139۔ 1 گذشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ اگر تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب اور کامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی ایک بنیاد واضح کردی ہے۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے۔
[١٢٥] ان ہدایات و ارشادات کے بعد اب پھر غزوہ احد کا بیان ہو رہا ہے اور یہ آیت غالباً اس وقت نازل ہوئی جب غزوہ احد میں مسلمان ایک دفعہ شکست کھا کر مایوسی و بددلی کا شکار ہو رہے تھے۔ اگرچہ اس کا روئے سخن بظاہر مجاہدین احد کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے ایک کلیہ بیان فرما دیا کہ اگر تم فی الواقعہ مومن ہو اور سست اور غمزدہ ہونے کے بجائے اللہ پر توکل اور صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا تمہیں غلبہ عطا کرے گا اور اگر تم مغلوب و مقہور ہو تو وہ وجوہ تلاش کرو جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔۔ : اوپر کی آیت ” ۭقَدْ خَلَتْ “ اس بشارت کی تمہید تھی اور ” وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ “ کے لیے ایک طرح کی دلیل کہ پہلی امتوں کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اہل باطل کو اگرچہ غلبہ حاصل ہوا مگر عارضی، آخر کار وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ یہی حال تمہارا ہے، اس لیے کسی قسم کے ” وَھْنٌ“ (کمزوری) سے کام نہ لو، غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو تمھی غالب رہو گے۔ چناچہ اس کے بعد ہر لڑائی میں مسلمان غالب ہوتے رہے۔
ربط آیات :- ان آیات میں پھر قصہ احد کے متعلق مسلمانوں کو تسلی دینے کا مضمون ہے کہ ہمیشہ سے یہی طریق الہی چلا آیا کہ انجام کار کفار ہی خائب و خاسر ہوتے ہیں اگرچہ تم اس وقت اپنی بےعنوانی سے مغلوب ہوگئے، لیکن اگر اپنے مقتضیات ایمان یعنی ثبات وتقوی پر قائم رہے تو اخیر میں کفار ہی مغلوب ہوں گے۔- خلاصہ تفسیر :- اور تم (اگر اس وقت مغلوب ہوگئے تو کیا ہوا) ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور آخر تم ہی غالب رہو گے اگر تم پورے مومن رہے (یعنی اس کے مقتضیات پر ثابت) اگر تم کو زخم (صدمہ) پہنچ جاوے (جیسا احد میں ہوا) تو (کوئی گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ اس میں چند حکمتیں ہیں، ایک تو یہ کہ) اس قوم کو بھی (جو کہ تمہارے مقابل تھی یعنی کفار) ایسے ہی زخم (صدمہ) پہنچ چکا ہے، (چنانچہ گزشتہ بدر میں وہ صدمہ اٹھا چکے ہیں) اور (ہمارا معمول ہے کہ) ان ایام کو (یعنی غالب و مغلوب ہونے کے زمانہ کو) لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں، (یعنی کبھی ایک قوم کو غالب اور دوسری کو مغلوب کردیا، کبھی اس کا عکس کردیا، سو اسی معمول کے مطابق پار سال وہ مغلوب ہوئے تھے، اب کے تم ہوگئے، ایک حکمت تو یہ ہوئی) اور (دوسری حکمت یہ ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (ظاہری طور پر) جان لیویں (کیونکہ مصیبت کے وقت مخلص اور نیک کا امتحان ہوجاتا ہے) اور (تیسری حکمت یہ ہے کہ) کہ تم میں بعض کو شہید بنانا تھا بقیہ حکمتیں آگے آتی ہیں درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر فرماتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ ظلم (کفر وشرک) کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتے (پس اس کا احتمال نہ کیا جاوے کہ شاید ان کو محبوب ہونے کی وجہ سے غالب فرما دیا ہو ہرگز نہیں) اور (چوتھی حکمت یہ ہے) تاکہ (گناہوں کے) میل کچیل سے صاف کردے ایمان والوں کو (کیونکہ مصیبت سے اخلاق و اعمال کا تصفیہ ہوجاتا ہے) اور (پانچویں حکمت یہ ہے کہ) مٹا دیوے کافروں کو (یہ اس لئے کہ غالب آجانے سے ان کی ہمت بڑھے گی، پھر مقابلہ میں آئیں گے اور ہلاک ہوں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے سے قہر خداوندی میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوں گے) ہاں اور سنو کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں (خصوصیت کے ساتھ) جا داخل ہو گے، حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے (خوب) جہاد کیا ہو اور جو جہاد میں ثابت قدم رہنے والوں اور تم تو (شہید ہوکر) مرنے کی (بڑی) تمنا کیا کرتے تھے، موت کے سامنے آنے سے پہلے سو (تمنا کے مطابق) اس (کے سامان) کو کھلی آنکھوں دیکھ لیا (پھر اس کو دیکھ کر کیوں بھاگنے لگے اور وہ تمنا کہاں بھول گئے)- معارف و مسائل :- غزوہ احد کا واقعہ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان کیا جا چکا ہے، جس میں یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ اس جہاد میں مسلمانوں کی بعض کوتاہیوں کے سبب ابتدائی فتح کے بعد پھر مسلمانوں کو شکست ہوئی، ستر صحابہ کرام شہید ہوئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخم آئے، مگر ان سب امور کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کا پانسہ پلٹا، اور دشمن پسپا ہوگئے۔