Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

119۔ 1 تم ان منافقین کی نماز اور ایمان کیوجہ سے ان کی بابت دھوکے کا شکار ہوجاتے ہو اور ان سے محبت رکھتے ہو۔ 119۔ 2 یہ ان کے غیظ و غضب کی شدت کا بیان ہے جیسا کہ اگلی آیت میں بھی ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تم تو تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جن میں تورات بھی شامل ہے۔ لیکن اہل کتاب تمہارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے، اس بات کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ تم سے محبت رکھتے اور تم ان سے دشمنی رکھتے، مگر یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تم یہ کیسی الٹی گنگا بہا رہے ہو ؟- [١٠٨] یہاں آمنا سے مراد یا تو یہود کا تورات پر ایمان لانا ہے یا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے منافقانہ طور پر یہ کہہ دینا کہ ہم بھی قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ جب وہ تمہارا اتحاد و اتفاق اور آپس میں پیار و محبت یا پے در پے کامیابیاں اور کامرانیاں دیکھتے ہیں تو غصہ کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں چبانے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کو روکنے میں ان کا کچھ بس نہیں چلتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم خواہ غصہ سے جل بھن جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے مشن کو کامیاب کرکے رہے گا اور دین اسلام ایک غالب دین کی حیثیت سے بلند ہو کے رہے گا اور تمہارے دلوں میں بغض وعناد کی جو لہریں اٹھتی ہیں۔ اللہ ان سے بھی پوری طرح واقف ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الْاَنَامِلَ : یہ ” اَنْمِلَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے انگلیوں کے پورے۔ ” عَضَّ یَعَضُّ “ (ف) کا معنی ہے دانتوں سے کانٹا۔ ” الکتاب “ سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں، یعنی تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور وہ کسی کتاب پر بھی ایمان نہیں رکھتے، پھر بھی بجائے اس کے کہ تم ان سے نفرت کرو، الٹا ان سے دوستی کرتے ہو اور وہ بجائے دوستی کے تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور دشمنی بھی اتنی سخت کہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصے کی وجہ سے دانتوں سے انگلیوں کے پورے کاٹتے ہیں، مگر جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ منافقین کی مسلم دشمنی کو واضح فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد فرمایا گیا ھانتم اولاء تحبونھم۔ یعنی تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو اور یہ تم سے ذرا محبت نہیں رکھتے، اور تم سب کتابوں کو مانتے ہو اور وہ جب تم سے ملتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو کاٹ کاٹ کھاتے ہیں تم پر انگلیاں غصہ سے، کہہ دیجیے کہ تم غیظ میں مر رہو، بیشک اللہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے، یعنی یہ کیسی بےموقع بات ہے کہ تم ان کی دوستی کا دم بھرتے رہو اور وہ تمہارے دوست نہیں بلکہ جڑ کاٹنے والے دشمن ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ تم تمام آسمانی کتابوں کو مانتے ہو خواہ وہ کسی قوم کی ہوں، اور کسی زمانہ میں کسی پیغمبر پر نازل ہوئی ہوں، اس کے برخلاف یہ لوگ تمہاری کتاب اور پیغمبر کو نہیں مانتے، بلکہ اپنی کتابوں پر بھی خود ان کا ایمان صحیح نہیں، اس لحاظ سے چاہئے تھا کہ وہ تم سے قدرے محبت کرتے اور تم ان سے سخت نفور اور بیزار رہتے، مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہورہا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّہٖ۝ ٠ ۚ وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓااٰمَنَّا۝ ٠ ۚۤۖ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظ۝ ٠ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ١١٩- ها - هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ- [ النساء 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو .- ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- خلا - الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] - ( خ ل و ) الخلاء - ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ - عض - العَضُّ : أَزْمٌ بالأسنان . قال تعالی: عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ [ آل عمران 119] ، وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ [ الفرقان 27] ، وذلک عبارة عن النّدم لما جری به عادة الناس أن يفعلوه عند - ذلك، والعُضُّ للنّوى «1» ، والذي يَعَضُّ عليه الإبلُ ، والعِضَاضُ : مُعَاضَّةُ الدّوابِّ بعضها بعضا، ورجلٌ مُعِضٌّ: مبالغٌ في أمره كأنّه يَعَضُّ عليه، ويقال ذلک في المدح تارة، وفي الذّمّ تارة بحسب ما يبالغ فيه، يقال : هو عِضُّ سفرٍ ، وعِضٌّ في الخصومة «2» ، وزمنٌ عَضُوضٌ: فيه جدب، والتَّعْضُوضُ : ضربٌ من التّمر يصعُبُ مَضْغُهُ.