Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

140۔ 1 ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتداء میں اسی طرح زخمی ہوچکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح و شکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کردیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] جنگ بدر میں کافروں کو اس سے زیادہ صدمہ پہنچا تھا۔ اسوقت کافروں کے ستر سردار قتل ہوئے تو ستر گرفتار بھی ہوئے۔ جب کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کا ایک آدمی بھی گرفتار نہ ہوا۔ کیونکہ با لآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور قریش مکہ کو پسپا ہونا پڑا تھا۔ اس آیت میں شکستہ دل مسلمانوں کو ڈھارس بندھائی جارہی ہے۔ پھر اس شکست کی بعض حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خوشی اور غمی، فتح و شکست، کامرانی و ناکامی، خوشحالی و تنگدستی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں میں ہر کسی کو پیش آتی رہتی ہیں۔ اس لیے اگر مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست ہو بھی گئی تو غمزدہ اور بددل ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ انہیں کافروں کی طرف دیکھنا چاہئے جو میدان بدر میں بری طرح مار کھانے کے باوجود پھر سے نئے عزم کے ساتھ باطل کی حمایت میں لڑنے آگئے ہیں۔ دوسری حکمت اس غزوہ میں یہ ہے کہ سچے مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجائے، جسے تم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ (وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ١٤٠؁ۙ ) 3 ۔ آل عمران :140) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا درجہ نصیب ہو۔ - [١٢٧] ظالم لوگوں سے مراد وہی منافقوں کی جماعت ہے جو عبداللہ بن ابی کے ساتھ واپس چلی گئی تھی اور جس موقعہ پر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو یہ لوگ مسلمانوں میں بددلی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ یعنی اگر ” احد “ کے دن تمہیں مشرکین کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے تو تم بھی بدر کے دن انھیں اسی قسم کا نقصان پہنچا چکے ہو اس لیے یہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں۔ ” اَلْحَرْبُ سِجَالٌ“ (لڑائی میں باریاں ہوتی ہیں) جب بھی دو گروہوں میں جنگ ہوئی ہے تو کبھی ایک کا پلڑا بھاری رہا ہے، کبھی دوسرے کا۔ - وَتِلْكَ الْاَيَّامُ : جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا۔ یہود اور منافقین کے طعنے مزید دل دکھانے کا باعث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور ہزیمت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ فتح و شکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے، یہ حق اور ناحق کا معیار نہیں، آج اگر تم نے زخم کھایا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھاچکے ہیں اور خود اس جنگ کے شروع میں ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں، جیسا کہ اس آیت ( اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ ) [ آل عمران : ١٥٢ ] ” جب تم انھیں اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے “ سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہاری اس شکست میں بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ایک یہ کہ ایمان و اخلاص اور کفر و نفاق میں تمیز ہوگئی، مومن اور منافق الگ الگ ہوگئے، اگر ہمیشہ مسلمانوں کو فتح ہوتی تو منافقین کا نفاق ظاہر نہ ہوتا۔ دوسری مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی، فرمایا ( وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ) جو اللہ کے ہاں بہت بڑا شرف ہے، کفار کی اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے، فرمایا : ( ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ) ” اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ “ تیسری یہ کہ مومنوں کو خالص کرے، اگر ان میں کچھ کمی ہے تو دور کر دے، فرمایا : ( وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا )” اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو خالص کر دے جو ایمان لائے “ اور چوتھی یہ کہ کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصود ہے، ( وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ ) اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرور ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہوگی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لیں گے۔ چناچہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفار نے دفاعی جنگیں تو لڑیں مگر خود حملے کی جرأت نہ کرسکے۔ (رازی۔ شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لہذا فرمایا (ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ وتلک الایام نداولھا بین الناس) یعنی اگر تم کو زخم پہنچا تو ان کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے، اور ہم ان ایام کو باری باری بدلتے رہتے ہیں، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس آیت میں ایک اہم ضابطہ اور اصول کی طرف رہنمائی فرمائی وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عادت اس عالم میں یہی ہے کہ وہ سختی، نرمی، دکھ، سکھ، تکلیف و راحت کے دنوں کو لوگوں میں ادل بدل کرتے ہیں، اگر کسی وجہ سے کسی باطل قوت کو عارضی فتح و کامرانی حاصل ہوجائے تو جماعت حقہ کو اس سے بد دل نہیں ہونا چاہئے، اور یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم کو اب ہمیشہ شکست ہی ہوا کرے گی، بلکہ اس شکست کے اسباب کا پتہ لگا کر ان اسباب کا تدارک کرنا چاہئے، انجام کار فتح جماعت حقہ ہی کو نصیب ہوگی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۝ ٠ ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝ ٠ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٤٠ ۙ- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - قرح - القَرْحُ : الأثر من الجراحة من شيء يصيبه من خارج، والقُرْحُ : أثرها من داخل کالبثرة ونحوها، يقال : قَرَحْتُهُ نحو : جرحته، وقَرِحَ : خرج به قرح «4» ، وقَرَحَ قلبُهُ وأَقْرَحَهُ الله، وقد يقال القَرْحُ للجراحة، والقُرْحُ للألم . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] ، إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ [ آل عمران 140] ( ق ر ح ) القرح ( بفتح القاف ) کسی خارجی اثر سے ہونے والے زخم کو قرح کہا جاتا ہے اور اندرونی طور پیدا ہونے والے زخم ( جیسے پھنسی وغیرہ کا زخم کو قرح قرحتہ ( ف ) کے معنی زخمی کرنے کے ہیں مگر کبھی لازم بھی آتا ہے جیسے قرح قلبہ ( اس کا دل زخمی ہوگیا واقربتہ ( اسے زخمی کیا وقرح کیا وقرح زخمی ہوجانا کبھی قرح کا لفظ زخم اور قرح اس دور دوا الم پر بولا جاتا ہے زخمی کی وجہ سے ہو قرآن میں ہے مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] باوجود زخم کھانے کے ۔ إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ [ آل عمران 140] اگر تمہیں زخم ( شکشت لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے ۔- دول - الدَّوْلَة والدُّولَة واحدة، وقیل : الدُّولَة في المال، والدَّوْلَة في الحرب والجاه . وقیل :- الدُّولَة اسم الشیء الذي يتداول بعینه، والدَّوْلَة المصدر . قال تعالی: كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ [ الحشر 7] ، وتداول القوم کذا، أي : تناولوه من حيث الدّولة، وداول اللہ كذا بينهم . قال تعالی: وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ [ آل عمران 140] ، والدّؤلول :- الدّاهية والجمع الدّآلیل والدّؤلات ( د و ل ) الدولۃ والدلۃ ۔ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی گردش کرنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ دولۃ کا لفظ مال وزور کے گھومنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور دولۃ لڑائی اور عزت دجاہ کے اولےٰ بدلنے پر ۔ بعض نے ان دونوں میں یہ فرق کیا ہے کہ دولۃ اسم ہے اور اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ لین دین کیا جائے اور دولۃ بضم الدال مصدر ہے یعنی لین دین کرنا قرآن میں ہے : ۔ كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ [ الحشر 7] تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے ۔ تداول القوم کذا کسی چیز کو دولت کیطرح باری باری لینا ۔ اللہ تعالیٰ نے بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لوگوں کے درمیان اسے گما یا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ [ آل عمران 140]- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٠۔ ١٤١) اگر غزوہ احد کے دن تمہیں کوئی صدمہ پہنچ جائے تو اسی طرح کا صدمہ وغم مکہ والوں کو بدر کے دن پہنچ چکا ہے، کیوں کہ ہمارا دستور ہے کہ دنیا کے حالات کو ہم اسی طرح بدلتے رہتے ہیں، کبھی مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ دے دیا اور کبھی کفار کو غلبہ دے دیا تاکہ میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دیکھ لیں، پھر جس کو وہ چاہیں شہادت کی وجہ سے عزت و شرافت عطا فرما دیں اور حق تعالیٰ مشرکین اور ان کے دین اور ان کی دولت کو پسند نہیں کرتے، اور تاکہ اللہ تعالیٰ جہاد میں جو باتیں پیش آئیں ان پر اللہ اہل ایمان کی مغفرت فرمائے اور لڑائی میں کفار کو ملیامیٹ کردے۔- شان نزول : (آیت) ” ویتخذ منکم شہدآء “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ جب عورتوں پر احد کے دن (غلط بات مشہور ہونے کے بعد) صورت حال کی تحقیق میں دیر ہوئی تو وہ معلومات کرنے کے لیے نکلیں دیکھا کہ دو آدمی اونٹ پر آرہے ہیں تو ایک عورت نے ان سے پوچھا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا اطلاع ہے، ان سواروں نے کہا کہ آپ زندہ ہیں، تو وہ عورت بولی اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلامت ہیں تو) اب کسی بات کا فکر نہیں اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے اپنے بندوں کو شہید کر دے تو اسی عورت کے الفاظ کے مطابق قرآن کریم کی یہ (آیت) ” ویتخذ منکم شھدآء “۔ نازل ہوگئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠ (اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ط) - اہل ایمان کو غزوۂ احد میں اتنی بڑی چوٹ پہنچی تھی کہ ستر صحابہ (رض) ‘ شہید ہوگئے۔ ان میں حضرت حمزہ (رض) بھی تھے اور مصعب بن عمیر (رض) بھی۔ انصار کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان جب مدینہ واپس آئے تو ہر گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اس وقت تک میت پر بین کرنے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ عورتیں مرثیے کہہ رہی تھیں ‘ بینَ کر رہی تھیں ‘ ماتم کر رہی تھیں۔ اس حالت میں خود آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے الفاظ نکل گئے : لٰکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِی لَہٗ (١) ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والیاں بھی نہیں ہیں کیونکہ مدینہ میں حضرت حمزہ (رض) کی کوئی رشتہ دار خواتین نہیں تھیں۔ حمزہ (رض) تو مہاجر تھے۔ انصار کے گھرانوں کی خواتین اپنے اپنے مقتولوں پر آنسو بہا رہی تھیں اور بین کر رہی تھیں۔ پھر انصار نے اپنے گھروں سے جا کر خواتین کو حضرت حمزہ (رض) کی ہمشیرہ حضرت صفیہ (رض) کے گھر بھیجا کہ وہاں جا کر تعزیت کریں۔ بہرحال دکھ تو محمد ‘ ٌ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پہنچا ہے۔ آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینے کے اندر ایک حسّاس دل تھا ‘ پتھر کا کوئی ٹکڑا تو نہیں تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرما رہا ہے کہ اتنے غمگین نہ ہو ‘ اتنے ملول نہ ہو ‘ اتنے دل گرفتہ نہ ہو۔ اس وقت اگر تمہیں کوئی چرکالگا ہے تو تمہارے دشمن کو اس جیسا چرکا اس سے پہلے لگ چکا ہے۔ ایک سال پہلے ان کے بھی ستر افراد مارے گئے تھے۔ ّ - (وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ج) یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ‘ ہیں۔- یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کسی قوم کو ہم ایک سی کیفیت میں نہیں رکھتے۔- (وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) - اگر امتحان اور آزمائش نہ آئے ‘ تکلیف نہ آئے ‘ قربانی نہ دینی پڑے ‘ کوئی زک نہ پہنچے تو کیسے پتا چلے کہ حقیقی مؤمن کون ہے ؟ امتحان و آزمائش سے تو پتا چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہا۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے ‘ دیکھنا چاہتا ہے ‘ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کس نے اپنا سب کچھ لگا دیا ؟ کس نے صبر کیا ؟- (وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ ط) ۔- انہیں اپنی گواہی کے لیے قبول کرلے۔- (وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ) - اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے کفار کی مدد کی ہے اور ان کو پسند کیا ہے (معاذ اللہ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :100 اشارہ ہے جنگ بدر کی طرف ۔ اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس چوٹ کو کھا کر کافر پست ہمت نہ ہوئے تو اس چوٹ پر تم کیوں ہمت ہارو ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :101 اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشُھَدَآءَ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا ، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزت بخشنا چاہتا تھا ۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے اس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اس وقت مشتمل ہو ، ان لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شُھَدَآ عَلَی النَّاس ہیں ، یعنی اس منصب جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے امت مسلمہ کو سرفراز کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

46: جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں کفار مکہ کے سترسردار مارے گئے تھے اور ستر قید کیے گئے تھے۔