Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

142۔ 1 بغیر قتال کی آزمائش کے تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ نہیں بلکہ جنت ان لوگوں کو ملے گی جو آزمائش میں پورا اتریں گے، ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب بلائے گئے مذید فرمایا، کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔ 142۔ 2 یہ مضمون اس سے پہلے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، یہاں موقع کی مناسبت سے پھر بیان کیا جا رہا ہے کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی اس کے لئے پہلے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارا اور میدان جہاد میں آزمایا جائے گا وہاں نرغہ اعداء میں تم سرفروشی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہو یا نہیں ؟۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] یعنی جنت کے جن اعلیٰ درجات اور مقامات پر اللہ تعالیٰ تمہیں پہنچانا چاہتا ہے کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے آرام سے وہاں جاپہنچو گے اور اللہ تمہارا امتحان لے کر یہ نہ دیکھے گا کہ جہاد میں حصہ لینے والے اور اس میں ثابت قدم رہنے والے کون کون ہیں۔ جنت کے بلند درجات پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو اللہ کی راہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں بھی اللہ کے دیکھنے یا جاننے سے وہی مراد ہے جو سابقہ آیت میں مذکور ہوئی یعنی (وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ١٤٠؁ۙ ) 3 ۔ آل عمران :140) کہ مسلمانوں کی پوری جماعت یہ صورت حال بچشم خود ملاحظہ کرے۔- مکی دور میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے بےپناہ مظالم اور مصائب ڈھائے جارہے تھے۔ حضرت خباب بن ارت ان مصائب سے کچھ گھبرا سے گئے اور چاہا کہ جاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت فرمائیں کہ جس وقت کی آپ بشارت سناتے ہیں وہ کب آئے گا ؟ چناچہ وہ خود راوی ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ان مشرکوں کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر) سیدھے بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ ہوگیا اور فرمایا : تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں۔ مگر وہ اپنے سچے دین سے پھرتے نہیں تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلا دیا جاتا اور ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ ایک دن اس کام کو ضرور پورا کرے گا (بخاری، باب بنیان الکعبہ باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو - گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حضرت خباب بن ارت کو صبر و استقلال اور ثابت قدمی کا وہی سبق سکھلایا جو اس آیت میں مسلمانوں کو سکھلایا جارہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا ۔۔ : بعض سلف نے اس کا معنی کیا ہے ابھی تک اللہ نے ظاہر نہیں کیا “ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ماضی، حال اور مستقبل ہر بات کا علم ہے، اس لیے یہ ترجمہ کہ ” ابھی تک اللہ نے نہیں جانا۔ “ درست نہیں، مگر ” عَلِمَ یَعْلَمُ “ کا معنی تو جاننا ہی ہوتا ہے، ظاہر کرنے کے لیے تو ” لَمَّا یُظْہِرِ اللّٰہُ “ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہونے چاہییں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی بھی ہیں اور کچھ حادث بھی ہیں، مثلاً پیدا کرنا، سننا اور جاننا وغیرہ، جیسا کہ فرمایا : ( كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمن : ٢٩ ] ” ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔ “ خالق تو وہ ازل سے ہے، مگر جب وہ کوئی چیز پیدا کرے گا تو اس چیز کی خلق اس وقت وجود میں آئے گی۔ اسی طرح آیت : ( قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا) [ المجادلۃ : ١ ] ” یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی “ اس عورت کے جھگڑے کے بعد ہی واقعاتی سماع وجود میں آیا، اسی طرح جہاد کرنے کا واقعاتی علم تو جہاد کے واقع ہونے کے بعد ہی ہوگا۔ مقصد یہ کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا وقوع میں آنا نہیں جانا کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا ہے۔ ” وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْن “ میں میم ” لام کے “ کی وجہ سے منصوب ہے، جو یہاں محذوف ہے اس لیے ترجمہ کیا ہے ” اور “ تاکہ وہ صبر کرنے والوں کو جان لے۔ “ خلاصہ یہ ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسی آزمائش کے بغیر ہی تم کو جنت میں اعلیٰ مراتب مل جائیں گے ؟ مطلب یہ کہ جب تک اس قسم کی آزمائشوں میں پورے نہیں اترو گے جنت میں اعلیٰ مراتب حاصل نہیں ہوسکتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ۝ ١٤٢- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٢) کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جنت میں بغیر جہاد ہی کے داخل ہوجاؤ گے، ابھی اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر تو ان لوگوں کو دیکھا (آزمایا) ہی نہیں، جنھوں نے احد کے دن خوب خوب جہاد کیا اور نہ ان لوگوں کو جو اپنے نبی کے ساتھ مل کر کفار کے مقابلہ میں ڈٹے رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٢ (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ ) (وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ ) - گویا ع ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ابھی تو تمہارے لیے اس راستے میں کڑی سے کڑی منزلیں آنے والی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مضمون ہم سورة البقرۃ کی آیت ٢١٤ میں پڑھ آئے ہیں۔ نوٹ کیجیے کہ زیر مطالعہ آیت کا نمبر ١٤٢ ہے ‘ یعنی ہندسوں کی صرف ترتیب بدلی ہوئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani