اولین معرکہ حق و باطل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم دنیا میں بھی ذلیل و مغلوب کئے جاؤ گے ، ہارو گے ، ماتحت بنو گے اور قیامت کے دن بھی ہانک کر جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جو بدترین بچھونا ہے ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب بدر کی جنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مظفر و منصور واپس ہوئے تو بنوقینقاع کے بازار میں یہودیوں کو جمع کیا اور فرمایا اس سے پہلے کہ قریش کی طرح تمہیں بھی ذلت و پستی دیکھنا پڑے اسلام قبول کرلو ، تو اس سرکش جماعت نے جواب دیا کہ چند قریشیوں کو جو فنونِ جنگ سے ناآشنا تھے ، آپ نے انہیں ہرا لیا اور دماغ میں غرور سما گیا ، اگر ہم سے لڑائی ہوئی تو ہم بتادیں گے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں ، آپ کو ابھی تک ہم سے پالا ہی نہیں پڑا ۔ اس پر یہ آیت اتری اور فرمایا گیا فتح بدر نے ظاہر کردیا ہے کہ اللہ اپنے سچے اچھے اور پسندیدہ دین کو اور اس دین والوں کو عزت و حرمت عطا فرمانے والا ہے ، وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کی اطاعت گزار امت کا خود مددگار ہے ۔ وہ اپنی باتوں کو ظاہر اور غالب کرنے والا ہے ۔ دو جماعتیں لڑائی میں گھتم گتھا ہو گئی تھیں ، ایک صحابہ کرام کی اور دوسری مشرکین قریش کی ، یہ واقعہ جنگ بدر کا ہے ، اس دن مشرکین پر اس قدر رعب غالب آیا اور اللہ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی گو مسلمان گنتی میں مشرکین سے کہیں کم تھے لیکن مشرکوں کو اپنے سے دُگنے نظر آتے تھے ، مشرکوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی جاسوسی کیلئے عمیر بن سعد کو بھیجا تھا جس نے آکر اطلاع دی تھی کہ تین سو ہیں ، کچھ کم یا زائد ہوں اور واقعہ بھی یہی تھا کہ صرف تین سو دَس اور کچھ تھے لیکن لڑائی کے شروع ہوتے ہی اللہ عزوجل نے اپنے خاص اور چیدہ فرشتے ایک ہزار بھیجے ۔ ایک معنی تو یہ ہیں ، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ کافر ہم سے دوچند ہیں ، پھر بھی اللہ عزوجل نے انہی کی مدد کی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بدری صحابہ تین سو تیرہ تھے اور مشرکین چھ سو سولہ تھے ۔ لیکن تواریخ کی کتابوں میں مشرکین کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تک بیان کی گئی ہے ، ہو سکتا ہے حضرت عبداللہ کا قرآن کے الفاظ سے یہ استدلال ہو کہ ابن الحجاج قبلیہ کا جو سیاہ فام غلام پکڑا ہوا آیا تھا اس سے جب حضور نے پوچھا کہ قریش کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا بہت ہیں ، آپ نے پھر پوچھا اچھا روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں ، اس نے کہا ایک دن نو دوسرے دن دس ، آپ نے فرمایا بس تو ان کی گنتی نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے ۔ پس مشرکین مسلمانوں سے تین گنے تھے واللہ اعلم ، لیکن یہ یاد رہے کہ عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک ہزار تو ہیں لیکن مجھے ضرورت ایسے ہی دوگنا کی ہے اس سے مراد ان کی تین ہزار ہوتی ہے ۔ اب کوئی مشکل باقی نہ رہی ، لیکن ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ) 8 ۔ الانفال:44 ) یعنی جب آمنے سامنے آ گئے تو اللہ نے انہیں تمہاری نگاہوں کے سامنے کم کرکے دکھایا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں زیادہ کرکے دکھایا تاکہ جو کام کرنے کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا وہ ہو جائے ۔ پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعداد سے بھی کم نظر آئے اور مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بلکہ دُگنے نظر آئے ۔ تو دونوں آیتوں میں تطبیق کیا ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول اور تھا اور اس کا وقت اور تھا ، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ بدر والے دن ہمیں مشرکین کچھ زیادہ نہیں لگے ، ہم نے غور سے دیکھا پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ ہم سے ان کی گنتی زیادہ نہیں ، دوسری روایت میں ہے کہ مشرکین کی تعداد اس قدر کم معلوم ہوئی کہ میں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر ہوں گے ، اس نے کہا نہیں نہیں سو ہوں گے ، جب ان میں سے ایک شخص پکڑا گیا تو ہم نے اس سے مشرکین کی گنتی پوچھی ، اس نے کہا ایک ہزار ہیں ۔ اب جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے تو مسلمانوں کو یہ معلوم ہونے لگا کہ مشرکین ہم سے دوگنے ہیں ۔ یہ اس لئے کہ انہیں اپنی کمزوری کا یقین ہو جائے اور یہ اللہ پر پورا بھروسہ کرلیں اور تمام تر توجہ اللہ کی جانب پھیر لیں اور اپنے رب عزوجل سے اعانت اور امداد کی دعائیں کرنے لگیں ، ٹھیک اسی طرح مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد دوگنی معلوم ہونے لگی تاکہ ان کے دِلوں میں رعب اور خوف بیٹھ جائے اور گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ جائے ، پھر جب دونوں بھڑ گئے اور لڑائی ہونے لگی تو ہر فریق دوسرے کو اپنی نسبت کم نظر آنے لگا تاکہ ایک دِل کھول کر حوصلہ نکالے اور اللہ تعالیٰ حق و باطل کا صاف فیصلہ کردے ، ایمان و کفر و طغیان پر غالب آ جائے ۔ مومنوں کو عزت اور کافروں کو ذلت مل جائے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ) 3 ۔ آل عمران:123 ) یعنی البتہ اللہ تعالیٰ نے بدر والے دن تمہاری مدد کی حالانکہ تم اس وقت کمزور تھے ۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا اللہ جسے چاہے اپنی مدد سے طاقتور بنا دے ، پھر فرماتا ہے اس میں عبرت و نصیحت ہے اس شخص کیلئے جو آنکھوں والا ہو جس کا دماغ صحیح و سالم ہو ، وہ اللہ کے احکام کی بجا آوری میں لگ جائے گا اور سمجھ لے گا کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو اس جہان میں بھی مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا بچاؤ کرے گا ۔
12۔ 1 یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدی پوری ہوگئی۔ چناچہ بنو قینقاع اور بنو نفیر جلا وطن کئے گئے بنو قریظہ قتل کئے گئے پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کردیا گیا (فتح القدیر)
[١٣] اس آیت میں اگرچہ روئے خطاب سب قسم کے کافروں سے ہے تاہم یہود مدینہ بالخصوص اس آیت کے مخاطب ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح عظیم عطا فرمائی اور اس سے متاثر ہو کر عبداللہ بن ابی (رئیس منافقین) نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے درمیان بسنے والے یہود بنو قینقاع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے یہود اسلام قبول کرلو تو عافیت میں رہو گے ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرکین مکہ کا ہوا ہے لیکن وہ بجائے نصیحت قبول کرنے کے شیخی میں آگئے کہنے لگے کہ مکہ کے کافر تو جاہل اور فنون جنگ سے ناآشنا تھے جو پٹ گئے، ہم سے سابقہ پڑا تو سمجھ آجائے گی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیشین گوئی جس طرح حرف بہ حرف پورا ہوا اس پر تاریخ شاہد ہے کہ سب سے پہلے یہی یہود بنو قینقاع جلا وطن کئے گئے۔ تو انہوں نے خیبر جاکر دم لیا۔ پھر یہود بنونضیر جلاوطن ہوئے تو انہوں نے بھی خیبر کی راہ لی، پھر بنوقریظہ کی باری آئی تو قتل کئے گئے اور لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔ پھر خیبر میں یہود کی پٹائی ہوئی تو بحیثیت مزارعہ وہاں آباد رہنے کی درخواست کی جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منظور فرما لیا۔ تاہم یہود چونکہ ایک فتنہ انگیز قوم ہے ان کی شرارتوں کی بنا پر بالآخر حضرت عمر (رض) نے انہیں یہاں سے بھی نکال باہر کیا۔- یاد رہے کہ کافروں کے حق میں یہ پیشین گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمانوں پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی، اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی نوزائیدہ ریاست کی بنیاد پڑچکی تھی۔ لیکن وہ ہر لحاظ سے کمزور اوراقلیت میں تھے اور عرب بھر کے مشرکین، یہود اور نصاریٰ اور منافقین اس ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے اور ان سب گروہوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے آثار دور تک نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن اللہ کی مدد مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ سب فرقے باری باری مات کھاتے گئے اور چند ہی سال بعد عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا۔
قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں، اس آیت کے نزول کے بعد بنو قریظہ کے قتل، بنو نضیر کے جلاوطن اور خیبر کے فتح ہوجانے سے قرآن کی یہ پیشین گوئی بحمد اللہ حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔ (شوکانی)
معارف و مسائل - قل للذین کفروا ستغلبون ممکن ہے کوئی اس آیت سے یہ شبہ کرے کہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار مغلوب ہوں گے، حالانکہ سب کفار دنیا کے مغلوب نہیں ہیں لیکن یہ شبہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ یہاں کفار سے مراد تمام دنیا بھر کے کفار نہیں ہیں، بلکہ اس وقت کے مشرکین اور یہود مراد ہیں، چناچہ مشرکین کو قتل و قید اور یہود کو قتل و قید کے ساتھ ساتھ جزیہ اور جلا وطنی کے ذریعہ مغلوب کیا گیا تھا۔
قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَـتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمِہَادُ ١٢- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - مهد - المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] ، ومِهاداً [ النبأ 6] - م ھ د ) المھد - ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا :
کفار کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی۔- قول باری ہے۔ (قل للذین کفرواستغلبون وتحشرون الی جھنم، آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کرلیئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤگے) حضرت ابن عباس قتادہ اور ابن اسحاق سے مروی ہے کہ جب بدر کے معرکے میں قریش پر تباہی آئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوق قینقاع میں یہود کو جمع کرکے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انکار کی صورت میں انہیں اس انتقام خداوندی سے ڈرایاجس کا ظہور قریش پر ہوچکا تھا۔ یہودنے اسلام لانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ قریش کی طرح نہیں ہیں۔ وہ توناتجربہ کار اوربدھوقسم کے لوگ تھے انہیں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا اگر ہم سے پنچہ آزمائی کرو گے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم مرد میدان ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلالت ہورہی ہے۔ کیونکہ اس میں کافروں پر مسلمانوں کے غلبہ کی خبردی گئی تھی اور بعد عین اس کے مطابق واقعات پیش آئے۔ ان کے متعلق یہ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ اتفاقیہ طورپرپیش آگئے اس لیئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستقبل میں پیش آنے والے بےشمار واقعات کے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں جو تمام کی تمام سچی ثابت ہوئیں۔ کسی واقعہ میں کوئی تخلف نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے تھیں جو عالم الغیوب ہے، اس لیئے کہ مخلوق میں سے کسی کی یہ طاقت نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے بیشمار واقعات کی خبردے اور پھر یہ واقعات اتفاقیہ طورپراسی طرح پیش آجائیں جس طرح اس نے ان کی خبردی تھی اور اس میں کوئی تخلف نہ ہو۔
(١٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کفار مکہ سے یہ بھی فرما دیجیے کہ تم دنیا میں بھی بدر کے دن مارے جاؤ گے اور پھر قیامت کے روز جہنم میں جمع کیے جاؤ گے، وہ بہت بدترین ٹھکانہ ہے۔- شان نزول : (آیت) ” قل للذین کفروا (الخ)- امام ابوداؤد (رح) نے اپنی سنن میں اور بیہقی (رح) نے دلائل میں بواسطہ ابن اسحاق محمد بن ابی سعید (رح) یا عکرمہ (رح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل بدر سے جو واقعہ پیش آیا، اس کے بعد جب آپ مدینہ منور لوٹ کر تشریف لائے تو آپ بازار بنی قینقاع میں تشریف لے گئے جو یہودیوں کا اجتماع کا مرکز تھا اور ان سے فرمایا اے گروہ یہود ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی وہ معاملہ کرے تو جو قریش کے ساتھ بدر میں کیا گیا تو انہوں نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الیعاذ باللہ خود پسندی اور بڑائی میں مبتلا نہ ہو اگر تم نے کفار کی ایک جماعت کو قتل کردیا تو وہ بیوقوف تھے، لڑنا نہیں جانتے تھے، واللہ اگر آپ ہمارے ساتھ لڑیں گے تو اپ کو پتاچل جائے گا کہ ہم مرد ہیں ہم جیسے لوگوں سے آپ کا سامنا نہ ہوا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اولی الابصار تک نازل فرمائی۔- اور ابن منذر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ فخاص یہودی نے بدر کے دن کہا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو قتل کردیا اور ان پر غلبہ حاصل کرلیا تو یہ چیز ان کو دھوکا میں نہ ڈالے کیوں کہ قریش تو لڑنا نہیں جانتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
4: اس سے دنیا میں کافروں کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی بھی مراد ہوسکتی ہے، اور آخرت میں مغلوب ہونے کی بھی۔