120۔ 1 اس میں منافقین کی شدید عداوت کا ذکر ہے جو انہیں مومنوں کے ساتھ تھی اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوش حالی میسر آتی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تائید و نصرت ملتی اور مسلمانوں کی تعداد و قوت میں اضافہ ہوتا تو منافقین کو بہت برا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے یا اللہ کی مشیت و مصلحت سے دشمن وقتی طور پر مسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ احد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے۔ مقصد بتلانے سے یہ ہے جن لوگوں کا یہ حال ہو، کیا وہ اس لائق ہوسکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انہیں اپنا راز دار اور دوست بنائیں ؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا (جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر ہے) ۔ اس لیے کہ وہ بھی مسلمانوں سے نفرت و عداوت رکھتے ان کی کامیابیوں سے ناخوش اور ان کی ناکامیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ 120۔ 2 یہ ان کے مکر و فریب سے بچنے کا طریقہ اور علاج ہے۔ گویا منافقین اور دیگر دشمنان اسلام و مسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لئے صبر اور تقویٰ نہایت ضروری ہے۔ اس صبر اور تقویٰ کے فقدان نے غیر مسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب اور وسائل کی فروانی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی اور زوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت (صبر کے دامن) سے محروم اور تقوے سے عاری ہوگئے جو مسلمانوں کی کامیابی کی کلید اور تائید الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
[١٠٩] اگر تمہیں کوئی خوشی کا موقعہ میسر آئے تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ تو کیا پھر ایسے لوگوں کی دوستی سے پرہیز ہی بہتر نہیں ؟ بس تم صبر سے کام لو۔ ان کی سازشیں اور پراپیگنڈے تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔- آیت نمبر ١١٨ سے لے کر ١٢٠ تک ٣ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے دوستی گانٹھنے کی ممانعت کے لیے جو وجوہات بیان فرمائی ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں۔- ١۔ وہ تمہارے درمیان، خرابی، بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے اور ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ تم میں تفرقہ و انتشار اور بغض و عداوت پیدا ہوجائے۔- ٢۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی ارضی و سماوی آفت اور مصیبت میں پھنس جاؤ۔- ٣۔ ان کے منہ سے کچھ بےاختیار ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو ان کے دلوں میں پکنے والے مواد کا پتہ دے جاتی ہیں۔- ٤۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو جبکہ وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ تم ان کی کتاب تورات پر ایمان لاتے ہو اور وہ تمہاری کتاب قرآن سے منکر ہیں اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ تم سے دشمنی رکھتے اور تم ان سے دوستی رکھتے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہائی جارہی ہے۔- ٥۔ اگر تمہیں کوئی بھلائی حاصل ہو تو اس سے وہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر تمہیں تکلیف پہنچے تو اندر ہی اندر پھولے نہیں سماتے۔- ٦۔ اگر وہ تم سے کوئی خیر خواہی کی بات بھی کریں تو وہ منافقت پر مبنی ہوتی ہے۔- لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر تمہیں ان سے دوستی نہ رکھنا چاہیئے اور راز بتانا تو بڑی دور کی بات ہے۔
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَـسُؤْھُمْ ۡ۔۔ : اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ دشمنوں کے مکر و فریب اور ان کی چالوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تم صبر و استقلال اور تقویٰ سے کام لو، اگر یہ اصول اپنا لو گے تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” اکثر منافق بھی یہود میں تھے، اس واسطے ان کے ذکر کے ساتھ یہود کا ذکر بھی فرمایا۔ اب آگے غزوۂ احد کی باتیں مذکور ہیں، کیونکہ اس میں بھی مسلمانوں نے بعض کافروں کا کہنا مان لیا تھا اور لڑائی سے پھر چلے تھے اور منافقوں نے اپنے نفاق کی باتیں ظاہر کی تھیں۔ “ (موضح)
