Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غزوہ احد کی افتاد یہ احد کے واقعہ کا ذکر ہے بعض مفسرین نے اسے جن خندق کا قصہ بھی کہا ہے لیکن ٹھیک یہ ہے کہ واقعہ جنگ احد کا ہے جو سن 3 ہجری 11 شوال بروز ہفتہ پیش آیا تھا ، جنگ بدر میں مشرکین کو کامل شکست ہوئی تھی انکے سردار موت کے گھاٹ اترے تھے ، اب اس کا بدلہ لینے کیلئے مشرکین نے بڑی بھاری تیاری کی تھی وہ تجارتی مال جو بدر والی لڑائی کے موقعہ پر دوسرے راستے سے بچ کر آگیا تھا وہ سب اس لڑائی کیلئے روک رکھا تھا اور چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرکے تین ہزار کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی ، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز کے بعد مالک بن عمرو کے جنازے کی نماز پڑھائی جو قبیلہ بنی النجار میں سے تھے پھر لوگوں سے مشورہ کیا کہ ان کی مدافعت کی کیا صورت تمہارے نزدیک بہتر ہے؟ تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر نہ نکلنا چاہئے اگر وہ آئے اور ٹھہرے تو گویا ہمارے جیل خانہ میں آگئے رکے اور کھڑے رہیں اور اگر مدینہ میں گھسے تو ایک طرف سے ہمارے بہادروں کی تلواریں ہوں گی دوسری جانب تیر اندازوں کے بےپناہ تیر ہوں گے پھر اوپر سے عورتوں اور بچوں کی سنگ باری ہو گی اور اگر یونہی لوٹ گئے تو بربادی اور خسارے کے ساتھ لوٹیں گے لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ان کی رائے تھی کہ مدینہ کے باہر میدان میں جا کر خوب دل کھول کر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر باہر آئے ان صحابہ کو اب خیال ہوا کہ کہیں ہم نے اللہ کے نبی کی خلاف منشاء تو میدان کی لڑائی پر زور نہیں دیا اس لئے یہ کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہیں ٹھہر کر لڑنے کا ارادہ ہو تو یونہی کیجئے ہماری جانب سے کوئی اصرار نہیں ، آپ نے فرمایا اللہ کے نبی کو لائق نہیں کہ وہ ہتھیار پہن کر اتارے اب تو میں نہ لوٹوں گا جب تک کہ وہ نہ جائے جو اللہ عزوجل کو منظور ہو چنانجہ ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ مدینہ شریف سے نکل کھڑے ہوئے ، شوط پر پہنچ کر اس منافق عبداللہ بن ابی نے دغا بازی کی اور اپنی تین سو کی جماعت کو لے کر واپس مڑ گیا یہ لوگ کہنے لگے ہم جانتے ہیں کہ لڑائی تو ہونے کی نہیں خواہ مخواہ زحمت کیوں اٹھائیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور صرف سات سو صحابہ کرام کو لے کر میدان میں اترے اور حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں لڑائی شروع نہ کرنا پچاس تیر انداز صحابیوں کو الگ کر کے ان کا امیر حضرت عبداللہ بن جبیر کو بنایا اور ان سے فرما دیا کہ پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو دیکھو ہم غالب آ جائیں یا ( اللہ نہ کرے ) مغلوب ہو جائیں تم ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ، یہ انتظامات کر کے خود آپ بھی تیار ہو گئے دوہری زرہ پہنی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جھنڈا دیا آج چند لڑکے بھی لشکر محمدی میں نظر آتے تھے یہ چھوٹے سپاہی بھی جانبازی کیلئے ہمہ تن مستعد تھے بعض اور بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ لیا تھا انہیں جنگ خندق کے لشکر میں بھرتی کیا گیا جنگ خندق اس کے دو سال بعد ہوئی تھی ، قریشی کا لشکر بڑے ٹھاٹھے سے مقابلہ پر آڈٹا یہ تین ہزار سپاہیوں کا گروہ تھا ان کے ساتھ دو سو کوتل گھوڑے تھے جنہیں موقعہ پر کام آنے کیلئے ساتھ رکھا تھا ان کے داہنے حصہ پر خالد بن ولید تھا اور بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل تھا ( یہ دونوں سردار بعد میں مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) ان کا جھنڈے بردار قبیلہ بنو عبدالدار تھا ، پھر لڑائی شروع ہوئی جس کے تفصیلی واقعات انہی آیتوں کی موقعہ بہ موقعہ تفسیر کے ساتھ آتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ الغرض اس آیت میں اسی کا بیان ہو رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف سے نکلے اور لوگوں کو لڑائی کے مواقعہ کی جگہ مقرر کرنے لگے میمنہ میسرہ لشکر کا مقرر کیا اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سننے والا اور سب کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے ، روایتوں میں یہ آچکا ہے کہ حضور علیہ السلام جمعہ کے دن مدینہ شریف سے لڑائی کیلئے نکلے اور قرآن فرماتا ہے صبح ہی صبح تم لشکریوں کی جگہ مقرر کرتے تھے تو مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن تو جا کر پڑاؤ ڈال دیا باقی کاروائی ہفتہ کی صبح شروع ہوئی ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ تمہارے دو گروہوں بزدلی کا ارادہ کیا تھا گو اس میں ہماری ایک کمزوری کا بیان ہے لیکن ہم اپنے حق میں اس آیت کو بہت بہتر جانتے ہیں کیونکہ اس میں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اللہ ان دونوں کا ولی ہے پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے بدر والے دن بھی تمہیں غالب کیا حالانکہ تم سب ہی کم اور بےسرد سامان تھے ، بدر کی لڑائی سن 2 ہجری 17 رمضان بروز جمعہ ہوئی تھی ۔ اسی کا نام یوم الفرقان رکھا گیا اس دن اسلام اور اہل اسلام کی عزت ملی شرک برباد ہوا محل شرک ویران ہوا حالانکہ اس دن مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے فقط ستر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے ہتھیار بھی اتنے کم تھے کہ گویا نہ تھے اور دشمن کی تعداد اس دن تین گنہ تھی ایک ہزار میں کچھ ہی کم تھے ہر ایک زرہ بکتر لگائے ہوئے ضرورت سے زیادہ وافر ہتھیار عمدہ عمدہ کافی سے زیادہ مالداری گھوڑے نشان زدہ جن کو سونے کے زیور پہنائے گئے تھے اس موقعہ پر اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت اور غلبہ دیا حالات کے بارے میں ظاہر و باطن وحی کی اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو سرخرو کیا اور شیطان اور اس کے لشکریوں کو ذلیل و خوار کیا اب اپنے مومن بندوں اور جنتی لشکریوں کو اس آیت میں یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ تمہاری تعداد کی کمی اور ظاہری اسباب کی غیر موجودگی کے باوجود تم ہی کو غالب رکھا تا کہ تم معلوم کر لو کہ غلبہ ظاہری اسباب پر موقوف نہیں ، اسی لئے دوسری آیت میں صاف فرما دیا کہ جنگ حنین میں تم نے ظاہری اسباب پر نظر ڈالی اور اپنی زیادتی دیکھ کر خوش ہوئے لیکن اس زیادتی تعداد اور اسباب کی موجودگی نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا ، حضرت عیاض اشعری فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ہمارے پانچ سردار تھے حضرت ابو عبیدہ ، حضرت یزید بن ابو سفیان حضرت ابن حسنہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاض اور خلیفتہ المسلمین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم تھا کہ لڑائی کے وقت حضرت ابو عبیدہ سردار ہوں گے اس لڑائی میں ہمیں چاروں طرف سے شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ہم نے خلیفہ وقت کو خط لکھا کہ ہمیں موت نے گھیر رکھا ہے امداد کیجئے ، فاروق کا مکتوب گرامی ہماری گزارش کے جواب میں آیا جس میں تحریر تھا کہ تمہارا طلب امداد کا خط پہنچائیں تمہیں ایک ایسی ذات بتاتا ہوں جو سب سے زیادہ مددگار اور سب سے زیادہ مضبوط لشکر والی ہے وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے جس نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد بدر والے دن کی تھی بدری لشکر تو تم سے بہت ہی کم تھا میرا یہ خط پڑھتے ہی جہاد شروع کر دو اور اب مجھے کچھ نہ لکھنا نہ کچھ پوچھنا ، اس خط سے ہماری جراتیں بڑھ گئیں ہمتیں بلند ہو گئیں پھر ہم نے جم کر لڑنا شروع کیا الحمد اللہ دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے ہم نے بارہ میل تک انکا تعاقب کیا بہت سا مال غنیمت ہمیں ملا جو ہم نے آپس میں بانٹ لیا پھر حضرت ابو عبیدہ کہنے لگے میرے ساتھ دوڑ کون لگائے گا ؟ ایک نوجوان نے کہا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں چنانچہ دوڑنے میں وہ آگے نکل گئے میں نے دیکھا ان کی دونوں زلفیں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور وہ اس نوجوان کے پیچھے گھوڑا دوڑائے چلے جا رہے تھے ، بدر بن نارین ایک شخص تھا اسکے نام سے ایک کنواں مشہور تھا اور اس میدان کا جس میں یہ کنواں تھا یہی نام ہو گیا تھا بدر کی جنگ بھی اسی نام سے مشہور ہو گئی یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو تا کہ شکر کی توفیق ملے اور اطاعت گزاری کر سکو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121۔ 1 جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال 3 ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر 2 ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے سترّ آدمی مارے گئے اور ستّر قید ہوئے تو کفار کے لئے یہ بدنامی کا باعث اور مرنے کا مقام تھا، چناچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے نزدیک خیمہ زن ہوگئے ہیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پر جوش صحابہ کرام نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ کے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر حجرے میں تشریف فرما تھے ہتھیار پہن کر باہر آئے، دوسری رائے والوں کو ندامت ہوئی کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چناچہ انہوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو اور لباس اتارے۔ چناچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہو رہا ہے جو جنگ احد سے متعلق ہے۔ رمضان ٢ ھ میں غزوہ بدر میں قریش مکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ ابو جہل کی موت کے بعد ابو سفیان نے قریش کی قیادت سنبھالی۔ اس نے جنگ بدر کا بدلہ لینے اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے حسب ذیل اقدامات کئے :- ١۔ طے ہوا کہ اس تجارتی قافلہ کا سارا منافع جنگ کے اخراجات کے لیے دے دیا جائے جو جنگ بدر سے چند یوم پہلے بچ بچا کر نکل آیا تھا۔ اس سے ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار کی خطیر رقم جنگی اخراجات کے لیے جمع ہوگئی۔- ٢۔ رضاکارانہ خدمت کا دروازہ کھول دیا گیا اور تمام اسلام دشمن قبائل کو اس جنگ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ اس طرح قریش کے حلیف قبیلے بھی اور مسلمانوں کے مخالف قبیلے بھی اس قریشی جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔- ٣۔ دو شعلہ بیان شعراء کی خدمات حاصل کی گئیں، جو بدوی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف انتقام پر بھڑکاتے تھے۔ ان ایام میں جنگی پروپیگنڈہ کا سب سے موثر ذریعہ یہی تھا۔- چناچہ شوال ٣ ھ میں قریش کا یہ تین ہزار مسلح افراد کا لشکر جرار ابو سفیان کی سر کردگی میں احد کے میدان میں پہنچ گیا۔ اس موقع پر ابو سفیان نے ایک خطرناک جنگی چال چلی، وہ انصار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا : آپ لوگوں سے ہماری کوئی لڑائی نہیں، آپ درمیان سے نکل جائیں تو بہتر ہے، ہم بھی آپ سے کوئی تعرض نہ کریں گے۔ لیکن انصار ابو سفیان کی اس چال کو سمجھ گئے اور اسے کھری کھری سنادیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مشورہ کیا کہ یہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یا باہر نکل کر کھلے میدان میں لڑی جائے۔ آپ کی ذاتی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور یہ پہلا موقع تھا کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین سے بھی رائے لی گئی جو حضور کی رائے سے موافق تھی۔ مگر پرجوش اور جوان مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بےچین کر رہا تھا اس بات پر مصر ہوئے کہ باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ تاکہ دشمن ہماری نسبت بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے۔ چناچہ آپ گھر میں تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر نکلے۔ بعض لوگوں کو خیال آیا کہ ہم نے آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کا منشا نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے۔ آپ نے فرمایا : ایک پیغمبر کو یہ مناسب نہیں کہ وہ ہتھیار لگائے اور جنگ کئے بغیر اتار دے۔- جب آپ مدینہ سے باہر نکلے تو تقریباً ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے مگر عبداللہ بن ابی تقریباً تین سو آدمیوں کو (جن میں بعض مسلمان بھی تھے) ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ جب میرا مشورہ نہیں مانا گیا تو ہم کیوں لڑیں اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں۔ آخر آپ سات سو مجاہدین کا لشکر لے کر میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ فوجی قاعدہ کے مطابق صفیں ترتیب دیں۔ ہر ایک دستہ کو اس کے مناسب ٹھکانے پر بٹھایا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں جنگ نہ شروع کی جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ ۔۔ : یہاں سے غزوۂ احد کا بیان ہے۔ غزوۂ بدر میں ذلت آمیز شکست، ستر آدمی قتل اور ستر قید ہونے کے بعد مشرکین نے جوش انتقام میں مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا اور ارد گرد سے مختلف قبائل کو جمع کر کے تین ہزار کا مسلح لشکر لیا اور جبل احد کے قریب آکر ٹھہر گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مشورہ کیا۔ بعض نے مدینہ میں رہ کر لڑنے کا مشورہ دیا، جب کہ بعض پرجوش نوجوانوں نے، جو بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، میدان میں نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آپ ان کی رائے کے مطابق ایک ہزار کی جمعیت لے کر باہر نکلے۔ مقام ” شوط “ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے بھی پست ہوگئے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی بخشی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سات سو صحابہ (رض) کی یہ جمعیت لے کر آگے بڑھے اور احد کے قریب وادی میں فوج کو آراستہ کیا، جس کی طرف قرآن نے ( تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ) میں اشارہ کیا ہے۔ اسلامی فوج کی پشت پر جبل احد تھا اور ایک جانب ٹیلے پر عبداللہ بن جبیر (رض) کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین تھا، نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم دیا تھا کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارے جسموں کو نوچ رہے ہیں، تو پھر بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں تمہیں پیغام بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں پامال کردیا ہے، پھر بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں پیغام بھیجوں۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ کفار کو پسپا ہوتے دیکھ کر نیچے اتر آئے اور اس گھاٹی کو چھوڑ دیا جس سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور چند صحابہ کرام (رض) آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دانت مبارک شہید ہوگیا، سر اور پیشانی مبارک بھی زخمی ہوگئے۔ آخر کار صحابہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد دوبارہ جمع ہوئے، جس سے میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دشمن کو ناکام ہو کر لوٹ جانا پڑا۔ یہ شوال ٣ ھ کا واقعہ ہے۔ ان آیات میں جنگ کے بعض واقعات کی طرف اشارے آ رہے ہیں۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات : - گزشتہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ اگر مسلمان صبر وتقوی پر قائم رہیں تو کوئی طاقت ان کو ضرر نہیں پہنچا سکتی، اور یہ کہ غزوہ احد کے موقع پر جو عارضی شکست اور تکلیف مسلمانوں کو پہنچی وہ انہی دو چیزوں میں بعض حضرات کی طرف سے کوتاہی کی بناء پر تھی، مذکورہ آیات میں اسی غزوہ احد کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اور غزوہ بدر میں فتح کا۔- خلاصہ تفسیر :- اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جب کہ آپ صبح کے وقت (تاریخ قتال سے پہلے) اپنے گھر سے (اس غرض سے) نکلے (کہ) مسلمانوں کو (کفار سے) مقاتلہ کرنے کے لئے (مناسب) مقامات پر جمانے (کے لئے آمادہ کر) رہے تھے (پھر اسی تجویز کے مطابق سب کو ان مقامات پر جمادیا) اور اللہ تعالیٰ (اس وقت کی باتیں) سب سن رہے تھے (اور اس وقت کے حالات) سب جان رہے تھے (اسی کے ساتھ یہ قصہ بھی ہوا کہ) تم (مسلمانوں) میں سے دو جماعتوں نے (کہ وہ بنی سلمہ اور بنی حارثہ ہیں) دل میں خیال کیا کہ ہمت ہاریں (اور ہم بھی عبداللہ بن ابی منافق کی طرح اپنے گھر جابیٹھیں) اور اللہ تعالیٰ تو ان دونوں جماعتوں کا مددگار تھا، (بھلا ان کو کب ہمت ہارنے دیتا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس خیال پر عمل کرنے سے محفوظ رکھا) اور (ہم آئندہ کے لئے ان جماعتوں اور سب کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب تم مسلمان ہو) پس مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی پر اعتماد کرنا چاہئے ( اور ایسی کم ہمتی کبھی نہ کرنا چاہئے) اور یہ بات محقق ہے کہ حق تعالیٰ نے تم کو (غزوہ) بدر میں منصور فرمایا، حالانکہ تم (محض) بےسروسامان تھے ( کیونکہ مجمع بھی کفار کے مقابلہ میں کم تھا، وہ ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ تھے اور ہتھیار وغیرہ بھی بہت کم تھے) سو (چونکہ یہ منصور بدولت تقوی کے تھا جس میں استقلال و صبر بھی داخل ہے تو تم پر لازم ہے کہ آئندہ بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو (اسی کا نام تقوی ہے) تاکہ تم (اس نعمت نصرت کے) شکر گزار رہو، (کیونکہ شکر گزاری صرف زبان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پورا شکر یہ ہے کہ زبان اور قلب بھی مشغول ہو اور اطاعت کی بھی پابندی ہو بالخصوص جبکہ اس اطاعت کا اس نعمت میں دخیل ہونا بھی ثابت ہوجائے) ۔