- اس عارضی شکست کے تین سبب تھے، پہلا یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حکم تیر اندازوں کو دیا تھا وہ بعض اسباب سے ان پر قائم نہ رہے، کیونکہ اس بارے میں اختلاف رائے ہوگیا، کوئی کہتا تھا کہ ہم کو یہیں جمے رہنا چاہئے، اکثر نے کہا کہ اب یہاں ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی، چل کر سب کے ساتھ غنیمت حاصل کرنے میں لگنا چاہئے، تو پہلا سبب آپس کا جھگڑا تھا، دوسرا سبب یہ ہوا کہ جب حضور کے قتل کی خبر مشہور ہوگئی تو مسلمانوں کے قلوب میں کمزوری پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ بزدلی اور کم ہمتی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تیسرا سبب جو ان دونوں سببوں سے زیادہ اہم تھا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں اختلاف پیش آیا، یہ تین لغزشیں مسلمانوں سے ہوگئی تھیں، جن کی بناء پر ان کو عارضی شکست ہوئی، یہ عارضی شکست اگرچہ انجام کار فتح میں تبدیل ہوچکی تھی، لیکن مسلمان مجاہدین زخموں سے چور چور تھے، ان کے بڑے بڑے بہادروں کی لاشیں آنکھوں کے سامنے پڑی تھیں، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اشقیاء نے مجروح کردیا تھا، شدائد و یاس کا ہجوم تھا، اور اپنی ان لغزشوں کا بھی شدید صدمہ تھا، اب یہاں دو چیزیں پیدا ہوچکی تھیں، ایک تو گزشتہ باتوں کا رنج و غم، دوسری چیز جس کا خطرہ تھا وہ یہ کہ مسلمان آئندہ کے لئے کہیں کمزور نہ ہوجائیں، اور اقوام عالم کی امامت کا جو فریضہ ان پر عائد ہے اس میں ضعف نہ پیدا ہوجائے، اس لئے ان دونوں رخنوں کو بند کرنے کے لئے قرآن کریم کا یہ ارشاد آیا : - (لا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین) یعنی تم آئندہ کے لئے کمزوری اور سستی اپنے پاس نہ آنے دو ، اور گزشتہ پر رنج و ملال نہ کرو، اور انجام کار تم ہی غالب ہو کر رہو گے، بشرطیکہ ایمان و ایقان کے راستہ پر مستقیم رہو، اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر کامل وثوق رکھتے ہوئے اطاعت رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے قدم پیچھے نہ ہٹاؤ۔ مطلب یہ تھا کہ گزشتہ باتیں اور لغزشیں جو ہوچکی ہیں ان پر رنج و غم میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرنے کے بجائے مستقبل میں اپنے کام کی درستی کی فکر کرو، اور اسے کامیاب بناؤ، ایمان و ایقان، اطاعت رسول درخشاں مستقبل کا ضامن ہے ان کو ہاتھ سے نہ جانے دو ، انجام کار تم ہی غالب رہو گے۔ اس قرآنی آواز نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا، اور پژمردہ جسموں میں تازہ روح پھونک دی، غور فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی کس طرح تربیت و اصلاح فرمائی اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کو ایک ضابطہ اور اصول دیدیا، کہ گزشتہ فوت شدہ امور پر رنج و ملال میں وقت صرف کرنے کے بجائے آئندہ کے لئے قوت و شوکت کے اسباب بہم پہنچانے چاہئے، پھر اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ غلبہ اور بلندی حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی چیز اصل ہے یعنی ایمان اور اس کے تقاضے پورے کرنا، ایمان کے تقاضہ میں وہ تیاریاں بھی داخل ہیں جو جنگ کے سلسلہ میں کی جاتی ہیں، یعنی اپنی فوجی قوت کا استحکام، سامان جنگ کی بہم رسانی اور ظاہری اسباب سے بقدر وسعت آراستہ و مسلح ہونا، غزوہ احد کے واقعات اول سے آخر تک ان تمام امور کے شاہد ہیں۔ اس آیت کے بعد ایک دوسرے انداز میں مسلمانوں کی تسلی کے لئے ارشاد ہے کہ اگر اس لڑائی میں تم کو زخم پہنچایا تکلیف اٹھانی پڑی تو اسی طرح کے حوادث فریق مقابل کو بھی تو پیش آچکے ہیں، اگر احد میں تمہارے ستر آدمی شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تو ایک سال پہلے ان کے ستر آدمی جہنم رسید اور بہت سے زخمی ہوچکے ہیں، اور خود اس لڑائی میں بھی ابتداء ان کے بہت سے آدمی مقتول و مجروح ہوئے۔
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٣٩ - هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - عَليّ ( بلند)- هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] ، [ و تخصیص لفظ التّفاعل لمبالغة ذلک منه لا علی سبیل التّكلّف كما يكون من البشر ] وقال عزّ وجلّ : تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 43]- العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( بکسراللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] یہلوگ جو شرک کرتے ہیں خدا کی شان اس سے بلند ہے ۔ اور یہاں تعالیٰ باب تقاعل سے ہے جس کے معنی ہیں نہایت ہی بلند ورنہ یہاں تکلف کے معنی مقصود نہیں مقصود نہیں ہیں جیسا کہ جب یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 43] اور جو کچھ یہ بکواس کرتے ہیں اس سے ( اس کا رتبہ ) بہت عالی ہے ۔ میں لفظ علوا فعل تعالیٰ کا مصدر نہیں ہے
(١٣٩) غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو پریشانی لاحق ہوئی اللہ تعالیٰ اس کی تسلی فرماتے ہیں کہ دشمنوں کے مقابلہ میں کمزوری مت دکھاؤ، احد کے دن جو مال غنیمت وغیرہ تم سے چھوٹ گیا اور جو تمہیں پریشانی لاحق ہوئی اس پر دل چھو ٹا مت کرو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس پر تمہیں ثواب دے گا اور دنیا میں غلبہ حاصل ہوگا بشرطیکہ اس بات پر یقین ہو کہ غلبہ اور غنیمت سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
آیت ١٣٩ (وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا) (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) - یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پختہ وعدہ ہے کہ تم ہی غالب و سربلند ہو گے ‘ آخری فتح تمہاری ہوگی ‘ بشرطیکہ تم مؤمن ہوئے۔ یہ آیت ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ آج دنیا میں جو ہم ذلیل ہیں ‘ غالب و سربلند نہیں ہیں ‘ تو نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ یہ کہ ہمارے اندر ایمان نہیں ہے ‘ ہم حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں وہ محض ایک موروثی عقیدہ ہے ‘ یقین قلبی اور والا ایمان نہیں ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ امت کے اندر حقیقی ایمان موجود ہو اور پھر بھی وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو۔
45: جنگ احد کا واقعہ مختصرا یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدانِ جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دُشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے۔ جب دُشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا توصحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز وسامان مالِ غنیمت کے طور پر اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دُشمن بھاگ چکا ہے توانہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں بھی مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہئے۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی اور اپنے ساتھیوں کو یاد دِلایا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں ہر حال میں یہاں جمے رہنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بے مقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا۔ دُشمن نے جب دُور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں توانہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓاور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے۔ اور دُشمن اس ٹیلے سے اُتر کر ان بے خبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مالِ غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے۔ یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرتﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے۔ ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے۔ البتہ آنحضرتﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے اِرد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرتﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا۔ اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا۔ بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے توان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا، لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام شہید ہوچکے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا۔ قرآنِ کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب وفراز ہیں جن سے مایوس اور دِل شکستہ نہ ہونا چاہئے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