Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

122۔ 1 یہ اوس اور خزرج کے دو قبیلے (بنو حارث اور بنو سلمہ) تھے 122۔ 2 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کی کمزوری کو دور فرما کر ان کی ہمت باندھ دی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١١] جب عبداللہ بن ابی تین سو ساتھیوں سمیت واپس چلا گیا تو انصار کے دو قبیلوں بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے دلوں میں کمزوری واقع ہوئی اور کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد دیکھ کر دل چھوڑنے لگے مگر چونکہ سچے مسلمان تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا چناچہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ہم انصار کے حق میں اتری۔ اگرچہ اس میں ہمارا عیب بیان کیا گیا ہے۔ تاہم ہمیں یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی۔ کیونکہ اس میں (اللہ ولیھما) (اور اللہ دونوں فرقوں کا مددگار تھا) کے الفاظ بھی مذکور ہیں۔ (بخاری، کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ ۔۔ : ان دو جماعتوں سے مراد انصار کے دو قبیلے بنو سلمہ اور بنو حارثہ ہیں (جو عبداللہ بن ابی کی واپسی دیکھ کر دل شکستہ ہوگئے اور انھوں نے واپس آنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ ) [ بخاری، التفسیر، باب ( إذ ھمت الطائفتان۔۔ ) : ٤٥٥٨ ]- آیت ١٢٣ : وانتم اذلۃ : اس لفظ سے مسلمانوں کی قلت تعداد اور ضعف حال کی طرف اشارہ ہے۔ مقام بدر مدینہ سے قریباً بیس میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ غزوۂ بدر بروز جمعہ ٢٧ رمضان المبارک ٢ ھ ( ١٣ مارچ ٦٢٤ ء) کو پیش آیا۔ اس آیت میں جنگ احد میں شکست کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معرکۂ بدر کے واقعات پر غور و فکر کی دعوت اور آئندہ ثابت قدم رہنے کے لیے تقویٰ کی تعلیم دی ہے۔ جنگ بدر کی تفصیل کے لیے سورة انفال (٤١) ملاحظہ کیجیے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر )

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد دوسری آیت ہے اذ ھمت طائفتن منکم ان تفشلا۔- یعنی جب تم میں سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھیں کہ ہمت ہار دیں، درآنحالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا ان دونوں جماعتوں سے مراد قبیلہ اوس کے بنی حارثہ اور قبیلہ خزرج کے بنی سلمہ ہیں، ان دونوں جماعتوں نے عبداللہ بن ابی کی مثال دیکھ کر اپنے میں کمزوری اور کم ہمتی محسوس کی لیکن اللہ کے فضل نے دستگیری کی اور اس وسوسہ کو وسوسہ کے درجہ سے آگے نہ بڑھنے دیا اور یہ خیال بھی جو انہیں پیدا ہوا، اپنی قلت تعداد، قلت سامان اور مادی کمزوری کی بناء پر تھا، نہ کہ ضعف ایمان کی بناء پر، مغازی کے مشہور امام مورخ ابن ہشام نے اس کو واضح فرمادیا ہے، اور واللہ ولیھما کا جملہ خود ان کے ایمان کامل کا شہادت دے رہا ہے اس لئے ان دونوں قبیلوں کے بعض بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ : " اگرچہ اس آیت میں ہم پر کچھ عتاب بھی ہے لیکن واللہ ولیھما کی بشارت بھی ہمارے لئے آئی ہے "۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا " مسلمانوں کو اللہ پر اعتماد رکھنا چاہئے "، اس میں واضح کردیا کہ کثرت عدد اور سازوسامان پر مسلمانوں کو اعتماد نہیں کرنا چاہئے، بلکہ بقدر استطاعت مادی سامان جمع کرنے کے بعد بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر ہونا چاہئے، بنو حارثہ اور بنو سلمہ کو کمزوری اور کم ہمتی کا جو وسوسہ پیدا ہوا تھا وہ اسی مادی ضعف کی بناء پر تھا اس لئے ان کے وسوسہ کا علاج توکل سے بتلایا گیا کہ توکل و اعتماد ان وساوس کے لئے نسخہ اکسیر ہے۔ توکل انسان کی اعلی صفات میں سے ہے، محققین صوفیا نے اس کی حقیقت پر مفصل بحثیں کی ہیں، یہاں اس قدر سمجھئے کہ توکل کے معنی یہ نہیں کہ تمام اسباب ظاہری سے بالکل قطع تعلق کر کے اللہ پر اعتماد کیا جائے، بلکہ توکل یہ ہے کہ تمام اسباب ظاہری کو اپنی قدرت کے مطابق جمع کرے اور اختیار کرے، اور پھر نتائج اللہ کے سپرد کرے، اور ان ظاہری اسباب پر فخر و ناز نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف اللہ پر رہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے، خود اسی جہاد میں مسلمانوں کے لشکر کو جنگ کے لئے منظم کرنا، اپنی قدرت کے موافق اسلحہ اور دیگر سامان حرب فراہم کرنا، محاذ جنگ پر پہنچ کر مناسب حال و مقام نقشہ جنگ تیار کرنا، مختلف مورچے بنا کر صحابہ کرام کو ان پر بٹھانا وغیرہ۔ یہ سب مادی انتظامات ہی تو تھے جن کو سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے استعمال فرماکر بتلادیا کہ مادی اسباب بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں، ان سے قطع نظر کرنے کا نام توکل نہیں، یہاں مومن اور غیر مومن میں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مومن سب سامان اور مادی طاقتیں حسب قدرت جمع کرنے کے بعد بھی بھروسہ و توکل صرف اللہ پر کرتا ہے، غیر مومن کو یہ روحانیت نصیب نہیں، اس کو صرف اپنی مادی طاقت پر بھروسہ ہوتا ہے، اور اسی فرق کا ظہور تمام اسلامی غزوات میں ہمیشہ مشاہدہ ہوتا رہا ہے۔ اب اس کے بعد اس غزوہ کی طرف ذہن کو منتقل کیا جارہا ہے جس میں مسلمانوں نے کامل توکل کا مظاہرہ کیا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی و نصرت سے سرفراز کیا تھا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا۝ ٠ ۙ وَاللہُ وَلِيُّہُمَا۝ ٠ ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ١٢٢- همم - الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24]- ( ھ م م ) الھم - کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔- طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- فشل - الفَشَلُ : ضعف مع جبن . قال تعالی: حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] ، فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] ، وتَفَشَّلَ الماء :- سال .- ( ف ش ل ) الفشل ( س ) کے معنی کمزوری کے ساتھ بزدلی کے ہیں قرآن پاک میں ہے : حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] یہاں تک کہ تم نے ہمت ہاردی اور حکم ( پیغمبر میں جھگڑا کرنے لگے ۔ فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] تو تم بزدل ہوجاؤ گے ۔ اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا ۔ لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور ( جو ) معاملہ ) درپیش تھا اس ) میں جھگڑنے لگتے ۔ تفسل الماء : پانی بہہ پڑا ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٢) اسی وقت یہ واقعہ بھی ہوا کہ مسلمانوں میں سے دو جماعتوں بنو سلمہ اور بنو حارث نے اپنے دلوں میں یہ سوچا کہ دشمن تو شکست کھاچکا ہے اس لیے اب ہم بھی احد کے دن (اس مرحلے پر) دشمنوں سے مقابلہ نہ کریں اللہ تعالیٰ اس خیال سے ان دونوں کی حفاظت فرمانے والا تھا (یعنی مجاہدین صحابہ کی ان دونوں جماعتوں نے دشمن کا ڈٹ کا مقابلہ کیا) اور مومنین پر تو یہ چیز لازم ہے کہ فتح ونصرت ہر ایک حالت میں اللہ تعالیٰ ہی پر انحصار کریں۔- شان نزول : (آیت) ” اذ ھمت طآئفتن منکم “۔ (الخ)- بخاری ومسلم نے جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہمارے قبائل میں سے بنو سلمہ اور بنی حارث کے بارے میں (آیت) ” اذ ھمت طآئفتن منکم “۔ (الخ) یہ آیت نازل ہوئی ہے اور ابن ابی شیبہ (رح) نے مصنف میں اور ابن ابی حاتم (رح) نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ غزوہ بدر کے دن مسلمانوں کو یہ اطلاع ہوئی کہ کرزبن جابر محاربی مشرکین کو کمک روانہ کررہا ہے اس پر مسلمان پریشان ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” الن یکفیکم “۔ سے ” مسومین “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں، پھر کرز کو شکست کی اطلاع پہنچ گئی تو نہ مشرکین کے لیے کمک آئی اور نہ مسلمانوں کی امداد کے لیے پانچ ہزار فرشتے نازل ہوئے۔- جب تم مومنوں سے یہ کہہ (کر ان کے دل بڑھا) رہے تھے کہ کیا یہ کافی نہیں کہ پروردگار تین ہزار فرشتے نازل کرکے مدد دے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٢ (اِذْ ہَمَّتْ طَّآءِفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلاَلا) - انہوں نے کچھ کمزوری دکھائی ‘ حوصلہ چھوڑنے لگے اور ان کے پاؤں لڑکھڑائے۔- (وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط) (وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) َجنگ کے آغاز سے پہلے انصار کے دو گھرانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم وقتی طور پر ڈگمگا گئے تھے ‘ بربنائے طبع بشری ان کے حوصلے پست ہونے لگے تھے اور انہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا تھا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ثبات عطا فرمایا اور ان کے قدموں کو جما دیا۔ پھر ان کا ذکر قرآن میں کردیا گیا۔ اور وہ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں (مِنْکُمْ ) اور (وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط) کے الفاظ میں کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تین سو منافقین جو میدان جنگ سے چلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر تک نہیں کیا۔ گویا وہ اس لائق بھی نہیں ہیں کہ ان کا براہ راست ذکر کیا جائے۔ البتہ آخر میں ان کا ذکر بالواسطہ طور پر ( ) آئے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :95 یہ اشارہ ہے بنو سلمہ اور بنو حارثہ کی طرف جن کی ہمتیں عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی واپسی کے بعد پست ہو گئی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

41: جب آنحضرتﷺ مقابلے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلے تو آپ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے ؛ لیکن منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی راستے میں یہ کہہ کر اپنے تین سو آدمیوں سمیت واپس چلا گیا کہ ہماری رائے یہ تھی کہ دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کیا جائے، ہماری رائے کے خلاف آپ باہر نکل آئے ہیں اس لئے ہم جنگ میں شریک نہیں ہوں گے، اس موقع پر سچے مسلمانوں کے دو قبیلے بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے دل بھی ڈگمگاگئے اور ان کے دل میں بھی خیال آیا کہ تین ہزار کے مقابلے میں صرف سات سوافراد بہت تھوڑے ہیں اور ایسے میں جنگ لڑنے کے بجائے الگ ہوجانا چاہئے ؛ لیکن پھر اللہ نے مدد فرمائی اور وہ جنگ میں شامل ہوئے اس آیت میں انہی کی طرف اشارہ ہے۔