- معارف و مسائل :- غزوہ احد کا پس منظر : آیت مذکورہ کی تفسیر سے قبل ضروری ہے کہ غزوہ احد کے واقعاتی پس منظر کو سمجھ لیا جائے۔ رمضان المبارک ٢ ھ میں بدر کے مقام پر قریشی فوج اور مسلمان مجاہدین میں جنگ ہوئی، جس میں کفار مکہ ستر نامور اشخاص مارے گئے، اور اسی قدر گرفتار ہوئے، اس تباہ کن اور ذلت آمیز شکست سے جو حقیقتا عذاب الہی کی پہلی قسط تھی قریش کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھا، جو سردار مارے گئے تھے ان کے اقارب نے تمام عرب کو غیر دلائی، اور یہ معاہدہ کیا کہ جب تک ہم اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہ لے لیں گے چین سے نہ بیٹھیں گے، اور اہل مکہ سے اپیل کی کہ ان کا تجارتی قافلہ جو مال شام سے لایا ہے وہ سب اسی مہم پر خرچ کیا جائے تاکہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں سے اپنے مقتولین کا بدلہ لے سکیں، سب نے منظور کیا، اور ٣ ھ میں قریش کے ساتھ بہت سے دوسرے قبائل بھی مدینہ پر چڑھائی کرنے کی غرض سے نکل پڑے، حتی کہ عورتیں بھی ساتھ آئیں تاکہ موقع آنے پر مردوں کو غیرت دلا کر پسپائی سے روک سکیں، جس وقت یہ تین ہزار کا لشکر اسلحہ وغیرہ سے پوری طرح آراستہ ہو کر مدینہ سے تین چار میل جبل احد کے قریب خیمہ زن ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں سے مشورہ لیا۔ آپ کی رائے مبارک یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ بہت آسانی اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، یہ پہلا موقع تھا اس کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی جو بظاہر مسلمانوں میں شامل تھا، اس سے بھی رائے لی گئی، جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے موافق تھی مگر بعض پرجوش مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بےچین کر رہا تھا مصر ہوئے کہ ہم کو باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہئے، تاکہ دشمن ہمارے بارے میں بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے، کثرت رائے اسی طرف ہوگئی۔ اس عرصہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکان کے اندر تشریف لے گئے، اور زرہ پہن کر باہر آئے، تو اس وقت بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ہم نے آپ کو آپ کی رائے کے خلاف مدینہ سے باہر جنگ کرنے پر مجبور کیا، یہ غلط ہوا، اس لئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپ کا منشاء نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے، فرمایا " ایک پیغمبر کو سزاوار نہیں کہ جب وہ زرہ پہن لے اور ہتھیار لگا لے پھر بدون قتال کئے ہوئے بدن سے اتارے " اس جملہ میں نبی اور غیر نبی کا فرق واضح ہورہا ہے کہ نبی کی ذات سے کبھی کمزوری کا اظہار نہیں ہوسکتا، اور اس میں امت کے لئے بھی ایک بڑا سبق ہے۔- جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے باہر تشریف لے گئے، تقریبا ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے، مگر منافق عبداللہ بن ابی تقریبا تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس ہوگیا کہ جب میرا مشورہ نہ مانا اور دوسروں کی رائے پر عمل کیا تو ہم کو لڑنے کی ضرورت نہیں، کیوں ہم خواہ مخواہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں، اس کے ساتھیوں میں زیادہ تو منافقین ہی تھے، مگر بعض مسلمان بھی ان کے فریب میں آکر ساتھ لگ گئے تھے۔- آخر آپ کل سات سو سپاہیوں کی جمعیت لے کر میدان جنگ میں پہنچ گئے، آپ نے بہ نفس نفیس فوجی قاعدہ سے صفیں ترتیب دیں، صف آرائی اس طرح کی کہ احد کو پشت کی جانب رکھا، اور دوسرے انتظامات اس طرح کئے کہ حضرت مصعب بن عمیر کو علم (جھنڈا) عنایت کیا، حضرت زبیر بن عوام کو رسالہ کا افسر مقرر کیا، حضرت حمزہ کو اس حصہ فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، پشت کی طرف احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے آئے، اس لئے پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین کیا، اور حکم دیا کہ وہ پشت کی جانب ٹیلہ پر حفاظت کا کام سرانجام دیں، لڑنے والوں کی فتح و شکست سے تعلق نہ رکھیں اور اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، عبداللہ بن جبیر ان تیر اندازوں کے افسر مقرر ہوئے، قریش کو بدر میں تجربہ ہوچکا تھا اس لئے انہوں نے بھی ترتیب سے صف آرائی کی۔- نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کی جنگی ترتیب غیروں کی نظر میں :- نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس صف آرائی اور فوجی قواعد کے لحاظ سے نظم و ضبط کو دیکھ کر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے رہبر کامل، مقدس نبی ہونے کے ساتھ سپہ سالار اعظم کے لحاظ سے بھی بےنظیر ہیں، آپ نے جس انداز میں مورچے قائم کئے اور لڑائی کا نظم قائم کیا، اس وقت کی دنیا اس سے ناآشنا تھی، اور آج جبکہ فن حرب ایک مستقل سائنس کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، وہ بھی آپ کے فوجی قواعد اور نظم و ضبط کو سراہتا ہے، اسی حقیقت کو دیکھ کر ایک مسیحی مورخ بول اٹھا :- " برخلاف اپنے مخالفین کے جو محض ہمت و شجاعت ہی رکھتے تھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہنا چاہئے کہ فن حرب کی بھی نئی راہ نکالی، مکہ والوں کی بےدھڑک اور اندھا دھند لڑائی کے مقابلہ میں خود دور اندیشی اور سخت قسم کے نظم و ضبط سے کام لیا "۔ یہ الفاظ بیسیوں صدی کے ایک مورخ ٹام انڈر کے ہیں جو اس نے لائف آف محمد میں بیان کئے۔