روز اس کی طرف سے میں دعویدار بنوں گا، اور جس مقدمہ میں میں دعویدار ہوں تو میں ہی غالب رہوں گا "- ایک دوسری حدیث میں فرمایا : (منعنی ربی ان اظلم معاھدا ولا غیرہ (عن علی)- " مجھے میرے پروردگار نے منع فرمایا ہے کہ میں کسی معاہدہ یا کسی دوسرے پر ظلم کروں " ایک اور حدیث میں فرمایا : ( الا من ظلم معاھدا اونتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس منہ فانا حجیجہ یوم القیامۃ)- " خبردار جو کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کرے، یا اس کے حق میں کمی کرے یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے، یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی دلی رضامندی کے حاصل کرے تو قیامت کے روز میں اس کا وکیل ہوں گا "- لیکن تمام مراعات کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی جماعت اور ملت کی حفاظت کے لئے یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنا گہرا دوست اور رازدار معتمد نہ بنایا جائے۔ ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ فاروق اعظم حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے کہا گیا کہ یہاں ایک غیر مسلم لڑکا ہے جو بڑا اچھا کاتب ہے اگر اس کو آپ اپنا میر منشی بنالیں تو بہتر ہو، اس پر فاروق اعظم نے فرمایا : ( قد اتخذت اذا بطانۃ من دون المومنین) " یعنی اس کو میں ایسا کروں تو مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے ملت والے کو راز دار بنالوں گا جو نص قرآن کے خلاف ہے "۔ امام قرطبی جو پانچویں صدی کے مشہور عالم اور مفسر ہیں بری حسرت اور درد کے ساتھ مسلمانوں میں اس تعلیم کی خلاف ورزی اور اس کے نتائج بد کا بیان اس طرح فرماتے ہیں :- ( وقد انقلبت الاحوال فی ھذہ الازمان باتخاذ اھل الکتاب کتبۃ وامناء وتسودوا بذلک عند جھلۃ الاغنیاء من الولاۃ والامراء) - " یعنی اس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاری کو رازدار اور امین بنالیا گیا، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے "- آج بھی کسی ایسے مملکت میں جس کا قیام کسی خاص نظریہ پر ہو وہاں اس نئی روش کے زمانے میں بھی کسی ایسے شخص کو جو اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا، مشیر اور معتمد نہیں بنایا جاسکتا۔ روس اور چین میں کسی ایسے شخص کو جو کمیونزم پر ایمان نہیں رکھتا ہو، کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز نہیں کیا جاتا، اور اس کو مملکت کا رازدار اور مشیر نہیں بنایا جاتا، اسلامی مملکتوں کے زوال کی داستانیں پڑہئے تو زوال کے دوسرے اسباب کے ساتھ بکثرت یہ بھی ملے گا کہ مسلمانوں نے اپنے امور کا رازدار و معتمد غیر مسلموں کو بنا لیا تھا، سلطنت عثمانی کے زوال میں بھی اس کو کافی دخل تھا۔ آیت مذکورہ میں اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے لا یالونکم خبالا۔ یعنی وہ لوگ تمہیں وبال و فساد میں مبتلا کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں رکھتے، اور تمہارے دکھ پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں، بعض تو ان کی زبانوں سے ظاہر ہو پڑتا ہے، اور جو کچھ وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اور بھی بڑھ کر ہے، ہم تو تمہارے لئے نشانیاں کھول کر ظاہر کرچکے ہیں، اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو۔ - مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور مشیر نہ بنائیں، کیونکہ یہود ہوں یا نصاری، منافقین ہوں یا مشرکین، کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں ہوسکتی، بلکہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تمہیں بیوقوف بناکر نقصان پہنچائیں اور دینی و دنیوی خرابیوں میں مبتلا کریں، ان کی آرزو یہ ہے کہ تم تکلیف میں رہو اور کسی نہ کسی تدبیر سے تم کو دینی یا دنیوی ضرر پہنچے، جو دشمنی یا ضرر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت ہی زیادہ ہے، لیکن بسا اوقات عداوت غیظ و غضب سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا بھی ایسی باتیں کر گزرتے ہیں جو ان کی گہری دشمنی کا صاف پتہ دیتی ہیں، مارے دشمنی اور حسد کے ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی، پس عقل مند آدمی کا کام نہیں کہ ایسے دشمنوں کو راز دار بنائے، خدائے تعالیٰ نے دوست دشمن کے پتے اور موالات کے احکام بتلا دیئے ہیں، جس میں عقل ہوگی اس سے کام لے گا۔- ودوا ما عنتم، یہ فقرہ کافرانہ ذہنیت کا پورا ترجمان ہے، اس کے اندر گہری تعلیم اس بات کی آگئی کہ کوئی غیر مسلم کسی حال میں مسلمانوں کا حقیقی دوست اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ٠ ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ٠ ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ ٠ ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ ٠ ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ١١٨- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- بِطانَة- : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . وقد بَطَنَ فلان بفلان بُطُوناً ، وتستعار البِطَانَةُلمن تختصه بالاطّلاع علی باطن أمرك . قال عزّ وجل : لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] أي : مختصا بکم يستبطن أمورکم، وذلک استعارة من بطانة الثوب، بدلالة قولهم : لبست فلانا : إذا اختصصته، وفلان شعاري ودثاري، وروي عنه صلّى اللہ عليه وسلم أنه قال : «ما بعث اللہ من نبيّ ولا استخلف من خلیفة إلا کانت له بطانتان : بطانة تأمره بالخیر وتحضّه عليه، وبطانة تأمره بالشرّ وتحثّه عليه»- البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ بطن فلان بفلان کسی شخص کے اندرونی معاملات سے واقف ہونا اور بطور استعارہ البطانۃ کا لفظ ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جو دوسرے کا راز وان ہو چناچہ قرآن میں ہے ؛۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کسی غیر ( مذہب کے آدمی ) کو اپنا راز دان بنانا اور بطانۃ الثوب سے استعارہ ہے کیونکہ اسی معنی میں لبست فلانا وفلان شعاری ودثاری بھی کہا جاتا ہے ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بیھجا اور کسی کو خلیفہ بنایا ہے مکر ہمیشہ اس کے دو راز دان رہے ہیں ایک رازدار اسے خیر کا مشورہ اور اس کی ترغیب دیتا رہا ہے اور دوسرا اسے شرکا مشورہ اور اسی پر اکساتا رہا ہے ۔- الو - وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا - [ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، - ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔- خبل - الخَبَالُ الفساد الذي يلحق الحیوان فيورثه اضطرابا، کالجنون والمرض المؤثّر في العقل والفکر، ويقال : خَبَلٌ وخَبْلٌ وخَبَال، ويقال :- خَبَلَهُ وخَبَّلَهُ فهو خَابِل، والجمع الخُبَّل، ورجل مُخَبَّل، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا [ آل عمران 118] ، وقال عزّ وجلّ : ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا [ التوبة 47] ، وفي الحدیث : «من شرب الخمر ثلاثا کان حقّا علی اللہ تعالیٰ أن يسقيه من طينة الخبال» ( خ ب ل ) الخبال والخبل والخبل ۔ اس فساد یا خرابی کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو لاحق ہوکر اس میں اضطراب اور بےچینی پیدا کردے ۔ جیسے جنون یا وہ مرض جو عقل وفکر پر اثر انداز ہو ، کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا [ آل عمران 118] مومنوں ( کسی غیر ( مزہب کے آدمی ) کو اپنا راز دان نہ بنانا ۔ یہ لوگ تمہاری خرابی ( اور فتنہ انگیزی کرنے ) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا [ التوبة 47] تو تمہارے حق میں شرارت کرتے ۔ اور حدیث میں ہے : ۔ جو شخص تین مرتبہ شراب پئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لازما دو زخیوں کی پیپ پلائے گا ۔- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- عنت - الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ- [ النساء 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ.- ( ع ن ت ) المعانتۃ - : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - بغض - البُغْض : نفار النفس عن الشیء الذي ترغب عنه، وهو ضد الحبّ ، فإنّ الحب انجذاب النفس إلى الشیء، الذي ترغب فيه . يقال : بَغُضَ الشیء بُغْضاً وبَغَضْتُه بَغْضَاء . قال اللہ عزّ وجلّ : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 64] ، وقال : إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 91] ، وقوله عليه السلام : «إنّ اللہ تعالیٰ يبغض الفاحش المتفحّش»فذکر بغضه له تنبيه علی بعد فيضه وتوفیق إحسانه منه .- ( ب غ ض ) البغض کے معنی کسی مکر وہ چیز سے دل کا متنفر اور بیزار ہونا کے ہیں ۔ کہ حب کی ضد ہے ۔ جس کے معنی پسندیدہ چیز کی طرف دل کا منجذب ہونا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 64] اور ہم نے ان کے باہم عداوت اور بعض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 91] شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش دلوادے اور حدیث میں ہے بیشک اللہ تعالیٰ بد کلام گالی دینے والے ہے نفرت کرتا ہے ۔ یہاں بعض کا لفظ بول کر اس امر پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ باری تعالیٰ اس سے اپنا فیضان اور توفیق احسان روک لیتا ہے ۔- فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