- ( ع ض ض ) العض ۔ کسی چیز کو دانت سے پکڑ لینا یا کاٹنا قرآن میں ہے ۔ عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ [ آل عمران 119] تم پر غصے سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ، وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ [ الفرقان 27] اور جس دن ناعاقبت اندلیش ظالم اپنے ہی ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھا ئیگا ۔ میں ندامت سے کنایہ ہے کیونکہ عام طور پر دیکھا جا تا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام پر اتنباہ درجہ پشمان ہوتا ہے تو دانت سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ العض کھجور کی گٹھلی ۔ خاردار جھاڑی جسیے اونٹ کھاتے ہیں ۔ العضاض جانوروں کا ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹنا ۔ رجل معص اپنے کا م نہایت کوشش کرنے والا ادمی ۔ گویا وہ اسے دانتوں سے پکڑے ہوئے ہے اور کام کی نوعیت کے عتبار سے کبھی یہ لفظ بطور تعریف استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مذمت ۔ ھو عص سفر وہ سفر پر بہت قدرت رکھتا ہے ۔ ھو عض فی الخصومتہ وہ جھگڑنے میں نہایت فصیح اور سخنور ہے ۔ زمن عضوض خشک سال ۔ التعضوض ایک قسم کی کجھور جو دشواری کے ساتھ چبا کر کھائی جاتی ہے ۔- انمل - قال اللہ تعالی: عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران 119] الأنامل جمع الأنملة، وهي المفصل الأعلی من الأصابع التي فيها الظفر، وفلان مؤنمل الأصابع أي : غلیظ أطرافها في قصر . والهمزة فيها زائدة بدلیل قولهم : هو نمل الأصابع، وذكّرها هاهنا للفظه .- ( ان م ل ) آیت کریمہ :۔ عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ( سورة آل عمران 119) ( تو) تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کھاتے ہیں میں انامل انملۃ کی جمع ہے جس کے معنی انگلی کے اوپر کے پور کے ہیں جس میں ناخن ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان مونمل الاصابع فلاں کی انگلیوں کے پور فلیظ اور چھوٹے ہیں ۔ اس میں ہمزہ زائدہ ہے کیونکہ نمل الاصابع کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اسے صرف لفظی مناسبت کی وجہ سے ہم نے یہاں کردیا ہے ۔- غيظ - الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] .- قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ- [ الشعراء 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] .- ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] تو اس کے جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٩) مسلمانو اگرچہ تم حرمت اور رشتہ داری کی وجہ سے یہود سے محبت رکھتے ہو لیکن وہ دین کی وجہ سے تم سے محبت نہیں رکھتے اور تم تمام کتابوں اور رسولوں کا اقرار کرتے ہو اور وہ ایسا نہیں کرتے اور منافقین یہود جب تم سے ملتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت ہماری کتابوں میں موجود ہیں لیکن جب یہ آپنے ساتھیوں میں جاتے ہیں تو غیظ وغضب میں انگلیاں چباتے ہیں (اے منافقین ویہود) تمہارے دلوں میں جو بغض اور کینہ ہے اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٩ (ہٰٓاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَہُمْ ) - یہ تمہاری شرافت اور سادہ لوحی ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور پرانے تعلقات اور دوستیوں کو نبھانا چاہتے ہو۔ - (وَلاَ یُحِبُّوْنَکُمْ ) - وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے۔- (وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّہٖج ) ۔- تم تورات کو بھی مانتے ہو ‘ انجیل کو بھی مانتے ہو۔ سورة النساء میں الفاظ آئے ہیں : (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ۔۔ ) (آیت ٤٤) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا۔۔ چناچہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کی اس قدیم کتاب اُمُّ الکِتابہی کے حصے ہیں۔ اسی اُمُّ الکتاب میں سے پہلے تورات آئی ‘ پھر انجیل آئی اور پھر یہ قرآن مجید آیا ہے ‘ جو ہدایت کاملہ پر مشتمل ہے۔ تو تم تو پوری کی پوری کتاب کو مانتے ہو۔- (وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْآ اٰمَنَّاق) (وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ط) - جب وہ دیکھتے ہیں کہ اب ان کی کچھ پیش نہیں جارہی اور اسلام کا معاملہ اور آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے تو غصے میں پیچ و تاب کھاتے ہیں اور اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :93 یعنی یہ عجیب ماجرا ہے کہ شکایت بجائے اس کے کہ تمہیں ان سے ہوتی ، ان کو تم سے ہے ۔ تم تو قرآن کے ساتھ توراة کو بھی مانتے ہو اس لیے ان کو تم سے شکایت ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی ۔ البتہ شکایت اگر ہو سکتی تھی تو تمہیں ان سے ہو سکتی تھی کیونکہ وہ قرآن کو نہیں مانتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani