Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غزوہ بدر اور تائید الٰہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تسلیاں دینا بعض تو کہتے ہیں بدر والے دن تھا حسن بصری عامر شعبی ربیع بن انس وغیرہ کا یہی قول ہے ابن جریر کا بھی اسی سے اتفاق ہے عامر شعبی کا قول ہے کہ مسلمانوں کو یہ خبر ملی تھی کہ کرز بن جابر مشرکوں کی امداد میں آئے گا اس پر اس امداد کا وعدہ ہوا تھا لیکن نہ وہ نہیں آیا اور نہ ہی یہ گئے ربیع بن انس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہلے تو ایک ہزار فرشتے بھیجے پھر تین ہزار ہو گئے پھر پانچ ہزار ، یہاں اس آیت میں تین ہزار اور پانچ ہزار سے مدد کرنے کا وعدہ ہے اور بدر کے واقعہ کے بیان کے وقت ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا وعدہ ہے ۔ فرمایا آیت ( اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ) 8 ۔ الانفال:9 ) اور تطبیق دونوں آیتوں میں یہی ہے کیونکہ مردفین کا لفظ موجود ہے پس پہلے ایک ہزار اترے پھر ان کے بعد تین ہزار پورے ہوئے آخر پانچ ہزار ہو گئے ، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ جنگ بدر کے لئے تھانہ کہ جنگ احد کیلئے ، بعض کہتے ہیں جنگ احد کے موقعہ پر وعدہ ہوا تھا مجاہد عکرمہ ضحاک زہری موسیٰ بن عقبہ وغیرہ کا یہی قول ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان میدان چھوڑ کر ہٹ گئے اس لئے یہ فرشتے نازل نہ ہوئے ، کیونکہ آیت ( وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا ) 3 ۔ آل عمران:120 ) ساتھ ہی فرمایا تھا یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو فور کے معنی وجہ اور غضب کے ہیں مسومین کے معنی علامت والے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی نشانی بدر والے دن سفید رنگ کے لباس کی تھی اور ان کے گھوڑوں کی نشانی ماتھے کی سفیدی تھی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کی نشانی سرخ تھی ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں گردن کے بالوں اور دم کا نشان تھا اور یہی نشان آپ کے لشکریوں کا تھا یعنی صوف کا ۔ مکحول کہتے ہیں فرشتوں کی نشانی ان کی پگڑیاں تھیں جو سیاہ رنگ کے عمامے تھے اور حنین والے دن سرخ رنگ عمامے تھے ، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے علاوہ فرشتے کبھی جنگ میں شامل نہیں ہوئے اور سفید رنگ عماموں کی علامت تھی یہ صرف مدد کیلئے اور تعداد بڑھانے کیلئے تھے نہ کہ لڑائی کیلئے ، یہ بھی مروی ہے کہ یہ فرشتوں کا نازل کرنا اور تمہیں اس کی خبر دینا صرف تمہاری خوشی ، دلجوئی اور اطمینان کیلئے ہے ورنہ اللہ کو قدرت ہے کہ ان کو اتارے بغیر بلکہ بغیر تمہارے لڑے بھی تمہیں غالب کر دے مدد اسی کی طرف سے ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ) 47 ۔ محمد:4 ) اگر اللہ چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ ہر ایک کو آزما رہا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو قتل کئے جائیں ان کے اعمال اکارت نہیں ہوتے اللہ انہیں راہ دکھائے گا ان کے اعمال سنوار دے گا اور انہیں جنت میں لے جائے گا جس کی تعریف وہ کر چکا ہے ، وہ عزت والا ہے اور اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے ۔ یہ جہاد کا حکم بھی طرح طرح کی حکمتوں پر مبنی ہے اس سے کفار ہلاک ہوں گے یا ذلیل ہوں گے یا نامراد واپس ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد بیان ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کسی امر کا اختیار نہیں جیسے فرمایا آیت ( فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ) 13 ۔ الرعد:40 ) تمہارا ذمہ صرف تبلیغ ہے حساب تو تمہارے ذمہ ہے اور جگہ ہے آیت ( لیس علیک ھدھم ) الخ ، ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) 28 ۔ القصص:56 ) تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ، پس میرے بندوں میں تجھے کوئی اختیار نہیں جو حکم پہنچے اسے اوروں کو پہنچا دے تیرے ذمہ یہی ہے ممکن ہے اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور برائی کے بعد وہ بھلائی کرنے لگیں اور اللہ رحیم ان کی توبہ قبول فرما لے یا ممکن ہے کہ انہیں ان کے کفرو گناہ کی بناء پر عذاب کرے تو یہ ظالم اس کے بھی مستحق ہیں ، صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں جب دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے اور دعا ( سمع اللہ لمن حمدہ ربناولک الحمد ) کہہ لیتے تو فار پر بددعا کرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر اس کے بارے میں یہ آیت اتری ( لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:128 ) نازل ہوئی مسند احمد میں ان کافروں کے نام بھی آئے ہیں مثلاً حارث بن ہشام سہیل بن عمرو صفوان بن امیہ اور اسی میں ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ مسلمان ہو گئے ، ایک روایت میں ہے کہ چار آدمیوں پر یہ بد دعا تھی جس سے روک دیئے گئے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا کرنا یا کسی کے حق میں نیک دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد سمع اللہ اور ربنا پڑھ کر دعا مانگتے کبھی کہتے اے اللہ ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابو ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کفار سے نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ اور اپنا عذاب نازل فرما اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی حضرت یوسف کے زمانہ میں تھی یہ دعا با آواز بلند ہوا کرتی تھی اور بعض مرتبہ صبح کی نماز کے قنوت میں یوں بھی کہتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت بھیج اور عرب کے بعض قبیلوں کے نام لیتے تھے اور روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے چہرہ زخمی ہوا خون بہنے لگا تو زبان سے نکل کیا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ خالق کل کی طرف سے انہیں بلاتا تھا اس وقت یہ آیت ( لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:128 ) نازل ہوئی ، آپ اس غزوے میں ایک گڑھ میں گر پڑے تھے اور خون بہت نکل گیا تھا کچھ تو اس ضعف کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھے اٹھ نہ سکے حضرت حذیفہ کے مولیٰ حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچے اور چہرے پر سے خون پونچھا جب افاقہ ہوا تو آپ نے یہ فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ہے سب اس کے غلام ہیں جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے متصرف وہی ہے جو چاہے حکم کرے کوئی اس پر پرشس نہیں کر سکتا وہ غفور اور رحیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٣] جب مذکورہ بالا دو قبیلوں نے کمزوری دکھائی تو اس وقت آپ نے ان کی اور دوسرے مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا : کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے بھیج کر تمہاری مدد فرما دے۔ جیسا کہ میدان بدر میں تمہاری مدد فرمائی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ : اس کا تعلق یا تو جنگ بدر سے ہے یا جنگ احد سے۔ امام طبری نے پہلی بات کو ترجیح دی ہے، یعنی جب کفار کی تیاری اور کثرت تعداد کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرشتوں کی مدد کا ذکر کر کے انھیں تسلی دی۔ چناچہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے۔ بدر میں فرشتوں کے نزول کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة انفال (٩) (ابن کثیر۔ شوکانی) بدر کے دن فرشتوں کی تعداد سورة انفال میں ایک ہزار ذکر ہوئی ہے، جبکہ یہاں تین ہزار اور پانچ ہزار کا ذکر ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ پہلے ایک ہزار کا وعدہ ہوا، پھر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار کی بشارت ہوئی، ان میں آپس میں کوئی تعارض نہیں۔ (ابن کثیر) - بعض کے نزدیک اس وعدے کا تعلق جنگ احد سے ہے اور انھوں نے کہا ہے، چونکہ مسلمانوں نے جنگ احد میں توکل اور صبر سے کام نہ لیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مدد کو روک لیا، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر فرشتے نازل ہوتے تو مسلمان شکست نہ کھاتے۔ (ابن جریر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- سابقہ آیات میں بضمن قصہ احد غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امداد غیبی ہونے کا ذکر تھا، آگے اس امداد کی کچھ تفصیل اور فرشتوں کے بھیجنے کی حکمت کا بیان ہے۔- خلاصہ تفسیر :- اذ تقول للمومنین (الی) فینقلبوا خائبین، (غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ کی یہ امداد اس وقت ہوئی تھی) جب آپ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں سے یوں فرما رہے تھے کہ کیا تم کو (تقویت قلب کے لئے) یہ امر کافی نہ ہوگا کہ تمہارا رب تمہاری امداد کرے تین ہزار فرشتوں کے ساتھ (جو اسی کام کے لئے آسمان سے) اتارے جاویں گے (جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے درجے کے فرشتے ہوں گے، ورنہ جو فرشتے پہلے سے زمین پر موجود تھے ان سے بھی یہ کام لیا جاسکتا تھا (روح) پھر اوپر کے استفہام کا خود جواب اس طرح ارشاد فرمایا) ہاں : کیوں نہیں (کافی ہوگا، اس کے بعد اس امداد میں مزید زیادتی کا وعدہ اس طرح فرمایا کہ مقابلہ کے وقت) اگر مستقل رہو گے اور تقوی پر قائم رہو گے (یعنی کوئی امر خلاف اطاعت نہ کرو گے) اور وہ لوگ تم پر یکبارگی حملہ کردیں گے (جس میں عادۃ کسی مخلوق سے مدد پہنچنا مشکل ہوتا ہے) تو تمہارا رب تمہاری امداد فرمائے گا پانچ ہزار فرشتوں سے جو ایک خاص وضع کے بنائے ہوں گے (جیسے عام جنگوں میں اپنی اپنی فوج کی پہچان کے لئے کوئی خاص وردی ہوتی ہے، آگے اس امداد و نصرت کی حکمت کا بیان ہے کہ اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد (مذکور جو فرشتوں سے ہوئی) محض اس لئے کہ کہ تمہارے لئے (غلبہ اور فتح کی) بشارت ہو، اور تمہارے دلوں کو اس سے قرار آئے اور نصرت (و غلبہ) تو صرف اللہ کی طرف سے ہے جو کہ زبردست ہیں (کہ ویسے بھی غالب کرسکتے ہیں لیکن) حکیم (بھی) ہیں (تو جب مقتضائے حکمت یہ ہوتا ہے کہ اسباب کے ذریعہ غلبہ دیا جائے تو ویسے ہی اسباب پیدا فرمادیتے ہیں یہ تو امداد بالملائکہ کی حکمت تھی آگے اس کی حکمت کا بیان ہے کہ یہ فتح و غلبہ تمہیں کیوں عطا کیا گیا، اس کے لئے ارشاد فرمایا گیا) تاکہ کفار میں سے ایک گروہ کو ہلاک کردے (چنانچہ کافروں کے ستر سردار رئیس مارے گئے) یا ان (میں سے بعض) کو ذلیل و خوار کردے پھر وہ ناکام لوٹ جاویں (یعنی ان میں سے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوجائے اور اگر دونوں ہوجاویں تو اور بھی بہتر ہے، چناچہ دونوں باتیں ہوئیں کہ ستر سردرا مارے گئے، ستر قید ہو کر ذلیل ہوئے، باقی ذلیل و خوار ہو کر بھاگ گئے) لیس لک من الامر شیء (الی قولہ) غفور رحیم۔ ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو (کسی کے مسلمان ہونے یا کافر رہنے کے متعلق خود) کوئی دخل نہیں (خواہ علم کا دخل ہو یا قدرت کا بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم اور قبضہ میں ہے، آپ کو صبر کرنا چاہئے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان پر یا تو (رحمت سے) متوجہ ہوجاویں (یعنی ان کو اسلام کی توفیق دیدیں، تو اس وقت صبر فرح اور سرور سے بدل جائے گا) اور یا ان کو (دنیا ہی میں) کوئی سزا دیں (تو اس وقت صبر تسکین قلبی میں بدل جائے گا، اور سزا دینا کچھ بےجا بھی نہیں) کیونکہ وہ ظلم بھی بڑا کر رہے ہیں (مراد اس سے کفر و شرک ہے، جیسا کہ فرمایا " ان الشرک لظلم عظیم " آگے اس مضمون کی تاکید ہے) اور اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے وہ جس کو چاہیں بخش دیں (یعنی اسلام نصیب کردیں جس سے مغفرت ہوتی ہے) اور جس کو چاہیں عذاب دیں (یعنی اسلام نصیب نہ ہو اور اس وجہ سے عذاب دائمی ہو) اور اللہ تعالیٰ تو بڑے مغفرت کرنے والے (اور) بڑے رحمت کرنے والے ہیں (تو بخشنے کا تو ذرا بھی تعجب نہیں، کیونکہ رحمت تو ان کی سابق ہی ہے، اس لئے عذاب دینے کی وجہ اوپر بیان فرمائی، فانہم ظلمون) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُنْزَلِيْنَ۝ ١٢٤ ۭ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- أَلْفُ (هزار)- : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت .- الالف - ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٤۔ ١٢٥) غزوہ احد کے دن جب آپ فرما رہے تھے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتوں سے تمہاری اعانت فرمائے گا جو تمہاری مدد کے لیے تمہاری مدد کے لیے آسمان سے اتریں گے یہ تعداد تمہاری کفایت کرجائے گی اپنے نبی کے ساتھ لڑائی میں ثابت قدم رہو اور ان کی نافرمانی اور مخالفت سے ڈرتے رہو اور مکہ والے مکہ کی جانب سے تم پر اچانک حملہ کریں گے، اس وقت تمہارا رب پانچ ہزار فرشتے بھیجے گا جو خاص وضع بنائے ہوئے ہوں گے یا یہ کہ وہ عمامے باندھے ہوئے ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٤ (اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ ) - یعنی اے مسلمانو اگر مقابلے میں تین ہزار کا لشکر آگیا ہے تو کیا غم ہے۔ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے بھیجے گا جو آسمان سے اتریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس خوشخبری کو ‘ جو ایک طرح سے استدعا بھی ہوسکتی تھی ‘ فوری طور پر شرف قبولیت عطا فرمایا اور اس کی منظوری کا اعلان فرما دیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :96 مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک طرف دشمن تین ہزار ہیں اور ہمارے ایک ہزار میں سے بھی تین سو الگ ہوگئے ہیں تو ان کے دل ٹوٹنے لگے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ الفاظ کہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani