Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

125۔ 1 مسلمان بدر کی جانب قافلہ قریش پر جو تقریبًا نہتا تھا چھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکر جرار غیظ و غضب اور جوش و خروش کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا اور عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا و فریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبرو تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین کا جوش وخروش و غضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑگئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر میں آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لیے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آسکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔ 125۔ 2 یعنی پہچان کے لئے ان کی مخصوص علامت ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٤] ابھی لڑائی شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ یہ افواہ پھیل گئی کہ کرزبن جابر بہت بڑی کمک لے کر مشرکین کی مدد کے لیے آرہا ہے۔ اس افواہ سے مسلمانوں میں مزید اضطراب پھیل گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر کفار کو ہنگامی طور پر کمک مل جانے سے ڈرتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے فرشتوں کی کمک میں اضافہ کر دے گا۔ لہذا صبر و استقامت سے کام لو اور کافروں سے نہیں بلکہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ - بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کے وعدہ کو جنگ بدر سے متعلق کیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بیان آیت نمبر ١٢٣ کے بیان کے ساتھ مسلسل ہے۔ ہوا یہ تھا۔ جنگ بدر میں قلیل تعداد اور کمزور اور نہتے مسلمانوں کو ڈھارس بندھانے کی خاطر اللہ نے ایک ہزار فرشتے میدان بدر میں بھیج دیے۔ جیسا کہ سورة انفال کی آیت (فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ۝) 8 ۔ الانفال :9) سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب جنگ بدر میں ہی یہ مشہور ہوا کہ مکہ سے مزید کمک پہنچ رہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ہم تین ہزار یا پانچ ہزار فرشتے بھیج دیں گے۔ پھر چونکہ کافروں کے لیے مکہ سے کوئی مزید کوئی کمک نہ پہنچی تو اور فرشتے بھی نہ آئے۔ البتہ ایک ہزار فرشتوں کی میدان بدر میں شرکت قرآن پاک سے ثابت ہے۔ نیز اس کی صحیحین اور دوسری کتب احادیث میں اس قدر روایات مذکور ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ لیکن جنگ احد میں فرشتوں کی کمک صحیح روایات سے ثابت نہیں ہوتی۔ لہذا یہی توجیہ زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔- اس سب باتوں کے علی الرغم معتزلہ اور ان کے جانشینوں نے بدر میں فرشتوں کی آمد سے انکار کیا ہے۔ یہ لوگ احادیث کو درخور اعتناء سمجھتے ہی نہیں اور قرآن کی آیات کی یہ تاویل کرلیتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقعہ فرشتے بھیجے تھے بلکہ رسول کا قول نقل کیا ہے کہ جنگ کے وقت رسول نے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی خاطر یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسا بھی کرسکتا ہے۔ پھر اس کے بعد جو عقلی دلائل دیتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں کہ کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے تو ایک فرشتہ بھی کافی ہے پھر ہزاروں کی کیا ضرورت تھی ؟ یا یہ کہ اگر فرشتوں سے ہی کام لینا تھا تو صرف ملک الموت ہی کافی تھا، جو سب کی روحیں قبض کرلیتا بلکہ اگر ایسا ہی معاملہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے کافر پیدا ہی کیوں کئے ؟ یا یہ کہ فرشتے اگر اجسام کثیفہ تھے تو ضرور سب کو نظر آتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا اور اگر اجسام لطیفہ تھے تو ان میں طاقت ہی کیا تھا جو کسی کو قتل کرتے، وغیر ذالک من الخرافات ان دلائل میں جتنا وزن ہے وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم ان کے جواب میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، جو اللہ کی حکمت بالغہ کے منافی ہیں اور ایسے اعتراضات تو شریعت کی ایک ایک بات پر کئے جاسکتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان لوگوں کا اللہ اور اللہ کے کلام پر ایمان کس قسم کا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- فرشتوں کی امداد بھیجنے کی حکمت اور اصل مقصد اور تعداد ملائکہ میں مختلف عدد بیان کرنے کی حکمت :- یہاں طبعی طور پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو وہ طاقت بخشی ہے کہ ایک ہی فرشتہ پوری بستی کا تختہ الٹ سکتا ہے، جیسا کہ قوم لوط کی زمین تنہا جبرئیل امین نے الٹ دی تھی، تو پھر فرشتوں کا لشکر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ نیز یہ کہ جب فرشتے میدان میں آئے ہی تھے تو ایک کافر بھی بچنا نہیں چاہئے تھا اس کا جواب خود قرآن کریم نے آیت " وما جعلہ اللہ الا بشری " میں دیدیا، کہ فرشتوں کے بھیجنے میں در حقیقت ان سے کوئی میدان جنگ فتح کرانا مقصود نہ تھا، بلکہ مجاہدین مسلمین کی تسلی اور تقویت قلب اور بشارت فتح دینا مقصود تھا، جیسا کہ اس آیت کے الفاظ الا بشری اور لتطمئن قلوبکم سے واضح ہے، اور اس سے زیادہ صریح سورة انفال میں اسی واقعہ کے متعلق آئے ہوئے الفاظ ہیں فثبتوا الذین امنوا (٨: ١٢) جس میں فرشتوں کو خطاب کر کے ان کے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے قلوب کو جمائے رکھیں، پریشان نہ ہونے دیں، اس تثبیت قلوب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ بھی ہے کہ اپنے تصرف کے ذریعہ ان کے قلوب کو مضبوط کردیں، جیسا کہ مشائخ صوفیہ اہل تصرف کو معمول ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے یہ واضح کردیں کہ اللہ کے فرشتے ان کی مدد پر کھڑے ہیں، کبھی سامنے ظاہر ہوکر، کبھی آواز سے، کبھی کسی اور طریق سے، جیسا کہ میدان بدر میں یہ سب طریقے استعمال کئے گئے، فاضربوا فوق الاعناق (٨: ١٢) کی ایک تفسیر میں یہ خطاب فرشتوں کو ہے، اور بعض روایات حدیث میں ہے کہ مسلمان نے کسی مشرک پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس کا سر خود ہی بدن سے جدا ہوگیا۔ (کما روی عن سہل بن حنیف بروایۃ الحاکم و تصیح اللبیہقی) اور بعض صحابہ کرام نے جبرئیل امین کی آواز بھی سنی کہ اقدم حیزوم فرما رہے ہیں، اور بعض نے خود بھی بعض ملائکہ کو دیکھا بھی (رواہ مسلم) یہ سب مشاہدات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں، کہ ملائکہ اللہ نے مسلمانوں کو اپنی نصرت کا یقین دلانے کے لئے کچھ کچھ کام ایسے بھی کئے ہیں کہ گویا وہ بھی قتال میں شریک ہیں، اور دراصل ان کا کام مسلمانوں کی تسلی اور تقویت قلب تھا، فرشتوں کے ذریعہ میدان جنگ فتح کرانا مقصود نہیں تھا، اس کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں جنگ و جہاد کے فرائض انسانوں پر عائد کئے گئے ہیں، اور اسی وجہ سے ان کو فضائل و درجات حاصل ہوتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ فرشتوں کے لشکر سے ملک فتح کرائے جائیں تو دنیا میں کفر و کافر کا نام ہی نہ رہتا، حکومت و سلطنت کی تو کیا گنجائش تھی، مگر اس کارخانہ قدرت میں اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہی نہیں، یہاں تو کفر و ایمان اور اطاعت و معصیت ملے جلے ہی چلتے رہیں گے، ان کے نکھار کے لئے حشر کا دن ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ غزوہ بدر میں ملائکہ اللہ کو مدد کے لئے بھیجنے میں جو وعدے آئے ہیں ان میں سورة انفال کی آیت میں تو ایک ہزار کا وعدہ ہے، اور آل عمران کی مذکورہ آیت میں پہلے تین ہزار کا پھر پانچ ہزار کا وعدہ ہے، اس میں کیا حکمت ہے ؟ بات یہ ہے کہ سورة انفال میں مذکور یہ ہے کہ جب میدان بدر میں مسلمانوں نے مخالف کی تعداد ایک ہزار دیکھی اور ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی تو بارگاہ رب العزت میں استغاثہ کیا، اس پر یہ وعدہ ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا کیا گیا، کہ جو عدد تمہارے دشمن کا ہے اتنا ہی عدد فرشتوں کا بھیج دیا جائے گا، آیت کے الفاظ یہ ہیں : اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین۔ (٨: ٩) اور اس آیت کے بعد بھی فرشتوں کی مدد بھیجنے کا یہی مقصد ظاہر فرما دیا کہ مسلمانوں کے قلوب جمے رہیں اور ان کو فتح کی بشارت ملے۔ چناچہ اس کے بعد کی آیت کے الفاظ یہ ہیں : وما جعلہ اللہ الا بشری ولتطمئن بہ قلوبکم۔ اور سورة آل عمران کی آیت زیر نظر میں تین ہزار فرشتوں کا وعدہ شاید اس بناء پر کیا گیا کہ بدر کے میدان میں مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ زبن جابر محاربی اپنے قبیلہ کا لشکر لے کر مشرکین مکہ کی امداد کو آرہا ہے (کذا فی الروح) یہاں دشمن کی تعداد مسلمانوں سے تین گناہ زیادہ پہلے ہی سے تھی، مسلمان اس خبر سے کچھ پریشان ہوئے تو تین ہزار فرشتوں کا وعدہ کیا گیا تاکہ معاملہ برعکس ہو کر مسلمانوں کی تعداد دشمن سے تین گنا ہوجائے گی۔ پھر اسی آیت کے آخر میں اس تعداد کو چند شرطوں کے ساتھ بڑھا کر پانچ ہزار کردیا وہ شرطیں دو تھیں۔ ایک یہ کہ مسلمان صبر وتقوی کے مقام اعلی پر قائم رہیں، دوسرے یہ کہ دشمن ان پر یکبارگی حملہ کردے، مگر ان دو شرطوں میں سے دوسری شرط یکبارگی حملہ کی واقع نہیں ہوئی، اس لئے پانچ ہزار کی تعداد کا وعدہ نہ رہا، پھر اس میں ائمہ تفسیر و تاریخ کے اقوال مختلف ہیں، کہ اگرچہ وعدہ کی یہ شرط متحقق نہیں ہوئی، پھر بھی یہ وعدہ پانچ ہزار کی صورت میں پورا ہوا یا صرف تین ہزار کی صورت میں، یہ اقوال مختلفہ روح المعانی میں مذکور ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلٰٓى۝ ٠ ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُسَوِّمِيْنَ۝ ١٢٥- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- فور - الفَوْرُ : شِدَّةُ الغَلَيَانِ ، ويقال ذلک في النار نفسها إذا هاجت، وفي القدر، وفي الغضب نحو : وَهِيَ تَفُورُ [ الملک 7] ، وَفارَ التَّنُّورُ [هود 40]- ( ف و ر ) الفور - ( کے معنی سخت جوش مارنے کے ہیں یہ لفظ آگ کے بھڑک اٹھنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور ہانڈی اور غصہ کے جوش کھانے پر بھی ۔ قرآن میں ہے ۔ وَهِيَ تَفُورُ [ الملک 7] اور وہ جوش مار رہی ہوگی وفارَ التَّنُّورُ [هود 40] اور تنور جوش مارنے لگا ۔- سام - السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ [إبراهيم 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل :- ( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال : وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر :- له سيمياء لا تشق علی البصر وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» - ( س و م ) السوم - کے - معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔- وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع مین السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

43: یہ سارا حوالہ جنگ بدر کا ہے اس جنگ میں شروع میں تو تین ہزار فرشتوں کی بشارت دی گئی تھی، لیکن بعد میں صحابہ کرام کو یہ اطلاع ملی کہ کُرز بن جابر اپنا لشکر لے کر کفارِ مکہ کے ساتھ شامل ہونے کے لئے آرہا ہے۔ کفار کی تعداد پہلے ہی مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی، اب اس لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی۔ اس موقع پر یہ وعدہ کیا گیا کہ اگر کُرز کا لشکر اچانک آگیا توتین ہزار کے بجائے پانچ ہزار فرشتے بھیجے جائیں گے۔ لیکن پھر کُرز کا لشکر نہیں آیا، اس لئے پانچ ہزار فرشتے بھیجنے کی نوبت نہیں آئی۔