اس کافرانہ ذہنیت کی مزید توضیح یہ ہے کہ ان تمسسکم حسنۃ یعنی ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر تمہیں کوئی اچھی حالت پیش آجائے تو یہ ان لوگوں کو دکھ پہنچاتی ہے اور اگر تم پر کوئی بری حالت آپڑتی ہے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔ پھر منافقوں کے کید و مکر اور شدید مخالفین کے عناد اور مخالفت کے نتائج سے محفوظ رہنے کا آسان اور سہل الاصول نسخہ یہ بیان کیا گیا کہ (وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا ان اللہ بما یعملون محیط) اگر تم صبر اور تقوی اختیار کئے رہو تو تم کو ان کی چالیں ذرا بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گی۔- مسلمانوں کی فتح و کامیابی اور تمام مشکلات میں آسانی کا راز صبر اور تقوی کی دو صفتوں میں مضمر ہے۔- قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہر قسم کے مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے صبر وتقوی کو صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی ایک موثر علاج کی حیثیت سے بیان فرمایا، اسی رکوع کے بعد دوسرے رکوع میں ہے : بلی ان تصبروا و تتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملئکۃ مسومین۔ (٣: ١٢٥) اس میں امداد غیبی کا وعدہ انہی دو شرطوں یعنی صبر وتقوی پر موقوف رکھا گیا ہے، سورة یوسف میں فرمایا : انہ من یتق ویصبر۔ (١٢: ٩٠) اس میں بھی فلاح و کامیابی صبر وتقوی کے ساتھ وابستہ بتلائی گئی ہے، اسی سورة کے ختم پر صبر کی تلقین ان الفاظ میں کی جارہی ہے : یایھا الذین امنوا اصبروا و صابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ (٣: ٢٠٠) اس میں بھی فلاح و کامیابی کو صبر وتقوی پر معلق کیا گیا ہے۔ صبر وتقوی مختصر عنوان کے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ عوامی اور فوجی نظم و نسق کا ایک کامیاب ضابطہ بڑی جامعیت کے ساتھ آگیا۔ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : عن ابی ذر قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انی لاعلم ایۃ لواخذ الناس بھا لکفتھم ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا الایۃ۔ (٦٥: ٢) رواہ احمد) " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل اختیار کرلیں تو ان کے دین و دنیا کے لئے وہی کافی ہے وہ آیت یہ ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ یعنی جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں "۔
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ ٠ ۡوَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا ٠ ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ ١٢٠ ۧ- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
(١٢٠) اور اگر تم لوگوں کو فتح وغنیمت حاصل ہوجاتی ہے تو یہود اور منافقوں کو بہت ہی ناگوار گزرتا ہے اور اگر قحط سالی قتل و غارت گری اور شکست کا سامنا ہو تو اس سے یہودی خوش ہوتے ہیں اور اگر ان کی تکالیف پر تم استقلال سے کامل لو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو، تو پھر ان کی دشمنی اور کینہ کچھ نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ ان کی اس مخالفت اور ان کی دشمنی سے آگاہ ہے ،
آیت ١٢٠ (اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ ز) ۔- اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہوجائے ‘ کہیں فتح نصیب ہوجائے تو ان کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ - (وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا ط) ۔- اگر تمہیں کوئی گزند پہنچ جائے ‘ کہیں عارضی طور پر شکست ہوجائے ‘ جیسے احد میں ہوگئی تھی ‘ تو بڑے خوش ہوتے ہیں ‘ شادیانے بجاتے ہیں۔- (وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا ط) ۔- سورۃ البقرۃ میں صبر اور صلوٰۃ سے مدد لینے کی تلقین کی گئی تھی ‘ یہاں صلوٰۃ کی جگہ لفظ تقویٰ آگیا ہے کہ اگر تم یہ کرتے رہو گے تو پھر بالآخر ان کی ساری سازشیں ناکام ہوں گی۔ - ( اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ) ۔- یہ اللہ تعالیٰ کے دائرے سے اور اس کی کھینچی ہوئی حد سے آگے نہیں نکل سکتے۔ یہ اس کے اندر اندر اچھل کود کر رہے ہیں اور سازشیں کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں یہ ضمانت دے رہا ہے کہ یہ تمہیں کوئی مستقل نقصان نہیں پہنچا سکیں گے