ذمیوں سے استعانت کا بیان - قول باری ہے (یایھا الذین امنوالاتتخذوابطانۃ من دونکم لایألونکم خبالاؤدواماعنتم قدبدت البخضاء من افواھھم وماتخفی صدورھم اکبر، اے ایمان والو اپنی جماعت کے لوگوں کے سوادوسروں کو اپنا رازدانہ بناؤ۔ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقعہ سے فائد ہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بعض ان کے منہ سے نکلاپڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے پھرتے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ انسان کا بطانہ، ان لوگوں کو کہاجاتا ہے جو اس کے خاص ہوتے ہیں اور اس پر اپنا حکم چلاسکتے ہیں نیز جن پر وہ اپنے معاملات میں بھروسہ کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات سے روک دیا کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑکراہل کفر کو اپناراز داربنائیں اور اپنے خصوصی معاملات میں ان سے مدد کے طلب گارہوں۔ پھر اپنے قول (لایألونکم خبالا) کے ذریعے مسلمانوں کو ان کافروں کے پوشیدہ جذبات سے آگا ہ کردیاجویہ مسلمانوں کے متعلق رکھتے ہیں۔ اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کافرتمھارے معاملات کو خراب کرنے کے کسی بھی موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہٰں دیئے اس لیے کہ خیال کے معنی فساد کے ہیں۔ پھر فرمایا (ودواماعنتم) سدی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ لوگ تمہیں تمہارے دین سے گمراہ کرنے کی تمنا رکھے ہوئے ہیں۔ ابن جریج کا قول ہے کہ یہ لوگ اس بات کے متمنی ہیں کہ تم اپنے دین کے معاملے میں مشقت می پڑجاؤ، اور پھر تمہیں دین پر عمل پیرا ہونے میں مشقتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اس لیے کہ عنت کے اصل معنی مشقت کے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی کہ انھیں ہر وہ چیز ہے جو تمہاری مشقت اور نقصان کا سبب بنتی ہو۔ قولباری ہے (ولوشاء اللہ لاعنتکم۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا)- مسلمانوں کے معاملات حکومت میں اہل ذمہ سے مددلینا جائز نہیں ہے - آیت اس بات پر دلالت کررہی کہ مسلمانوں کے معاملات میں اہل الذمہ سے مددلینا جائز نہیں ہے مثلا کسی ذمی کو مسلمانوں کے کسی علاقے کا انتظام سپرد کردینا یا کسی حاکم یاعامل کا کسی ذمی کو اپنا کاتب یعنی سٹینوبنالینا وغیرہ۔ حضرت عمر (رض) کے متعلق مروی ہے کہ جب آپ کو پتا چلا کہ آپ کے مقررکردہ گور نرحضرت ابوموسی اشعری نے کسی ذمی کو اپنا کاتب بنالیا ہے تو آپ نے فورا انھیں تحریری طورپرسرزنش کی اور دلیل کے طورپر آیت (یایھا الذین امنوالاتتخذوابطانۃ من دونکم) کا حوالہ دیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جب انھیں ذلیل کردیا ہے تو تم اب انھیں عزت کا مقام نہ دو ۔ ابوحیان تیمی نے فرقدبن صالح سے، انھوں نے ابو وہقانہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے گزارش کی کہ ایک شخص حیرہ کا رہنے والا ہے (ہم نے اس جیسی یادداشت کا مالک اور اس جیسا خوش نویس کسی کو نہیں پایا) میراخیال ہے کہ آپ اسے اپنا کاتب مقرر کرلیں۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر جواب دیا۔ اگر میں ایسا کرلوں تو گویا میں مسلمانوں کو چھوڑکرغیروں کو اپنا راز دار بنانے کے جرم کا ارتکاب کروں گا۔ ہلال طائی نے وسق رومی سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کا غلام تھا۔ آپ ہمیشہ مجھے مسلمان ہوجانے کے لیے کہتے اور فرماتے کہ اگر تو مسلمان ہوجاتا تو میں مسلمانوں کے معاملات میں تجھ سے مددلیتا کیونکہ میرے لیے یہ مناسب نہیں کہ میں مسلمانوں کے معاملات میں کسی ایسے شخص سے مددلوں جوان میں سے نہ ہو۔ میں انکار کردیتا۔ پھر آپ فرماتے کہ دین کے معاملے میں کوئی خبر نہیں۔ جب آپ کی وفات قریب ہوئی تو آپ نے مجھے آزاد کرکے فرمایا کہ اب جہاں مرضی ہے چلے جاؤ۔