- جنگ کا آغاز :- اس کے بعد جنگ شروع ہوئی ابتداء مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی، مسلمان سمجھے کہ فتح ہوگئی، مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے ادھر جن تیر اندازوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پشت کی جانب حفاظت کے لئے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن کی طرف آنے لگے، حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تاکیدی حکم یاد دلا کر روکا، مگر چند آدمیوں کے سوا دوسروں نے کہا کہ حضور کے حکم کی تعمیل تو موقت تھی اب ہمیں سب کے ساتھ مل جانا چاہئے، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو ابھی تک مسلمان نہ تھے اور اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بروقت فائدہ اٹھایا، اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر عقب کے درہ سے حملہ کردیا، عبداللہ بن جبیر اور ان کے قلیل ساتھیوں نے اس حملہ کو ہمت و شجاعت سے روکنا چاہا، مگر مدافعت نہ کرسکے، اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوگئے، اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ دیا، اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر میدان سے چلا گیا، تاہم کچھ صحابہ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کردیئے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے، اس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد وپیش صرف دس بارہ جان نثار رہ گئے تھے، اور آپ خود بھی زخمی ہوگئے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رہی تھی، کہ عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بسلامت تشریف رکھتے ہیں۔ چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بہ سلامت پہاڑی کی طرف لے گئے، اس شکست کے بعد مسلمان حد درجہ پریشان رہے اور یہ عارضی شکست چند اسباب کا نتیجہ تھی، قرآن مجید نے ہر سبب پر جچے تلے الفاظ میں تبصرہ کیا اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔- اس واقعہ کی تفصیل میں کچھ ایسے واقعات ہیں جو اپنے اندر عظیم سبق لئے ہوئے ہیں۔ اور اس میں تمام مسلمانوں کے لئے موعظت و نصیحت کے جواہر پارے مخفی ہیں۔- احد کے واقعہ سے چند سبق :- ١۔ پہلی بات جیسا کہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ کفار قریش اس جنگ میں عورتوں کو بھی لائے تھے تاکہ وہ مردوں کو پسپائی سے روک سکیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ عورتیں ہندہ زوجہ ابی سفیان کی سربراہی میں اشعار گا کر مردوں کو جوش دلا رہی ہیں :- ان تقبلوا نعانق ونفرش النمارق - او تدبروا نفارق فراق غیر وامق - " مطلب یہ تھا کہ اگر مقابلہ پر ڈٹے رہے اور فتح پائی تو ہم تم کو گلے لگائیں گے، اور تمہارے لئے نرم بستر بچھائیں گے، لیکن اگر تم نے پیٹھ موڑی تو ہم تم کو بالکل چھوڑدیں گے " خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر یہ الفاظ دعائیہ جاری تھے : اللھم بک اصول وبک اقاتل حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ " اے اللہ میں تجھ ہی سے قوت حاصل کرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے حملہ کرتا ہوں اور تیرے ہی دین کے لئے قتال کرتا ہوں، اللہ ہی کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے "۔- اس دعا کا ایک ایک لفظ تعلق مع اللہ کی تاکید اور مسلمانوں کے تمام افعال و اعمال حتی کہ جنگ و قتال کو بھی دیگر اقوام کے جنگ و قتال سے ممتاز کر رہا ہے۔ ٢۔ دوسری چیز قابل غور یہ ہے کہ اس غزوہ میں بعض صحابہ نے بہادری و شجاعت و جاں نثاری اور فدائیت کے وہ نقوش چھوڑے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، حضرت ابو دجانہ نے اپنے جسم کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ڈھال بنالیا تھا کہ ہر آنے والا تیر اپنے سینہ پر کھاتے تھے، حضرت طلحہ نے بھی اسی طرح اپنے بدن کو چھلنی کرالیا تھا، لیکن حضور کی رفاقت کو نہیں چھوڑا، حضرت انس بن مالک کے چچا حضرت انس بن النضر جنگ بدر سے غیر حاضر رہے تھے اس لئے ان کو اس کا افسوس تھا، آرزو کرتے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت میں اگر کوئی موقع ہاتھ آیا تو اپنے دل کی حسرت پوری کروں گا۔ جب کچھ دن کے بعد جنگ احد کا واقعہ پیش آیا تو انس بن النضر شریک ہوئے مسلمان جب منتشر ہوگئے تھے اور کفار قریش کا سیلاب امنڈ رہا تھا تو یہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے، اتفاقا حضرت سعد سے ملاقات ہوئی، سعد بھی منتشر ہونے والوں میں جا رہے تھے، پکار کر کہا، سعد : کہاں چلے جارہے ہو ؟ میں تو احد کے اس دامن میں جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے اور شدید قتال کے بعد اپنی جان جہاں آفریں کے سپرد کردی۔ (ابن کثیر) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جب مسلمان منتشر ہوگئے اس وقت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف گیارہ حضرات رہ گئے تھے جن میں حضرت طلحہ بھی تھے، کفار قریش کا سیلاب امڈ رہا تھا، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کون ان کی خبر لے گا ؟ حضرت طلحہ بول ا تھے، میں یا رسول اللہ : ایک دوسرے انصاری صحابی نے کہا : میں حاضر ہوں۔ انصاری کو آپ نے جانے کا حکم دیا، وہ قتال کے بعد شہید ہوگئے، پھر ایک ریلہ آیا آپ نے پھر وہی سوال کیا، حضرت طلحہ نے وہی جواب دیا، اور بےتاب ہورہے تھے کہ حضور حکم دیں تو میں آگے بڑھوں، حضور نے پھر کسی دوسرے انصاری صحابی کو بھیج دیا، اور حضرت طلحہ کی تمنا پوری نہیں ہوئی، اسی طرح سات بار حضور نے کہا اور ہر مرتبہ حضرت طلحہ کو اجازت نہیں دی گئی، اور دوسرے صحابہ کو اجازت دی جاتی تھی وہ شہید ہوجاتے تھے۔ جنگ بدر میں باوجود قلت تعداد کے مسلمانوں کو فتح ہوئی، غزوہ احد میں بدر کی بہ نسبت کثرت تھی، پھر بھی شکست ہوئی، اس میں بھی مسلمانوں کے لئے عبرت ہے کہ مسلمان کو کبھی کثرت سازو سامان پر نہیں جانا چاہئے، بلکہ فتح کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے سمجھے اور اسی سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھے۔