128۔ 1 یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرا مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کردیا گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ہدایت سے ناآمیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بد دعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بد دعا کا سلسلہ بند فرما دیا (ابن کثیر فتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئیے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل قرار دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی راستے کی طرف بلانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ 128۔ 2 یہ قبیلے جن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
[١١٧] میدان احد کے مزید حالات تو آگے چل کر مذکور ہوں گے۔ یہاں صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ جنگ احد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اگلا دانت ٹوٹ گیا اور سر زخمی ہوگیا۔ آپ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے اور فرماتے، وہ قوم کیسے فلاح پائے گی۔ جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کردیا اور دانت توڑ دیا۔ حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد، باب غزوہ احد) چناچہ اس موقع پر چند نامور مشرکین کا نام لے لے کر انہیں بددعا دی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ جن مشرکوں کے حق میں آپ نے یہ بددعا کی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدموں پر لا ڈالا اور اسلام کے جانباز سپاہی بنادیا۔
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ ۔۔ : اس آیت میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ بندے کو اختیار نہیں، ہر قسم کے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ (موضح) - بئرِ معونہ پر جن قبائل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ستر صحابہ کو دھوکے سے قتل کیا تھا، ان کے خلاف اور جنگ احد میں مشرکین کی طرف سے جو لوگ پیش پیش تھے، ان کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نام لے لے کر دعائے قنوت شروع کی۔ بئر معونہ والا واقعہ بخاری میں موجود ہے۔ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ الرجیع۔۔ - الخ : ٤٠٨٦ ]- عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سر اٹھاتے تو ” سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ “ کے بعد یہ دعا کیا کرتے : ” اے اللہ فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔ “ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ( لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ ) ” تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب لیس لک من الامر شئ : ٤٠٦٩ ] - چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو جن کا نام لے کر آپ لعنت فرماتے تھے، توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب ذات صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہ ہی ہے، ورنہ آپ اپنے عزیز چچا کو ضرور مسلمان کرلیتے اور احد اور بئر معونہ میں ظلم کرنے والوں کو ضرور ملعون کروا لیتے۔ - 2 ان آیات اور ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قنوت نازلہ میں کسی کافر کا نام لے کر لعنت کرنا جائز نہیں، کیا خبر اللہ تعالیٰ اسے توبہ کی توفیق بخش دے۔ ہاں، عام کفار پر لعنت درست ہے اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ثابت ہے۔
آیت لیس لک من الامر شیء۔ یہاں سے پھر اصل قصہ احد کی طرف عود ہے، درمیان میں مجملا قصہ بدر کا ذکر آگیا تھا، اور سبب نزول اس آیت کا یہ ہے کہ اس غزوہ احد میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دندان مبارک جو کہ سامنے کے دو اوپر کے دو نیچے کے دانتوں کی کروٹوں میں چار دانت ہوتے ہیں دو اوپر داہنے بائیں، دو نیچے داہنے بائیں، ان چاروں میں نیچے داہنی طرف کا دانت شہید ہوگیا، اور چہرہ مبارک مجروح ہوگیا، تو آپ کی زبان مبارک پر یہ کلمات آگئے، کہ ایسی قوم کو کیسے فلاح ہوگی جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا کیا، حالانکہ وہ نبی ان کو خدا کی طرف بلا رہا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔- بخاری سے ایک قصہ اور بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے بعض کفار کے لئے بد دعا بھی فرمائی تھی، اس پر یہ آیت نازل فرمائی، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و تحمل کی تعلیم دی گئی ہے۔ (از بیان القرآن ملخصا)
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ١٢٨- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(١٢٨۔ ١٢٩) اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے قبضہ قدرت میں خود توبہ اور عذاب نہیں کہ آپ غزوہ احد کے شکست خوردہ یا ان کے تیراندازوں کے لیے بددعا کریں، اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو ان پر اپنی مہربانی سے توجہ فرمائے گا اور ان کے گناہوں کو اسلام (مکمل اطاعت) کی توفیق دے کر معاف کردے گا اور جو اللہ کے ہاں مغفرت کا اہل ہوتا ہے اس کی مغفرت اور جو عذاب کا مستحق ہوتا ہے اسے عذاب دیتا ہے، کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو قبیلوں عصیہ اور ذکوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے کچھ صحابہ کرام کو شہید کردیا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے بددعا فرمائی تھی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- شان نزول : (آیت) ” لیس لک من الامر شیئی “۔ (الخ)- حضرت امام احمد (رح) اور امام مسلم (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے چار دندان مبارک میں سے ایک دانت شہید ہوگیا اور آپ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا، چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ” ایسی قوم کس طرح فلاح پا سکتی ہے جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا کیا حالانکہ وہ نبی ان کو اللہ کی طرف بلارہا ہے “۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی آپ کو کسی کے مسلمان ہونے یا کفار ہونے کے متعلق خود کوئی دخل نہیں، اور امام احمد (رح) اور بخاری (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے۔ الہ العالمین فلاں پر لعنت نازل فرما، اے اللہ حارث بن ہشام پر لعنت فرما، اے اللہ سہیل بن عمرو پر لعنت فرما، اے اللہ صفوان بن امیہ پر لعنت فرما، اس پر اخیر تک یہ آیت نازل ہوئی اور پھر بعد میں ان سب کو اسلام کی توفیق ہوگئی نیز امام بخاری (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) فرماتے ہیں، دونوں روایتوں میں مطابقت اس طرح ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کے لیے آپ نے اپنی نماز میں جب کہ غزوہ احد میں آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، اس کے بعد بددعا فرمائی تو آیت ایک ساتھ ان دونوں واقعوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو آپ کے ساتھ پیش آیا اور جو ان لوگوں نے صحابہ کے ساتھ کیا، فرماتے ہیں لیکن اس توجیہ پر صحیح مسلم کی اس حدیث سے اشکال پیدا ہوتا ہے جو ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز میں فرماتے تھے ” الہ العالمین رعل، ذکوان، عصیہ پر لعنت نازل فرما تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی - اور اشکال کی وجہ یہ ہے کہ آیت احد کے واقعہ میں نازل ہوئی اور رعل وزکوان کا واقعہ بعد کا ہے مگر حدیث کی علت پھر بعد میں میری سمجھ میں آئی وہ یہ کہ اس روایت میں ادراج (اضافہ) ہے وہ یہ کہ حتی انزل اللہ علیہ کا جو مسلم میں متصلا لفظ مروی ہے، وہ امام زہری کی روایت میں موجود نہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ رعل وذکوان کا واقعہ اس کے بعد ہوا اور نزول آیت میں اپنے سبب سے کچھ تاخیر ہوگئی ہو، پھر آیت کریمہ تمام واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہو، امام سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کے سبب نزول کے بارے میں ایک روایت اور بھی ہے جو بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اسحاق نے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔- روایت یہ ہے کہ قریش میں سے ایک شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ گالی گلوچ سے منع کرتے ہیں اس کے بعد اس نے اپنا منہ آپ کی طرف سے پھیرلیا اور اپنی گدی آپ کی طرف کردی، تاآنکہ اس کی سرین کھل گئی تو اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی اور اس کے لیے بددعا کی تب یہ آیت لیس لک من الامر شئی “۔ نازل ہوئی پھر اس کے بعداس شخص کو اسلام کی توفیق ہوئی اور اس کا اسلام بھی اچھا ہوگیا، یہ روایت مرسل غریب ہے۔
آیت ١٢٨ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ) (اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْ یُعَذِّبَہُمْ ) - یہ اللہ کے اختیار میں ہے ‘ وہ چاہے گا تو ان کو توبہ کی توفیق دے دے گا ‘ وہ ایمان لے آئیں گے ‘ یا اللہ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا۔- (فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ ) - ان کے ظالم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ‘ لہٰذا وہ سزا کے حق دار تو ہوچکے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے اللہ انہیں ہدایت دے دے۔ دیکھئے ‘ یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ چند سال پہلے طائف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس طرح بدسلوکی کا مظاہرہ کیا گیا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا شدید ترین دن تھا۔ اس پر جبرائیل ( علیہ السلام) نے آکر کہا کہ یہ ملک الجبال حاضر ہے۔ یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں تو ان دونوں پہاڑوں کو ٹکرا دوں جن کے مابین وادی کے اندر یہ شہر طائف آباد ہے ‘ تاکہ یہ سب پس جائیں ‘ ان کا سرمہ بن جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ لیکن یہ وقت کچھ ایسا تھا کہ بربنائے طبع بشری زبان مبارک سے وہ جملہ نکل گیا۔ اس لیے کہ : - وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلْ- بندہ بندہ ہی رہتا ہے چاہے کتنا ہی بلند ہوجائے ‘ اور ربّ ‘ رب ہی ہے چاہے کتنا ہی نزول فرما لے