(١١٨) یعنی مومنین کے سوا یہود کو دوست مت بناؤ کیوں کہ وہ تم لوگوں میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اس بات کی آرزو مندرہتے ہیں کہ جیسے وہ لوگ شرک کرتے ہیں، تم بھی شرک کرو اور گناہ گار بنو۔- اس چیز کا اظہار ان کی زبانی گالی گلوچ سے تو ہو ہی رہا ہے اور جو دشمنی اور کینہ غصہ اور اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے یہ ان کے حسد کی نشانی تمہارے سامنے ہم نے واضح کردی۔ اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ ہم نے اوامرو نواہی تمہارے سامنے بیان کردیے ہیں، تاکہ جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے تم اس کو سمجھو ،- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) اور ابن اسحاق (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جاہلیت کی دوسی کی بنا پر مسلمانوں میں سے کچھ حضرات یہودیوں کے ساتھ دوستی رکھا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس سے آگاہ فرمایا اور فتنہ کی بنا پر ان سے تعلقات رکھنے کی ممانعت فرما دی اور یہ آیت نازل فرمائی کہ اپنے علاوہ کسی کو صاحب خصوصیت نہ بناؤ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١١٨ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ ) - یعنی جس شخص کے بارے میں اطمینان ہو کہ صاحب ایمان ہے ‘ مسلمان ہے ‘ اس کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا بھیدی اور محرم راز نہ بناؤ۔ یہودی ایک عرصے سے مدینہ میں رہتے تھے اور اوس و خزرج کے لوگوں کی ان سے دوستیاں تھیں ‘ پرانے تعلقات اور روابط تھے۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات سادہ لوح مسلمان اپنی سادگی میں راز کی باتیں بھی انہیں بتا دیتے تھے۔ اس سے انہیں روکا گیا۔- (لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً ط) (وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ج ) (قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ ج ) - ان کا کلام ایسا زہر آلود ہوتا ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی ٹپکی پڑتی ہے۔ یہ اپنی زبانوں سے آتش برساتے ہیں۔ - (وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ ط ) ۔- جو کچھ ان کی زبانوں سے ظاہر ہوتا ہے وہ تو پھر بھی کم ہے ‘ ان کے دلوں کے اندر دشمنی اور حسد کی جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔- ( قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ) - یعنی اپنے طرز عمل پر غور کرو اور اس سے باز آجاؤ
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :92 مدینہ کے اطراف میں جو یہودی آباد تھے ان کے ساتھ اوس اور خزرج کے لوگوں کی قدیم زمانہ سے دوستی چلی آتی تھی ۔ انفرادی طور پر بھی ان قبیلوں کے افراد ان کے افراد سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور قبائلی حیثیت سے بھی یہ اور وہ ایک دوسرے کے ہمسایہ اور حلیف تھے ۔ جب اوس اور خزرج کے قبیلے مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ وہی پرانے تعلقات نباہتے رہے اور ان کے افراد اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی محبت و خلوص کے ساتھ ملتے رہے ۔ لیکن یہودیوں کو نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن سے جو عداوت ہوگئی تھی اس کی بنا پر وہ کسی ایسے شخص سے مخلصانہ محبت رکھنے کے لئے تیار نہ تھے جو اس نئی تحریک میں شامل ہوگیا ہو ۔ انہوں نے انصار کے ساتھ ظاہر میں تو وہی تعلقات رکھے جو پہلے سے چلے آتے تھے ، مگر دل میں وہ اب ان کے سخت دشمن ہوچکے تھے اور اس ظاہری دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کی جماعت میں اندرونی فتنہ و فساد برپا کردیں اور ان کے جماعتی راز معلوم کرکے ان کے دشمنوں تک پہنچائیں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کی اسی منافقانہ روش سے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔
39: مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے جو قبیلے آباد تھے، زمانہ دراز سے یہودیوں کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات چلے آتے تھے۔ جب اوس اور خزرج کے لوگ مسلمان ہوگئے تو وہ ان یہودیوں کے ساتھ اپنی دوستی نبھاتے رہے، مگر یہودیوں کا حال یہ تھا کہ ظاہر میں تو وہ بھی دوستانہ انداز میں ملتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ یہ بھی ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوگئے ہیں، لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مسلمان ان کی دوستی پر بھروسہ کرتے ہوئے سادہ لوحی میں انہیں مسلمانوں کی کوئی راز کی بات بھی بتا دیتے تھے۔ اس آیت کریمہ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ان پر بھروسہ نہ کریں اور انہیں راز دار بنانے سے مکمل پرہیز کریں۔