- جنگ یرموک کے موقع پر جب محاذ جنگ سے حضرت عمر کو مزید فوجی کمک بھیجنے کے لئے لکھا گیا اور قلت تعداد کی شکایت کی گئی تو تحریر فرمایا :- ( قد جاءنی کتابکم تستمدوننی وانی ادلکم علی من ھو اعز نصرا واحصن جندا اللہ عزوجل فاستنصروہ فان محمدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قد نصر فی یوم بدر فی اقل من عدتکم فاذا جاء کم کتابی ھذا فقاتلوھم ولا تراجعونی۔ (بحوالہ مسند احمد)- " میرے پاس تمہارا خط آیا جس میں تم نے زیادہ فوجی مدد طلب کی ہے لیکن میں تم کو ایک ایسی ذات کا پتہ دیتا ہوں جو نصرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ غالب اور فوج کے لحاظ سے زیادہ محفوظ ہے وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے، لہذا تم اسی سے مدد طلب کرو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر میں باوجود قلت عدد کے مدد دی گئی، جب میرا یہ خط تم کو پہنچے تو ان پر ٹوٹ پڑو اور مجھ سے اس سلسلہ میں کوئی مراجعت نہ کرو "۔- اس واقعہ کے راوی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کو یہ خط ملا ہم نے اللہ کا نام لے کر کفار کے لشکر کثیر پر یکبارگی حملہ کیا جس میں ان کو شکست فاش ہوئی، حضرت فاروق اعظم کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کی فتح و شکست، قلت و کثرت پر دائر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ پر توکل اور اس کی مدد پر موقوف ہے جیسا کہ قرآن کریم نے غزوہ حنین کے بارے میں اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا، ارشاد ہے : یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا۔ (٩: ٢٥) - " یعنی غزوہ حنین کو یاد کرو جب کہ تم کو اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، تو یہ کثرت تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکی "۔- اب آیات کی تفسیر پر غور فرمائیے : اذ غدوت من اھلک یعنی جبکہ آپ صبح کے وقت اپنے گھر سے چلے، جنگ کے لئے مختلف مورچوں پر مسلمانوں کو بٹھا رہے تھے قرآن مجید کا نقل واقعات میں ایک خاص معجزانہ اسلوب ہے کہ وہ عام طور پر کوئی واقعہ پوری تفصیل اور جزئیات کے ساتھ بیان نہیں کیا کرتا، مگر جن واقعات اور جزئیات میں خاص ہدایات مضمر ہوتی ہیں وہ بیان کی جاتی ہیں، مذکورہ آیت میں جو خاص جزوی امور کی تصریح ہے، مثلا گھر سے نکلنے کا وقت کیا تھا، اس کو لفظ غدوت سے بیان فرمادیا، اور روایات حدیث سے یہ ثابت ہے کہ یہ صبح ساتویں تاریخ شوال کی ٣ ھ کی تھی۔ اس کے بعد یہ بھی بتلایا کہ اس سفر کی ابتداء کس جگہ سے ہوئی، من اھلک کے لفظ سے اشارہ ہوا کہ آپ اس وقت اپنے اہل و عیال میں تھے، ان کو وہیں چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے حالانکہ یہ حملہ مدینہ پر ہونے والا تھا، ان جزوی حالات میں یہ ہدایت مضمر ہے کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو اس کی تعمیل میں اہل و عیال کی محبت سنگ راہ نہیں ہونی چاہئے، اس کے بعد گھر سے نکل کر محاذ جنگ تک پہنچنے کے جزئی واقعات کو چھوڑ کر محاذ جنگ کا پہلا کام یہ بیان کیا گیا کہ : تبوی المومنین مقاعد للقتال، یعنی آپ مسلمانوں کو قتال کے لئے مناسب مقامات پر جما رہے تھے پھر اس آیت کو اس طرح ختم کیا گیا کہ واللہ سمیع علیم یعنی اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے، سمیع علیم کی صفات کو یاد دلا کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اس وقت مخالفین و موافقین دونوں جو کچھ اپنی اپنی جگہ پر کہہ سن رہے تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں آچکا، اور اس موقع پر مخالفین و موافقین کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس میں سے کوئی شے اس سے مخفی نہیں رہی، اور اسی طرح اس جنگ کا انجام بھی اس سے مخفی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ١٢١ ۙ- غدا - الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ- [ الأعراف 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] - ( غ د و ) الغدوۃ - والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال :- مكان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ - قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیم کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢١) (اور وہ وقت یاد کرو) کہ غزوہ احد کے دن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ سے چلے اور احد پہنچ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے مومنین کے مقامات جما رہے تھے۔- اللہ تعالیٰ تمہاری باتوں کو سننے والا اور جو تمہیں مورچہ چھوڑنے کی وجہ سے پریشانی ہوئی اس کا جاننے والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” واذ غدوت من اھلک “۔ (الخ)- ابی حاتم (رح) اور ابو یعلی (رح) نے مسعود بن مخرمہ (رض) سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ غزوہ احد کے اپنے واقعہ کی مجھے تفصیل بتاؤ۔- انھوں نے فرمایا کہ سورة آل عمران میں ایک سو بیس آیات کے بعد پڑھو ہمارے واقعہ مل جائے گا۔- (آیت) ” واذ غدوت “۔ سے ” طآئفتن منکم ان تفشلا “۔ تک۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

یہاں سے سورة آل عمران کے نصف ثانی کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے ‘ جو چھ رکوعات پر محیط ہے۔ یہ چھ رکوع مسلسل غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل ہیں۔ غزوۂ احد شوال ٣ ھ میں پیش آیا تھا۔ اس سے پہلے رمضان ٢ ھ میں غزوۂ بدر پیش آچکا تھا ‘ جس کا تذکرہ ہم سورة الانفال میں پڑھیں گے۔ اس لیے کہ ترتیب مصحف نہ تو ترتیب زمانی کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی ترتیب نزولی کے مطابق۔ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت زبردست فتح دی تھی اور کفار مکہ کو بڑی زک پہنچی تھی۔ ان کے ستر (٧٠) سربرآوردہ لوگ مارے گئے تھے ‘ جن میں قریش کے تقریباً سارے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے۔ اہل مکہ کے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور ان کے انتقامی جذبات لاوے کی طرح کھول رہے تھے۔ چناچہ ایک سال کے اندر اندر انہوں نے پوری تیاری کی اور تمام ساز و سامان جو وہ جمع کرسکتے تھے جمع کرلیا۔ ابوجہل غزوۂ بدر میں مارا جا چکا تھا اور اب قریش کے سب سے بڑے سردار ابوسفیان تھے۔ (ابوسفیان چونکہ بعد میں ایمان لے آئے تھے اور صحابیت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے تھے لہٰذا ہم ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ ) ابوسفیان تین ہزار جنگجوؤں کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ اہل مکہ اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے اس دفعہ اپنے بچوں اور خاص طور پر خواتین کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے تاکہ ان کی غیرت بیدار رہے کہ اگر کہیں میدان سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہماری عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائیں گی۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ بھی لشکر کے ہمراہ تھی۔ (وہ بھی بعد میں فتح مکہ کے موقع پر ایمان لے آئی تھیں۔ ) غزوۂ بدر میں ہندہ کا باپ ‘ بھائی اور چچا مسلمانوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوچکے تھے ‘ لہٰذا اس کے سینے کے اندر بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ مکہ کا شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جس کا کوئی فرد غزوۂ بدر میں مارا نہ گیا ہو ۔- اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ میں ایک مشاورت منعقد فرمائی کہ اب کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ‘ جبکہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کرنے آ رہا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا رجحان اس طرف تھا کہ اس صورت حال میں ہم اگر مدینہ میں محصور ہو کر مقابلہ کریں تو بہتر رہے گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی بھی یہی رائے تھی۔ لیکن وہ لوگ جو بدر کے بعد ایمان لائے تھے اور وہ جو غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوپائے تھے ان میں سے خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہمیں میدان میں نکل کر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے ‘ ہمیں تو شہادت درکار ہے ‘ ہمیں آخر موت سے کیا ڈر ہے ؟ ؂- شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن - نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی - چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے فیصلہ فرما دیا کہ دشمن کا کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ سے جبل احد کی جانب کوچ فرمایا ‘ لیکن راستے ہی میں عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا اور ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم خواہ مخواہ اپنی جانیں جوکھوں میں کیوں ڈالیں ؟ تین سو منافقین کے چلے جانے کے بعد اسلامی لشکر میں صرف سات سو افراد باقی رہ گئے تھے ‘ جن میں کمزور ایمان والے بھی تھے۔ چناچہ دامن احد میں پہنچ کر مدینہ کے دو خاندانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم بھی تھوڑی دیر کے لیے ڈگمگائے اور انہوں نے واپس لوٹنا چاہا ‘ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حوصلہ دیا اور ان کے قدم جما دیے۔ - اس کے بعد جنگ ہوئی تو اللہ کی طرف سے مدد آئی۔ اللہ نے لشکر اسلام کو فتح دے دی اور مشرکین کے قدم اکھڑ گئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا تھا اور اس کے دامن میں صف بندی کی تھی۔ سامنے دشمن کا لشکر تھا۔ پہاڑ میں ایک درّہ تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے ہم پر حملہ ہوجائے اور ہم دو طرف سے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس درّہ پر حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) کی امارت میں پچاس تیر انداز تعینات فرما دیے تھے اور انہیں تاکید فرمائی تھی یہاں سے مت ہلنا۔ چاہے تم دیکھو کہ ہم سب مارے گئے ہیں اور ہمارا اگوشت چیلیں اور کوّے نوچ رہے ہیں تب بھی یہ جگہ مت چھوڑنا لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو درّے پر مامور حضرات میں اختلاف رائے ہوگیا۔ ان میں سے اکثر نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جو اتنی تاکید فرمائی تھی وہ تو شکست کی صورت میں تھی ‘ اب تو فتح ہوگئی ہے ‘ لہٰذا اب ہمیں بھی چل کر مال غنیمت جمع کرنے میں باقی سب لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) وہاں کے لوکل کمانڈر تھے ‘ وہ انہیں منع کرتے رہے کہ یہاں سے ہرگز مت ہٹو ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم یاد رکھو۔ لیکن وہ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تاویل کرچکے تھے۔ ان میں سے ٣٥ افراد درّہ چھوڑ کر چلے گئے اور صرف ١٥ باقی رہ گئے۔ - خالد بن ولید (جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے) مشرکین کی گھڑ سوارفوج ( ) کے کمانڈر تھے۔ ان کی عقابی نگاہ نے دیکھ لیا کہ وہ درہ خالی ہے۔ ان کی پیدل فوج ( ) شکست کھا چکی تھی اور بھگدڑ مچ چکی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دو سو گھڑ سواروں کے دستے کے ساتھ احد کا چکر کاٹ کر پشت سے اس درے کے راستے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ درّے پر صرف پندرہ تیر انداز باقی تھے ‘ ان کے لیے دو سو گھڑ سواروں کی یلغار کو روکنا ممکن نہیں تھا اور وہ مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس اچانک حملے سے یکلخت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ ستر صحابہ کرام (رض) شہید ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی زخمی ہوگئے۔َ خود کی کڑیاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رخسار میں گھس گئیں اور دندان مبارک شہید ہوگئے۔ خون اتنا بہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ اور یہ بھی مشہور ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ لیکن پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو پکارا تو لوگ ہمت کر کے جمع ہوئے۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت پہاڑ پر چڑھ کر بچاؤ کرلیا جائے ‘ اور آپ تمام مسلمانوں کو لے کر کوہ احد پر چڑھ گئے۔ اس موقع پر ابوسفیان اور خالد بن ولید کے مابین اختلاف رائے ہوگیا۔ خالد بن ولید کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا چاہیے اور انہیں ختم کر کے ہی دم لینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان بڑے حقیقت پسند اور زیرک شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ‘ مسلمان اونچائی پر ہیں ‘ وہ اوپر سے پتھر پھینکیں گے اور تیر برسائیں گے تو ہمارے لیے شدید جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے ‘ یہی بہت ہے۔ چناچہ مشرکین وہاں سے چلے گئے۔ مطالعۂ آیات سے قبل غزوۂ احد کے سلسلۂ واقعات کا یہ اجمالی خاکہ ذہن میں رہنا چاہیے۔- آیت ١٢١ (وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ط) ۔- غزوۂ احد کی صبح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے حجرے سے برآمد ہوئے تھے اور جنگ کے میدان میں صف بندی کر رہے تھے ‘ وہاں مورچے معین کر رہے تھے اور ان میں صحابہ کرام (رض) کو مامور کر رہے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :94 یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ جنگ احد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگ احد پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ”ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ۔ “ اب چونکہ احد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں ، اس لیے یہ خطبہ جس میں انہیں ان کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے ، مندرجہ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا ۔ اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگ احد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ شوال سن ۳ ہجری کی ابتدا میں کفار قریش تقریباً ۳ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا ، اور پھر وہ جنگ بدر کے انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے ۔ مگر چند نوجوانوں نے ، جو شہادت کے شوق سے بے تاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا ، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا ۔ آخر کار ان کے اصرار سے مجبور ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا ۔ ایک ہزار آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبداللہ ابن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا ۔ عین وقت پر اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا ، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا تھا ، مگر پھر اولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا ۔ ان باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں ( مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر ) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے ۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا ۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جبیر کے زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا ، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا ، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا ۔ “ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی ۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی ۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لوٹنا شروع کر دیا ۔ ادھر جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا ، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے ، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے ۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکیدی حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا ۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے ، بر وقت فائدہ اٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کر دیا ۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے ، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا ۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہو گئے ۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا ۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے ۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و پیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود زخمی ہو چکے تھے ۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی ۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے ۔ اس موقع پر یہ ایک معما ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار مکہ کو خود بخود واپس پھیر دیا ۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا ۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی ۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

40: جنگ احد میں تین ہزار کفار کا ایک لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا آنحضرتﷺ ان کے مقابلے کے لئے احد پہاڑ کے دامن میں تشریف لے گئے تھے جہاں یہ جنگ لڑی گئی، آنے والی آیات میں اس کے متعدد واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